کشمیر کے انتخابات: حکمرانوں کا پتلی تماشہ

تحریر: |یاسر ارشاد|
نام نہاد آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے انتخابات 21جولائی کو منعقد ہونے جا رہے ہیں۔ ماضی میں کشمیر کے انتخابات میں زیادہ تر دو جماعتوں کے درمیان مقابلے کا ڈھونگ رچایا جاتا تھا جن میں سے وفاق میں برسراقتدار جماعت کی سیاسی شاخ یا اس کی حمایت یافتہ جماعت کامیاب قرار پاتی رہی ہے اس حوالے سے کشمیر میں ہونے والا یہ انتخابی ڈرامہ کافی سادہ اور ہمیشہ ہی ایک جیسا رہا ہے۔ اب بھی اس انتخابی ڈرامے میں اس حوالے سے زیادہ کچھ نہیں بدلہ لیکن پاکستانی ریاست کی بڑھتی ہوئی اندرونی دھڑے بندیاں اس سیاسی عمل اور ڈھانچے میں نئی دراڑیں ڈالنے کا باعث بن رہی ہیں۔

ماضی میں اسلام آباد کے حکمران دو بڑی سیاسی جماعتوں کی باری باری حکومتوں کے قیام کے ذریعے اس خطے کو کنٹرول کرتے تھے لیکن ریاست کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث نئے سیاسی دھڑے تشکیل دینے کا عمل بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ گزشتہ انتخابات میں پہلی بار مسلم کانفرنس(جو پاکستان کی تمام حکمران لیگوں بشمول فوجی آمریتوں کی اتحادی جماعت رہی ہے)کو توڑ کر ن لیگ بنائی گئی اور گزشتہ ایک دو سالوں کے دوران پیپلز پارٹی کو توڑ کر تحریک انصاف کی بھی تشکیل کر دی گئی ہے۔ اس ٹوٹ پھوٹ نے تمام حکمران دھڑوں کو مزید کمزور کر دیا ہے جس کی وجہ سے پھر ان دھڑوں کے درمیان نئے انتخابی اور حکومتی اتحاد ناگزیر ہو گئے ہیں چونکہ کوئی بھی دھڑا اتنا مضبوط نہیں ہے کہ دوسروں کی حمایت کے بغیر حکومت قائم کر سکے ۔ اس تمام انتخابی ڈرامے کا اگر سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے توکچھ بنیادی نتائج باآسانی اخذ کئے جا سکتے ہیں۔
1۔ کشمیر میں پاکستان کی سامراجی سنگینوں کے سائے تلے رچایا جانیوالا یہ سارا کھیل محض اس بھیانک قبضے کو جمہوریت کے چیتھڑوں میں چھپانے کی اسی طرز کی ایک کوشش ہے جو ہر قابض ملک اپنے مفتوحہ علاقے میں کرتا ہے محض اس فرق کے ساتھ کہ کشمیر میں یہ سارا تماشہ نسبتاً پر امن طور پر ہو رہا ہے۔ پاکستان کے سامراجی تسلط کا مکروہ چہرہ صرف ایک حقیقت سے واضح ہو جا تا ہے کہ انتخابات میں حصہ لینے کی بنیادی شرط الحاق پاکستان کو تسلیم کرنا لازم ہے یعنی سادہ الفاظ میں پاکستان کی غلامی کو تسلیم کرنے کے بعد ہی کوئی فرد انتخابات میں حصہ لینے کا اہل قرار پاتا ہے۔ اس کے ساتھ اگر ہم سرمایہ دارانہ جمہوریت کی محدودیت اور انتخابات میں حصہ لینے کے لئے درکار بے پناہ سرمائے کی ضرورت جیسے حقائق کی وضاحت کریں کہ اس نظام کی جمہوریت صرف امیروں کے مختلف دھڑوں کے درمیان اقتدار کے حصول کی انتخابی لڑائی ہوتی ہے جس میں 90 فیصد سے زائد عوام کے پاس انہی حکمرانوں کے ایک یا دوسرے دھڑے کو ووٹ دینے یا خاموش احتجاج کر تے ہوئے ووٹ نہ دینے علاوہ کوئی راستہ ہی نہیں ہوتا تو ان انتخابات کا اصل کردار آشکار ہو جاتا ہے کہ عوام کے ساتھ جمہوریت اور ان کے مسائل کے حل کی سیاست کے نام پر کتنا بڑا کھلواڑ کیا جاتاہے۔
2۔ انتخابات میں حصہ لینے والی کسی بھی جماعت کا کوئی سیاسی اور معاشی پروگرام نہیں ہے اور اگر اتفاق سے کبھی اچھے وقتوں میں کسی جماعت کا کوئی پروگرام تھا بھی تو وہ اس کو مکمل طور پر فراموش کر چکی ہے اسی لئے تمام تر انتخابی مہم فروعی اور نان ایشوز کے ساتھ محض شخصیات کے گرد بحثوں پر مبنی ہے۔ نظریات اور پروگرام سے عاری ہونے کی وجہ سے ہی تمام سیاسی پارٹیوں کے آپسی اختلافات بھی جھوٹے، سطحی اور گروہی نوعیت کے ہیں جو مال کے حصول کی ایک تلخ لڑائی کی غمازی کرتے ہیں اور پھر ان بنیادوں پر بننے والے اتحاد بہت ہی کمزور اور عارضی ہوتے ہیں جن کو جاری رکھنے کی واحد ضمانت مسلسل لوٹ مار کے مواقعوں کی فراہمی ہے۔ چونکہ کسی بھی جماعت کا کوئی پروگرام اور نظریہ نہیں ہے اس لئے سب کے مشترکہ دو مقاصد ہیں ایک اقتدار کا حصول جس کے ذریعے ہر گروہ زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرنا چاہتا ہے اور اس مال سے زیادہ سے زیادہ حصہ وصول کرنے کی ہوس ہمیں مختلف سیاسی جماعتوں کے درمیان سیاسی لڑائیوں کی صورت میں نظر آرہی ہے جبکہ دوسرا مقصد لوٹ مار کے اس نظام کا تحفظ ہے جس پر حکمرانوں کے تمام دھڑے محنت کشوں نوجوانوں اور عوام کے خلاف آپس میں متحد ہیں۔
3۔ سرمایہ داری نظام کے بحران میں مسلسل اضافہ ہونے کی وجہ سے اس نظام کے تمام سیاسی اور انتظامی ڈھانچے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں خاص کر ان ممالک میں جہاں اس نظام کی کافی حد تک صحت مند تعمیر ہوئی تھی جیسا کہ یورپ اور امریکہ جبکہ تیسری دنیا کے پاکستان جیسے ممالک میں سیاسی اور جمہوری ڈھانچہ آغاز سے ہی انتہائی کمزور اور مفلوج قسم کاتھاجو اس بحران کے باعث انتہائی خستہ حالت کو پہنچ کر اپنے داخلی بحرانوں کی وجہ سے لرز رہا ہے۔ اس پس منظر میں پاکستان کی ایک پسماندہ کالونی یعنی کشمیر میں جہاں غربت، بیروزگاری، مہنگائی، پسماندگی اور غلامی کے ساتھ ٹوٹ پھوٹ اور خستہ حالی کا شکار انفراسٹرکچرکی وجہ سے لوگوں کی زندگیاں عذاب اور اذیتوں کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہیں وہاں یہ متروک ہوتی ہوئی جمہوریت اور سرمایہ داری نظام عوام کے زخموں پر نمک لگانے کے مترادف ہے۔ محنت کشوں اور عوام کی اکثریت اس انتخابی کھلواڑ کے بار بار کے تلخ تجربوں سے گزر کر اس نتیجے تک تو پہنچ چکے ہیں کہ اس انتخابی سیاست کے افق پر موجود کسی بھی پارٹی کے پاس ان کے مسائل کا کوئی حل نہیں ہے اگرچہ ہمیں سیاسی عمل میں قبیلائی، برادری یا اسی نوعیت کی فرسودہ لیکن مادی وجوہات کی بنیاد پر کسی حد تک لوگوں کی کچھ دلچسپی اور شمولیت بھی نظر آتی ہے ۔

مسلم کانفرنس اور تحریک انصاف کا انتخابی اتحاد

مسلم کانفرنس اور تحریک انصاف کا انتخابی اتحاد

ان حقائق کی بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو اس وقت انتخاب لڑنے والی جماعتیں اور امیدوار جیتنے کے لئے ہر قسم کے اتحاد تشکیل دینے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ تحریک انصاف کا مسلم کانفرنس کے ساتھ اتحاد ہو چکا ہے جو کافی حد تک فطری ہے۔ ن لیگ نے ایک جانب PPP سے الگ ہو کر بننے والی جماعت JKPP کے ساتھ اتحاد کیا ہے تو دوسری جانب جماعت اسلامی آزاد کشمیر کے امیر کو مخصوص نشست پر اسمبلی ممبر بنانے کے وعدے پر اپنے امیدواروں کے حق میں دستبردار کرا دیا ہے۔ PPP کو نہ صرف کوئی اتحادی میسر نہیں آرہا بلکہ اس کے کچھ وزراء اور اسمبلی ممبران دوسری جماعتوں خاص کر ن لیگ میں شامل ہو رہے ہیں اور کچھ پارٹی ٹکٹ واپس کر کے آزاد امیدوار کے طور پر انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں تاکہ جو جماعت حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہو اس میں شامل ہو سکیں۔ ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر اور اتحادوں کے تشکیل کے عمل میں بھی ہر پارٹی کے اندر ایک ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے۔ ہر سیاسی جماعت کے اندر کا انتشار اور عمومی طور پر پورے سیاسی عمل میں جاری خلفشار اس سماج کے گہرے بحران کی عکاسی کر رہا ہے۔ PPP کی حکومت اپنا آخری بجٹ بھی پیش کر چکی ہے اور اس کے پاس انتخابات سے ایک ماہ پہلے پیش کئے جانے والے بجٹ میں بھی محنت کشوں اور عوام کو دینے کے لئے کچھ نہیں تھا۔ ملازمین کی تنخواہوں میں وفاق کے اعلان کردہ اضافے کا اطلاق یہاں بھی ہو جاتا ہے اور کشمیر کی حکومت کے پاس خاص کر اس بحران کی کیفیت میں اتنی مالیاتی صلاحیت ہے ہی نہیں کہ وہ اپنی طرف سے بھی کوئی اضافہ کر سکیں اس لئے بجٹ عام لوگوں کے لئے سب سے کم دلچسپی کا حامل واقع ہوتا ہے۔

حکمرانوں کے اس انتخابی ڈرامے کے ساتھ ساتھ محنت کشوں اور نوجوانوں کی اپنے مسائل کے حل کی جدوجہد میں بھی تیزی آتی جا رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں اس جدوجہد میں مزید شدت آئے گی کیوں کہ اس نظام میں کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو وہ محنت کشوں کے مسائل حل کرنے کی اہلیت سے ہی محروم ہو گی۔ اس نظام کا بحران زیادہ گہرا ہوتا جائے گا اور اس کی وجہ سے حکمرانوں کی باہمی لوٹ مار کی لڑائیاں شدت اختیار کرکے اس جاری انتشار میں اضافے کا باعث بنیں گی۔ دوسری جانب بحران کے بڑھنے کے سبب حکمران محنت کشوں کی حاصل کردہ مراعات میں کٹو تیاں کرنے پر مجبور ہوں گے جس کی وجہ سے طبقاتی جدوجہد شدت اختیار کرے گی اور یہ عمل پھر اس نظام کے زوال اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل کو بڑھاوا دینے کا باعث بنے گا۔ عالمی سطح پر اس نظام کی گراوٹ اور متروکیت اس تمام عمل کو دھماکہ خیز بنا دے گی۔ تلخ جدوجہدوں اور واقعات کے زیر اثر اس خطے کے محنت کش اس نظام کے خاتمے کی لڑائی کے فیصلہ کن مراحل کی جانب بڑھیں گے۔ یہ عمل ہر قسم کے اتار چڑھاؤ سے بھر پور ہو گا جس میں طبقاتی آزادی کے ساتھ قومی آزادی کے مطالبات بھی سر اٹھائیں گے اور کسی حد تک قومی علیحدگی کے رحجانات کو بھی عارضی ابھار میسر آئیں گے۔ یہ سماج ایک تلاطم خیز عہد کی جانب بڑھ رہا ہے جس کی واحد خصوصیت اس کا سرگرمی سے لبریز ہونا ہوگی۔ ہر قسم کے واقعات اور طوفانی جدوجہدوں کے اسی دور میں اس نظام کی انقلابی تبدیلی کے موضوعی اور معروضی عناصر پک کر تیار ہوں گے جن کا امتزاج اس نظام کے حتمی خاتمے کے ذریعے نسل انسانی کی نجات کو حقیقت کا روپ دے گا۔

Comments are closed.