کیا ہم قومی جمہوری انقلاب کے دہانے پر کھڑے ہیں؟

|تحریر: پارس جان|

 

سانحۂ شمالی وزیرستان پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک غیر معمولی واقعہ ہے۔ بہت سے لوگ سوشل میڈیا پر اسے جلیانوالہ باغ سے مماثل قرار دے رہے ہیں۔ بلا شبہ ریاستی مشینری عام لوگوں کے خلاف 83ء کے بعد شاید پہلی دفعہ اپنی پوری مرکزیت اور بربریت کے ساتھ متحرک اور فعال ہوتی ہوئی دکھائی دی۔ یہی نہیں کہ پر امن مظاہرین پر بے دریغ فوجی طاقت کا استعمال کیا گیا بلکہ اس کے بعد الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اپنے تمام تر زر خرید تجزیہ نگاروں اور پالتو صحافیوں اور دانشوروں کو ان گِدھوں کی طرح معصوموں کی لاشوں پر چھوڑ دیا گیا جو کئی دنوں سے بھوکے ہوں۔ ان نام نہاد اہلیانِ دانش نے اس آزمودہ سامراجی کلیے کو بروئے کار لانے کی بھرپور کوشش کی کہ  ’’اتنا جھوٹ بولو کہ وہ سچ لگنے لگے‘‘۔ اتنا مسلسل اور مکمل جھوٹ بھی شاید سقوطِ ڈھاکہ کے بعد پہلی دفعہ سننے کو ملا۔ نہ صرف یہ کہ جھوٹ کے سابقہ تمام ریکارڈ توڑ دیئے گئے بلکہ طرزِ استدلال اور بحث و تکرار کی بھی ایسی شاندار مثالیں قائم کی گئیں کہ ماضی کے تمام نامور مناظرین کی بھی روحیں کانپ گئی ہوں گی۔ مثال کے طور ان گزشتہ چند دنوں میں افغان قومیت کو ہی  بغاوت اور غداری کا استعارہ بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔ فلاں افغان نے یہ کہہ دیا ہے کہ میں افغان تھا، ہوں اور رہوں گا، لہٰذا یہ اعتراف جرم نہیں تو اور کیا ہے؟ کیا اس کے بعد بھی کسی ثبوت، تحقیقات اور بحث مباحثے کی گنجائش باقی رہ گئی ہے؟ انتہائی ڈھٹائی سے یہ بھی کہا جاتا رہا کہ ایسے ناسوروں کو فی الفور ملک بدر کر دینا چاہیے۔ گویا پاکستان میں رہنے والے ہر افغان کو اپنی وفاداری ثابت کرنے کے لیے تفاخرانہ انداز میں سینہ تان کر یہ کہنا چاہیے کہ میرا دادا اور باپ افغان تھے مگر میں نے بہت سخت محنت کی اور دل لگا کر کام کیا تو الحمد اللہ اب میں افغان نہیں رہا بلکہ پاکستانی بن گیا ہوں۔ جیسے افغانوں کے علاوہ اس ملک میں باقی تو سب پاکستانی ہی آباد ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں سرائیکیوں، سندھیوں، کشمیریوں، بلتستانیوں، بلوچوں، براہویوں، مہاجروں یا ہزاروں میں سے کسی سے بھی پوچھا جائے تو اس کا جواب اسی سے ملتا جلتا ہو گا کہ میں فلاں تھا، ہوں اور رہوں گا۔ حتیٰ کہ اگر پنجابیوں کی اکثریت کی رائے بھی جاننے کی کوشش کی جائے تو وہاں سے بھی لگ بھگ اسی قسم کا جواب ملے گا بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے آرائیں، راجپوت، ٹوانے اور شیخ وغیرہ بھی اپنی ذیلی برادریوں اور خاندانوں پر فخریہ اتراتے ہوئے پائے جاتے ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ٹی وی پر نہایت بے حیائی سے پی ٹی ایم کے کارکنوں اور قیادت کے خلاف اس طرح کے دلائل دینے والوں کی اکثریت کے اپنے ناموں کے ساتھ بھی مختلف سابقے اور لاحقے لگے ہوئے ہیں۔ ایک ایسا حکمران طبقہ اور ریاست جس نے خود اپنی سات دہائیوں پر مبنی تاریخ میں لسانیت، صوبائیت، قومی محرومی اور فرقہ واریت کو اپنے انگریز آقاوں کی ’’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی کی تقلید میں بے دھڑک استعمال کیا ہو، ان کے وظیفہ خواروں کی طرف سے ایسی نا معقول بہتان تراشی اور بھی زیادہ نا زیبا اور بھدی معلوم پڑتی ہے۔ اسی طرح شیعہ، سنی اور وہابی، بریلوی کا تعصب بھی محض ان پڑھ جہلا میں ہی نہیں بلکہ پڑھے لکھے جہلا، بیوروکریٹوں، ججوں، تمام سیاسی پارٹیوں اور ریاستی اداروں میں بدرجہ اتم موجود ہے۔ ایسے میں اس مملکتِ خداداد میں وفادار اور سچے ’پاکستانیوں‘ کی تعداد تو شاید آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہو گی۔

 

حکومتی پارٹی نے اس گھناؤنے کھلواڑ میں جس تابعداری اور دم چھلگی کا کردار ادا کیا وہ بھی اپنی مثال آپ تھا۔ بحران کی شدت اور نوعیت کے پیشِ نظر وزیراعظم نے خود ابھی تک اس معاملے میں براہ راست مداخلت کرنے سے اجتناب برتا ہے جس کی وجہ سے  کچھ ایسی قیاس آرائیاں بھی کی جا رہی ہیں کہ شاید مذکورہ معاملے میں موصوف کے کچھ تحفظات ہیں۔ ان قیاس آرائیوں کو دیگر کچھ معاملات مزید تقویت بخش رہے ہیں جن میں چیئرمین نیب کے جنسی سکینڈل کا معاملہ سرفہرست ہے۔ کچھ لوگوں کے خیال میں زیرعتاب آنے والے چیئرمین نیب کا وہ بیان اس سکینڈل کا محرک بنا جس میں انہوں نے کنایتاً حکومتی وزرا کے بھی کرپشن میں ملوث ہونے اور ان کے خلاف ممکنہ کاروائی کا عندیہ دیا تھا۔ اور یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے کہ چیئرمین نیب اس اہم ذمہ داری پر ریاستی اشرافیہ کی معتبر ترین کٹھ پتلی ہونے کی وجہ سے ہی براجمان ہیں۔ لیکن اگر اس قیاس آرائی میں ذرہ سی بھی صداقت ہے تو پھر سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ اس قسم کے سکینڈلز بنانے اور مناسب وقت پر استعمال کرنے کی روایت بھی اسی ریاستی ادارے کی ہی رہی ہے۔ اگر وزیراعظم یا اس کے کارندے اس میں ملوث ہیں بھی تو ان کی سرپرستی یا معاونت انہی اداروں کے اندر بھی موجود ہے۔ یوں یہ بحران ریاستی اداروں کی داخلی دیواروں اور چھت پر لگی دیمک کو ایک خارجی مظہر بنانے کا موجب اور نمونہ بھی ثابت ہوا ہے۔ اسی طرح دیگر چند ایک مثالیں بھی یہ ثابت کرنے کے لئے دی جا سکتی ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس اور جی ایچ کیو میں بہرحال تناؤ نہ صرف موجود ہے بلکہ بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ معاشی اور ریاستی بحران ہر آئے روز بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اس رجحان میں تبدیلی یا کمی کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں، یوں یہ تناؤ بھی آنے والے دنوں میں مزید شدت اختیار کرے گا اور اس سے نہ صرف توقع سے بھی جلد حکومتی انہدام کے بلکہ حکومتی پارٹی کا شیرازہ بکھر جانے کے امکانات بھی موجود ہیں۔ حال ہی میں چند اہم حکومتی وزرا دانستہ یا غیر دانستہ ایسے الفاظ استعمال کر چکے ہیں جن سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ وہ خود بھی حکومت اور پارٹی کے مستقبل کے حوالے سے شدید تشویش میں مبتلا ہیں۔ یاد رہے کہ تحریک انصاف ایک ایسی جماعت ہے جس کی قیادت طرفین سے آئے ہوئے ان چوہوں پر مشتمل ہے جو جہاز ڈوبنے کے وقت سب سے پہلے چھلانگ لگانے کے ماہر ہیں۔ پارٹی کارکنان اور اس قیادتی ٹولے میں پہلے ہی ایک وسیع خلیج موجود تھی۔ درمیانے طبقے سے تعلق رکھنے والے تحریک انصاف کے زیادہ تر کارکنان نے اس قیادتی مشینری کو محض اس لایعنی منطق کے تحت قبول کر لیا تھا کہ اگر ’کپتان اچھا ہو تو بری اور نالائق ٹیم بھی بہتر پرفارم کر سکتی ہے‘۔ اب ان کارکنان کی بڑی تعداد نو ماہ کے اہم تجربات کی روشنی میں سر کھجاتی اور ناخن چباتی ہوئی نظر آتی ہے۔ امنگوں اور خواہشات کے محور کے طور پر عمران خان کی شخصیت کا گراف بہت تیزی سے نیچے آ رہا ہے۔ اپنے نام کے ساتھ لکھے جانے والے یا پکارے جانے والے لفظ وزیراعظم کی لذت اور سحر میں گرفتار یہ بدمست شخص اپنی کٹھ پتلی حیثیت پر کب تک آنکھیں، دل اور دماغ بند کیے ہوئے کام چلا سکتا ہے۔ ہر اندھے کو بھی صاف دکھائی دے رہا ہے کہ اسے دنیا بھر سے خیرات اور ملک کی غریب عوام کی ہڈیوں، خون اور پسینے سے ٹیکس اور منافع نچوڑنے ، بین الاقوامی سفارتی دباؤ کو زائل کرنے اور تحریکوں کو کچلنے کے لئے درکار جبر کو ملکی سالمیت کے لئے عین جمہوری تقاضے کا لبادہ پہنانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ ایسی خجالت ہے جو کعبے کے طواف کر کے بھی مٹائی نہیں جا سکتی۔ اس لیے کسی بھی قسم کے تنازعے کی صورت میں یہ تناؤ کسی بھی وقت پھٹ کر سطح پر اپنا اظہار کر سکتا ہے۔ اس قسم کی صورتحال کا تناظر صرف داخلی عناصر ہی نہیں بلکہ خطے کی مسلسل بدلتی اور پیچیدہ ہوتی ہوئی سفارتی کشمکش پر بھی منحصر ہے۔

 

اس وقت ریاستی بحران اور رسہ کشی کا سب سے بڑا اکھاڑہ پارلیمان بنا ہوا ہے۔ قومی اسمبلی کے گزشتہ کئی اجلاس مسلسل ہنگامہ آرائی کی نذر ہو رہے ہیں۔ چیئرمین نیب کے جنسی سکینڈل کا معاملہ ہو یا سانحۂ وزیرستان، حکومت اور اپوزیشن میں آج کل خوب ٹھنی ہوئی ہے۔ سانحۂ وزیرستان اس لئے بھی پارلیمان کے لئے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس واقعے میں قومی اسمبلی کے دو ممبران علی وزیر اور محسن داوڑ نہ صرف خود فریق ہیں بلکہ دونوں اس وقت زیرحراست بھی ہیں۔ پی ٹی ایم کے دونوں ایم این ایز چونکہ وزیرستان سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے وہ خود فوجی جبر کے خلاف شمالی وزیرستان میں ایک عوامی احتجاج میں شمولیت کے لیے جا رہے تھے جب انہیں ایک فوجی چوکی پر روکا گیا اور یہ تباہ کن سانحہ رونما ہوا۔ آئی ایس پی آر کے موقف کے مطابق محسن داوڑ اور علی وزیر کی قیادت میں جلوس نے فوجی چوکی پر حملہ کیا اور پاک فوج کی جوابی کارروائی میں تین حملہ آور ہلاک اور تیس زخمی ہوئے۔ علی وزیر کو موقع سے ہی گرفتار کر لیا گیا تھا جبکہ محسن داوڑ نے چند روز کے بعد خود کو بنوں پولیس کے حوالے کر دیا۔ ایسی بہت سی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو چکی ہیں جن سے مذکورہ بالا کہانی سراسر بے بنیاد ثابت ہو چکی ہے اور صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے بلا اشتعال نہتے مظاہرین پر گولیاں برسائیں۔ خود حکومتی رپورٹس کے مطابق شہدا کی تعداد درجن سے تجاوز کر چکی ہے اور مزید بہت سے زخمی بھی تشویشناک حالت میں ہیں۔ اس صورتحال میں ریاست دونوں ممبران اسمبلی کو غدار قرار دینے پر تلی ہوئی ہے اور ان پر دہشت گردی کی دفعات کے تحت مقدمات درج کر لئے گئے ہیں۔ ریاستی حکام کی روش نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ خود اپنے ہی قانون اور آئین اور عدالتوں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لیتے۔ آئین کی رو سے کسی بھی اسمبلی ممبر کو سپیکر کی پیشگی اجازت اور اطلاع کے بغیر گرفتار نہیں کیا جا سکتا۔ اور گرفتاری کی صورت میں بھی انہیں پارلیمان کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا حق ملنا چاہیے۔ مگر مذکورہ معاملے میں کسی بھی آئینی تقاضے کو بروئے کار لانے کی زحمت گوارہ نہیں کی گئی۔ اس آئینی روگردانی کے خلاف اپوزیشن نے پہلے دن ہی صدائے احتجاج بلند کی۔ نون لیگ نے قدرے بیدلی سے جبکہ پیپلزپارٹی نے کافی جوش و خروش سے اس مدعے کو اٹھایا ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے دونوں ممبران اسمبلی کے پروڈکشن آرڈر کے اجرا کے لئے سپیکر قومی اسمبلی کو ایک خط بھی لکھا۔ مگر قومی اسمبلی کے اجلاس میں سپیکر صاحب مسلسل غیر حاضر ہیں جن کی غیر حاضری اس معاملے میں ان کی ترجیحات کے سامنے واضح سوالیہ نشان ہے۔ ڈپٹی سپیکر نے اس قسم کے کسی بھی خط سے قطعی لاعلمی کا اظہار کر دیا اور وزیر پارلیمانی امور علی محمد خان نے ایوان میں علی وزیر اور محسن داوڑ کے خلاف دھواں دار تقریر کر ڈالی جس پر اپوزیشن ارکان اسمبلی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اشتعال میں آ گئے اور انہوں نے سپیکر کے سامنے جمع ہو کر بھرپور نعرے بازی اور احتجاج کیا۔ اپوزیشن کا یہ اقدام بلاشبہ قابل ستائش ہے اور مارکسی اس طرح کے ہر جمہوری مطالبے اور تحریک کی حمایت کرتے ہیں۔ ساتھ ہی یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اپوزیشن کے اس جمہوری اور مزاحمتی رویے کے محرکات کیا ہیں اور خاص طور پر پی ٹی ایم کی قیادت کے حق میں بھرپور آواز اٹھانے کی وجوہات کیا ہیں۔ ان محرکات اور وجوہات کا ادراک اس لئے بھی ضروری ہے تاکہ اپوزیشن کے مستقبل اور پی ٹی ایم کی تحریک کا بھی درست تناظر تخلیق کیا جا سکے۔

 

سب سے پہلے تو اس نقطے کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ اس وقت اپوزیشن خود غیر معمولی دباؤ اور عتاب کا شکار ہے۔ تین دفعہ اس ملک کا وزیراعظم بننے والا اور اسٹیبلشمنٹ کا سب سے سابقہ سب سے لاڈلا سیاستدان اور مسلم لیگ نون کا قائد نواز شریف کرپشن کے الزامات میں سات سال کی سزا کاٹ رہا ہے جبکہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں سب سے زیادہ بار وزیر اعلیٰ بننے والا اس کا چھوٹا بھائی نون لیگ کا صدر شہبازشریف خود ساختہ جلا وطنی اختیار کیے ہوئے ہے۔ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری سمیت بہت سے لوگ احتساب عدالت میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔ اگرچہ ان سب لوگوں نے بارہا حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا ہے تاکہ ملکی مفاد میں مل کر کام کیا جا سکے مگر ریاست کے داخلی خلفشار کے باعث یہ ممکن نہیں ہو پایا۔ اگرچہ اسٹیبلشمنٹ کے سنجیدہ حلقوں کی طرف سے بھی ذرا لچک کا مظاہرہ ہو چکا ہے مگر موجودہ حکومت کے پاس چونکہ ایسے ممکنات موجود نہیں ہیں کہ وہ الیکشن کیمپین کے دوران کیے گئے بلند بانگ دعوں اور وعدوں میں سے کسی پر بھی عمل کر سکیں تو ایسے میں وہ محض اسی کارڈ پر اکتفا کرنے پر مجبور ہیں کہ ہمیں چونکہ مینڈیٹ ہی کرپشن کے خاتمے اور ان کرپٹ لیڈروں کو سزا دلوانے کا ملا ہے لہٰذا ہم ان کو کسی صورت این آر او نہیں دے سکتے۔ تحریک انصاف کے بہت سے کارکنان آج بھی اسے عمران خان کا اصولی موقف قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ اس کی سب سے بڑی مجبوری ہے۔ جہاں تک اصولوں کا تعلق ہے تو اس نے ایم کیو ایم کے خلاف بھی کوئی کم گندی زبان استعمال نہیں کی تھی مگر آج وہ اس کے سب سے زیادہ قریبی اتحادی ہیں۔ این آر او والے معاملے پر حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کا تناؤ آنے والے دنوں میں پھر شدت اختیار کر سکتا ہے۔ اپوزیشن بھی اس قسم کے مزاحمتی رویے سے اسٹیبلشمنٹ کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ یہ حکومت ناکام ہو چکی ہے اور ہم معیشت اور سفارتکاری کو بھی اس سے بہت بہتر چلا سکتے ہیں لہٰذا عقل و فہم کا تقاضا یہی ہے کہ ملکی بحران کے ان نازک حالات میں ان گھاگھ اور تجربہ کار لوگوں سے  ہی استفادہ حاصل کیا جائے۔ اسٹیبلشمنٹ اس معاملے پر منقسم دکھائی دیتی ہے۔ کچھ لوگ حکومتی کارکردگی سے پہلے ہی مایوس ہو چکے ہیں جبکہ مقابل میں موجود لوگوں کا خیال ہے کہ اپوزیشن پر زیادہ اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے خیال میں اپوزیشن کے مغربی دنیا اور بالخصوص امریکہ سے گہرے روابط استوار ہیں جبکہ خطے میں مسلسل بدلتی ہوئی صورتحال میں وہ سیاست، صحافت اور ریاست میں سے ان تمام عناصر کا قلع قمع کر دینا چاہتے ہیں جو آج بھی امریکہ کے زیراثر ہیں۔ حال ہی میں چند ریٹائرڈ سینئر فوجی افسران کو سزائے موت اور عمر قید جیسی سزائیں سنا کر بھی یہی پیغام دیا گیا ہے کہ کسی بھی مغربی مداخلت کو کسی بھی صورت میں برداشت نہیں کیا جائے گا۔ حالانکہ ان فوجی افسران کی طرح جن کو سزائیں سنائی گئی ہیں، سزائیں دینے والوں کی بھی اولادیں اور جائیدادیں مغربی ممالک میں ہی ہیں۔ یوں یہ اس نام نہاد آزادانہ سامراجی پالیسی کی بھی اپنی حدود ہیں اور فوجی اشرافیہ کو ایسی سیاسی قیادت کی ضرورت بھی ہے جو حسبِ ضرورت مغربی دنیا سے تعلقات کی بحالی کے لئے بھی مستعمل ہو۔ ایسی صورتحال اپوزیشن کی جماعتوں کے لئے اس وجہ سے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ وہ نہ صرف ان مقدمات سے سرخرو ہو کر نکلنا چاہتے ہیں بلکہ دوبارہ جلد سے جلد اقتدار کا حصول بھی ان کی ضرورت ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں کی غیر نظریاتی سیاست نے تمام پارٹیوں کی ایسی حالت کر دی ہے کہ وہ زیادہ دیر تک بالکل ویسے ہی طاقت اور اقتدار کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے جیسے مچھلی پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہی اپوزیشن کی پارٹیاں اگر اس وقت اقتدار میں ہوتیں تو ان کا سانحۂ وزیرستان پر کیا موقف ہوتا؟ اس کا موثر جواب تو اپوزیشن کی سب سے بڑی پارٹی نون لیگ کی مرکزی قائد مریم نواز خود دے چکی ہیں۔ محترمہ نے وزیر اعظم عمران خان پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وزیر اعظم صاحب نے ایسے وقت میں فوجی سپاہیوں اور قیادت کو تنہا چھوڑ دیا ہے جب ان پر گولیاں چل رہی ہیں۔ محترمہ نے اسٹیبلشمنٹ کو یہ بھی یاد دہانی کرائی کہ نواز شریف نے ماضی میں فوجی آپریشن کے دوران کس طرح نوازشریف نے ساری قوم کو فوج کے حق میں متحد کر لیا تھا۔ اس قسم کے بیان سے لامحالہ طور پر ان لیفٹ لبرلز کی شدید دل آزاری ہوئی جو نواز شریف کو چی گویرا ثابت کرنے میں ناکامی کے بعد ثابت قدمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مریم نواز کو روزا لکسمبرگ ثابت کرنے پر مصر تھے۔ ہاں البتہ اس بحران کے حالیہ مرحلے میں بلاول بھٹو زرداری نے ان لبرلز کی خوب لاج رکھ لی ہے اور بظاہر وہ ابھی تک پی ٹی ایم کے ایم این ایز کے پروڈکشن آرڈر کے اجرا کے لئے ڈٹا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ اگر پیپلزپارٹی اقتدار میں ہوتی تو کیا بلاول کا رویہ عمران خان سے بہت زیادہ مختلف ہوتا؟ یاد رہے کہ عمران خان خود بھی ابھی تک سانحۂ وزیرستان پر کھل کر منظر عام پر آ کر اسٹیبلشمنٹ کے حق میں نہیں بولا ہے۔ کیا بلاول استعفیٰ دے کر اپوزیشن میں چلا جاتا؟ اس کا جواب  لبرلز سے انتہائی معذرت کے ساتھ نفی میں ہے۔ اس کو سمجھنے کے لئے صرف پیپلزپارٹی کی اپنی تاریخ پر ہی طائرانہ نظر ڈال لینا کافی ہوگا۔ یاد رہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو خود سیکولر اور لبرل خاتون تھیں اور بلاول بھٹو زرداری سے کہیں زیادہ سمجھدار اور تجربہ کار بھی تھیں، مگر وہ اپنے دورحکومت میں طالبان کی تخلیق اور دیگر ریاستی جرائم کے خلاف کسی بھی قسم کی مزاحمت نہیں کر سکی تھیں جبکہ اس نے اپوزیشن میں کئی لانگ مارچ اور احتجاج کیے تھے۔ یہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ اس وقت بھی اپوزیشن پارٹیوں  میں پیپلزپارٹی کا سب سے قریبی اتحادی مولانا فضل الرحمٰن ہے جو طالبان کے روحانی سرپرستوں میں سے ایک ہے۔ ایسے میں یہ کسی صورت بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس وقت پی ٹی ایم کا واضح موقف ہے کہ ریاستی ادارے ایک دفعہ پھر طالبان کو از سرنو منظم کر کے پشتونوں کی سر زمین کو دوبارہ پھر اپنی گریٹ گیم کی بھینٹ چڑھانا چاہتے ہیں۔ اور پی ٹی ایم اسی لئے زیرِعتاب ہے کیونکہ وہ اس گیم میں سب سے بڑی عملی رکاوٹ ہے۔ یہاں یہ صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ بلاول کا حالیہ موقف کسی نظریاتی یا اصولی پالیسی کا تسلسل نہیں بلکہ کسی گہری اور ناگزیر ضرورت کا عکاس ہے۔ ایک تو عوام پر شدید معاشی حملوں کے باعث پیپلزپارٹی پر دباؤ ہے کہ وہ ان معاشی پالیسیوں کے خلاف کوئی تحریک چلائے جس کا عید کے بعد بلاول نے اعلان بھی کیا ہے۔ اعلانات اپنی جگہ مگر پیپلزپارٹی ان معاشی پالیسیوں کے خلاف کسی بھی تحریک سے حتی الامکان گریز کرنے کی کوشش کرے گی۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اقتدار میں آنے کے بعد انہیں بھی ماضی کی طرح انہی پالیسیوں کو نسبتاً مختلف شکل میں عملی جامہ پہنانا ہوگا۔ انہیں یہ بھی علم ہے کہ اس وقت ان سسکتے ہوئے مسائل پر کوئی بھی تحریک مشتعل ہو کر بے قابو بھی ہو سکتی ہے۔ اسی لیے وہ آئینی ترامیم، سندھ کے حقوق وغیرہ کے گرد زیادہ نعرے بازی کرتے رہے ہیں۔ مگر ان نعروں کے گرد وہ اس درجے کا سیاسی پاور شو بھی نہیں کر پائے جو ریاستی چپقلش میں اپنے دفاع کے لیے ان کو درکار تھا۔ یوں اب پی ٹی ایم اس وقت ملک کی وہ واحد سیاسی قوت ہے جسے اپنے خطے میں عوام کی وسیع تر پرتوں کی حمایت حاصل ہے۔ پیپلزپارٹی اس عوامی حمایت کو اپنی ڈھال بنا سکتی ہے۔ خاص طور پر یہ پالیسی اس لیے بھی کارآمد ہے کہ اس وقت پی ٹی ایم کے عمومی مطالبات کی حمایت کرنے اور پشتون عوام کے سامنے کسی بھی قسم کی جوابدہی کے بغیر محض گرفتار شدگان کے پروڈکشن آرڈرز کے مطالبے کے گرد حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کےبنائے گئے مقدمات کے خلاف جوابی حملہ کیا جا سکتا ہے اور اس سے پنجاب اور پشتونخواہ کے درمیانے طبقے کی ترقی پسند پرتوں کی بھی حمایت جیتی جا سکتی ہے جہاں پارٹی عملاً مکمل طور پر ناپید ہو چکی تھی۔

 

پی ٹی ایم کی تحریک کے لئے بھی سانحۂ وزیرستان ایک انتہائی اہم موڑ ہے۔ یہ ایک ایسی تحریک کو جبر اور موت کے خوف سے دبانے کی کوشش ہے جس کا آغاز ہی جبر، دربدری اور موت کے خوف کے انتہاؤں تک پہنچ کر زائل ہو جانے کی وجہ سے ہوا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس طرح کی تحریکیں کبھی بھی ننگے جبر کے ذریعے ختم نہیں کی جا سکتیں۔ اگر وقتی طور پر تحریک میں کوئی ٹھہراؤ آئے بھی تو تھوڑے سے توقف کے بعد تحریک پہلے سے زیادہ شدت سے ابھرتی ہے۔ ہم پی ٹی ایم کے معاملے میں یہ بار بار دیکھ چکے ہیں۔ جب بھی تحریک اکتاہٹ اور یکسانیت کا شکار ہونے لگتی ہے تو ریاست کی طرف سے پھر کوئی ایسا اقدام سامنے آتا ہے جو تحریک کو پھر شدت بخشتا ہے۔ حالیہ واقعات کے بعد ایسے قبائلی علاقوں، دیہاتوں اور تحصیلوں کی سطح تک احتجاج دیکھنے میں آئے جہاں پہلے پی ٹی ایم کا محض نام ہی جانا جاتا تھا۔ مگر ساتھ ہی تحریک کی جو ناکامی رہی وہ پھر کراچی، پشاور اور پشتون آبادی کے دیگر اہم شہروں سے خاطر خواہ سیاسی رسپانس حاصل نہ کر سکنا ہے۔ قبائلی علاقوں میں تحریک کی بڑھوتری کے باوجود شہری نوجوانوں میں سیاسی اثرو رسوخ میں عدم بڑھوتری ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ اسی کمزوری کے باعث پی ٹی ایم پیپلز پارٹی اور ن لیگ جیسی عوام دشمن پارٹیوں کے رحم و کرم پر ہے اور ان کی حمایت کی طلبگار بھی ہے۔ اصل میں تحریک کی سب سے بڑی خامی کسی بھی واضح سیاسی پروگرام، نظریئے اور لائحہ عمل کی عدم موجودگی ہے جو شہری نوجوانوں کی توجہ کا مرکز بننے کی اولین شرط ہے۔ اور یہی پشتون شہری آبادی پھر باقی ماندہ خطے اور قوموں کے ساتھ تحریک کو جوڑنے میں ایک پل کا کام سرانجام دے گی۔ اس وقت تک تحریک کی قیادت مظلومیت کا کارڈ استعمال کر رہی ہے اور ساتھ ہی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک کو جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن مظلومیت اور جرأت خود کوئی نظریہ نہیں ہیں اور نہ ہی سیاسی پروگرام کا متبادل ہو سکتے ہیں۔ خاص طور پر تحریک کی نچلی صفوں میں ننگے جبر کا سامنا کرنے کے باعث مہم جوئی کے رجحانات غالب آ سکتے ہیں۔ ایسی کسی بھی مہم جوئی کی صورت میں تحریک کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ دوسری طرف اب فاٹا کے پختونخواہ میں انضمام کے بعد قومی اور صوبائی اسمبلی کی فاٹا سے نشستوں کے لئے انتخابات بھی ہونے جا رہے ہیں۔ ایسے میں پارلیمانی سیاست کا سوال ایک دفعہ پھر زیربحث آئے گا اور اس بار قیادت کے لئے غیر پارلیمانیت کے اصول پر غیر متزلزل رہنا اتنا آسان نہیں ہوگا۔ تحریک کے مخالفین خود بھی اس بات سے خوفزدہ ہیں اور پی ٹی ایم پر پابندی لگانے کے لئے بھی درخواست دائر کر دی گئی ہے۔ پی ٹی ایم اگر ایک جماعت کے طور پر انتخابات میں حصہ لیتی ہے تو قومی اسمبلی کی بارہ اور صوبائی اسمبلی کی تیس نشستوں میں سے زیادہ تر نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔ اسی سے مخالفین خوفزدہ ہیں اور شاید انضمام کے فیصلے پر پچھتا بھی رہے ہیں۔ پیپلزپارٹی سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں کی بھی اب ان قبائلی علاقوں میں مسلسل بڑھتی ہوئی دلچسپی کی ایک بنیادی وجہ یہ نشستیں بھی ہیں جو آئندہ بالخصوص صوبائی حکومت کی تشکیل میں کلیدی کردار ادا کریں گی۔ مارکس وادیوں سے یہ سوال پوچھا جاتا ہے کہ وہ موجودہ بحران کی کیفیت میں کہاں کھڑے ہیں؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم نہ صرف پشتونوں بلکہ تمام دیگر اقوام کے تمام تر جمہوری اور آئینی مطالبات کی اس وقت تک بھرپور حمایت کرتے ہیں جب تک وہ پر امن ہے۔مسلح جدوجہد تحریک کے لیے زہر قاتل ثابت ہوگی اور ہم قطعی اس غلط طریقہ کار کی حمایت نہیں کرتے مگر تحریک کے بنیادی جمہوری مطالبات کی حمایت جاری رکھیں گے۔ ساتھ ہی ہم یہ بھی واضح کر دینا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ نہ صرف پشتون بلکہ ملک بھر کے محنت کش طبقات کی بھرپور عملی شرکت کے بغیر کسی بھی تحریک کو کامیاب بنانا ممکن نہیں ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ حالات کے جبر کے نتیجے میں جب اور جہاں مظلوم اقوام اور عوام کے جمہوری حقوق کے دفاع کے لیے کوئی تحریک بنے گی تو ان کے جمہوری مطالبات اور تحریک کی حمایت اور اپنے واضح طبقاتی نقطہ نظر اور سوشلسٹ پروگرام کے ساتھ اس میں شمولیت مارکس وادیوں کی ذمہ داری ہو گی تاکہ جب حسب دستور یہ لبرل اپنی نامیاتی ساخت اور طبقاتی ترکیب کے باعث تحریک کی طرف پشت کریں تو تحریک کے ہراول دستے کا ہاتھ تھام کر نظام کے خلاف حتمی لڑائی کو جاری رکھا جا سکے۔ یہ صاف ظاہر ہے کہ بلاول یا کوئی بھی لبرل پارٹی یا لیڈر نظام کی حدود میں ہی آئینی اصلاحات تک خود کو محدود کرنے پر مجبور ہو گا۔ اور اس نظام میں اقتدار کے حصول کے بعد اس طبقاتی جبر کو جاری رکھنے کے لیے اسے بھی اس ریاستی مشینری کی ویسے ہی ضرورت پڑے گی جیسے اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ذوالفقار علی بھٹو کو اس شکست خوردہ ریاست میں نئی روح پھونکنے کی ضرورت پڑی تھی۔ اب بحران اس نہج پر پہنچ چکا ہے جہاں نظام کو قائم رکھنے کے لیے اعجاز شاہ جیسے یا اس سے بھی زیادہ جابر حکومتی نمائندے ہی درکار ہوں گے۔ بہرحال یہ بحرانات عوام کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ ایسے میں نظام کے خلاف کسی بھی تحریک کی چنگاری سارے نظام کو جلا کر خاکستر بھی کر سکتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اس نظام کے ملبے پر نئے اور حقیقی انسانی سماج کی تعمیر کرنے والے معمار اپنے تاریخی فرائض کی ادائیگی کے لئے کب تیار ہوتے ہیں۔

Comments are closed.