اسلام آباد: سول ایوی ایشن کی نجکاری نامنظور! ملازمین سراپا احتجاج!

|رپورٹ: مرکزی بیورو، ریڈ ورکرز فرنٹ|

سول ایوی ایشن کی نجکاری کیخلاف اسلام آباد ائیر پورٹ پر ملازمین کے احتجاج کا ایک منظر۔ فوٹو ڈان

سول ایوی ایشن اتھارٹی کی دوحصوں میں تقسیم اور نجکاری کے خلاف اتھارٹی کے ملازمین پورے پاکستان میں سراپا احتجاج ہیں۔ کراچی طیارہ حادثے کے بعد سے تبدیلی سرکار نے پی آئی اے کے ساتھ ساتھ سول ایوی ایشن اتھارٹی کے حصے بخرے اور نجکاری کے لیے کوششوں کو تیز کرد یا ہے جس کیخلاف سول ایوی ایشن ملازمین میں شدید بے چینی اور غم وغصہ پایا جاتا ہے۔ تبدیلی سرکار کے اس مزدور دشمن فیصلے کے خلاف سب سے پہلے سول ایوی ایشن کراچی کے محنت کش حرکت میں آئے اور 25 جون کو کراچی ائیر پورٹ پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا اور حکومت کے اس فیصلے کو رد کرتے ہوئے اس کو واپس لینے کا مطالبہ کیا۔

تبدیلی سرکار نے اگست 2020ء میں ادارے کو ائر پورٹس سروسز آف پاکستان (ASP) اور ریگولیٹری اتھارٹی میں تقسیم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اول الذکر کا کام تمام ملکی ائر پورٹس پر سروسز فراہم کرنا ہو گا جس میں نجی شعبے کے ساتھ اشتراک کیا جائے گا جبکہ بعد الذکر ادارہ سیفٹی، سیکورٹی اور لائسنسنگ سے متعلق ہو گا۔ یاد رہے کہ یہ تمام کام اس وقت یہ ایک ادارہ سرانجام دے رہا ہے۔

چند روز قبل، 8 جولائی بروز بدھ کو سول ایوی ایشن کے حصے بخرے اور نجکاری کے خلاف اسلام آباد ائیر پورٹ پر بھرپور احتجاج کیا گیا۔ احتجاج میں سینکڑوں ملازمین نے شرکت کی۔ مزید برآں، اس احتجاج میں ایوی ایشن ملازمین کے ساتھ ساتھ دیگر ٹریڈ یونینز کے وفود نے بھی شرکت کی اور ایوی ایشن ملازمین کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا جو کہ ایک خوش آئند عمل ہے۔

سول ایوی ایشن کو توڑنا پی آئی اے کی نجکاری کی کوششوں کا ہی تسلسل ہے جس کے تحت بڑے پیمانے پر برطرفیاں بھی کی جا رہی ہیں۔ وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی، ترقی، اصلاحات اور خصوصی اقدامات اسد عمر کئی دفعہ برملا اظہار کر چکا ہے کہ پی آئی اے اور دیگر منسلک اداروں کے بنیادی آپریشنز کو نجی شعبے کی مدد سے چلایا جائے جبکہ دیگر شعبہ جات کو نجی سیکٹر کے حوالے کر دیا جائے۔ اس کی بنیادی وجہ اداروں کی کمزور پرفارمنس، خسارے اور ملازمین کا بوجھ بتائے جاتے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا جاتا کہ ان حوالوں سے فیصلہ سازی میں ملازمین کا کوئی عمل دخل موجود نہیں۔ اصل مسئلہ سول ایوی ایشن کی کارکردگی نہیں ہے جسے عالمی سطح پر کئی مرتبہ سراہا گیا ہے بلکہ اصل مقصد اس اتھارٹی کے کنٹرول میں وہ تمام منافع بخش آپریشنز اور کھربوں روپوں کی گراں قدر زمینیں ہیں جن پر ریاست، سرمایہ دار اور پراپرٹی ڈیلر عرصہ دراز سے نظریں جمائے بیٹھے ہیں۔ ایک طرف مسافروں کے لئے تمام سہولیات مہنگی کر دی جائیں گی اور دوسری طرف گراں قدر زمینوں کو کوڑیوں کے مول بیچ کر سوسائٹیاں، پلازے، شاپنگ مال اور تفریحی مقامات بنائے جائیں گے۔ دہائیوں کی ان تھک محنت، مزدوروں کے خون پسینے اور عوامی ٹیکسوں سے تعمیر کردہ اداروں کی نجکاری اور لوٹ مار کا عمل تیزی سے جاری ہے جس پر کوئی سیاسی قیادت یا تنظیم بات کرنے کو تیار نہیں۔ تمام صوبائی حکومتیں اپنے اپنے صوبوں میں ایوی ایشن کے انفراسٹرکچر پر گدھوں کی مانند نظریں جمائے بیٹھے ہیں جبکہ ریاست حصہ وصولی کے لئے مکمل تعاون فراہم کر رہی ہے۔ انصاف حکومت کے ساتھ ساتھ، تمام سیاسی، مذہبی اور دیگر جماعتیں آئی ایم ایف کے مسلط کردہ نجکاری کے حملوں کی حمایتی ہیں۔ نام نہاد اپوزیشن اپنے دور حکومت میں اسی نجکاری کی پالیسی کے تسلسل کو جاری رکھے ہوئے تھیں۔ اس وقت افق پر موجود کوئی ایک بھی سیاسی جماعت نجکاری کے خلاف کوئی بات کرنے کی جرات نہیں کر سکتی۔ ایک یا دوسری شکل میں تمام تر پارٹیاں، پارلیمنٹ اور عدلیہ سمیت تمام تر ریاستی ادارے نجکاری کے لیے ایک پیج پر اکٹھے ہیں۔اس کے ساتھ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل بھی تیز تر ہو چکا ہے۔

نجکاری کے اس حملے کے خلاف جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ گہرے ہوتے معاشی بحران اور آئی ایم ایف کے سامراجی ادارے کی مسلط کردہ مزدور دشمن پالیسیوں پر عملدر آمد کے لیے حکمران طبقہ ہر حد تک جانے کو تیار ہے اور اس کا مقابلہ مزدور جڑت سے ہی کیا جاسکتا ہے۔ایوی ایشن اور ائر لائن کے تمام ملازمین کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر دیگر نجکاری کے نشانے پر موجود قومی اداروں کے مزدوروں کے ساتھ متحد ہو کر ان خوفناک حملوں کے خلاف ایک ملک گیر جدوجہد منظم کرنا پڑے گی کیونکہ یہ صرف ملازمین ہی نہیں بلکہ ان کے خاندانوں کی بقاء کا بھی سوال ہے۔ ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو کر صرف ایک ملک گیر عام ہڑتال ہی ریاست کے تمام مزدور دشمن نجکاری اور لوٹ کھسوٹ کے منصوبوں کو نیست و نابود کر سکتی ہے۔

Comments are closed.