چین: کیا کرونا وبا پر قابو پا لینا سوشلزم کی فتح ہے؟

|تحریر ِ: پارس جان|

کرونا وائرس ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ تا دمِ تحریر دنیا کے 205سے زیادہ ممالک میں کرونا وائرس کے متاثرین موجود ہیں۔ دنیا بھر میں 15 لاکھ سے زائد کے مصدقہ مریض سامنے آ چکے ہیں اور اس مہلک مرض سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 95ہزار سے کچھ سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ یورپ کے بعد اب امریکہ اس بحران کا مرکز بنا ہوا ہے۔ امریکہ میں متاثرہ مریضوں کی تعداد ساڑھے 4 لاکھ سے بڑھ چکی ہے اور 16 ہزار سے زائداموات بھی ہو چکی ہیں۔ اس سے پہلے اٹلی اور سپین میں بڑے پیمانے پر تباہی دیکھنے میں آئی جہاں مرنے والوں کی تعداد بالترتیب18ہزار اور15 ہزار سے زائد ہو چکی ہے اور ابھی تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ تاہم کہا یہ جا رہا ہے کہ گزشتہ دو دنوں سے نئے آنے والے کیسز کی تعداد کم ہونا شروع ہو گئی ہے۔ ایران میں بھی سرکاری اعداد وشمار کے مطابق چارہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں مگر کہا یہ جا رہا ہے کہ یہ سرکاری اعدادو شمار غلط ہیں اور حقیقت میں مرنے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔

اس بحران نے پہلے سے سست روی کا شکار عالمی معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے اور بورژوا معیشت دان اب تسلیم کر رہے ہیں کہ عالمی کساد بازاری کا آغاز ہو چکا ہے۔ درحقیقت، وہ دانستہ طور پر سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی نقص اور ضعف پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور کساد بازاری کی تمام تر ذمہ داری کرونا وبا پر ڈال رہے ہیں۔ ان کے خیال میں کرونا وبا سے ہونے والی اتنے بڑے پیمانے کی تباہی نے عالمی معیشت کو بحران میں دھکیل دیا ہے۔ اصل میں یہ عالمی معاشی بحران ہی تھا جس کے باعث کرونا وباسے ہونے والی تباہی کا حجم اتنی وسعت اختیار کر گیا اور فوری طور پر اس میں کمی آنے کے امکانا ت بھی دکھائی نہیں دے رہے۔ صدر ٹرمپ کے بقول اگر امریکہ میں ممکنہ اموات کو ڈھائی لاکھ تک محدود کر لیا جائے تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔ جہاں دنیا کے سب سے امیر ملک اور تاریخ کی سب سے بڑی سامراجی قوت کا یہ عالم ہے تو باقی ماندہ دنیا کے غریب عوام پر اس بحران کے اثرات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ خاص طورپر تیسری دنیا کے اندر ایک قیامت کی سی کیفیت ہے اور ہر طرف خوف و ہراس کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ کچھ خوش فہموں کا خیال ہے کہ شایدموسمِ گرما کی آمد کرونا وبا کے غیض و غضب میں کمی کا موجب بنے گی تاہم ابھی تک اس حوالے سے کوئی فیصلہ کن سائنسی تحقیق سامنے نہیں آئی ہے۔ زیادہ تر ماہرین کا خیال یہ ہے کہ کرونا وائرس 40 ڈگری سینٹی گریڈ میں بھی 72 گھنٹے تک زندہ رہ سکتا ہے۔

عالمی محنت کش طبقے کے لیے یہ صورتِ حال بلاشبہ کسی ڈراؤنے خواب سے مماثلت رکھتی ہے۔ جہاں ایک طرف تو اپنے پیاروں بالخصوص بچوں اور بزرگوں کی جانیں گنوانی پڑ رہی ہیں وہیں دوسری طرف بیروزگاری، مہنگائی، بھوک اور روزمرہ کی ضروریات کی قلت کا عذاب سروں پر منڈلا رہا ہے۔ جبکہ حکمران طبقہ اس ساری صورتحال میں اپنی گماشتہ ریاستی مشینری کو استعمال کرتے ہوئے اور اپنی فرمانبردار انتظامی کمیٹیوں (حکومتیں) کے ذریعے عوام کے ٹیکسوں کی رقم سے بلا روک ٹوک مستفید ہو رہا ہے۔

کرونا وائرس کے حوالے سے کئی سازشی تھیوریاں گردش میں ہیں مگر کسی ایک کے حوالے سے بھی کوئی سائینسی ثبوت سامنے نہیں آیا

کرونا وبا کے حوالے سے آئے روز نت نئی سازشی تھیوریاں بھی سامنے آتی رہتی ہیں جن میں اسے ایک حیاتیاتی جنگ کا ہتھیار بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ اس وائرس کی جنم بھومی عوامی جمہوریہ چین تھا اور چین کے حکمرانوں نے الزام لگایا تھا کہ کرونا وائرس امریکی فوجیوں کے ذریعے چین لایا گیا۔ اس قسم کی تھیوریوں پر یقین رکھنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ عالمی معیشت میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرو رسوخ کو زائل کرنے کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہ ڈھونگ رچایا ہے۔ کچھ لوگ اسے دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے یا کم کرنے کی سازش بھی قرار دے رہے ہیں۔ ایسے ہی امریکی حکمرانوں کے ایک دھڑے نے اسے چینی وائرس کا نام دے دیا ہے۔ تاہم ابھی تک ان تھیوریوں پر مہرِ تصدیق ثبت کرنے والی کوئی دستاویزی یا سائنسی شہادت سامنے نہیں لائی جا سکی۔ یہ بات بھی نا قابلِ فہم ہے کہ اگر یہ سازش ہے تو کس کے خلاف ہے کیونکہ اس سے پوری دنیا ہی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سماج کی پسماندہ پرتوں میں اس قسم کے سازشی نظریات کی مقبولیت کی ایک وجہ ان سامراجیوں کے عوام دشمن، طفیلیے اور درندہ صفت کردار کا بے نقاب ہو جانا بھی ہے۔ ان آدم خور درندوں کی تاریخ اتنی بھیانک ہے کہ جب بھی کوئی شخص ان کی شیطانیت کو کسی بھی انسانی المیے کا ذمہ دار قرار دیتا ہے تولوگ فوراً یقین کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہم بھی سمجھتے ہیں کہ اگرچہ یہ ان کی دولت اور طاقت کی ہوس ہے جس نے ایسے ہولناک حالات پیدا کر دیئے ہیں مگر یہ بحرا ن دانستہ طور پر ان کا پیدا کردہ نہیں ہے بلکہ ان کے نظام کی طرزِ نمو کا ناگزیر نتیجہ ہے۔

ابھی تک چند ایک ممالک ہی ایسے ہیں جہاں اس وائرس کا کامیابی سے مقابلہ کیا جا سکا ہے، ان میں چین کا نام سرِ فہرست ہے۔ اگرچہ، کچھ لوگ چین کے سرکاری اعداد و شمار کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں مگر پھر بھی متاثرہ صوبے ہوبئے اور شہر ووہان میں نظامِ زندگی کافی حد تک بحال کر دیا گیا ہے۔ کل 81 ہزار سے زائد متاثرہ مریضوں میں سے اب صرف تین ہزار کے لگ بھگ زیرِ علاج ہیں اور ساڑھے تین ہزار سے بھی کم اموات سرکاری طور رپورٹ کی گئی ہیں۔ اور ہفتے بھر سے کوئی نیا مریض بھی سامنے نہیں آیا ہے۔ اب چونکہ امریکہ میں کرونا وائرس چین کی نسبت بہت تاخیر سے پہنچا مگر اس کے باوجود امریکہ میں اس سے ہونے والی اموات ابھی سے ہی چین سے کہیں آگے نکل چکی ہیں اور امریکہ اس ’نہ دکھائی دینے والے دشمن‘ کے آگے بے بس دکھائی دے رہا ہے تو ایسے میں چین کی یہ کامیابی نسبتی طور پر کہیں زیادہ اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ اس کی ایک اہم ترین وجہ یہ بھی ہے کہ اسی دہائی میں چین نے جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی دوسری بڑی معیشت بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا اور تب سے یہ بحث تمام سیاسی، معاشی و علمی حلقوں میں شدت پکڑتی گئی کہ کیا چین امریکہ کو بھی پچھاڑ کر دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت یا سامراجی طاقت بننے کا عزاز حاصل کر سکتا ہے؟ پسِ منظر میں موجود اس بحث میں چین کی کرونا وائرس کے خلاف حالیہ مبینہ کامیابی نے اس ضمن میں مزید بہت سی قیاس آرائیوں کی راہ ہموار کر دی ہے۔ عام لوگوں کے لیے تو ویسے بھی معیشت کی مخصوص اصطلاحات بے معنی ہوتی ہیں اور ان کے نزدیک معیشت سے مراد یہی ہوتی ہے کہ کونسا ملک، نظام یا حکومت ان کے معیارِ زندگی میں بڑھوتری کرتے ہوئے ان کی بقا کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے، یہی ان کے نزدیک معاشی ترقی کا پیمانہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نہ صرف امریکہ بلکہ یورپ کے عام لوگوں کے لیے چین کی یہ مبینہ فتح توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے کیونکہ نام نہاد آزاد منڈی کی معیشت کی معجزاتی فتوحات سے ماضی میں اسی پہلی دنیا نے استفادہ حاصل کیا تھا۔ ترقی یافتہ دنیا کے حکمران طبقات بخوبی سمجھتے ہیں کہ چین کا یہ فاتحانہ مارچ ان کے اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹیاں بجا سکتا ہے۔

نظریۂ سازش اور بین الاقوامی تعلقات

مغربی میڈیا اور حکمران چین کو کرونا وبا کا ذمہ دار قرار دے رہے ہیں اور اپنی کمزوریوں کو چھپانے کیلیے قومی شاونزم کو ہوا دے رہے ہیں

ترقی یافتہ دنیا کے حکمران طبقات کی نفسیات میں پائی جانے والی یہ کھلبلی ہر آئے دن کے ساتھ بڑھتی چلی جائے گی جو اس کرۂ ارض پر مزید عدم استحکام اور انتشار کو جنم دے گی۔ اس کی ایک خطرناک مثا ل برطانوی کنزرویٹو پارٹی کے 15 اراکینِ پارلیمان کی طرف سے دستخط شدہ وزیرِ اعظم بورس جانسن اور حکومت کے نام لکھا گیا ایک خط ہے جس میں حکومت سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات پر ’نظرثانی‘ کرے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ

’بین الاقوامی ہیلتھ کیئر قواعد و ضوابط کے مطابق تمام ریاستیں پابند ہیں کہ وہ پوری دنیا کو کسی بھی ممکنہ مہلک وبا کے خدشات سے فوری طور پر آگاہ کریں۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ چین نے کرونا وبا کے پھوٹنے کے ابتدائی مرحلے میں اپنی اس بین الاقوامی ذمہ داری میں دانستہ کوتاہی برتی ہے، اسی کوتاہی نے اس وبا کے پوری دنیا میں پھیلنے کی راہ ہموار کی جس کے عالمی صحت اور معیشت پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے۔ ہینری جیکسن سوسائٹی کے لگائے گئے تخمینے کے مطابق برطانیہ کو ہونے والے معاشی نقصانات کا مجموعی حجم 350 ارب پاؤنڈ سے تجاوز کر سکتا ہے۔ جونہی یہ بحران ختم ہو حکومت کو چین سے تعلقات کی پالیسی کا ازسرِ نو جائزہ لینا ہو گا۔ ماضی میں ہم نے خود کو چین پر زیادہ معاشی طور پر منحصر ہونے دیا اور ہم برطانیہ کی لانگ ٹرم معاشی، تکنیکی اور سکیورٹی ضروریات کو مدِ نظر نہ رکھ سکے‘۔

ان الفاظ سے بلاشبہ تحفظاتی سوچ اور قومی شاونزم کی بو آ رہی ہے۔ اس خط میں ہینری جیکسن سوسائٹی کی طرف سے ’کرونا وائرس معاوضہ (Compensation)، چین کے مبینہ جرائم اور قانونی چارہ جوئی‘ کے عنوان سے کی گئی ایک سٹڈی کو بنیاد بنایا گیا ہے۔ مذکورہ سٹڈی میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ’چینی کمیونسٹ پارٹی نے نہ صرف دنیا سے اہم معلومات چھپائیں بلکہ اب وہ ایک منظم کیمپئین کے ذریعے غلط اطلاعات نشر کر رہے ہیں کہ وہ اس بحران کے ذمہ دار نہیں ہیں بلکہ دنیا کو الٹا ان کا ممنون ہونا چاہیے۔ سچ یہ ہے کہ چین کرونا آؤٹ بریک کا ذمہ دار ہے اور اس آؤٹ بریک سے G7 ممالک کوبرطانیہ، امریکہ اور جاپان سمیت بحیثیتِ مجموعی 3.2 ٹریلین ڈالر کا نقصان ابھی تک ہو چکا ہے‘۔ برطانوی خارجہ پالیسی کے تھنک ٹینک کے مطابق وہ اس نقصان کے ازالے کے لیے چین کے خلاف اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی کورٹ آف جسٹس کا دروازہ کھٹکھٹا سکتے ہیں۔

امریکی حکمران طبقے میں تو پہلے ہی چین کے خلاف قومی شاونزم کا ابھار واضح ہے جس نے گزشتہ سال تجارتی جنگ کو بھی مہمیز دیئے رکھی۔ چین کے ایک مطلق العنان اور آمرانہ سیاسی مقتدرِ اعلیٰ اور سماجی ڈھانچے کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے ان الزامات کو کسی حد تک قابلِ قبول سمجھا جا سکتا ہے۔ اطلاعات کے حوالے سے چین کی کریڈیبلٹی پہلے ہی سے مشکوک رہی ہے۔ کرونا بحران کے آغاز میں چین میں اس نئے وائرس کے حوالے سے خبردار کرنے والے ڈاکٹرپر پابندیاں اور موت کے حوالے سے بھی چینی ریاست کو ذمہ دار قرار دیا جاتا رہا۔ اسے چین مخالف سامراجی کیمپ میں پہلے بھی اچھالا گیا ہے اور آگے بھی اس قسم کی منظم مہم کے قوی امکانات موجود ہیں۔ مگر دوسری طرف برطانیہ اور امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کے حکمران طبقات بھی دودھ سے دھلے ہوئے نہیں ہیں۔ ان کی دروغ گوئی اور انسان دشمنی کو تاریخ کے اوراق سے کبھی حذف نہیں کیا جا سکتا۔ عراق میں کیمیائی ہتھیار کا واویلا کر کے لاکھوں معصوموں کو موت کے گھاٹ اتارنے والے یہ مغربی سامراجی گدھ کس منہ سے ازالے (Compensation) کی بات کر رہے ہیں۔ اگر ان کی پھیلائی گئی سامراجی جارحیت اور اس کے بدلے میں ہونے والے انسانی المیوں کا تخمینہ لگایا جائے تو ان کی کل دولت ملا کر بھی ان کا ازالہ ممکن نہیں ہے۔ اصل میں یہ اپنے نظام کی متروکیت اور اپنے محنت کشوں کو صحت اور خوراک جیسی بنیادی ضروریات بہم پہنچانے کی اپنی نا اہلیت پر پردہ ڈالنے کے لیے یہ آسان راستہ اختیار کر رہے ہیں۔ مگراب لوگ ان تمام حربوں سے بخوبی آشنا ہوچکے ہیں۔ عالمی سامراجیوں کی یہ نورا کشتیاں آنے والے دنوں میں اور شدت اختیار کریں گی اور دائیں بائیں کے دانشوروں کو بار بار وقفے وقفے سے ’تیسری عالمی جنگ‘ کی ’فکری‘ الٹیاں بھی لگتی رہیں گی اور اسی اثنا میں ایک کبھی نہ دیکھی گئی طبقاتی جنگ دھماکہ خیز انداز میں عالمی سیاسی افق کو جھنجوڑ کر رکھ دے گی۔

چین کا معاشی ماڈل

بائیں بازو کے بہت سے خواتین و حضرات چین کی اس وقتی فتح کو سوشلزم کی موجودگی کی دلیل بنا کر پیش کر رہے ہے۔ یہ خطرناک عملیت پسندی بدقسمتی سے گزشتہ ساری صدی میں بائیں بازو کی فکر کو دیمک کی طرح چاٹتی رہی ہے۔

مذکورہ بالا بحث اس وقت نہ صرف دائیں بازو بلکہ بائیں بازو میں بھی سرائیت کر چکی ہے۔ بورژوا ماہرین تو اسے لبرل یا ٹریکل ڈاؤن اکانومی یا کینشیئن اسٹ پالیسیوں کے مابین تقابل یا پھر گلوبلائزیشن اور تحفظاتی پالیسیوں کے مابین کھچاؤکے نقطہ نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ ان ماہرین میں سے پہلے ہی دو مخالف کیمپس موجود رہے ہیں اور اس وقت کینز کے ماننے والے پھولے نہیں سما رہے۔ سنجیدہ جریدے کرونا وائرس کے ہاتھوں مہذب دنیا کی عبرتناک شکست کو نیو لبرلزم کی ناکامی بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ وہ اب برملا تسلیم کر رہے ہیں کہ یہ عالمی معاشی بحران 1929ء کے ڈیپریشن کی طرز پر آگے بڑھے گا یا اس سے بھی ہولناک ہو سکتا ہے۔ اور چونکہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ماضی میں بھی کینز کے معاشی نظریات کے بلبوتے پر وہ اس بحران سے نکل آئے تھے (جو کہ محض آدھا سچ ہے اور دوسری عالمی جنگ میں ہونے والی تخریب کے بعد تعمیر اور سب سے بڑھ کر سٹالنسٹ افسرشاہی کی غداری نے ہی سرمایہ داری کو تحفظ فراہم کیا تھا) لہٰذا پھر پوری قوت کے ساتھ کینز کی پالیسیوں کے اطلاق کے ذریعے اس عالمی کسادبازاری کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اسے کسی دیوانے کا خواب ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ آگے چل کر ہم اس پر مزید روشنی ڈالیں گے۔

جہاں تک بائیں بازو کا تعلق ہے، وہاں اس سوال نے مختلف رجحانات کو ایک دوسرے کے مقابل لاکھڑا کیا ہے اور ان تمام رجحانات کو ان کے مخصوص تاریخی پسِ منظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ ایک طرف تو ماضی کے ماؤاسٹ اور سٹالنسٹوں کا وہ رجحان ہے جن کے خیال میں چین میں ابھی تک سرمایہ داری کی طرف واپسی ہوئی ہی نہیں بلکہ آج بھی وہاں پر سوشلزم ہی ہے اور وہ مزید اصرار کرتے ہیں کہ آج کے عہد میں سوشلزم کی یہی ممکنہ ترکیب ہی واحد قابلِ عمل راستہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور حاوی رجحان بائیں بازو کے ان گھس بیٹھییوں پر مشتمل ہے جو دراصل این جی اوز کے سرغنہ ہیں یامستقبل میں طبع آزمائی کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ اپنے آپ کو لیفٹ لبرل کہتے ہیں، ان کا ایک حصہ تو مکمل طورپر امریکہ اور مغربی سامراجیوں کا وظیفہ خوار ہے جبکہ دوسرے حصے کے خیال میں اگرچہ چین میں سوشلزم تو نہیں ہے مگر آج چونکہ ہم ایک رجعتی عہد میں زندہ ہیں تو اس صورتحال میں سوشلزم کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، لہٰذا اس وقت اس کرۂ ارض پر سب سے ترقی پسند یا انسان دوست معاشی ماڈل چین کا ہی ہے، جسے وہ ملغوبہ معیشت (Mixed Economy) کا نام دیتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس وقت پاکستانی حکمران طبقے اور ریاست کا ایک حاوی دھڑا چینی سامراج کی دم چھلگی میں سی پیک جیسے منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کر کے اس میں سے اپنے کمیشن اور وظیفے بٹورنے اور بدعنوانی کے سارے ریکارڈ توڑنے کے لیے سرگرمِ عمل ہے۔
ایسی صورتحال میں بائیں بازو سے مایوس، منحرف، موقع پرست اور بزدل عناصر کے لیے یہ ملغوبہ معیشت یا ’چین کی مبینہ ’ترقی پسندی‘ والا رجحان محفوظ ترین اور سود مند آپشن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ’بائیں بازو کے روشن خیالوں‘ میں اس رجحان کا حجم گزشتہ عرصے میں تیزی سے بڑھا ہے۔ سابقہ سٹالنسٹ، ماؤاسٹ اور حتیٰ کہ ٹراٹسکائیٹ بھی سب اس بہتی گنگا میں خوب ہاتھ دھو رہے ہیں۔ چینی ریاست بھی پاکستان میں اپنی سرمایہ کاری کو محفوظ بنانے کے لیے اس سیاسی رجحان کی مسلسل آبیاری کرتی رہتی ہے۔ انہی مقاصد کے تحت حال ہی میں چینی ریاست نے پاکستان سے چند ترقی پسند پروفیسر صاحبان کو چین کا سرکاری دورہ بھی کروایا تاکہ انہیں چینی ’معاشی ماڈل کے معجزات‘ براہِ راست دکھائے جا سکیں اورواپس آ کر وہ چین کی وفاداری کے ممکنہ معاشی ثمرات کاخوب ڈھنڈوراپیٹ سکیں۔ ان میں سے اکثر واپس آ کربھر پور طریقے سے نمک حلالی پر لگے ہوئے ہیں اور مختلف واٹس ایپ اور فیس بک گروپس میں چین کی مالا جپے جا رہے ہیں۔ کرونا کے خلاف چین کی اس مبینہ فتح نے ان کے کام کو مزیدآسان بنا دیا ہے۔

چین کے معاشی ماڈل کو سوشلزم قرار دینے والے بائیں بازو کے خواتین و حضرات بہت خوش دکھائی دے رہے ہیں۔ ’دیکھا ہم نہ کہتے تھے کہ چین میں سوشلزم ہے، سوشلزم نے کرونا کو شکست دے دی‘، اسی طرح کے اور بہت سارے جملے بہت زیادہ سننے کو مل رہے ہیں۔ یہاں پر چین کی اس وقتی فتح کو سوشلزم کی موجودگی کی دلیل بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ خطرناک عملیت پسندی (Pragmatism) بدقسمتی سے گزشتہ ساری صدی میں بائیں بازو کی فکر کو دیمک کی طرح چاٹتی رہی ہے۔ اگر کرونا پر سبقت سوشلزم کی دلیل مان لی جائے تو پھر جنوبی کوریا اور سنگاپور کو بھی سوشلسٹ ملک قرار دینا پڑے گا کیونکہ وہاں پر بھی بڑی چابکدستی اور تندہی سے کرونا کا مقابلہ کیا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خود سرمایہ داری نے بھی ماضی میں اس طرح کی بہت سی مہلک وباؤں کو شکستِ فاش دی ہے اور بہت سوں کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینک دیا تھا۔ ملیریا، ہیضہ، پولیو جیسی بہت سی بیماریاں تقریباً دنیا سے ناپید ہو چکی ہیں۔ اپنے ابھار کے دنوں میں سرمایہ داری نے جہاں پیداواری قوتوں کو بڑے پیمانے پر ترقی دی وہیں سائنس اور تکنیک میں بھی بیش بہا کارہائے نمایاں سر انجام دیئے۔ یہ وائرس بھی اگر عالمی معیشت کے ابھار کے دنوں میں حملہ آور ہوتا تو یہ اتنے بڑے پیمانے پرتباہی نہیں پھیلا سکتا تھا۔ جب بھی کوئی بحران آتاہے تو ساری دنیا کی معیشتیں ایک دم منہدم نہیں ہو جاتیں بلکہ بحران کسی ایک جگہ سے شروع ہوتا ہے اور پھر سارے سیارے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے، چین اور جنوبی کوریا اپنے اپنے مخصوص تاریخی پسِ منظر کے باعث ان ممالک میں شامل ہیں جہاں رواں عالمی بحران سے یورپی ممالک کے مقابلے میں زیادہ قوتِ مدافعت موجود تھی اور ان معیشتوں نے تھوڑا دیر سے ہی منہدم ہونا تھا۔ بالکل ویسے ہی جیسے کرونا وائرس جب ایک کم قوت مدافعت والے جسم پر حملہ آور ہوتا ہے تو اس شخص کے وائرس سے زندگی کی بازی ہار جانے کا خاصے امکانات ہیں مگر جب کسی نسبتاً صحتمند جسم سے اس کا واسطہ بڑتا ہے تو اس کی ضرب اتنی کاری نہیں رہتی۔ یہ الگ بات ہے کہ کرونا وائرس سے تو جسمانی فاصلے کے ذریعے محفوظ رہا جا سکتا ہے مگر عالمی معیشت اب ایک ایسا نامیاتی کل بن چکی ہے جس میں جسم کے کسی ایک حصے کی بیماری سے پورے جسم کا متاثر ہونا ناگزیر ہے۔عالمی معیشت اب ایک نئے بحران کے دہانے پر کھڑی ہے اور ایسے میں چین یا کسی بھی دوسری معیشت کے پاس چور دروازے نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں۔

اگر ہم چین کی کرونا وبا کے خلاف مثبت کارکردگی کی بات کریں اور اس کا مغربی دنیا سے موازنہ کریں تو ہمیں ریاستی سرمایہ داری کی نیو لبرل اکانومی کی نسبت بحران سے نمٹنے کی زیادہ استطاعت اور صلاحیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔ لیکن ریاستی سرمایہ داری کے اپنے مسلمہ حدود و قیود ہیں اور یہ بحران کو تاخیر زدہ تو کر سکتی ہے یا آفت کو وقتی طور پر ٹال تو سکتی ہے مگر اس سے فرار حاصل نہیں کر سکتی۔ تاہم موجودہ بحران میں دائیں بازو کے بہت سے لوگ بھی چینی ماڈل کی ہی وکالت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور اسے سرمایہ داری کا مستقبل قرار دے رہے ہیں۔ 3 اپریل کو الجزیرہ پر ’کیا کرونا وائرس سرمایہ داری کے خاتمے کا اشارہ ہے‘ کے عنوان سے ایک مضمون شائع ہوا جس میں کہا یہ گیا ہے کہ سرمایہ داری کو اب زندہ رہنے کے لیے ’بعد از سرمایہ دارانہ (Post Capitalist)‘ طریقہ کار اپنانا ہوں گے۔ مضمون میں دنیا کی بڑی کمپنیوں میں سے ایک آسٹریلوی انویسٹمنٹ کمپنی میکوری ویلتھ (Macquarie Wealth) کے ایک تجزیہ نگار کے یہ الفاظ نقل کیے گئے ہیں کہ، ’روایتی (Conventional) سرمایہ داری مر رہی ہے، یا کم از کم ایک ایسی نئی شکل میں ڈھل رہی ہے (Mutating) جو کمیونزم کے قریب ترہے‘۔ یہ قطعاً بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ سرمایہ داری گزشتہ 90 سالوں سے یہ طریقے استعمال کرتی چلی آ رہی ہے۔اور ان کا کمیونزم سے دور دور کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ چین میں چونکہ یہ پالیسیاں نام نہاد کمیونسٹ پارٹی کی حکومت کے ذریعے بروئے کار لائی جا رہی ہیں اس لیے مغرب کے سرمایہ دارانہ ممالک میں انہیں کمیونزم سے خلط ملط کر دینا کسی حد تک منطقی سا دکھائی دیتا ہے۔ آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ ریاستی سرمایہ داری سوشلزم سے کیوں، کیسے اور کتنی مختلف ہے اور چین کے معاشی ماڈل کی اصل نوعیت (Nature) کیا ہے؟ اور یہ سوال ہم مارکس وادیوں کے لیے کیوں اہم ہے؟

ریاستی سرمایہ داری اور سوشلزم

یہ سچ ہے کہ چین کی معیشت کا ایک قابلِ ذکر حصہ آج بھی چینی ریاست کے کنٹرول میں ہے۔ یہ بھی سچ ہے کہ گزشتہ دس سالوں میں معیشت پر ریاستی کنٹرول کو بتدریج مستحکم کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں۔ تازہ ترین صورتحال کو اعداد و شمار کے آئینے میں دیکھنے سے پہلے ریاست کے بارے میں مارکسزم کے بنیادی تصورات کا تھوڑا سا حوالہ دینا ضروری ہے۔ مارکس اور اینگلز نے وضاحت کی تھی کہ ریاست حکمران طبقے کے ہاتھ میں محکوم اور مظلوم طبقات پر جبر کے آلے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوتی۔ بعد ازاں، لینن نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ”ریاست اور انقلاب“ میں اس تصورکی مختلف پہلوؤں اور مثالوں سے مزید وضاحت کی۔ یوں دو متحارب نظاموں میں ممیز کرنے والی بنیادی اور فیصلہ کن چیز ریاست ہی ہے کہ ریاست کس طبقے کی نمائندگی کرتی ہے؟ اگر ریاست سرمایہ دار طبقہ کی نمائندگی کرتی ہو، بھلے ہی اس کی سیاسی شکل جمہوریت ہو یا آمریت، تو اس نظام کو سرمایہ دارانہ نظام ہی کہا جائے گا۔ اگر ریاست مزدور طبقے کی نمائندہ ہو اور معاشی و سیاسی فیصلہ سازی پر مزدور طبقے کا جمہوری کنٹرول ہو تو کہا جائے گا کہ متعلقہ خطۂ ارضی میں رائج نظام سوشلزم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم مارکس وادی جوزف اسٹالن اور بعد ازاں سٹالنسٹ افسر شاہی کے زیرِ تسلط سوویت یونین کوایک سوشلسٹ ریاست کی بجائے ایک مسخ شدہ مزدور ریاست سمجھتے تھے اور اس کے اس مخصوص ریاستی کردار کے باوصف جہاں افسر شاہی کے سیاسی تسلط کے خاتمے اور مزدور طبقے کے تازہ دم سیاسی انقلاب کی جدوجہد کا علم بلند رکھتے تھے وہیں مغربی سامراج اور سرمایہ دارانہ ریاستوں کی طرف سے سوویت یونین پر کیے جانے والے ہر سیاسی، سفارتی اور معاشی حملے کے خلاف سوویت یونین کے دفاع کو اپنا تاریخی فریضہ سمجھتے تھے۔

سماج میں مسلسل بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج کی موجودگی میں ریاست پر معیشت کے کنٹرول سے ریاست کا کردار تبدیل نہیں ہو جاتا

آج کی چین کی ریاست معیاری حوالے سے ستر اور اسی کی دہائی کی سوویت ریاست سے بے حد مختلف ہے۔ اگر چینی معیشت پر افسر شاہی کا کنٹرول (جسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے) اپنے موجودہ حجم سے بڑھ کر دو گنا بھی ہو جائے (جس کے امکان محدود ہیں) تو وہ سوشلسٹ معیشت نہیں بن جائے گی بلکہ چین ایک ریاستی سرمایہ دارانہ ملک ہی رہے گا۔ سماج میں مسلسل بڑھتی ہوئی طبقاتی خلیج کی موجودگی میں ریاست پر معیشت کے کنٹرول سے ریاست کا کردار تبدیل نہیں ہو جاتا۔ چینی ریاست، بظاہر آج بھی 70ء یا 80ء کی دہائی کی طرح افسرشاہی کے سیاسی کنٹرول میں ہے، لیکن درحقیقت اب ایک طاقتور چینی سرمایہ دار طبقہ موجود ہے اور چینی ریاست افسر شاہی کے نسبتاً مبالغہ آمیز کردار کے باوجود چینی سرمایہ دار طبقے کے ہاتھ میں چینی محنت کشوں پر جبر کے آلے کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ اگرچہ، افسرشاہی میں پھوٹ موجود ہے مگر وہ پھوٹ سرمایہ دار طبقے کے داخلی تضادات کی ریاستی عکاسی کے سوا اور کچھ بھی نہیں۔ اس طرح کی پھوٹ کسی نہ کسی شکل میں تمام سرمایہ دارانہ ریاستوں میں موجود ہوتی ہے جو بحران کے دنوں میں شدت اختیار کر کے سارے نظام کے لیے خطرہ بن جاتی ہے۔ جو لوگ ہیلتھ سمیت دیگر اہم شعبوں کی ریاستی اجارہ داری کو چین میں سوشلزم قرار دیتے ہیں انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دو تین دہائیاں قبل پاکستان میں بھی صحت کے شعبے پر ریاستی اجارہ داری کافی مضبوط تھی۔ جبکہ ریلوے، پی آئی اے اور پوسٹ آفس جیسے اہم ادارے آج بھی ریاستی ملکیت میں ہیں۔ اگر بجلی بنانے والی کمپنیوں، پی ٹی سی ایل، کے الیکٹرک سمیت نجکاری کیے گئے تمام اداروں کو واپس قومی تحویل میں لے لیا جائے تو اس سے پاکستان میں سوشلزم نہیں آ جائے گا اور نہ ہی ستر کی دہائی میں یہاں کوئی سوشلسٹ نظام موجود تھا۔ در اصل، چین میں ریاستی سرمایہ داری کی موجودہ کیفیت چینی افسر شاہی کی خواہش نہیں بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے توازن کو اپنے حق میں رکھنے کے لیے اور مغربی و امریکی سامراجی کمپنیوں سے مسابقت کے پیشِ نظر چینی بورژوازی کی ضرورت ہے۔ کرنسی مارکیٹ سے لے کر بیرونی تجارت تک کو ریاستی گرفت میں رکھے بغیر عالمی معیشت میں چینی بورژوازی کا حصہ خطرے میں پڑ سکتا ہے۔

چین کا سرمایہ دار طبقہ آج ایک روزِ روشن کی سی حقیقت ہے جس کی باقاعدہ نمائندگی کمیونسٹ پارٹی کے بالا ترین اداروں میں بھی موجود ہے جبکہ چین کا امیر ترین شخص جیک ما بھی کمیونسٹ پارٹی کا باقاعدہ ممبر ہے۔

2 دسمبر 2019ء کو فنانشل ٹائمز میں ”چین کا پرائیویٹ سیکٹر اس کی معیشت کا محور ہے“ کے نام سے ایک مضمون شائع ہوا۔ اس آرٹیکل کی روسے گزشتہ برس چین کے نجی شعبے نے چین کے جی ڈی پی کی گروتھ میں ساٹھ فیصد حصہ ڈالا۔ بالخصوص ٹیکنالوجی کے شعبے میں نجی شعبے کا اہم کردار ہے۔ دسمبر ہی میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کے لیے چین کے سربراہ شی جن پنگ نے کہا کہ ”ایسا ہر قول یا فعل جو معیشت کے نجی شعبے کو کمزور کرے غلط ہے“۔ چین کے نجی شعبے میں 34 کروڑ محنت کش کام کرتے ہیں۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق 2012ء میں چین کے نجی شعبے میں ساڑھے سات کروڑ کے قریب محنت کش کام کرتے تھے۔ یعنی گزشتہ سات سالوں میں یہ ایک دیو ہیکل اضافہ ہے۔ 1981ء میں صرف 23 لاکھ محنت کش نجی شعبے سے وابستہ تھے جبکہ سرکاری شعبے میں آٹھ کروڑ سے زیادہ محنت کش کام کر رہے تھے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق 2018ء میں کل شہری روزگار کا 80 فیصد نجی شعبے سے منسلک تھا جبکہ نئے پیدا ہونے والے روزگار کا 90 فیصد بھی نجی شعبے کے مرہونِ منت ہی تھا۔ دنیا کی 500 امیر ترین کمپنیوں میں سے 129 کے ہیڈ کوارٹرز چین میں ہیں۔ 9 جنوری 2019ء کے واشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون کے مطابق چین کے نجی شعبے کی شرحِ منافع سرکاری شعبے کی شرحِ منافع سے دوگنا زیادہ ہے۔ چین کا سرمایہ دار طبقہ آج ایک روزِ روشن کی سی حقیقت ہے جس کی باقاعدہ نمائندگی کمیونسٹ پارٹی کے بالا ترین اداروں میں بھی موجود ہے جبکہ چین کا امیر ترین شخص جیک ما بھی کمیونسٹ پارٹی کا باقاعدہ ممبر ہے۔ اس حقیقت کے وجود سے صرف متعصب حد تک جانبدار اور بیمار شخص ہی انکار کر سکتا ہے۔ فوربز میگزین کی رپورٹس کے مطابق اس وقت دنیا کے 20 امیر ترین لوگوں میں 2 چینی سرمایہ دار شامل ہیں اور دنیا کی دس امیر ترین خواتین میں سے دو چینی ہیں اورٹیکنالوجی سے وابستہ دنیا کے 20 امیر ترین افراد میں سے 6 کا تعلق چین سے ہے۔ اس وقت چین میں 300 سے زیادہ انتہائی دولتمند ارب پتی موجود ہیں جو امریکہ کے بعد کسی بھی ملک میں ارب پتیوں کی سب سے زیادہ تعداد ہے۔ چین کے ارب پتیوں کی کل دولت 996 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے۔ چین کے 30 امیر ترین لوگوں کے پاس 387.45 ارب ڈالر کی ضخیم دولت موجود ہے۔ اگر دولت کے اس ارتکاز کو مزید گہرائی میں دیکھا جائے تو اس وقت چین کے دس امیر ترین لوگوں کے پاس 232.44 ارب ڈالر ہیں جبکہ صرف پانچ امیر ترین افراد 157.16 ارب ڈالر کے مالک ہیں۔ ان ارب پتیوں کی سر پرستی میں کروڑ پتیوں کی بھی ایک طویل فہرست ہے جن کی افسرشاہی پر گرفت مضبوط ہو نا ایک فطری عمل اور سیاسیات کے اصولوں کے عین مطابق ہے۔ اسی چینی حکمران طبقے کے دنیا بھر میں سامراجی عزائم بھی مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں اور ون بیلٹ ون روڈ جیسے منصوبے اس کی بہترین مثال ہیں۔ اس سرمایہ دار طبقے کے ساتھ ساتھ چین میں دنیا کا سب سے مضبوط محنت کش طبقہ بھی موجود ہے جس کے اپنے سرمایہ دار طبقے کے ساتھ تضادات ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ سرمایہ داری کے عالمی بحران کے باعث چین کے اس محنت کش طبقے کے سر پر بیروزگاری اور غربت کی تلوار لٹک رہی ہے اور آنے والے دنوں میں جوں جوں عالمی معیشت کا زوال بڑھتا چلا جائے گا توں توں چین کے سرمایہ دار بھی بحران کا تمام تر بوجھ ان محنت کشوں پر ہی ڈالتے چلے جائیں گے۔ یوں ان دونوں طبقات کے درمیان آبرومندانہ مصالحت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

نیو لبرلزم اور ریاستی سرمایہ داری

یہاں ایک اور حقیقت توجہ کی مستحق ہے کہ ریاستی سرمایہ داری اور نیو لبرل اکانومی کو یکسر متضاد اور متصادم سمجھنا سراسر غلط ہے۔ سرمایہ داری کی ساری معاشی تاریخ کا سائنسی مشاہدہ ثابت کرتا ہے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام ایک نامیاتی کل ہے اور یہ دو باہم متصادم سمجھے جانے والے معاشی اصو ل ایک دوسرے کومعطل نہیں مکمل کرتے ہیں۔ عالمی معیشت کی شرحِ نمو، شرحِ منافع، پیداوار اور خدمات کی تقسیمِ کار، بین الاقوامی تعلقات اور سماج میں طبقاتی کشمکش جیسے عوامل یہ طے کرتے ہیں کہ کب کون سے معاشی اصولوں اور پالیسیوں کو بروئے کار لانا ہو گا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد ریاستی سرمایہ داری جبکہ ستر کی دہائی کے بحران کے بعد نیو لبرل پالیسیاں سرمایہ داری کی بقا کے لیے وقت کی ضرورت بن گئی تھیں۔ ہندوستان میں تقسیم کے بعداور پاکستان سمیت بہت سے ممالک میں مزدور تحریکوں کی شکست کے بعد کے مخصوص معروض میں سرمایہ دارانہ معیشت کی استواری میں ریاستی مشینری نے کلیدی کردار ادا کیا۔ 90ء کی دہائی میں چین، مشرقی یورپ اور روس کی نومولود بورژوا ریاستیں اگر عالمی بورژوازی کی مدد کو نہ آتیں تو 2008ء والا بحران بہت پہلے عالمی معیشت کو لے ڈوبتا۔ پھر بحران کے فوری بعدسے لے کر اب تک چینی ریاست نے معیشت میں مداخلت کے ذریعے نہ صرف خود کو بلکہ عالمی بورژوازی کو سہارا دیا۔ دوسری طرف، امریکہ اور مغربی سرمایہ داروں کو بھی ریاستی بیساکھیوں کے ذریعے معاشی سفر کو جاری رکھنا پڑا۔

موجودہ بحران میں پھر یہی سب کچھ دوہرایا جا رہا ہے مگر اب یہ بیساکھیاں بھی ناکارہ ہو چکی ہیں اور عالمی معیشت لڑکھڑا رہی ہے۔ دراصل، ہر معاشی بحران میں سرمایہ دار اپنے طبقاتی مفادات کی نگہبان قومی ریاستوں کو بے دھڑک استعمال کرتے ہوئے قومی خزانوں کی جارحانہ لوٹ مار کرتے ہیں۔ بے جگری سے کی گئی قومی خزانے کی اس لوٹ مار کو منصوبہ بندی قرار دینا فکری دیوالیہ پن کی علامت ہے۔ یہ تمام اقدامات حالات کے مخصوص جبر کا نتیجہ ہوتے ہیں اور جیسے ایلن ووڈز کہا کرتے ہیں کہ ایک اندھی کھائی کے دہانے کھڑے شخص کے پاس کوئی دلیل نہیں ہوتی، ویسے ہی ہی قومی ریاستیں ڈوبتی ہوئی عالمی معیشت کے لیے تنکے کے سہارے کی طرح ہوتی ہیں۔یہ بجا طور پر نیو لبرلزم کی ناکامی ہے اور اس ناکامی کا جتنا بھی پرچار کیا جائے کم ہے، مگر اس کے باوجود یہ کہنا کہ ”بحران کے دنوں میں تمام ریاستیں منصوبہ بند معیشت کو اپنا لیتی ہیں“ انتہائی سنگین نظریاتی بے راہروی کا موجب بن سکتا ہے۔

منڈی کی معیشت کے مداح ہمیشہ منڈی کے جادوئی ہاتھ کا ذکر کرتے رہتے ہیں کہ وہ ہر مسئلہ حل کر دیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس معیشت کو بحران سے نکلنے کے لیے ہمیشہ ریاستی مداخلت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ریاست کے ان اقدامات کو جواز بنا کر اسے منصوبہ بند معیشت کہہ دینا ایک بہت بڑا جرم ہو گا۔ منصوبہ بند معیشت کی بنیاد منڈی کی معیشت اور نجی ملکیت کے مکمل خاتمے پر استوار کی جاتی ہے اور جب تک معیشت کے کلیدی شعبے نجی ملکیت کا خاتمہ کرتے ہوئے مزدور طبقے کے اجتماعی کنٹرول میں نہیں آتے اس وقت تک کسی بھی طرح اس معیشت کو منصوبہ بند معیشت نہیں کہا جا سکتا۔ سرمایہ دار طبقے سے ذرائع پیداوار کی ملکیت چھیننا اور محنت کش طبقے کو منتقل کرنا ایک انقلاب کے بغیر ممکن نہیں اور حکمران طبقہ تاریخ میں کبھی بھی رضاکارانہ طور پر اقتدار سے الگ نہیں ہوا۔ اس کے لیے مظلوموں کو ظالموں کیخلاف علمِ بغاوت بلند کرنا پڑتا ہے اور اپنا حق حاصل کرنے کے لیے طبقاتی جنگ کے میدان میں اترنا پڑتا ہے۔ اس لیے کسی بھی ہنگامی صورتحال یا جنگ کے دوران سرمایہ دار انہ ریاست پر براجمان حکمرانوں کے چند اقدامات کو مثال بنا کر ان سے خوش فہمیاں جوڑ لینا حماقت اور بیوقوفی کے سوا کچھ بھی نہیں۔ ایسے لوگ انقلابات کی تاریخ سے ناواقف ہوتے ہیں یا پھر اپنی نمک حرامی اور غداریوں کے لیے عذر تلاش کرتے ہوئے سرمایہ دارطبقے کے دلال بن جاتے ہیں۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران بہت سے سرمایہ دارانہ سامراجی ممالک نے معیشت کا بڑا حصہ مکمل طور پر ریاست کنٹرول میں لے لیا تھا لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ یہ ممالک سوشلسٹ ہو گئے تھے یا وہاں نجی ملکیت کا خاتمہ ہوگیا تھا۔

ملغوبہ معیشت (Mixed Economy) بھی اصطلاحات کے گورکھ دھندے کے سوا کچھ بھی نہیں اور سرمایہ دارانہ معیشت کو ایک سنہری غلاف پہنانے کی کوشش ہے۔ تمام ملغوبہ معیشتیں، درحقیقت سرمایہ دارانہ معیشتیں ہی تھیں اور ان کی بنیاد بھی محنت کشوں کے بد ترین استحصالی نظام پر ہی رکھی گئیں تھیں۔ یہی صورتحال چین میں ہے جہاں دنیا بھر کے سرمایہ دار چین کے محنت کشوں کا شدید استحصال کرتے ہوئے اپنی دولت میں کئی گنا اضافہ کر رہے ہیں۔ چین سمیت دنیا بھر کے امیر ترین افراد کی دولت کے انبار بڑھتے جا رہے ہیں جبکہ یہ دولت پیدا کرنے والے چین کے محنت کش بد ترین حالات میں زندگی گزار رہے ہیں جس کے باعث سینکڑوں محنت کش خود کشی تک کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جبکہ ان کی بھاری اکثریت غربت اور تنگدستی میں زندگی گزارتی ہے۔ چین میں آج کروڑوں لوگ بھوک اور بیماری کے ہاتھوں مر رہے ہیں اور موجودہ بحران نے ان کی غربت اور ذلت میں کئی گنا اضافہ کر دیا ہے جبکہ دوسری جانب چین کے امیر ترین افراد پر تعیش زندگیاں گزار رہے ہیں اور دنیا کی ہر آسائش ان کو مہیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل چین کے ایک امیر ترین شخص کے نوجوان بیٹے کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں وہ ڈالروں کے ایک بہت بڑے ڈھیر کو آگ لگا کر اپنی دولت کی تشہیر کر رہا تھا۔ اسی طرح دوسرے بہت سے ایسے واقعات ہیں جو اس سماج کی طبقاتی تفریق کو واضح کرتے رہتے ہیں۔

امیر اور غریب کی اتنی وسیع خلیج کے حامل سماج کو مکمل طور پر ایک سوشلسٹ سماج کہنے والے افراد کی ذہنی حالت پر شک کرنا چاہیے یا پھر ان کی جیب میں موجود غداری کے عوض ملنے والے سکوں کی جانب دیکھنا چاہیے۔ منصوبہ بند معیشت میں نجی ملکیت کے خاتمے کے ساتھ ساتھ تمام تر ذرائع پیداوار کی ملکیت محنت کش طبقے کے اجتماعی کنٹرول میں منتقل کی جاتی ہے۔ ایک صحت مندمنصوبہ بند معیشت کو فیصلہ سازی میں اکثریتی محنت کش طبقے کی ویسے ہی ضرورت ہوتی ہے جیسے ہر زندہ جسم کو آکسیجن درکار ہوتی ہے۔ منصوبہ بند معیشت کا مقصد اور مدعا سماج میں پیدا ہونے والی تمام تر دولت کے تصرف کے ذریعے عوام کی بنیادی ضروریات کی تکمیل اور آئندہ نسلوں کے معاشی مستقبل کا تحفظ ہوتا ہے جبکہ کسی بحران کے بعد سرمایہ دارانہ ریاست کی طرف سے کیے گئے ریاستی اقدامات خالصتاً سماج کی مٹھی بھر طفیلیہ پرت کے لیے وینٹی لیٹر کی خدمات سر انجام دیتے ہیں۔ بحران کے دنوں میں قومی خزانے کی لوٹ مار سے طبقاتی خلیج کم ہونے کی بجائے اور بھی شدت اختیار کر جاتی ہے۔ یوں اپنے جوہر میں ریاستی سرمایہ داری کی یہ شکل اورمنصوبہ بند معیشت ایک دوسرے کے مماثل نہیں بلکہ متضاد اور متصادم ہیں۔ چین کی نام نہاد ملغوبہ معیشت کے لیے بھی یہ بات سو فیصد درست ہے۔ ریاستی سرمایہ داری کی کسی بھی شکل کو منصوبہ بندی سے خلط ملط کر دینے سے بغیر انقلاب کے سرمایہ داری سے بتدریج سوشلزم کی طرف تاریخی سفر کی خوش فہمی بھی جنم لے سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے کج فہم کرونا بحران کے خاتمے کے بعد سرمایہ داری کے از خود خاتمے کی امیدیں باندھ رہے ہیں۔ ایسا صرف اور صرف منظم اور فتح مند طبقاتی جنگ کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

تناظر

چین میں معاشی مطالبات کے گرد محنت کشوں کی ہڑتالوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ چائینہ لیبر بلیٹن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 6 ماہ میں چین میں محنت کشوں کی 444 بڑی ہڑتالیں ہوئی ہیں۔

چین کی ریاستی سرمایہ داری بھی اپنی طبعی عمر پوری کر چکی ہے۔ 2008ء میں عالمی معیشت کے لیے نجات دہندہ کا کردار ادا کرنے کی چینی معیشت میں اس لیے سکت تھی کیونکہ اس وقت چین میں تاریخ کی سب سے بڑی بیرونی سرمایہ کاری کی گئی تھی اور جی ڈی پی کے تناسب سے چین کا قرضہ بہت کم تھا۔ آ ج صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ چین سے بیرونی سرمایہ کاری کا انخلا، جی ڈی پی کے 310 فیصد تک پہنچے ہوئے قرضوں کے پہاڑ جیسے عناصر، 2008ء کی طرز پر معیشت کو ریاست کی طرف سے بے دریغ معاشی انجکشن لگانے کی استطاعت سے محروم کر چکے ہیں۔ 2008ء میں چین کا قرض موجودہ قرض کے نصف سے بھی کم تھا۔ گزشتہ دس سالوں میں دنیا کی ”ابھرتی ہوئی معیشتوں“ کے کل قرض کا 80 فیصد چین کے قرضوں پر مشتمل ہے۔ اب اس قرضے کی واپسی کا وقت ہوا چاہتا ہے۔ اس کے برعکس، چینی بینکوں کے نا قابلِ واپسی قرضے (Bad Loans) آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ سرکاری اعدادو شمار کے مطابق تو یہ قرضے 1.5 ٹریلین ڈالر ہیں لیکن کچھ تجزیہ نگار یہاں تک کہتے ہیں کہ یہ اعداد و شمار کا ہیر پھیر ہے اور اصل نا قابلِ واپسی قرضے اس سے 14 گنا زیادہ ہو سکتے ہیں۔ یعنی یہ رقم سولہ سے سترہ ٹریلین ڈالر تک جا پہنچتی ہے۔ چین کی جائیداد اور تعمیرات کی منڈی بھی مسلسل سکڑ رہی ہے۔ 10مارچ 2020 ء کے فنانشل ٹائمز کے مطابق چین کے 30 سب سے بڑے شہروں میں مکانوں کی فروخت میں 80 فیصدکمی واقع ہو چکی ہے۔ یوں کسی بھی ہنگامی صورتحال میں چین کے دیوالیہ پن کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ حتیٰ کہ اگر کرونا یا اس جیسا کوئی اور وائرس پھر حملہ آور ہوتا ہے تو چین کے لیے بھی اس بار اس کامقابلہ کرنا اتنا آسان نہیں ہو گا۔ یاد رہے کہ دسمبر میں جب کرونا سے متاثرہ مریض سامنے آنا شروع ہوئے تو چینی ریاست کا رویہ بھی دیگر سرمایہ دارانہ ریاستوں سے زیادہ مختلف نہیں تھا اور انہوں نے نہ صرف لاک ڈاؤن میں تاخیر کی بلکہ اس وبا کی نشاندہی کرنے والے ڈاکٹروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر خاموش کرانے کی کوشش بھی کی۔ ان ڈاکٹروں میں سے ایک ڈاکٹر لی بعد ازاں اپنے تئیں کرونا سے لڑتے ہوئے جان کی بازی ہار گیا۔ بعد میں مسلسل بڑھتی ہوئی شرحِ اموات کے باعث ریاست کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے پڑے اور پھر ”دیر آید درست آید“ کے مصداق تمام ریاستی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے کرونا کو شکست دی گئی۔ اگر واقعتا چین میں ایک سوشلسٹ ریاست ہوتی تو اس سے بھی کم نقصان کے ساتھ اس وبا پر قابو پایا جا سکتا تھا۔ مگر اب چینی سرمایہ داری جانکنی کے عذاب میں مبتلا ہو چکی ہے اور اس سے عوام کی فلاح و بہبود کی توقع رکھنا بہت بڑی حماقت ہے۔ گزشتہ ایک ماہ میں عالمی معاشی اداروں اور ماہرین کی طرف سے چینی معیشت کی شرحِ نموکے لگائے گئے تخمینوں کو دیکھا جائے توصورتحال کی نزاکت بآسانی آشکار ہو جاتی ہے۔ پہلے تو کہا جا رہا تھا کہ رواں برس کی پہلی سہ ماہی میں چین کی شرحِ نمو منفی 2 فیصد سے منفی 6.5 فیصد تک گر سکتی ہے۔ پھراسی ہفتے UBS کو اعلان کرنا پڑا کہ چین کی شرحِ نمو منفی 30 فیصد تک بھی گر سکتی ہے۔ دسمبر 2019ء میں چینی برآمدات کی شرح نمو 7.9 فیصد تھیں جبکہ فروری 2020ء میں یہ منفی 17.2 فیصد ہو چکی تھی۔ یعنی صرف دو ماہ میں برآمدات میں 25 فیصد تک گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ عالمی منڈی کے سکڑاؤ کے باعث آئندہ برسوں میں چینی برآمدات میں استحکام کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔اس ساری صورتحال کے چین کے محنت کش طبقے کے شعور پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔

چین کے کاسہ لیس بائیں بازو کے دانشوروں کی امنگوں کے برعکس چین کے نام نہاد معاشی معجزے کی بنیاد چینی محنت کش طبقے کا بے رحمانہ استحصال ہی ہے۔ یہاں تک کہ ووہان میں کرونا سے لڑنے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر تعمیر کیے جانے والے ہسپتالوں کے پراجیکٹ میں کام کرنے والے دوسرے شہروں سے لائے گئے محنت کشوں کی تنخواہوں کی ادائیگی بھی تعطل کا شکار رہی ہے اور ان محنت کشوں کو بھی سوشل میڈیا پر احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑاتھا۔ زیادہ تر شعبوں کی یہی صورتحال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ چین میں معاشی مطالبات کے گرد محنت کشوں کی ہڑتالوں میں بے پناہ اضافہ ہو رہا ہے۔ چائینہ لیبر بلیٹن کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ 6 ماہ میں چین میں محنت کشوں کی 444 بڑی ہڑتالیں ہوئی ہیں۔ حال ہی میں ہوبئے میں 2ہزار ٹیکسی ڈرائیورز کا شاندار احتجاج دیکھنے میں آیا۔ اسی ہفتے چین میں اساتذہ کی بھی تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے خلاف ہڑتال ریکارڈ کی گئی۔ غرضیکہ ہڑتالیں اور صنعتی تنازعات چین کا نیا سیاسی معمول بن چکے ہیں۔ جو کچھ گزشتہ برس ہم نے ہانگ کانگ میں دیکھا وہ رواں برس چین کے زیادہ تر بڑے شہروں میں ہونے کا واضح امکان موجود ہے۔ وہی چین جس کی معیشت نے 2008 ء کے بحران سے عالمی سرمایہ داری کو نکالا تھا، اس بار اسی چین کے محنت کش عالمی سرمایہ داری کی قبر کھودنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ چین کے لیے کہے گئے نپولین کے یہ الفاظ آج چین کے محنت کش طبقے پر بالکل صادق آتے ہیں۔اس نے کہا تھا کہ چین کو سونے دو، چین جاگے گا تو دنیا کو ہلا دے گا۔

Comments are closed.