روزا لکسمبرگ اور کارل لیبنیخت: دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم!

|تحریر: میری فریڈرکسن، ترجمہ: اختر منیر|

نومبر 1918ء کے جرمن انقلاب نے کروڑوں لوگوں کو اپنے حصار میں لیاجن کی اکثریت کا پہلے کبھی کوئی سیاسی ماضی نہیں رہا تھا۔ بالکل روس کی طرح وہ لوگ جو نئے نئے سیاسی میدان میں داخل ہوئے انہوں نے انہی پارٹیوں کا رخ کیا جنہیں وہ پہلے سے جانتے تھے۔ فروری کے بعد روس میں اقتدار منشویکوں اور سوشل ریولوشنریز (SRs) کے پاس چلا گیا۔ جرمنی میں عوام نے سوشل ڈیموکریٹک پارٹی(SPD) سے آغاز کیا اور کچھ حد تک انڈپینڈنٹ سوشل ڈیموکریٹس (USPD) کا بھی رخ کیا۔ عوام کی اکثریت عملی تجربے سے ہی یہ بات جان سکتی تھی کہ ان کی مشکلات کا حل نہ SPD کے پاس ہے اور نہ ہی USPD کے پاس۔

ایک انقلاب عوامی شعور میں تیزی سے تبدیلیاں لے کر آتا ہے، مگر تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انہیں قیادت کے لیے ایک انقلابی پارٹی درکار ہوتی ہے۔ لکسمبرگ کو ایک مشکل کام درپیش تھا۔ جس شے کو تعمیر کرنے میں بالشویکوں کو دو دہائیاں لگی تھیں، اسی شے کو وہ چند ماہ میں تعمیر کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ انقلاب کے دوران ایک انقلابی تنظیم تعمیر کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے۔ بہرحال اسے یہ کام درپیش تھا۔

لکسمبرگ اس معاملے میں شکوک و شبہات کا شکار تھی کہ ایک نئی پارٹی تعمیر کرنی چاہیے یا نہیں اور لیو جوگچز قطعی طور پر اس خیال کے مخالف تھا۔ بالآخر لکسمبرگ اس کام کے لیے تیار ہو گئی۔ لیکن اب بھی وہ پارٹی کو کمیونسٹ کہلانے کی مخالف تھی۔ اس کے خیال میں پارٹی کو سوشلسٹ کہنا زیادہ مناسب تھا کیونکہ اس طرح دوسری انٹرنیشنل میں شامل سوشلسٹ پارٹیوں کے ممبران کو جیتنا زیادہ آسان تھا۔ اسے اس بات کا خوف تھا کہ کمیونسٹ پارٹی کا نام نئی پارٹی کو روس سے منسلک کر دے گا اور اس طرح لوگ ڈر کر دور ہو جائیں گے۔ وہ ابھی تک پرانی انٹرنیشنل کے ممبران کو لے کر انتہائی محتاط تھی اور اس کا رجحان بھی انہی کی جانب تھا، مگر لینن کا خیال تھا کہ ہر قسم کے انتہا پسند سماجی نظریات سے کنارہ کرنے کے لیے خود کو کمیونسٹ پکارنا سب سے بہتر ہے۔ لکسمبرگ کی تجویز کو سپارٹے سسٹس کی قیادت زینٹریل نے رائے شماری میں مسترد کر دیا اور فیصلہ کیا کہ پارٹی کو کمیونسٹ کہہ کر پکارا جائے گا۔ 29 دسمبر 1918ء کو سپارٹے سسٹوں نے رائے شماری میں 3 کے مقابلے میں 80 ووٹوں سے یہ فیصلہ کیا کہ USPD کو چھوڑ کر ایک آزاد پارٹی بنا لی جائے۔

اگلے دن 30 دسمبر 1918ء کو سپارٹے سسٹوں، فری سوشلسٹ یوتھ آرگنائزیشن اور انٹرنیشنل کمیونسٹ (IDK) کے 129 مندوبین نے مل کر جرمن کمیونسٹ پارٹی کی بنیاد رکھی جسے KPD کہا جاتا تھا۔ لیکن سپارٹے سسٹس کا نام بھی چلتا رہا۔

’’ہمارا پروگرام اور سیاسی صورتحال‘‘ میں لکسمبرگ نے پارٹی کا سیاسی پروگرام وضع کیا اور معروضی صورتحال تجزیہ پیش کیا۔ اس نے نئی پارٹی کے مارکس، اینگلز اور ’’کمیونسٹ مینی فیسٹو‘‘ کے ساتھ تعلق کی وضاحت کرتے ہوئے آغاز کیا اور دلائل سے یہ بھی ثابت کیا کہ SPD انحطاط کا شکار ہوچکی ہے اور اس کا ان انقلابی بنیادوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس کے نزدیک SPD کی باقیات کے ساتھ نبٹنے کا وقت آ چکا تھا۔

’’ہمارا پروگرام شعوری طور پر ارفرٹ(Erfurt) پروگرام کے موقف کے خلاف ہے۔ یہ سیاسی اور معاشی جدوجہد کے لیے وضع کیے گئے نام نہادکم از کم مطالبات پر مبنی پروگرام اور سوشلسٹ انقلاب کی منزل(حتمی پروگرام) کی علیحدگی کے شعوری طور پر خلاف ہے۔ اس [ارفرٹ پروگرام کی] شعوری مخالفت میں ہم نے 70 سالہ ارتقاء کے نتائج اور سب سے بڑھ کر عالمی جنگ کے فوری نتائج کا صفایا کردیا ہے۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ ہمارے لیے کوئی کم از کم یا حتمی پروگرام کی (تفریق) نہیں۔ سوشلزم ایک ہی شے ہے۔ یہی وہ ’’کم ازکم‘‘ ہے جس سے ہمیں آج سمجھنے کی ضرورت ہے۔‘‘( ہمارا پروگرام اور سیاسی صورتحال، سیاسی تحاریر، صفحہ نمبر 288)

لکسمبرگ کے خیال میں انقلاب کا پہلا مرحلہ اپنے اختتام کو پہنچ چکا تھا۔ یہ مرحلہ 9 نومبر کو شروع ہوا جب محنت کشوں اور فوجیوں کی کونسلیں نمودار ہوئیں۔ محنت کشوں اور فوجیوں کی کونسلوں نے آگے کا راستہ دکھایا لیکن انقلاب کی کمزوری کے باعث انہوں نے اپنی آدھی طاقت کھو دی۔ پہلا مرحلہ خوش فہمیوں سے عبارت تھا، جو پرولتاریہ اور فوجیوں کو نام نہاد ’’سوشلزم کے پرچم تلے اکٹھے ہونے‘‘ سے متعلق تھیں، بورژوازی سے متعلق اور یہ خیال کہ ایبرٹ۔شایڈمن حکومت محنت کشوں کو فوجیوں کا استعمال کرتے ہوئے دبا کر رکھ سکتی ہے۔یہ غلط فہمیاں دور ہو چکیں تھیں:

’’یہ وہ رنگ برنگی خوش فہمیاں تھیں جن سے موجودہ حالات کی وضاحت کی جا سکتی ہے۔ یہ سب کی سب اب ہوا ہو چکی ہیں۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ ’سوشلزم‘ کے جھنڈے تلے ہاسے اور ایبرٹ۔شایڈمن کا اتحاد ردِانقلابی پالیسی کو چھپانے کے لیے ایک نقاب سے زیادہ اور کچھ نہیں تھا۔‘‘ ( ہمارا پروگرام اور سیاسی صورتحال، سیاسی تحاریر، صفحہ نمبر 292)

لکسمبرگ کے خیال میں خوش فہمیوں کا چھٹ جانا ایک مثبت چیز تھی۔ اس سے ایک نئے مرحلے کی راہ ہموار ہوئی، جہاں حکومت نہ صرف محنت کشوں میں بلکہ پیٹی بورژوازی اور فوجیوں میں بھی تیزی سے اپنی حمایت کھو رہی تھی اور اسی دوران حکومت پر بورژوازی کا اعتماد بھی ختم ہو رہا تھا۔ لکسمبرگ کے خیال میں اگلے مرحلے میں حکومت کو رد انقلاب کی طرف جانا تھا:

’’اگر آپ ان اصحاب کا نیا پروگرام پڑھ کر دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ تیزی سے دوسرے مرحلے کی طرف رواں دواں ہیں، جو اعلانیہ رد انقلاب کا مرحلہ ہے۔ اور میں تو یہاں تک کہوں گی کہ یہ انقلاب سے پہلے کی صورتحال پھر سے نافذ کرنے کے مترادف ہے۔‘‘ ( ہمارا پروگرام اور سیاسی صورتحال، سیاسی تحاریر، صفحہ نمبر 295)

اس سب سے طبقاتی جدوجہد تیز ہی ہونا تھی۔

’’یہ حالات ایبرٹ اور شایڈمن کو آمریت کی طرف جانے پر مجبور کریں گے، اعلانیہ یا غیر اعلانیہ طور پر۔ مگر یہ، پچھلے تمام تر واقعات کے نتیجے میں ان واقعات کی اپنی منطق کے تحت اور ان قوتوں کے عمل کی وجہ سے جو ایبرٹ اور شایڈمن کو چلا رہی ہیں، انقلاب کے دوسرے دور میں مخالف قوتوں کی جانب سے زیادہ شدید مخالفت اور شدید ترین طبقاتی جدوجہد کا باعث بنے گا۔ تصادم کی شدت میں مزید اضافہ ہو گا۔ یہ صرف ان سیاسی اثرات کی وجہ سے نہیں ہو گا جن کا میں نے پہلے ذکر کیا ہے کہ تمام خوش فہمیوں کا خاتمہ ہوجائے گا اور انقلاب اور ردِ انقلاب کے درمیان دست بدست لڑائی ہو گی، بلکہ اس لیے کہ مجموعی صورتحال سے ایک نئی آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں، معاشی جدوجہد کے شعلے۔‘‘ ( ہمارا پروگرام اور سیاسی صورتحال، سیاسی تحاریر، صفحہ نمبر 296)

کمیونسٹ پارٹی کی تاسیسی کانگریس میں تقریر کرتے ہوئے لکسمبرگ نے حتی الامکان یہ باور کروانے کی کوشش کی کہ فتح آسان نہیں ہو گی۔ وہ بڑھتی ہوئی رد انقلابی مخالف قوتوں کے بارے میں بالکل درست تھی۔ اس نے نوجوان کمیونسٹوں میں آگے آنے والی مشکلات سے متعلق حقیقت پسندانہ رویہ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ پرانے حکمران طبقے نے ریاستی طاقت اور SPD کی مدد سے انقلاب کا خاتمہ کرنے کے لیے پورا زور لگانا تھا۔ مگر کمیونسٹوں کا عوام میں اثر و رسوخ ناکافی تھا۔ قصبوں کے محنت کش شاید انقلابی نتائج پر پہنچ چکے تھے لیکن دیہی علاقوں میں ابھی انقلاب کا آغاز نہیں ہوا تھا۔

’’میری وضاحت کے بعد یہ عمل جیسا شروع میں لگ رہا تھا اس کی نسبت کافی مشکل لگ رہا ہو گا۔ میرے خیال میں یہ اچھی بات ہے کہ ہم انقلاب کی تمام تر مشکلات اور پیچیدگیوں سے مکمل طور پر آگاہ ہوں۔ کیونکہ میں سمجھتی ہوں کہ ہمارے فریضے کے رستے میں آنے والی مشکلات سے نہ ہی آپ کا اور میرا حوصلہ کم ہو گا اور نہ ہی طاقت، اس کے برعکس یہ جتنا بڑا فریضہ ہے ہم اتنا ہی زیادہ اپنی قوتوں کو مجتمع کریں گے۔ اور ہمیں یہ ہر گز نہیں بھولنا چاہیے کہ انقلاب اپنا کام غیر معمولی رفتار سے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ میں یہ پیش گوئی کرنے کی کوشش نہیں کرتی کہ اس کام میں ہمیں کتنا وقت لگے گا۔ ہم میں سے جو بھی وقت کے بارے میں فکر مند ہے اور پریشان ہے وہ یہ جان لے کہ اس کام میں اتنا ہی وقت لگے گا کہ ہماری زندگیاں یہ کام کرنے کے لیے کافی ہیں!‘‘ ( ہمارا پروگرام اور سیاسی صورتحال، سیاسی تحاریر، صفحہ نمبر 308)

انتہائی بائیں بازو کے رجحانات

کمیونسٹ پارٹی کی تاسیسی کانگریس شامل زیادہ تر مندوبین نوجوان تھے۔ تین چوتھائی کی عمر 35 سال سے کم تھی اور محض ایک (لیو جوگچز) 50 سال سے زائد عمر کا تھا۔ آدھے صنعتی مزدور تھے۔ کمیونسٹ پارٹی کے نوجوان ممبران کا رجحان انتہائی بائیں بازو کی طرف تھا۔ فرولخ نے کچھ اس طرح سے ترکیب بیان کی:

’’سپارٹیکس لیگ چند ہزار ممبران کی ایک ڈھیلی ڈھالی تنظیم تھی۔ اس کے کلیدی ارکان کا تعلق سوشل ڈیموکریسی کے پرانے بائیں بازو سے تھا، یہ وہ مارکسی تھے جن کی روزا لکسمبرگ کے عملی خیالات کے سائے تلے تربیت ہوئی تھی۔ سوشلسٹ یوتھ کی اکثریت نے لیگ میں شمولیت اختیار کر لی، جنہوں نے بعد میں نوجوانوں میں سے بہت سارے حمایتیوں کو بھی اپنا حصہ بنایا جو جنگ مخالف موقف کی وجہ سے تحریک کے بائیں بازو کی طرف کھنچے چلے آئے تھے۔ جنگ کے سالوں میں ان تمام عناصر نے مغربی یورپ کے محنت کش طبقے کی تحریک کے لیے نت نئے مسائل اور خطرات پیدا کیے تھے۔ یہ تمام انقلاب کے پر جوش حمایتی تھے مگر ان کی اکثریت انقلاب کے متعلق رومانوی خیالات رکھتی تھی۔‘‘ (فرولخ، روزا لکسمبرگ، صفحہ نمبر 310)

دسمبر 1918ء کے وسط میں جب کارل ریڈک جرمنی پہنچا تو وہ سپارٹے سسٹوں کا انتہائی بائیں بازو کی جانب رجحان دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا:

’’میں نے Rote Fahne اخبار کی ایک کاپی خریدی، ہوٹل تک جاتے ہوئے میں نے اخبار پر ایک نظر دوڑائی۔ میں خوف زدہ ہو کر رہ گیا۔ اخبار کے لہجے سے لگ رہا تھا کہ آخری معرکہ آن پہنچا ہے۔ اس سے زیادہ جلد بازی ممکن نہیں تھی۔ کاش وہ تھوڑا احتیاط سے کام لیتے!۔۔۔
’’قانون ساز اسمبلی پر سوال اٹھا، جو متنازعہ تھی، کہ اسے کس طرح دیکھا جائے۔۔۔ یہ کافی پر کشش خیال تھا کہ قانون ساز اسمبلی کے مقابلے میں کونسلوں کا نعرہ لگایا جائے، مگر کونسلوں کی کانگریس خود قانون ساز اسمبلی کے حق میں تھی۔ اس مرحلے کو پھلانگنا تقریباً ناممکن تھا۔ روزا اور لیبنیخت اس حقیقت سے آشنا تھے۔۔۔ مگر پارٹی کے نوجوان فیصلہ کن طور پر اس کے خلاف تھے کہ ’ہم مشین گنوں سے اسے اڑا دیں گے‘‘۔ (سوویت حکومت سے متعلق بحث میں حوالہ، صفحہ نمبر 159 سے 162)

تاسیسی کانگریس میں ہونے والی بحثوں میں سے ایک قومی اسمبلی کے انتخابات میں شرکت کی بحث تھی۔ پال لیوی نے قیادت کا موقف پیش کیا: جرمن بورژوازی قومی اسمبلی کو SPD کی مدد سے انقلاب کا صفایا کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتی ہے، مگر پھر بھی کمیونسٹوں کو شرکت کرنی چاہیے۔ انتخابات کا مطلب یہ ہو گا کہ عوام کی توجہ کچھ مہینوں تک قومی اسمبلی پر مرکوز ہو گی اور کمیونسٹوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ شرکت کی اس تجویز کی نوجوان مندوبین نے بھرپور مخالفت کی جنہوں نے بار بار لیوی کو ہلڑ بازی کے ذریعے ٹوکا بھی۔

لکسمبرگ بھی قومی اسمبلی کی مذمت کرتی تھی اور اسے محنت کشوں اور فوجیوں کی کونسلوں کے مقابلے میں ایک فریب سمجھتی تھی، مگر اس نے لیوی اور باقی قیادت کے اس موقف کی حمایت کی کہ جب کونسلوں نے قومی اسمبلی کے انتخابات منعقد کروانے کا فیصلہ کر لیا تھا تو اس میں شرکت کرنا اور اس کے ذریعہ کمیونسٹ پارٹی کے پروگرام کو پھیلاتے ہوئے عوام تک پہنچنا ضروری تھا۔

لیکن لکسمبرگ اور باقی قیادت ممبران کی اکثریت کو قائل کرنے میں ناکام رہی کہ یہ درست طریقہ کار ہے۔ رائے شماری میں قیادت کی قومی اسمبلی کے انتخابات میں شرکت کی تجویز کو مسترد کردیا گیا۔ لکسمبرگ نے کانگریس کو جواب میں کہا:

’’ہم ان جذبات کو سمجھتے اور ان کی قدر کرتے ہیں جن کی وجہ سے قیادت کے نقطہ نظر کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ لیکن ہم تہہ دل سے خوش نہیں ہیں۔ کامریڈز! آپ اپنے انقلابی جذبے کو سنجیدہ نہیں لے رہے۔ اپنی تمام تر طوفانی بے صبری کے ساتھ ساتھ ہمیں حالات کے مطابق چلنے کی اہمیت کو نہیں بھولنا چاہیے۔ قانون ساز اسمبلی سے متعلق روس کی مثال یہاں لاگو نہیں ہوتی۔ جب قانون ساز اسمبلی کو فارغ کیا گیا تھا تو ہمارے روسی کامریڈوں کے پاس پہلے ہی ٹراٹسکی اور لینن کی حکومت موجود تھی اور ہمارے سر پر ابھی تک ایبرٹ۔شایڈمن حکومت سوار ہے۔‘‘ (نیٹل کا حوالہ، روزا لکسمبرگ، صفحہ نمبر 474)

سطحی طور پر تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ نوجوان سپارٹے سسٹ روس کی انقلابی مثال کی پیروی کر رہے ہیں: کیا بالشویکوں نے قانون ساز اسمبلی کو تحلیل نہیں کیا تھا؟ فرق یہ تھا، جو لکسمبرگ نے بتایا، کہ بالشویکوں نے ایسا تب کیا جب وہ سوویتوں میں بغاوت کے ذریعے اکثریت حاصل کرچکے تھے اور سوویت کانگریس نے اقتدار حاصل کر لیا تھا۔ جرمنی میں نئے سال کے آغاز پر عوام کی اکثریت ابھی تک SPD اور USPD کی حمایت کر رہی تھی اور قومی اسمبلی کو ایک آگے کے قدم کے طور پر دیکھ رہی تھی۔ کمیونسٹوں کو ابھی محنت کشوں کی اکثریت کی حمایت حاصل کرنا تھی۔ نوجوان سپارٹے سسٹ انہی تجربات سے گزر رہے تھے جن سے بالشویک گزرے تھے۔ لینن نے ان تجربات کا خلاصہ ’بائیں بازو کا کمیونزم‘ میں یوں کیا تھا:

’’بیان کردہ دور (فروری تا اکتوبر 1917ء) کے آغاز میں ہم نے حکومت گرانے کا مطالبہ نہیں کیا، بلکہ اس بات کی وضاحت کی کہ سوویتوں کی ترکیب اور مزاج تبدیل کیے بغیر اسے گرانا ناممکن ہے۔ ہم نے بورژوا پارلیمان کے بائیکاٹ کا اعلان نہیں کیا بلکہ کہا کہ، جو اپریل (1917ء) کی پارٹی کانفرنس کے بعد پارٹی کا باقاعدہ موقف بن گیا، قانون ساز اسمبلی رکھنے والی بورژوا جمہوریہ بغیر قانون ساز اسمبلی کے بورژوا جمہوریہ سے بہتر ہے، مگر محنت کشوں اور کسانوں کی جمہوریہ، ایک سوویت جمہوریہ، کسی بھی بورژوا پارلیمانی جمہوریہ سے کہیں بہتر ہو گی۔ ایسی گہری، محتاط اور لمبی تیاریوں کے بغیر ہم اکتوبر 1917ء میں کبھی بھی کامیابی نہ حاصل کرسکتے یا اس جیت سے فائدہ نہ اٹھا سکتے [۔۔۔] سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ روزا لکسمبرگ اور کارل لیبنیخت جیسے غیر معمولی سیاسی رہنماؤں کے برعکس جرمن ’بایاں بازو‘ جنوری 1919ء میں بھی پارلیمان کو ’سیاسی طور پر متروک‘ سمجھ رہے تھے۔ ہمیں جانتے ہیں کہ ’بایاں بازو‘ غلطی پر تھا۔‘‘ ( لینن، بائیں بازو کا کمیونزم: ایک طفلانہ بیماری، صفحہ نمبر 21 اور 46)

کمیونسٹوں کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا مطلب خود کو عوام سے جدا کرنا تھا، جنہوں نے انتخابات کی حمایت کی اور اس میں حصہ بھی لیا، اور ایسا ہر کسی کو ووٹ کے حق کی وجہ سے تھا۔ کمیونسٹوں نے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور اسی دوران 83 فیصد آبادی نے انتخابات میں حصہ لیا جو جرمنی کی تاریخ میں سب سے زیادہ تھا۔ اس تجربے کے باوجود کمیونسٹ پارٹی کے ایک دھڑے نے اس موقف کو برقرار رکھا۔ لینن نے انہیں جواب دیا:

’’کوئی کیسے کہہ سکتا ہے کہ پارلیمانی سیاست متروک ہو چکی ہے، جبکہ کروڑوں کی تعداد میں محنت کش نہ صرف پارلیمانی سیاست کے حق میں ہیں بلکہ کھلم کھلا ’رد انقلابی‘ ہیں!؟ یہ واضح ہے کہ جرمنی میں ابھی پارلیمانی سیاست متروک نہیں ہوئی۔ یہ صاف نظر آ رہا ہے کہ جرمنی میں ’’بائیں بازو‘‘ نے معروضی حقیقت کی جگہ اپنی خواہشات اور سیاسی و نظریاتی موقف کو دیکھنا شروع کردیا ہے۔ یہ انقلابیوں کی سب سے خوفناک غلطی ہے۔‘‘ (لینن، بائیں بازو کا کمیونزم: ایک طفلانہ بیماری، صفحہ نمبر 47)

حکومت کے مسئلے پر بھی نوجوان کمیونسٹوں نے انتہائی بائیں بازو کا موقف اپنایا۔ ان کے خیال میں کمیونسٹ پارٹی کو چاہیے تھا کہ وہ یہ نعرہ لگاتی کہ ایبرٹ۔شایڈمن حکومت کو گرایا جائے۔ لکسمبرگ نے کانگریس پر انہیں تنبیہ کی تھی کہ وہ ایسا مت سوچیں کہ اس سے کوئی مسئلہ حل ہو گا۔ حکومت کو ایسے ہی نہیں گرایا جاسکتا بلکہ اس کے لیے نیچے سے عوام کی مخالفت ضروری ہے۔ حکومت کو گرانے کے نعرے لگانے اور اس کے متبادل کچھ اور لانے کے قابل نہ ہونے سے تحریک فتح یاب نہیں ہو سکتی، جیسا کہ کچھ ہفتے بعد واضح ہو گیا۔

انتہائی بائیں بازو کا موقف ہونے کے باوجود سپارٹیسسٹوں کو مکمل طور پر مسترد بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اپنے آرٹیکلز میں لکسمبرگ کا قومی اسمبلی کے قیام اور حکومت کے خلاف کافی سخت موقف تھا اور اس نے نوجوان کمیونسٹوں کو عوام سے جڑنا سکھانے کے لیے زیادہ کچھ نہیں کیا تھا۔ مگر وہ یہ بات سمجھتی تھی کہ عوام سے جڑنا ضروری ہے اور کمیونسٹوں کو حکومت اور قومی اسمبلی کو لے کر لچکدار موقف اپنانے کی ضرورت ہے۔

کانگریس میں پیش کی گئی دو قراردادوں میں بھی انتہائی بائیں بازو کے رجحانات نظر آئے، جن کے مطابق یونین کی رکنیت کمیونسٹ پارٹی کی رکنیت کے ساتھ ہم آہنگ نہیں تھی۔ قرارداد پیش کرنے والوں کے مطابق کمیونسٹوں کو یونینوں سے کنارہ کر لینا چاہیے اور ان کے خلاف وہ جو کر سکتے ہیں انہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یونینوں میں سوشل ڈیموکریٹوں کی اکثریت موجود تھی۔ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت نے مسئلے کو ایک یونین کمیشن کے سپرد کر کے رائے شماری کو ٹال دیا۔

پارٹی کی قیادت یہ جانتی تھی کہ یونینوں کے بائیکاٹ سے وہ عوام سے بہت دور ہو جائیں گے بالکل ویسے ہی جیسے 1905ء میں روس میں ہوا تھا (روزا نے یہ وضاحت کی)۔ جرمنی میں انقلابی تحریک کا مطلب یہ تھا کہ عوام، جن کی سیاسی زندگی ابھی شروع ہوئی تھی، نے یونینوں کا رخ کیا، جو محنت کشوں کی تحریک کا سب سے بنیادی تنظیمی ڈھانچہ تھیں۔ انقلاب سے پہلے ٹریڈ یونینز کے ممبران کی تعداد 15 لاکھ تھی، دسمبر 1918ء کے آخر میں یہ تعداد 22 لاکھ ہوچکی تھی اور 1919ء کے آخر میں یہ تعداد 73 لاکھ تک پہنچ گئی۔ کمیونسٹ پارٹی کی قیادت کے خیال میں کمیونسٹوں کا یہ فرض تھا کہ وہ یونینوں میں کام کریں تا کہ وہ عوام کے ساتھ جڑتے ہوئے انہیں سوشل ڈیموکریٹس کے سیاسی اثر و رسوخ سے باہر نکال سکیں۔ مگر ممبران کی مخالفت کی وجہ سے KPD کو SPD کے زیراثر ٹریڈیونینوں میں کام کرنے کا فیصلہ کرنے میں ایک سال لگ گیا۔

پوری کانگریس کے دوران فیکٹریوں اور کارخانوں کے انقلابی منتخب رہنماؤں کے نمائندوں سے گفت و شنید جاری رہی، مگر وہ کمیونسٹوں کے انتہائی بائیں بازو کے موقف کو لے کر تحفظات کا شکار تھے۔ چنانچہ انہوں نے ان کا حصہ بننے کے لیے کچھ مطالبات رکھے جن میں انتخابات میں حصہ نہ لینے کے فیصلے کی واپسی، پروگرام کمیشن کی برابر نمائندگی اور پارٹی سے سپارٹیسسٹ نام کا کس بھی قسم کا کوئی حوالہ ختم کرنا شامل تھے۔ یہ بات پییر برو نے بھی لکھی کہ ان میں سے کوئی بھی مطالبہ ایسا نہیں تھا جس کی پرانی بالشویک یا پرانے سپارٹیسسٹ مخالفت کرتے:

’’لیکن کانگریس کی اکثریت کے لیے یہ قابل قبول نہیں تھے اور ان مذاکرات کو لے کر ان کا تضحیک آمیز رویہ ان علامات میں سے ایک تھا جو ریڈک کے نزدیک سب سے خطرناک تھیں۔‘‘ (برو، جرمن انقلاب، صفحہ نمبر 224)

انقلابی منتخب نمائندوں نے کمیونسٹ پارٹی سے دور رہنے کا فیصلہ کیا اور USPD کا حصہ بن گئے۔ یہ کمیونسٹوں کے لیے ایک بھاری نقصان تھا جس سے وہ بہت کمزور ہو گئے۔ انقلابی منتخب نمائندوں کے برلن میں موجود فیکٹریوں کے محنت کشوں کے ساتھ بہترین تعلقات تھے۔ ان کے بغیر کمیونسٹوں کے پاس صنعتی محنت کش طبقے سے جڑنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔ اس کا یہ مطلب بھی تھا کہ برلن کی فیکٹریوں میں موجود سب سے لڑاکا محنت کش ایک انقلابی سیاسی قیادت سے محروم ہو کر سیاسی طور پر منقسم USPD کے بائیں بازو کی گود میں جا گرے۔

لکسمبرگ کو یہ مسائل نظر آ رہے تھے مگر وہ زیادہ پریشان نہیں تھی۔ اس نے اس صورتحال کو ایک نومولود بچے سے تشبیہ دی جو پیدا ہونے کے بعد کافی چیختا چلاتا ہے۔ اس نے قانون ساز اسمبلی میں شرکت کے حوالے سے رائے شماری میں قیادت کی شکست کی وضاحت کلارا زیٹکن سے یوں کی:

’’ہماری شکست کچھ حد تک بچگانہ، کچی پکی تنگ نظر انقلاب پسندی کی جیت ہے۔ بہرحال یہ کانفرنس کے شروع میں ہوا بعد میں ہمارے [قیادت] اور مندوبین کے درمیان رابطہ استوار ہو گیا۔۔۔ شروعات سے کافی مختلف ماحول تھا۔۔۔ سپارٹیسسٹ ایک نئی نسل ہیں جو ’اچھی پرانی پارٹی‘ کی بیہودہ رسومات سے آزاد ہیں۔۔۔ ہم نے مل کر فیصلہ کیا کہ اس معاملے کو اتنا بڑا مسئلہ نہ بنایا جائے اور اسے اتنی سنجیدگی سے دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ (نیٹل میں حوالہ، صفحہ نمبر 475)

نومولود کمیونسٹ پارٹی کی تمام تر کمزوری کے باوجود اس کا قیام عالمی سطح پر اہمیت کا حامل تھا۔ روس کی پارٹی پر امید تھی کہ اس سے بالآخر نومولود سوویت حکومت کی تنہائی دور ہوگی۔ اس کے علاوہ ابھی ایک ایسی پارٹی موجود تھی جو روس کے انقلاب کی کھل کر حمایت کر رہی تھی:

’’اس لمحے سوشلزم ہی انسانیت کی واحد نجات ہے، سرمایہ داری کی دیواروں پر کمیونسٹ مینی فیسٹو کے یہ تباہ کن الفاظ واضح لکھے نظر آ رہے ہیں: سوشلزم یا بربریت کی کھائی!‘‘ ( سیاسی تحاریر، صفحہ نمبر 270)

اس جملے، ’’سوشلزم یا بربریت‘‘، سے لکسمبرگ اور کمیونسٹوں نے انسانیت کے آگے موجود راستے واضح کر دیے تھے۔

پارٹی کی بنیاد رکھ دی گئی مگر ابھی یہ محنت کش طبقے کی اقتدار تک رہنمائی کرنے کے لیے بالکل تیار نہیں تھی۔ لکسمبرگ اور قیادت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ انتظار کریں اور امید کریں کہ حالات و واقعات یہ ثابت کریں گے کہ وہ درست تھے اور نوجوان ممبران خود اپنے تجربے سے سیکھ کر انتہائی بائیں بازو کے رجحانات کو ترک کر دیں گے۔ مسئلہ یہ تھا کہ انقلاب ابھی شروع ہوا تھا مگر کمیونسٹوں کے پاس وقت نہیں تھا۔ جرمنی میں سوشل ڈیموکریٹوں کی قیادت میں ردِ انقلاب روس میں 1917ء میں موجود رد انقلاب کے مقابلے میں کافی منظم اور تجربہ کار تھا۔ رد انقلاب نے انتظار نہیں کیا اور نئی پارٹی کو اپنے قیام کے فوراً بعد انتہائی اہم امتحانات سے گزرنا پڑا۔

سپارٹیسسٹ بغاوت

حکمران طبقہ اور SPD کی قیادت بے صبرے ہو رہے تھے۔ انقلابی لہر کافی عرصہ قائم رہی اور اب ردِ انقلاب کا وقت تھا۔ مگر محنت کش، خاص طور پر برلن میں، بے تاب ہو گئے: انہیں محسوس ہوا کہ اقتدار ان کے ہاتھوں سے جا رہا ہے۔ دونوں طرف بڑھتی ہوئی بے چینی ان واقعات کا باعث بنی جنہیں بعد میں ’’سپارٹیسسٹوں کا ہفتہ‘‘ کہہ کر پکارا گیا، حالانکہ سپارٹیسسٹوں نے نہ تو اس تحریک کا آغاز کیا اور نہ ہی اسے منظم کیا۔

جنوری کے آغاز میں صورتحال نازک تھی۔ USPD حال ہی میں حکومت سے دستبردار ہوئی تھی اور یہ افواہیں موجود تھیں کہ فوجی بغاوت کی تیاری کی جا رہی ہے، جبکہ سپارٹیسسٹوں کی پکڑ دھکڑ جاری تھی۔ فوجی قیادت اور سوشل ڈیموکریٹ وزیروں نے سپارٹیسسٹوں کے ساتھ ایک خونی معرکے کی منصوبہ بندی کی جو KPD کے قیام سے ہی حکومت کو گرانے کی مہم چلا رہے تھے۔ حتمی مقصد انقلاب سے نمٹنا اور ایک فوجی ’’حل‘‘ کے لیے راستہ ہموار کرنا تھا۔ نیا وزیر دفاع نوسکے (ایک سوشل ڈیموکریٹ) حملے میں رد انقلابی فوجیوں کی قیادت کے لیے تیار تھا۔

حکومت کو ایک ضمنی سوال پر حملہ کرنے کا موقع مل گیا: بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے برلن کے پولیس چیف ایمل ایخورن کی معزولی۔ ایخورن کا USPD سے تعلق تھا اور حکومت اسے خطرے کے طور پر دیکھتی تھی کیونکہ اس نے 2ہزار محنت کشوں اور فوجیوں پر مشتمل پولیس فورس منظم کر رکھی تھی جو انقلاب کے ساتھ وفادار تھی۔ اگر وہ ایخورن کو ہٹاتے تو نہ صرف وہ اس سے چھٹکارا حاصل کر سکتے تھے بلکہ اس کا استعفیٰ برلن میں موجود بائیں بازو کے محنت کشوں لیے اشتعال کا باعث بن سکتا تھا، اس سے ایک بغاوت جنم لے سکتی تھی اور اسے کچلنے کے لیے فوج کا استعمال کیا جاسکتا تھا۔

حکومت نے ایخورن کے خلاف کافی سارے الزامات گھڑے اور 4 جنوری کو اسے نوٹس دیا کہ وہ استعفیٰ دے دے۔ لیکن اس نے اس بنیاد پر استعفیٰ دینے سے انکار کر دیا کہ اس کے ساتھ عوامی حمایت موجود تھی، وہ انقلاب سے متاثر تھا اور صرف اسی صورت میں دست بردار ہو سکتا تھا اگر انقلاب اس بات کا متقاضی ہوتا۔

4 جنوری کو KPD کی قیادت نے حکومت کی اشتعال انگیزی کے جواب میں حکمت عملی بنانے کے لیے ایک میٹنگ رکھی۔ انہیں معلوم تھا کہ اس صورتحال میں حکومت کو گرانے کی کوشش ایک احمقانہ عمل ہو گا۔ اس کی بجائے انہوں نے ایک عام ہڑتال کی تجویز دی۔ برو نے میٹنگ میں موجود ایک گمنام کمیونسٹ کا حوالہ دیا:

’’صورت حال کے ردعمل سے متعلق مکمل اتفاق تھا۔ تمام حاضرین کا خیال تھا کہ حکومت کو گرانے کی کوشش حماقت ہو گی۔ پرولتاریہ کی حمایت یافتہ حکومت دو ہفتے سے زیادہ وقت بھی نہیں نکال سکتی تھی۔ نتیجتاً زینٹرل [منتخب شدہ قیادت] کے ممبران اس بات پر متفق ہوئے کہ انہیں حکومت گرانے سے متعلق ہر طرح کے نعروں سے اجتناب کرنا ہو گا۔‘‘ (برو کا حوالہ، صفحہ نمبر 240)

لکسمبرگ کے خیال میں اگر ایبرٹ کی حکومت کو گرا بھی دیا جائے تو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا، کیونکہ باقی صوبوں کے محنت کش برلن کے محنت کشوں کی پیروی کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ یہ ایسی صورتحال تھی جو کئی حوالوں سے روس میں جولائی کے دنوں سے مماثلت رکھتی تھی۔ جنوری 1919ء میں برلن کے محنت کش باقی تمام ملک کے محنت کشوں سے بہت آگے چل رہے تھے۔

جب USPD کی برلن کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے ایخورن کی معزولی کا سنا تو نے فوری طور پر اس کی حمایت میں ایک قرارداد پیش کی۔ انہوں نے انقلابی محنت کشوں کے منتخب نمائندوں اور KPD کے رہنماؤں سے مشترکہ حکمت عملی کے لیے ملاقاتیں کیں۔ ان تینوں گروپوں نے 5 جنوری کو ایک احتجاجی مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا۔ لاکھوں محنت کش سڑکوں پر نکل آئے اور پولیس ہیڈکوارٹر کا رخ کرنے لگے۔

اسی وقت محنت کشوں کے مسلح گروہوں نے Vorwarts کے ادارتی دفاتر پر قبضہ کر لیا، انہوں نے ابھی تک SPD کو اپنا اخبار ’’چرانے‘‘ پر معاف نہیں کیا تھا۔ انہیں قبضہ چھوڑنے پر قائل کر لیا گیا، لیکن جلد ہی انہوں نے دوبارہ قبضہ کر لیا۔ یہی حال باقی اخباروں کے دفاتر کا بھی تھا۔ محنت کشوں نے دوسری عمارتوں پر بھی قبضہ کر لیا جن میں سے کچھ ریشتاگ بلڈنگ (حکومتی محل) سے تھوڑے ہی فاصلے پر تھیں۔ یہ واقعات سپارٹیسسٹوں کی جانب سے ترتیب نہیں دیے گئے تھے، حالانکہ ان میں حصہ لینے والوں میں اکثریت سپارٹیسسٹوں کی تھی۔ پورے ہفتے کے واقعات میں یقیناًکچھ اشتعال پسند عناصر بھی موجود تھے، مگر اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اس صورتحال میں برلن کے محنت کشوں کی بے چینی کا اظہار بھی ہو رہا تھا۔

اگلے دن پانچ لاکھ افراد سڑکوں پر آئے، جن میں سے اکثریت مسلح تھے۔ بہت سی فیکٹریوں میں محنت کش ہڑتالوں پر چلے گئے۔ یہ انقلاب کی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہر میں سے ایک تھا۔ حالات اوج پر پہنچ چکے تھے۔ سوشل ڈیموکریٹ وزیر گستو نوسکے نے بعد میں لکھا:

’’محنت کشوں کی بہت بڑی تعداد۔۔۔ نے جدوجہد کی اپیل کا جواب دیا۔ ان کا پسندیدہ نعرہ ’’گراؤ، گراؤ، گراؤ‘‘ (حکومت گراؤ) ایک مرتبہ پھر گونج رہا تھا۔ مجھے ایک بار برینڈنبرگ گیٹ پر، ٹائیرگرٹن میں، اور دوبارہ فوجی قیادت کے ہیڈ کوارٹر کے سامنے جلوس میں سے گزر کر جانا پڑا۔ بہت سے مظاہرین مسلح تھے۔ سیگاسول پر کافی تعداد میں مشین گنوں سے لیس ٹرک کھڑے تھے۔ میں نے بار بار نرمی سے گزرنے کی اجازت مانگی، کیونکہ مجھے ضروری کام تھا۔ انہوں نے مہربانی سے مجھے گزرنے دیا۔ اگر اس ہجوم کے پاس بکواسیوں کے بجائے ثابت قدم اور سنجیدہ رہنما ہوتے تو دوپہر تک برلن ان لوگوں کے قبضے میں ہوتا۔‘‘ (سوویت حکومت پر بحث میں حوالہ، صفحہ نمبر 248)

عوام سڑکوں پر تھے اور USPD اور KPD کے نمائندے (پیک اور لیبنیخت) اور انقلابی متولیوں کی قیادت برلن میں آگے کا لائحہ عمل سوچنے کے لیے آپس میں مل کر بیٹھ گئے۔ ان کے پاس کوئی منصوبہ یا حکمت عملی نہیں تھی کہ عوام کو کس جانب لے کر جانا ہے۔وہی کمیونسٹ جس کا اوپر حوالہ دیا گیا تھا، اس صورت حال کو یوں بیان کرتا ہے:

’’لوگ بہت جلدی پہنچ چکے تھے۔ وہ صبح 9 بجے سے سردی اور دھند میں وہاں موجود تھے۔ لیڈران کہیں اجلاس میں سوچ بچار کر رہے تھے۔ دھند گہری ہوتی گئی اور عوام پھر بھی انتظار کر رہے تھے، مگر لیڈران سوچ بچار کرتے رہے۔ آدھا دن گزر گیا، سردی بڑھ رہی تھی اور لوگوں کو بھوک بھی لگ رہی تھی اور لیڈران سوچ بچار کر رہے تھے۔ لوگ جوش سے حواس باختہ ہو رہے تھے وہ عمل چاہ رہے تھے تا کہ ان کی بے چینی کم ہو۔ یہ کوئی نہیں جانتا تھا۔ لیڈران سوچ بچار کرتے رہے۔ دھند گہری ہوتی گئی اور اندھیرا چھانے لگا، لوگ مایوس ہو کر گھروں کو لوٹنے لگے، انہوں نے کچھ نہیں کیا اور لیڈران سوچ بچار کر رہے تھے۔ انہوں نے مارسٹال میں سوچ بچار کی، پھر انہوں نے پولیس ہیڈکوارٹر میں سوچ بچار جاری رکھی اور وہ اب بھی سوچ بچار کر رہے تھے۔ محنت کش خالی الیگزینڈرپلاٹز کے باہر ہاتھوں میں رائفلیں اور ہلکی اور بھاری مشین گنیں لے کر کھڑے تھے، اندر لیڈران سوچ بچار کر رہے تھے۔ ان کی بندوقوں کا رخ پولیس ہیڈ کوارٹر کی طرف تھا۔ ہر کونے پر جہازی موجود تھے اور گلیوں کو نظر انداز کرتے ہوئے کمروں میں بھی غصے سے ابلتے ہوئے فوجیوں، جہازیوں اور محنت کشوں کی کی بڑی تعداد موجود تھی۔ لیڈران اندر بیٹھے سوچ بچار کر رہے تھے۔ وہ ساری شام بیٹھے رہے، ساری رات بیٹھے رہے اور سوچ بچار کرتے رہے۔ اگلی صبح سورج نکلنے تک بھی وہ بیٹھے سوچ بچار کر رہے تھے۔ اگلے دن لوگوں کے گروہ سیگاسالی پر دوبارہ اکٹھے ہونے لگے اور لیڈران ابھی تک بیٹھے سوچ بچار کر رہے تھے۔ وہ سوچ بچار کرتے رہے، کرتے رہے، کرتے رہے۔‘‘ (برو کا حوالہ، صفحہ نمبر 242)

میٹنگ میں ایک ’’انقلابی کمیٹی‘‘ قائم کی گئی جس میں KPD ،USPD اور انقلابی کنفیڈریٹس کے نمائندے شامل تھے جن کی سربراہی جارج لیڈیبر، کارل لیبنیخت اور پال سکولزے کر رہے تھے۔

لیڈران اتنی بڑی تحریک سے پریشان ہوگئے تھے انہیں لگ رہا تھا کے حالات ان کے حق میں نہیں ہیں۔ انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ بہت سے علاقوں سے فوجی حمایت پر انحصار کر سکتے ہیں، مگر بعد میں یہ معلومات مشکوک ثابت ہوئی۔ اس بنیاد پر انہوں نے حکومت گرانے کی قرارداد منظور کی لیکن اسے کبھی جاری نہیں کیا گیا۔ لیبنیخت نے بھی صورتحال سے متاثر ہو کر اس تجویز کی حمایت کر دی۔ اس کمیٹی سے سامنے آنے والی واحد ٹھوس چیز اگلے دن 6 جنوری کو دوبارہ مظاہرے کا اعلان تھا۔ بہرحال اس دن انقلابی جوش و جذبے کو کمیٹی کی جانب سے ٹھنڈا کردیا گیا تھا۔ یہ بات واضح ہو گئی کہ برلن کے محنت کشوں کی اکثریت ہڑتال اور مظاہرے کرنے کے لیے تیار تھی مگر ابھی وہ مسلح بغاوت کے لیے تیار نہیں تھے، اور 4 جنوری کی شام تحریک انتہائی سست تھی۔ محنت کشوں اور فوجیوں کی مرکزی کمیٹی اور برلن کونسل کی ایگزیکٹیو کمیٹی نے ایخورن کو نکالنے کی منظوری دے دی۔ سوشل ڈیموکریٹ نوسکے کو جوابی حملے کی تیاری کے لیے فرایکارپس ہیڈکوارٹر میں تعینات کر دیا گیا۔ تحریک کا زور ٹوٹ گیا تھا اور محنت کشوں کے لیڈران موقع گنوا چکے تھے۔

انقلابی کمیٹی میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کو لے کر اتفاق رائے پایا جاتا تھا، مگر لیبنیخت اس کے خلاف تھا۔ USPD نے 6 جنوری کی رات مذاکرات شروع بھی کر دیے۔ USPD کا مقصد جنگ بندی کرنا تھا تا کہ مقبوضہ عمارتوں کو خالی کیا جا سکے۔ حکومت لمحہ بہ لمحہ مضبوط ہوتی جا رہی تھی کیونکہ تحریک کمزور ہو رہی تھی۔ انہوں نے مذاکرات کو جتنا ممکن تھا اتنا گھسیٹنے کی کوشش کی۔ لیبنیخت نے Vorwarts دفاتر پر قبضہ کرنے والے محنت کشوں سے ملاقات کی اور کہا کہ USPD میں حکومت سے مذاکرات شروع کر کے تحریک کو دھوکا دیا ہے: اب واحد راستہ آخر تک لڑنے کا ہی بچا تھا۔ 8 جنوری کو مذاکرات ناکام ہو گئے اور حکومت نے تشدد کا جواب تشدد سے دینے کا اعلان کیا۔ ریشتاگ کی عمارت میں ایک ’’سوشل ڈیموکریٹک‘‘ فوج کا ایک یونٹ تیار کیا گیا جس کے دو دستے تھے اور ہر دستے میں 6 کمپنیاں تھیں۔ اور انقلاب کی طرف سرخ فوجیوں کو تیار کیا جا رہا تھا اور مسلح محنت کشوں کو سڑکوں پر نکلنے کی ترغیب دی جا رہی تھی۔ حالات خانہ جنگی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ برلن کی سڑکوں پر پر تشدد تصادم ہو رہے تھے، لیکن فیکٹریوں میں ہونے والی اجلاسوں میں ایک بڑی اکثریت لڑائی روکنے کے حق میں تھی۔

8 اور 9 جنوری کے دوران حکومت نے کافی ساری مقبوضہ عمارتیں چھڑوا لیں اور Vorwarts دفاتر کا ضرورت پڑنے پر طاقت کے استعمال کے ارادے سے محاصرہ کر لیا۔ 10 جنوری کی شام، جب مذاکرات جاری تھے، مذاکرات میں شامل USPD سے تعلق رکھنے والے لیڈیبر پر کو سپارٹیکس رہنما ارنسٹ مئیر سمیت گرفتار کر لیا گیا۔

11 جنوری کی صبح حکومتی فوجوں نے Vorwarts کی عمارت پر حملے کا آغاز کر دیا۔ دو گھنٹے بعد قبضہ کرنے والوں نے سفید جھنڈا لہرا دیا اور مذاکرات کے لیے ایک وفد بھیجا۔ وفد کے اراکین کو فوراً گرفتار کر لیا گیا اور باقیوں کو ہتھیار ڈالنے کے لیے دس منٹ کا وقت دیا گیا۔ بہت سے قیدیوں کو موقع پر ہی قتل کر دیا گیا۔

کمیونسٹوں میں ایک بحران کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ ریڈک نے مشورہ دیا کہ پارٹی کو پیچھے ہٹنا چاہیے اور مزدوروں کو مشورہ دینا چاہیے کہ وہ کام پر واپس جائیں اور محنت کشوں کی کونسلوں میں دوبارہ رائے شماری کی مہم شروع کریں۔ لکسمبرگ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ پیچھے ہٹنا ضروری ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ کمیونسٹ یہ بات سر عام کہہ سکتے ہیں، کیونکہ اس سے USPD کی قیادت حکومت کے آگے ہتھیار ڈالنے کی طرف جا سکتی تھی۔

لکسمبرگ نے بغاوت کو تنقیدی نظر سے دیکھا، اس کے خیال میں یہ ایک مثبت چیز تھی کہ ’’برلن میں پرولتاریہ اور سلطنت سے باہر انقلاب کے مراکز‘‘ یہ بات سمجھ چکے تھے کہ یا تو انہیں سوشلزم کو ترک کرنا پڑے گا یا پھر ایبرٹ۔شایڈمن حکومت گرانی ہو گی۔ لیکن تحریک نے کمزوری کا مظاہرہ بھی کیا: تو لڑائی کس طرح جاری رکھی جائے؟ 8 جنوری 1919ء کو اس نے لکھا:

’’لیکن ابھی تک جو بات واضح نہیں ہے، جس سے انقلاب کی کمزوری اور ناپختگی کا اظہار ہوتا ہے، وہ یہ سوال ہے کہ ایبرٹ حکومت سے چھٹکارا حاصل کرنے کی جدوجہد کو کس طرح آگے بڑھایا جائے، کوئی اپنی پختگی کا اظہار کیسے کرے جب انقلاب پہلے ہی ملکیت اور حکومت کے سوال پر پہنچ چکا ہے۔ پچھلے تین دنوں میں جس طرح کمزوریاں اور خامیاں کھل کا سامنے آئی ہیں ایسے پہلے کبھی نہیں آئیں۔‘‘ (’’نظر انداز شدہ فرائض‘‘، پیپرز صفحہ نمبر 310)

اس نے جنوری کی بغاوت میں عوام کی رہنمائی کرنے والے اداروں کو آڑے ہاتھوں لیا۔ خاص طور پر اس نے مزدوروں کے منتخب نمائندوں اور USPD کی برلن صوبے کی قیادت کو عوام کو اکیلا چھوڑ کر حکومت سے مذاکرات کرنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا، جس میں وہ عوام سے مشورہ کیے بغیر مشکلات کا شکار تھے۔ لکسمبرگ کے خیال میں عوام سڑکوں پر تھے لیکن انہیں قیادت کی ضرورت تھی، مگر وہ انہیں نہیں ملی سکی:

’’جب عوام کو سڑکوں پر بلا لیا جائے اور وہ تیار ہوں تو آپ کو یہ واضح طور پر بتانا چاہیے کہ آگے کیا کرنا ہے یا کم از کم یہ ضرور بتانا چاہیے کے دوست اور دشمن کیا منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ انقلابی بحران کے وقتوں میں عوام کو سڑکوں پر ہونا چاہیے، وہ انقلاب کے واحد میزبان اور محافظ ہوا کرتے ہیں۔ جب انقلاب خطرے میں ہو، اور اب یہ سب سے زیادہ خطرے میں ہے، تو یہ محنت کش عوام کا فرض ہوتا ہے کہ وہ سڑکوں پر آکر اپنا فرض نبھائیں۔ ان کی موجودگی ان کا آپس میں ربط ہی انقلاب کے تمام دشمنوں کے لیے ایک واضح خطرہ اور دھمکی ہوا کرتا ہے: خبردار!‘‘ (درگزر کیا گیا فرض، تحاریر، صفحہ نمبر 312)

لکسمبرگ کا موقف تھا کہ باتوں کی بجائے عمل کیا جائے:

’’پچھلے تین دنوں کا تجربہ محنت کشوں کی تحریک کے رہنماؤں سے چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے: باتیں مت کرو! مسلسل صلاح مشورے مت کرو! مذاکرات مت کرو! قدم بڑھاؤ!‘‘ ( نظر انداز شدہ فرائض، سیاسی تحاریر، صفحہ نمبر 313)

اس نے KPD کی اپنی قیادت پر تنقید نہیں کی جو ’’محنت کشوں کی تحریک کے رہنماؤں‘‘ میں شامل تھے۔ لیکن بتایا جاتا ہے کہ جب لکسمبرگ انقلابی ایگزیکٹیو کمیٹی کی میٹنگ کے بعد پارٹی آفس میں لیبنیخت سے ملی تو اس نے غصے سے کہا: 

’’لیکن کارل تم ایسا کیسے کر سکتے ہو؟ ہمارے پروگرام کا کیا؟‘‘(نیٹل، صفحہ نمبر 482)

ریڈک نے KPD پر شدید تنقید کی۔ 9جنوری کو پارٹی کی قیادت کو لکھے گئے ایک خط میں اس نے نشاندہی کی کہ اپنے پروگرام، ’’سپارٹیکس لیگ کیا چاہتی ہے؟‘‘ میں پارٹی نے (درست طور پر) لکھا ہے کہ وہ صرف تب اقتدار حاصل کریں گے جب محنت کشوں کی اکثریت ان کے ساتھ ہو گی، مگر ابھی ایسا نہیں تھا۔ اس نے انقلابی کمیٹی میں شامل پارٹی کے نمائندوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا:

’’اس صورتحال میں ہفتے کے دن انقلابی مندوبین کو سماجی محب وطن حکومت کہ حملے کے جواب میں پولیس ہیڈ کوارٹر پر جو لائحہ عمل اپنانا چاہیے تھا وہ محض ایک احتجاجی عمل ہونا چاہیے تھا۔ محنت کش طبقے کی ہراول پرت، جو حکومت کی پالیسی سے تنگ تھی اور جسے انقلابی مندوبین کی غلط رہنمائی مل رہی تھی، نے ریک میں طاقت کے توازن کو نہیں سمجھا اور ان کے جذبے نے احتجاجی تحریک کو اقتدار کی جدوجہد میں بدل دیا۔ اس سے ایبرٹ اور شایڈمن کو برلن کی تحریک پر وار کرنے کا موقع مل گیا، جس سے پوری تحریک کمزور ہو سکتی ہے۔‘‘ ( برو کا حوالہ، صفحہ نمبر 251)

ریڈک نے زور دیا کہ کمیونسٹوں کو کھل کر ایمانداری سے عوام کو اپنے پیچھے ہٹنے سے متعلق بتانا چاہیے تا کہ نقصان کم سے کم کیا جاسکے۔

’’واحد قوت جو تباہی کو روک سکتی ہے وہ آپ ہیں، کمیونسٹ پارٹی۔ آپ کے پاس یہ بات سمجھنے کے لیے کافی بصیرت موجود ہے کہ یہ جدوجہد ناکامی کی طرف جائے گی۔ آپ کے ممبران لیوی اور ڈنکر نے مجھے بتایا ہے کہ آپ یہ جانتے ہیں۔۔۔ کمزور کو اپنے سے مضبوط طاقت کے سامنے سے ہٹنے سے کوئی چیز نہیں روک سکتی۔ جولائی 1917ء میں ہم آپ کے مقابلے میں بہت زیادہ طاقتور تھے، مگر ہم نے عوام کو اپنی پوری طاقت سے روکا، اور جب ہم کامیاب نہ ہو سکے تو ہم نے پوری قوت سے عوام کو ایک بے سود جدوجہد سے نکالنے کی کوشش کی۔‘‘ ( برو کا حوالہ صفحہ نمبر 251)

مگر KPD کے رہنماؤں کی طرح لکسمبرگ نے بھی حالات کا اور طرح سے اندازہ لگایا۔ اپنے آخری آرٹیکل،’’برلن میں حالات ٹھیک رہتے ہیں‘‘ میں اس نے تحریک کا جائزہ لیا۔ اس نے لکھا کہ تحریک کا شکست کی صورت میں انجام قدرتی تھا۔ شکست بنیادی طور پر فوجیوں کے جتھوں کی ناپختگی کی وجہ سے ہوئی، جو بذات خود ’’جرمن انقلاب کی عمومی ناپختگی کی ایک علامت تھی‘‘۔ مگر ساتھ ہی اس نے کہا کہ محنت کش حکومت کی اشتعال انگیزی کے جواب میں اور کچھ نہیں کر سکتے تھے۔

’’[۔۔۔] ایبرٹ۔شایڈمن حکومت کی ہٹ دھرم اشتعال انگیزی کے بعد محنت کش ہتھیار اٹھانے پر مجبور ہو گئے۔ بے شک انقلاب کی حرمت اس بات کی متقاضی تھی کہ حملے کا پوری طاقت سے فوری جواب دیا جاتا، تا کہ رد انقلاب کی آگے بڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی نہ ہو۔ ورنہ پرولتاریہ کے انقلابی کارکنان اور عالمی طور پر جرمن انقلاب کو اخلاقی دھچکا سہنا پڑتا۔‘‘ (’’برلن میں امن قائم رہتا ہے‘‘، سیاسی تحاریر، صفحہ نمبر 316)

اگرچہ KPD اور لکسمبرگ اس بات کا اندازہ لگا چکے تھے کہ ابھی حکومت گرانے کا وقت نہیں آیا،لیکن لکسمبرگ کے آرٹیکلز میں نہ صرف حکومت پر بے رحم تنقید تھی بلکہ وہ انقلاب کے آگے بڑھنے کی راہ میں رکاوٹ بھی تھے۔

لکسمبرگ کے خیال میں محنت کشوں کے پاس انقلاب کے خلاف اس شرانگیزی کے جواب میں ہتھیار اٹھانے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا۔ یہ ’’انقلاب کی حرمت‘‘ بچانے کا معاملہ تھا تا کہ رد انقلاب کو آگے بڑھنے کا موقع نہ مل سکے۔ لکسمبرگ کے خیال میں انقلاب صرف آگے بڑھ سکتا تھا۔ اسے لگتا تھا کہ وقتی تدبیر کے طور پر دفاعی حکمت عملی نہیں اپنائی جا سکتی۔ حتمی فتح کا راستہ شکست کے سلسلے سے ہو کر گزرتا ہے۔

’’یہ انقلاب کا ایک اندرونی قاعدہ ہے کہ اگر ابتدائی قدم اٹھا لیے جائیں تو یہ کبھی ایک جگہ رک نہیں سکتا، یہ کسی بھی مرحلے پر جامد یا پسپا نہیں ہو سکتا۔ ایک زور دار حملہ بہترین دفاع ہے۔ یہ کسی بھی لڑائی کا بنیادی اصول ہوتا ہے مگر انقلاب کے ہر مرحلے سے متعلق یہ بالکل سچ ہے۔‘‘ (جرمنی میں امن قائم رہتا ہے، سیاسی تحاریر، صفحہ نمبر 317)

یہاں لکسمبرگ نے ریڈک کی تجویز اور بالشویکوں کے طریقہ کار کی مخالفت کی ہے۔ جولائی 1917ء میں بالشویکوں نے تنہا ہو جانے کے خوف سے پیٹروگراڈ کے محنت کشوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ وہ سڑکوں پر نہ آئیں۔ جب وہ ناکام ہو گئے تو انہوں نے محنت کشوں کے ساتھ مل کر مظاہروں میں حصہ لیا اور انہیں منظم اور یکجا رکھنے کی حتی الامکان کوشش کی۔ اور جب یہ واضح ہو گیا کہ وہ رد انقلاب کے خلاف کھڑے نہیں رہ سکتے تو انہوں نے پیچھے ہٹنے کے عمل کو جتنا ہو سکا اتنا منظم انداز میں سرانجام دینے کی کوشش کی۔ ریڈک نے KPD کی سینٹرل کمیٹی کو خط لکھا جس میں انہیں یہ باور کروانے کی کوشش کی گئی کہ پارٹی کی طرف سے ترتیب دیا گیا پیچھے ہٹنے کا عمل پارٹی کے کہنے پر مزید جدوجہد کرنے کے بعد شکست کھانے سے کہیں کم مایوس کن ہو گا۔

روزا لکسمبرگ خود کو پیچھے ہٹنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی، حالانکہ اسے یہ صاف نظر آ رہا تھا کہ فی الحال جدوجہد نہیں جیتی جا سکتی۔ لکسمبرگ کے خیال میں شکست محض انقلاب کی ناپختگی کی وجہ سے نہیں تھی، بلکہ تحریک کی قیادت بھی اس کی ذمہ دار تھی۔ اس لگتا تھا کہ عوام ان خامیوں پر قابو پا لیں گے۔

’’قیادت ناکام ہوچکی ہے مگر عوام کی طرف سے اور عوام میں سے ایک نئی قیادت تشکیل دی جا سکتی ہے۔ عوام سب سے اہم عنصر ہیں۔ یہ وہ پتھر ہیں جن پر انقلاب کی حتمی فتح تعمیر ہو گی۔ عوام اس فریضے کو ادا کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ اور اس شکست سے انہوں نے تاریخی شکستوں کی زنجیر کی ایک کڑی بنا لی ہے جو عالمی سوشلزم کا فخر اور طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مستقبل کی فتوحات کی کونپلیں اسی شکست میں سے پھوٹیں گی۔‘‘(برلن میں امن قائم رہتا ہے، سیاسی تحاریر، صفحہ نمبر 319)

قتل

SPD اور ردِ انقلابی فوجیں لکسمبرگ اور لیبنیخت کو کتوں کی طرح ڈھونڈتے پھر رہے تھے۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اپنے گھروں پر نہیں سو سکتے تھے اور انہیں ہوٹلوں اور مختلف دوستوں کی طرف سونا پڑتا تھا۔ 13جنوری کو SPD کے اخبار Vowartz نے ایک نظم شائع کی جس میں سپارٹیسسٹ رہنماؤں پر بزدلی کا الزام لگایا گیا کہ وہ چھپے ہوئے ہیں اور محنت کش مارے جا رہے ہیں:

’’سینکڑوں لاشوں کی ہیں قطاریں، 
محنت کشو! 
کارل اور روزا کو وہ پکاریں، 
سب کے سب ہیں غائب دیکھو، 
محنت کشو!‘‘
(نیٹل کا حوالہ، صفحہ نمبر 484)

خطرے سے آگاہ ہونے کے باوجود لکسمبرگ اور لیبنیخت نے برلن چھوڑ کر چھپنے سے انکار کر دیا۔ ان کا خیال تھا کہ محنت کشوں کے ساتھ رہنا ان کا فرض تھا۔ یہ جان لیوا ثابت ہوا۔ لکسمبرگ سر پر منڈلاتے ہوئے خطرے سے اچھی طرح آگاہ تھی۔ 25 دسمبر کو اس نے کلارا زیٹکن کو لکھا کہ اسے سرکاری ذرائع سے ’’فوری تنبیہ‘‘ کی گئی ہے کہ ’’مجھے اور کارل کو قاتل ڈھونڈ رہے ہیں اور ہم گھر پر نہیں سو سکتے۔۔۔‘‘(نیٹل کا حوالہ، صفحہ نمبر 475)

روس میں جولائی کے دنوں کے بعد بالشویک بھی اسی طرح کے حالات سے گزر رہے تھے۔ پارٹی پر پابندی لگ چکی تھی اور پارٹی کے بیشتر رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری ہو چکے تھے۔ لینن عدالت میں پیش ہوکر مقدمے کو بالشویکوں کا سیاسی موقف پیش کرنے کے لیے استعمال کرنا چاہتا تھا، لیکن اس کے ساتھیوں نے اسے فن لینڈ میں چھپنے پر قائل کر لیا۔ اس کا بزدلی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا، یہ ایک عملی ضرورت تھی۔

تاریخ میں بیشمار ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ انقلابی حالات میں انقلابی پارٹی کا ہونا انتہائی اہم ہے، اور اس کے اندر بھی سب سے بڑھ کر پارٹی قیادت کی اہمیت ہوتی ہے۔ افراد انقلاب برپا نہیں کرسکتے، مگر جب عوام حرکت میں آتے ہیں تو افراد انقلاب میں فیصلہ کن کردار ادا کرتے ہیں۔ لینن روس کے انقلاب میں اہم حیثیت رکھتا تھا۔ اکتوبر میں جب بالشویک یہ فیصلہ کر رہے تھے کہ انہیں بغاوت کرنی چاہیے یا نہیں تو قیادت کے کچھ حصوں سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا تھا۔ یہ لینن ہی تھا جس نے اپنے تنظیمی اور سیاسی اختیار کا استعمال کرتے ہوئے اس پر قابو پایا۔ یہ فوج کی طرح کا اختیار نہیں تھا، بلکہ یہ اختیار دہائیوں میں تعمیر ہوا تھا، جن کے دوران لینن کے نظریات اور تجزیات عملی طور پر درست ثابت ہوئے۔ لکسمبرگ بلاشبہ نئی جرمن کمیونسٹ پارٹی میں سب سے زیادہ سیاسی اختیار رکھتی تھی اور شاید وہ واحد فرد تھی جو پارٹی میں موجود انتہائی بائیں بازو کے رجحانات پر قابو پا سکتی تھی۔ مگر یہ ہو نہ سکا۔

12 اور 13جنوری کو لکسمبرگ اور لیبنیخت نویکلن برلن میں ایک اپارٹمنٹ میں تھے اور اس کے بعد ولمسڈورف میں ایک ہمدرد کے پاس چلے گئے۔ یہیں سے انہیں 15 جنوری کی شام پیک کے ہمراہ گرفتار کیا گیا، جو ان کے ساتھ اسی اپارٹمنٹ میں موجود تھا۔ انہیں فری کارپس کے ہیڈکوارٹر، ہوٹل ایڈن، میں لے جایا گیا جہاں ان دونوں کے ساتھ انتہائی برا سلوک کیا گیا۔ لیبنیخت کو پہلے باہر لے جایا گیا۔ باہر لے جاتے ہوئے اس کے سر پر ایک رائفل سے وار کیا گیا جو رنج نامی فوجی کی ملکیت تھی۔ اسے ٹیرگارٹن پارک میں گھسیٹ کر لے جایا گیا جہاں اسے گولی مار دی گئی۔ فوجیوں نے بعد میں کہا کہ وہ ’’فرار ہونے کی کوشش میں مارا گیا۔‘‘

اس کے بعد لکسمبرگ کی باری تھی۔ اس کے سر میں بھی ایک رائفل کا بٹ مارا گیا۔ اس کے بعد اسے باہر انتظار کرتی ایک کار میں لے جایا گیا۔ اسے سر میں گولی ماری گئی۔ اس کی لاش کو ٹیرگارٹن پارک کی لینڈوہر نہر میں پھینک دیا گیا، جو مئی کے آخر میں ملی۔

جرمن انقلاب کے اہم رہنماؤں کو سفاکی سے قتل کر دیا گیا تھا۔ رد انقلاب نے انقلابی تحریک کا سر کاٹ دیا تھا۔

کسی کو بھی سنجیدگی سے ان کے قتل کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا گیا۔ مئی میں مجرموں پر ایک نقلی سا مقدمہ چلایا گیا۔ مقدمے کے دوران فلگ۔ہرٹنگ نامی ایک فوجی نے تسلیم کیا کہ اس نے لیبنیخت کو ’’فرار ہونے کی کوشش کے دوران‘‘ گولی ماری تھی۔ فلگ۔ہرٹنگ کو تالیوں کی گونج میں بری کر دیا گیا۔ ووگل، جو اس سارے آپریشن کا ذمہ دار تھا، نے تسلیم کیا کہ اس نے روزا لکسمبرگ کی لاش کو ٹیرگارٹن میں لے جا کر نہر میں پھینکا تھا، لیکن اس نے دعویٰ کیا کہ اسے کسی اور نے گولی ماری تھی۔ جیوری یہ فیصلہ نہیں کر پائی کہ وہ سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے پہلے ہی مر چکی تھی یا نہیں، اور ووگل کو صرف دو سال اور چار ماہ قید کی سزا دی گئی۔ لیکن وہ جیل سے بھاگ کر ہالینڈ چلا گیا، جہاں وہ معاملہ رفع دفع ہونے تک رہا اور اس کے بعد ایک آزاد آدمی کی حیثیت سے واپس آ گیا۔ فوجی رنج، جس نے قیدیوں کو ذبح کیا تھا، کو دو سال قید کی سزا سنائی گئی۔

کمیونسٹوں نے سیاسی طور پر SPD کو قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا اور یہ قتل سوشل ڈیموکریٹوں اور کمیونسٹوں کے درمیان ہمیشہ کے لیے ایک لکیر بن گئے۔ SPD کی قیادت کی جانب سے اس کا حکم دیا گیا تھا یا نہیں، اس بات کا فیصلہ نہیں ہو سکا، لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ انہوں نے وہ فضا پیدا کی جس میں قتل کرنے والوں کو حکومت کی مرضی کے بارے میں رتی برابر بھی شبہ نہیں تھا۔ نرم سزاؤں سے یہ بات ثابت ہو گئی تھی۔ سیاسی ذمہ داری مکمل طور پر SPD کے رہنماؤں پر تھی۔ انہوں نے انقلاب کے ساتھ غداری کی اور وہ لیبنیخت اور لکسمبرگ کے قتل کے بھی ذمہ دار تھے۔

’’[۔۔۔] کسی بھی سوشل ڈیموکریٹ رہنما کی براہ راست ذمہ داری تو ثابت نہیں ہوتی، مگر ان کی اخلاقی ذمہ داری حد سے زیادہ ہے۔ 2 دن پہلے Vorwartz میں کارل، روزا اور ان کے ساتھیوں کے قتل کی ترغیب دی جا رہی تھی کہ ’کارل، روزا اور ان کے ساتھی، ایک بھی، ایک بھی نہیں ہے مرنے والوں میں‘۔ وہ نوسکے اور سوشل ڈیموکریٹ وزیروں کے اکٹھے اور مسلح کیے گئے آدمی ہی تھے جنہوں نے یہ قتل کیے اور بعد میں انہوں نے ہی اِنہیں بچایا بھی۔ شایڈمن نے کہا: ’آپ نے دیکھا کہ کس طرح ان کی اپنی دہشت گردی کی حکمت عملی ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی!‘‘‘ (برو، صفحہ نمبر 257)

قتل پر شدید غم و غصے اور صدمے کے جذبات دیکھنے میں آئے۔ اسی دن برلن میں محنت کشوں اور فوجیوں کی کونسل نے ایک میٹنگ میں قتل پر شدید برہمی کا اظہار کیا اور جیت کے بعد کمیونسٹوں کے خلاف دہشت گردی کے بے دریغ استعمال پر احتجاج کیا۔ انقلابی تحریک 15 جنوری کو قتل کے ساتھ ختم نہیں ہوئی۔ حکومت نے دہشت گردی کی مہم کا آغاز کردیا جس میں بہت سے رہنماؤں کو گرفتار اور قتل کیا گیا اور احتجاجوں اور بغاوتوں کو ظالمانہ انداز میں کچلا گیا۔ ہزاروں کی تعداد میں محنت کشوں کو SPD کی قیادت میں فوج اور فری کارپس کے ساتھ تصادم میں مار دیا گیا۔

رد انقلاب نے وقتی طور پر انقلاب کو روک دیا تھا اور اس کے رہنماؤں کو قتل کر دیا تھا۔ مگر ظاہری امن کچھ دیر کے لیے ہی تھا۔ لکسمبرگ کا آخری آرٹیکل آنے والے سالوں کی انقلابی جدوجہد کی پیشین گوئی ثابت ہوا:

’’برلن میں امن قائم رہتا ہے!اے بیوقوف درباریو! تمہارا ’امن‘ ریت پر تعمیر ہوا ہے۔ کل انقلاب پھر سے سر اٹھائے گا، اپنے ہتھیاروں کو لہراتا ہوا۔ اسے فاتحانہ انداز میں یہ اعلان کرتا دیکھ کر تم دہل جاؤ گے:
’’میں تھا، میں ہوں، میں رہوں گا! ‘‘
(’’برلن میں امن قائم رہتا ہے‘‘ سیاسی تحاریر، صفحہ نمبر 319)

Comments are closed.