کتاب: ’’کشمیر کی آزادی۔۔۔ایک سوشلسٹ حل‘‘کا پیش لفظ

|تحریر: یاسر ارشاد|

محکوم اقوام کے حالاتِ زندگی عمومی طور پر اس قدر بھیانک ہوتے ہیں کہ ان کے خطوں میں بسنے والے عوام اور نوجوانوں کے لیے آزادی کا سوال انتہائی فوری اور عملی نوعیت کا ہوتا ہے۔ ایک غاصبانہ جبر تلے ان خطوں کے وسائل کی لوٹ مار، غربت اور پسماندگی جیسے مسائل بیرونی غاصب قوتوں کے خلاف جدوجہد کا عمومی جذبہ پیدا کرتے ہیں جو فوری عملی اقدامات کا متقاضی ہوتا ہے۔ کسی حد تک یہ فطری بھی ہے کہ غاصب قوت کا قبضہ ہی محکوم خطوں کے زیادہ تر مسائل کی فوری وجہ بنتا ہے، اسی لیے اس قبضے او ر غلامی سے نجات محکوم اقوام کے آزادی پسندوں کا اولین فریضہ بن جاتا ہے۔ جدوجہد کے نقطہ آغاز کے حوالے سے یہ درست بھی ہے کہ ہر محکوم قوم کو سب سے پہلے غاصب قو ت کے قبضے سے آزادی اور نجات درکار ہوتی ہے۔ اس سامراجی غلامی سے مکمل آزادی کے بغیر کسی بھی سماجی تعمیرِ نو کا آغاز ہی ممکن نہیں۔ اس بنیاد پر ہر محکوم قوم کی مکمل آزادی کسی بھی حقیقی انقلابی جدوجہد کے پروگرام کا ابتدائی نقطہ ہے۔
لیکن محکوم اقوام کے تمام مسائل کی جڑ ان کی محکومی کو قرار دے کر اس محکومی کے خاتمے کی فوری عملی جدوجہد کا آغاز کر دینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ چند ایک دیگر بنیادی سوالات پر انتہائی تفصیلی سائنسی وضاحت بھی درکار ہوتی ہے جو اس جدوجہد کے لیے درست راستہ اور طریقہ کار اختیار کرنے میں بے حد معاون ثابت ہو تی ہے۔ کوئی بھی انسانی معاشرہ باقی دنیا سے الگ تھلگ تنہائی میں اپنے ہی طور پر ترقی کے تمام مدارج طے کرتا ہوا آگے نہیں بڑھتا بلکہ ہر خطے میں بسنے والے انسان دیگر تمام خطوں کے ساتھ ایک گہرے تعلق کے باہمی اثر کے ذریعے تاریخی سفر طے کرتے ہیں۔ کسی بھی نئی سائنسی ایجا د سے لے کر سماجی تبدیلی تک ہر چیز پوری دنیا پر اپنے اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسی طرح دنیا میں رونما ہونے والی جنگوں، سامراجی قبضوں اور انقلابات سمیت تمام واقعات تاریخی تسلسل کی مخصوص مگر انتہائی گہری اور ناگزیر وجوہات کی بنیاد پر رونما ہوتے ہیں۔ اگر ہم محض اپنی قوم کی غلامی کی وجوہات کو ہی سائنسی بنیادوں پر جاننے کی خواہش رکھتے ہیں تو اس کے لیے بھی ہمیں ان عمومی تاریخی قوانین کو جاننا پڑے گا جو سماج کے ارتقا پر لاگو ہوتے ہیں تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ وہ کیا خاص محرکات، وجوہات اور حالات تھے جن کے دوران ہماری قوم محکوم بن گئی۔
درحقیقت تاریخی عمل کا انحصار افراد کے ارادوں کی بجائے گہری تاریخی ضروریات اور علت و معلول پر ہوتا ہے۔ ہم جس سماج میں رہتے ہیں یہ ایک طویل تاریخی ارتقا اور تبدیلیوں کے نتیجے میں اس موجودہ شکل میں نمودار ہو اہے۔ اس کی موجودہ حالت کو جاننے اور اس کے مستقبل کا خاکہ کھینچنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کے ارتقا کے عمومی قوانین کی بنیاد پر اس کی تاریخ کے مختلف مراحل و مدارج کا سائنسی تجزیہ کریں، اسی بنیاد پر ہم اپنے آج کے عمل کو درست اور نتیجہ خیز بنا سکتے ہیں۔ یوں سماج کی تاریخ کا سائنسی تجزیہ دانشورانہ بحث و مباحثے کا نہیں بلکہ قومی مسئلے کے حل کی عملی جدوجہد کا سوال ہے۔ قومی آزادی کی جدوجہد میں یہ رجحان کافی حد تک غالب رہا ہے کہ شاید زیادہ گہرے نظریاتی اور تاریخی مسائل پر بحث و مباحثہ اس جدوجہد کی ضرورت نہیں بلکہ اس کا سب سے پہلا مقصد غاصب قوتوں سے آزادی کا مسئلہ ہے جس کے لیے عملی تحرک کی زیادہ ضرورت ہے۔ اسی رجحان کے حاوی ہونے کے باعث قومی آزادی کی جدوجہدوں میں زیادہ سنجیدہ نظریاتی بحث و مباحثے کو غیر ضروری قرار دے کر نظریات کی جانب تضحیک آمیز رویے کو پروان چڑھایا گیا۔ یہ کہتے ہوئے کسی دوسرے خطے میں ہونے والی جدوجہد کے اسباق سے سیکھنے کے عمل کی حوصلہ شکنی کی جاتی رہی کہ اس خطے کے مسائل اور ہمارے مسائل بہت مختلف ہیں۔ تاریخ کے مطالعے کے حوالے سے بھی یہ رجحان غالب رہا کہ اپنے ہی خطے کی تاریخ کو باقی دنیا سے کاٹ کر الگ کر کے پڑھا اور پڑھایا گیااور اس کے چند سنہری ادوار کو مثال کے طور پیش کیا جا تا رہا جس کے باعث اپنی قوم کی تاریخ کی جانب نرگسیت کا رویہ گہری جڑیں پکڑ چکا ہے۔
یہ درست ہے کہ زیادہ تر محکوم خطوں کی قدیم تاریخ میں ایسے ادوار ضرور گزرے جن میں ہر خطہ اس مخصوص دور میں نسبتاً خوشحال رہا لیکن یہ تاریخ ہمیں سماجوں کے ارتقا اور تبدیلی کے عمل کی درست سمجھ بوجھ فراہم نہیں کرتی بلکہ محض یہ بتاتی ہے کہ یہ خطہ کس دور میں اور کس کی حکمرانی میں ایک خوشحال خطہ تھا۔ ہمیں اپنے خطے کی اس قسم کی تاریخ کے ساتھ ساتھ یہ بھی جاننا چاہیے کہ اس خطے میں بسنے والے انسانوں نے جو سماجی مراحل طے کیے، اس سماج کی تاریخ میں جو عروج و زوال آئے، اُن کی کیا وجوہات تھیں اور ارد گرد کے دیگر سماجوں کے ساتھ اس کے کس نوعیت کے تعلقات اور باہمی اثرات رہے۔ اسی طرح ان سماجوں کی تاریخ میں جو معاشی و سماجی نظام قائم رہے ان کی الگ الگ درجہ بندی کے بغیر تاریخ کے اس سفر کی درست سائنسی وضاحت ممکن نہیں۔
آج اگر ہم سرمایہ داری نظام کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں تو ہمیں یہ طے کرنا پڑے گا کہ کیا ہماری آزادی اسی نظام کے تحت ممکن ہے یا اس نظام کو بھی تبدیل کرنا ضروری ہے؟ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اس نظام کے تحت ہماری آزادی ممکن ہے تو ہمیں سرمایہ داری نظام کے تاریخی ارتقا کے سفر سے ایسے دلائل تلاش کرنا ہوں گے جن کے ذریعے یہ ثابت کیا جا سکے کہ سرمایہ داری نظام کے اندر تاریخی طور پر ترقی کی اتنی گنجائش موجود ہے کہ آزادی کے بعد بنیادی مسائل کو حل کیا جا سکتا ہے۔ ایک ایسا نظام جو دنیا بھر میں زوال پذیر ہے اور ترقی یافتہ ترین ممالک کے عوام کی وسیع اکثریت بھی اس کے خلاف سراپا احتجاج ہے تو پھر اس نظام کے ساتھ توقعات کیونکر وابستہ کی جائیں۔ اوراگریہ نظام ناکام ہو چکا ہے تو کون سا دوسرا نظام ہے جو تاریخی طور پر اس کی جگہ لے سکتا ہے، اس کی وضاحت ضروری ہے۔ یہ سبھی سوالات قومی آزادی کی جدوجہد کے کسی اگلے مرحلے کے سوالات نہیں ہیں کہ ان کو بعد کے کسی مرحلے پر زیر بحث لایا جائے گا بلکہ اس جدوجہد کا نقطہ آغاز ہیں۔ عملی جدوجہد کے آغاز سے پہلے ان سوالات پر تفصیلی بحث کرتے ہوئے ایک درست سائنسی نظریے اور پروگرام کی بنیاد پر ہی اس جدوجہد کو استوار کیا جا سکتا ہے۔ پھر ہر محکوم قوم کی جدوجہدِ آزادی کے اپنے بے شمار تجربات ہیں جن کا تنقیدی جائزہ بے حد ضروری ہے۔
یہ بھی درست ہے کہ عمومی طور پر غاصب حکمران محکوم اقوام کی تاریخ کو مسخ کر دیتے ہیں اور اسی لیے ہمیں محکوم اقوام میں اپنی قوم کی تاریخ کو جاننے میں خاص دلچسپی نظر آتی ہے۔ یہ دلچسپی نہایت ضروری ہے اور اس کو نہ صرف بڑھانے کی ضرورت ہے بلکہ اس میں یہ اضافہ کرنے کی ضرورت ہے کہ تاریخ کے علم پر حاوی حکمرانوں کے نقطہئ نظر اور فلسفے کو بھی رد کیا جانا چاہیے اور حقیقی سائنسی تاریخ کے مطالعے کو فروغ دیا جائے۔ تاریخ پر حاوی نقطہئ نظر یہ ہے کہ تاریخ محض چند بڑے حکمرانوں، فاتحین یا سپہ سالاروں کی مہم جوئیوں، اقدامات اور کارناموں کی تفصیلا ت پر مبنی ہے۔ اس تاریخ میں ہمیں ان لاکھوں عام انسانوں کی محنت کی سرگرمی اور سماجوں کی ترقی و تبدیلی کے عمل میں کی جانے والی جدوجہد اور قربانیوں کا ذکر تک نہیں ملتا۔ کوئی بھی انسانی معاشرہ محض چند حکمرانوں کی کاوشوں یا فتوحات کے نتیجے میں نہیں بنتا۔ کسی بڑی جنگ کو ہی لیا جائے تو اس کی قیادت کرنے والے کسی ایک یا چند افراد کے نام اس جنگ کی کامیابی منسوب کر دی جاتی ہے۔ لیکن میدان جنگ میں عملی طور پر اپنی جانوں کی قربانی دینے والے ہزاروں سپاہیوں کے نام اس تاریخ سے مکمل فراموش کر دیے جاتے ہیں اور ان کی لاشوں پر کھڑے ہو کر فتح پانے والے سپہ سالار کو ہی اس کامیابی کا سہرا پہنا دیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ کسی بھی جنگ، آزادی کی جدوجہد یا انقلا ب میں قیادت کا بہت اہم کردار ہوتا ہے لیکن قیادت کے کردار کو ہی واحد عامل قرار دینے سے ہم دوسری جانب لاکھوں افراد کے کردار کو یکسر نظر انداز کر دیتے ہیں جس سے تاریخ کی سائنسی تشریح کی بجائے ایک یک طرفہ اور مبالغہ آمیز تصویر اُبھرتی ہے۔ یہی وہ نقطہ نظر ہے جس کو حکمران طبقات خود بھی پروان چڑھاتے ہیں تاکہ کوئی بھی آزادی یا انقلاب کی جدوجہد درست سائنسی نظریات کی بجائے افراد کے گرد منظم ہو۔ یہی نقطہئ نظر شخصیت پرستی کے رحجان کو فروغ دیتا ہے اور پھر درست نظریات کی عدم موجودگی میں تحریکیں اور پارٹیاں شخصی اختلافات کی بنیاد پر گروہ بندی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ جس جدوجہد کو اپنے عہد کے سب سے جدید سائنسی نظریات کی بنیاد پر استوار نہ کیا جائے وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے کبھی بھی درست طریقہ کار اختیار نہیں کر سکتی، اس لیے وہ چاہے کتنی ہی طاقتور کیوں نہ ہو جائے خود اپنے غلط نظریات اور غلط طریقہ کار کے باعث اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے اور حکمرانوں کو بھی ان غلطیوں کے باعث ایسی تحریکوں کو کچلنے کے مواقع میسر آتے رہتے ہیں۔
اسی طرح ایک اور عام سا سوال جو اکثر زیر بحث ہوتا ہے کہ محکوم قوم کی آزادی کا دشمن کون ہے اور حمایتی اور دوست کون ہے؟ اس سوال کا جواب بھی ہر فرد اپنے نظریے اور فلسفے کی بنیاد پر ہی دے سکتا ہے اور محکوم اقوام کے زیادہ تر سیاسی کارکنان اور عام عوام بالخصوص قابض قوم کے علاوہ باقی ملکوں کے بارے میں یہ رائے رکھتے ہیں کہ وہ ہماری آزادی کے سرگرم اور پُرجوش نہ سہی مگر خاموش حمایتی ضرور ہیں۔ اسی طرح اقوام متحدہ جیسے نام نہاد غیر جانب دار اداروں کے بارے میں اس قسم کی خوش فہمیاں زیادہ مضبوط ہیں کہ یہ ادارے تو ہماری آزادی کی نہ صرف مکمل حمایت کرتے ہیں بلکہ وہ حاکم قوم کو مجبور کریں گے کہ وہ ہمیں آزاد کر دے۔ نہ صرف خارجی حوالے سے اس قسم کی خوش فہمیوں سے اجتناب ضروری ہے بلکہ قوم کے اندر بھی آزادی کا حقیقی دوست اور دشمن کون ہے اس میں بھی ایک واضح فرق قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طر ح تحریک کے ہر ایک سیاسی پہلو سے لے کر اس کے انتظامی اور تنظیمی پہلوؤں پر جو بھی مؤقف اختیار کیا جاتا ہے اُس کے پیچھے کوئی نہ کوئی نظریہ اور فلسفہ کارفرما ہوتا ہے۔
یوں کسی بھی مؤقف کی درستگی کا انحصار اس کے پیچھے کارفرما نظریے اور فلسفے کی درستگی پر ہوتا ہے اسی لئے کسی بھی سیاسی تحریک کو سب سے پہلے ایک درست سائنسی نظریے کی بنیاد پر استوا ر کرنا ضروری ہوتا ہے۔ قومی آزادی کی تحریکوں میں سرگرم نوجوانوں اور محنت کشوں کی غاصبانہ قبضے سے جلد از جلد آزادی کے حصول کی خواہش اور تڑپ اپنی جگہ پر بجا ہے لیکن اس کے حصول کا یہ طریقہ کار ہر گز درست نہیں کہ اس جدوجہد کو جن نظریاتی بنادوں پر استوار کیا جائے اُن کو تاریخی تجربات کی کسوٹی پر نہ پرکھا جائے۔ آزادی کے حصول کے لیے جو طریقہ کار اختیار کیا جا رہا ہواُس کی آج کے عہد کے حالات کے ساتھ مطابقت کو تنقید ی نظر سے نہ دیکھا جائے۔

جس نظام کے تحت یہ قومی غلامی رائج ہے اُس نظام کے مختلف تاریخی مراحل کا جائزہ لیتے ہوئے اُس کے خاتمے کے امکانات کو مدّنظر نہ رکھا جائے۔ عالمی سطح پر سیاسی و سماجی طور پر رونما ہونے والی تبدیلیوں اور واقعات کے ساتھ مادی ذرائع پیداوار کی ترقی کے نتیجے میں پسماندہ سماجوں پر پڑنے والے اثرات کو یکسر نظر انداز کر دیا جائے۔ اپنی قومی آزادی کی تحریک کی تاریخ کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے وہ نظریات اور طریقہ کار جو عمل میں مسترد اور ناکام ہو چکے ہیں، اُن کو تبدیل نہ کیا جائے اور ماضی میں ہونے والی غلطیوں کو دہرانے کا جرم کیا جائے۔ اگر ہم قومی آزادی کی تحریک کو جذبات کی بجائے شعوری طور پر منظم جدوجہد میں تبدیل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی یہ روش تبدیل کرنا ہو گی۔ ہمیں سب سے پہلے درست نظریات کو اپنانے کے لیے تمام نظریات کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے اب تک کے سب سے جدید اور درست نظریات کو اپنانا ہوگا۔ ہمارے خیال میں سرمایہ داری کو تبدیل کرنے کے لیے آج تک جو سب سے جدید اور انقلابی نظریات تخلیق کیے گئے وہ مارکسزم کے نظریات ہیں جن کی بنیاد مارکس اور اینگلز نے رکھی تھی اور جنہیں بعد میں لینن، ٹراٹسکی اور ٹیڈ گرانٹ نے آگے بڑھایا۔ مارکسزم کے نظریات کسی بھی دوسری سائنس کی طرح ہر قسم کی سائنسی تنقید اور اختلافات کو خوش آمدید کہتے ہوئے ایک جمہوری بحث و مباحثے کے ذریعے جدوجہد کو آگے بڑھانے کا طریقہ کار فراہم کرتے ہیں۔
زیر نظر کتاب مارکسزم کے سائنسی نظریات کی بنیاد پر کشمیر کے قومی سوال کی بحث کو آگے بڑھانے کی ایک کاوش ہے۔ پہلے باب میں 5 اگست کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کی عالمی و علاقائی سطح پر رونما ہو چکی تبدیلیوں کے ساتھ تعلق کی روشنی میں وضاحت کی گئی ہے اور اس کے ساتھ موجودہ عہد کے کردار کا مختصر خاکہ اور مستقبل میں اس سے بڑی تبدیلیوں کے امکانات کی وضاحت کی گئی ہے تا کہ کشمیر کی جدوجہد کو اس خطے میں ہونے والے واقعات کے ساتھ جوڑ کر آگے بڑھا یا جا سکے۔ دوسرا باب، جو کشمیر کی قومی آزادی کی جدوجہد اور مسئلہ کشمیر کے مختصر پس منظر پر مبنی ہے، اس میں بھی تاریخ کے صرف ان اہم واقعات کا ذکر ہے جو موجودہ حالات کے ساتھ کسی بھی حوالے سے منسلک ہیں۔ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کے چیدہ چیدہ واقعات کی تفصیلات کی بجائے ان کی نظریاتی بنیادوں اور ان کے نتائج کے تجزیے کو ہی ضبطِ تحریر میں لایا گیا ہے تاکہ تاریخی تفصیلات سے اجتناب کرتے ہوئے محض ضروری نتائج تک ہی محدود رہا جاسکے۔ اس لیے تاریخی تسلسل میں تفصیلات کی تشنگی بہرحال موجود ہے جس کا ایک جواز تو یہ تھا کہ یہ کشمیر کی تاریخ پر مبنی کتاب نہیں ہے، دوسرا ہمارے پیش نظر مقصد مستقبل کی جدوجہد کو درست بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے ایک نئی بحث کا آغاز کرنا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ تاریخ سے محض اس بحث سے متعلقہ مواد کا ہی سرسری ذکر کیا جائے۔ تیسرا باب حقِ خود ارادیت کے موضوع پر مارکسی طریقہ کار کے اطلاق سے اس کے تاریخی جائزے پر مبنی ہے۔ اس میں حقِ خود ارادیت کے سرمایہ دارانہ، سٹالنسٹ اور مارکسی نقطہئ نظر اور استعمال کے ساتھ اس میں کی جانے والی ترامیم اور موجودہ عہد میں اس کے انقلابی اور ردِ انقلابی فرق کی وضاحت کی گئی ہے۔ چوتھے باب میں قومی جمہوری انقلاب سے جڑی مختلف وضاحتوں کے ساتھ سٹالنسٹ عہد میں اس میں شامل ہونے والے مواد کی تفصیلات لکھی گئی ہیں اور اس باب میں سوویت یونین کی موجودگی کے تیسری دنیا پر اثرات اور سٹالن ازم کے پھیلاؤ کے حوالے سے تحریر کردہ مواد کے مرکزی خیال کے لیے کامریڈ ٹیڈ گرانٹ کی اس موضوع پر لکھی گئی مختلف تحریروں سے استفادہ کیا گیا ہے۔ پانچویں باب میں محکوم اقوام کے وسائل کی لوٹ مار کی وجوہات اور ریاست کے تصور کی مختصر وضاحت کے ساتھ ساتھ مسلح جدوجہد کے طریقہ کار کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے اور اس کے ساتھ وسائل کی لوٹ مار جیسے مسائل بھی کیوں ایک حقیقی آزادی حاصل کیے بنا نہیں ختم ہو سکتے، اس کی وضاحت پیش کی گئی ہے۔ چھٹے باب میں قوم پرستی اور مزدور بین الاقوامیت کے فرق کے ساتھ کچھ اعتراضات کا بھی جواب دیا گیا ہے جو مارکسزم کے نظریات کے ساتھ غلط طور پر وابستہ کر دیے گئے ہیں اور اس کے ساتھ یہ وضاحت بھی کی گئی ہے کہ کس طرح آج کے عہد میں محکوم اقوام کی جدوجہد اپنی بنیاد میں ایک طبقاتی مسئلہ بن چکا ہے۔ ساتویں باب میں مسئلہ کشمیر جیسے پیچیدہ قومی سوال کو مستقبل میں کس طرح انقلابی طریقے سے حل کیا جا سکتا ہے اور اس کا حقیقی حل کس طرح پورے برصغیر کے ساتھ منسلک ہے، اس کا خاکہ بیان کیا گیا ہے۔
اگرچہ اس کتاب میں زیادہ کشمیر کے قومی مسئلے کو ہی زیر بحث لایا گیا ہے لیکن اس کے باوجود کشمیر کی قومی آزادی کی جدوجہد سے اخذ کردہ نتائج کا مارکسی تجزیہ تھوڑی بہت تفصیلات کے فرق کے ساتھ اس خطے کی دیگر محکوم اقوام کے لیے بھی اہم ہے۔ خاص کر حقِ خودارادیت، قومی جمہوری انقلاب، وسائل کے تحفظ یا جدوجہد کے مختلف طریقہ ہائے کار کا تنقیدی جائزہ اور قومی مسئلے کا مارکسی حل، ہر حوالے سے تمام محکوم اقوام کی جدوجہدوں کے لیے بھی اسی طرح اہم ہے جس طرح کشمیر کے حوالے سے۔ دیگر محکوم اقوام کی تاریخ اور قومی آزادی کی جدوجہدوں کے تنقیدی جائزے کے بغیر اگرچہ یہ بحث ان اقوام کے حوالے سے مکمل نہیں ہو سکتی لیکن بہرحال عمومی نتائج ایک جیسے ہی ہیں۔ مارکسزم کے نظریات اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے کی جانے والی عالمی جدوجہد کی تاریخ سے واقفیت نہ رکھنے والے قارئین کے لیے بہت سے تاریخی حوالے اور اصطلاحات شاید دشواری کا باعث بنیں لیکن اس مشکل کا کوئی حل موجود نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس اس کتاب کا مقصد ہی مارکسزم کے نظریات کے مطالعے کی ترغیب دینا ہے۔ ایک دیانت دارانہ سیاسی تنقید ہی اس بحث کو مزید نکھارنے اور قومی آزادی کی تحریک کی شعوری سطح کو بلند کرنے میں معاون ثابت ہو گی اور اسی توقع پر یہ کاوش کی گئی ہے۔
25اکتوبر2019ء
راولاکوٹ

Comments are closed.