کشمیر: آزادی کی تحریک خطے کے انقلابات کی چنگاری بنے گی!

|تحریر: یاسر ارشاد|

’’یہ اشتعال نہیں ایک امڈتی بغاوت ہے۔‘‘ اے جی نورانی

گزشتہ سال جولائی میں شروع ہونے والی کشمیری نوجوانوں کی بغاوت کو 15ماہ ہوچکے ہیں لیکن اس کی شدت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وادی کے طول و عرض پرمیں جاری یہ بغاوت اپنے تمام تر اتار چڑھاؤ کے ساتھ موجود ہے۔ ہندوستان کے وحشیانہ ریاستی جبر کی انتہا اور پاکستان کی سامراجی ریاست کی بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے ذریعے تحریک کو زائل کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجودبھی اس بغاوت کو کچلا نہیں جا سکا۔ سینکڑوں نوجوانوں کو پیلٹ گن کے چھروں سے بینائی سے محروم کر دیا گیاہے۔ ہزاروں کو زخمی اور مزید ہزاروں کو گرفتار کیا جا چکا ہے لیکن پھر بھی ہڑتالوں اور احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وادی کے بیشتر حصوں میں غیر اعلانیہ کرفیو نافذ ہے اور انٹر نیٹ کی سہولت بند کر دی گئی ہے چونکہ ریاستی جبر کے ذریعے اس بغاوت کو کچلنے میں ناکامی کے بعد ہندوستانی ریاست کے کچھ حصوں کا خیال ہے کہ سوشل میڈیا ہی اس تحریک کا اصل محرک ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارت نے ٹویٹر (twitter) کی انتظامیہ کو باقاعدہ درخواست لکھی ہے جس میں 115اکاؤ نٹس کی نشاندہی کی گئی ہے کہ ان کو قابلِ اعتراض مواد (یعنی کشمیر میں جاری بھارتی جبر) کی تشہیر کے جرم میں بند کیا جائے۔ اسی طرح این آئی اے (National Investigation Agency)نے 117لوگوں کی نشاندہی کی ہے جو 79 ویٹس ایپ گروپ استعمال کرتے ہیں اور سنگ بازوں کو کسی بھی جگہ جمع کرنے اور تمام انتشار پھیلانے کے ذمہ دار ہیں۔ (انڈین ایکسپرس رپورٹ)۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر پابندی درحقیقت ہندوستانی ریاست کی بے بسی کی واضح عکاسی ہے جو وادی میں شکست کا براہ راست نتیجہ ہے۔ یہ ایک ایسی کیفیت ہے جس میں ریاستی جبر کے ذریعے بغاوت کو کچلنے میں ناکامی جیسی حقیقت کا سامنا کرنے سے کترانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

جبر کے نئے سے نئے ذرائع تلاش کیے جا رہے ہیں تاکہ ہندوستانی ریاست کی اس ناکامی کو چھپایا جا سکے جو ابھی تک تو صرف وادی کے نوجوانوں اور عوام کے سامنے عیاں ہوئی ہے لیکن آنے والے عرصے میں پورے ہندوستان کے نوجوانوں اور محنت کشوں کے سامنے آسکتی ہے۔ اس لئے ہم ریاست کی جانب سے مختلف حربوں کا استعمال دیکھ رہے ہیں جیسے گزشتہ چند ماہ سے این آئی اے(NIA) نے کشمیر کی علیحدگی پسند تنظیموں کے قائدین کے خلاف پاکستان سے پیسے لے کر سنگ بازی کرانے کے الزامات کی تحقیقات شروع کر رکھی ہیں اور مختلف قائدین کے قریبی لوگوں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے۔ مئی 2017ء میں شروع ہونے والی ان تحقیقات کے نتیجے میں سید علی گیلانی کے داماد الطاف احمد شاہ سمیت میر واعظ عمر فاروق کے قریبی ساتھیوں کو گرفتار کر کے ان کے ماضی کے جرائم کے ذریعے موجودہ بغاوت کو داغدار کر کے کمزور کرنے کی ناکام کوشش جاری ہے۔ حریت کانفرنس سمیت علیحدگی پسند تنظیموں کی تمام قیادتیں 2010ء میں اُبھرنے والی تحریک میں بڑے پیمانے پر مسترد ہوگئی تھی اور اس کے بعد ابھرنے والی ہر تحریک اور خاص کر موجودہ بغاوت نے ان کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے۔ scroll.in ویب سائیٹ پر 24اگست کو شائع ہونے والا ایک مضمون اس حوالے سے لکھتا ہے:

’’کیا این آئی اے کے چھاپوں کی وجہ سے سنگ بازی کے واقعات میں کمی آئی ہے جیسا کہ وزیر داخلہ راج ناتھ کا دعویٰ ہے؟
ایک پولیس آفیسر نے اپنا نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ این آئی اے کے چھاپوں کا سنگ بازی پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ سنگ بازی اور تشدد خود رو ہے۔ در حقیقت اس قسم کی سوچ کشمیر کو سمجھنے سے مکمل طور پر عاری ہے۔ پولیس آفیسر کا اشارہ بھارتی اسٹیبلشمنٹ کی جانب تھا۔ اس نے مزید کہا کہ انتشار پھیلانے کے لئے پیسوں کا استعمال بعض محدودے واقعات میں ہوتا ہو گا لیکن سنگ بازی کے واقعات خودرو ہیں جو کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی یا جبر کے نتیجے میں اُبھرتے ہیں۔ ‘‘

اس پولیس آفیسر نے مزید کہا کہ اگرچہ این آئی اے کے چھاپوں اور گرفتاریوں نے حریت قائدین کو ہلا کر رکھ دیا ہے چونکہ ان کے ساتھ کبھی بھی اس طرح کا سخت برتاؤ نہیں کیا گیا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ان کو ایک کڑے امتحان سے گزرنا پڑ رہا ہے۔ اسی پولیس آفیسر کا حریت کانفرنس قائدین کی گرفتاریوں کے خلاف ہڑتال کی کال پر تبصرہ ان قائدین کی قابلِ رحم حالت کو ان الفاظ میں ظاہر کرتا ہے۔

’’24جولائی کو این آئی اے کی جانب سے کی جانے والی گرفتاریوں کے خلاف حریت کی ہڑتال کی کال پر لوگوں کا رویہ انتہائی سرد مہری اور لاتعلقی پر مبنی تھا۔ جبکہ 12اگست کو آئین کے آرٹیکل 35Aکے خاتمے کے خلاف ہڑتال کی کال پر لوگوں نے مکمل ہڑتال کی۔ ‘‘

درحقیقت خود ہندوستانی ریاست اس حقیقت کو سمجھ چکی ہے کی پرانی قیادتیں مکمل طور پر مسترد ہو چکی ہیں اسی لئے ان کے خلاف ایک کریک ڈاؤن کر کے ان کو دوبارہ اہم بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تاکہ انہیں تحریک پر دوبارہ مسلط کروا کر ان سے مذاکرات کا ناٹک رچایا جائے۔ اس کریک ڈاؤن سے ان کو مظلوم بننے اور ریاست کا مخالف ہونے کا ڈھونگ کرنے کا بھی موقع بھی فراہم کیا جا رہا ہے۔ لیکن ان قیادتوں کا اس قسم کے حربوں کے ذریعے دوبارہ نوجوانوں اور محنت کشوں کا اعتماد حاصل کرنا اور اس نئی نسل کی بغاوت کی قیادت بن جانا حتمی طور پر نا ممکن ہوچکا ہے۔ این آئی اے کے ان چھاپوں اور دباؤ کی ایک اور وجہ بھی بیان کی جارہی ہے۔ 23اگست کو کشمیر ریڈراخبار نے میر واعظ عمر فاروق کے دھڑے کے حوالے سے یہ رپورٹ شائع کی کہ اس دھڑے کے اپنے لوگ اپنی مرکزی قیادت پر تنقید کر رہے ہیں کہ این آئی اے کے کریک ڈاؤن کی وجہ سے ہی میر واعظ دھڑے کے کچھ لوگوں نے دبئی میں ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی۔ یہ کانفرنس 31جولائی سے2اگست تک دبئی میں برطانیہ کی ایک این جی او Conciliation Resources نے منعقد کی تھی جس میں دونوں اطراف کے ریاست کے منظورِ نظر سابق فوجی و سرکاری افسران، نام نہاد سیاستدانوں اور صحافیوں نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس ٹریک ٹو سفارتکاری کا حصہ ہے جس میں دونوں اطراف کے ریٹائرڈ فوجی و سرکاری اہلکار اور این جی اوز کے نمائندے شریک ہوتے ہیں اور پاک بھارت امن کے قیام کی راہیں ہموار کرنے کی مبینہ کوششیں کرتے ہیں اور کچھ گماشتے سیاستدانوں اور صحافیوں کو بھی تفریح و تماشے کے لئے مدعو کیا جاتا ہے۔ پاک و بھارت کی خونخوار ریاستوں کے اعلیٰ فوجی آفیسران اپنی ملازمتوں کے دوران اس پاک ہند دشمنی کی بنیاد پر اسلحے کے سودوں سے کمیشن، دہشت گردی اور سمگلنگ وغیرہ جیسے کاروباروں سے اربوں ڈالر کا مال بٹورتے رہتے ہیں جبکہ ریٹائر منٹ کے بعد این جی اوز کی ملازمت اختیار کر کے مذاکرات اور امن کا ناٹک کر کے دولت کمانے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔ دبئی میں ہونے والی اس کانفرنس میں ہندوستانی وفدکی قیادت بھارتی فضائیہ کا سابق ائیر وائس مارشل کپیل کاک کر رہا تھا جبکہ پاکستانی وفد کی قیادت آئی ایس آئی کا سابق سربراہ اسد درانی کر رہا تھا۔ اس کانفرنس اور اس کے شرکا کی حیثیت یہ ہے کہ پاکستانی ریاست کے ایک پالتو گماشتے متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین نے ان شرکا کو کسی نامعلوم ادارے کا تنخواہ دار ایجنٹ قرار دیا ہے جو کشمیریوں کے خون کی سودا گری میں ملوث ہیں۔ درحقیقت ان سابقہ دہشت گردوں کی اپنی مختلف شکایات پاکستانی ریاست کے ساتھ ہیں، خاص کر 90ء کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں جو بڑے پیمانے پر جہاد کا کھلواڑکشمیر اور افغانستان میں ان وحشیوں نے ریاستی پشت پناہی سے جاری رکھا ہوا تھا اس میں عالمی سطح پر حالات کے تبدیل ہونے کی وجہ سے پاکستانی ریاست کو جو کمی لانا پڑی اس پر یہ ریاست سے سخت نالاں ہیں۔ اس لیے کہ جس بڑے پیمانے کا جہاد تھا اس سے کئی گنا زیادہ منافعے تھے لیکن جہاد ی کارروائیوں کا دائرہ کار جتنا محدود ہوتا گیا ڈالروں کی تعداد بھی اسی مناسبت سے کم ہوتی گئی۔ پہلے ہی ان کے خونی کاروبار میں اتنی مندی ہے اوراس پر مزید امن کی باتیں ان کو تو اپنی موت لگتی ہیں جس پر وہ اس قسم کی چیخ و پکا ر کرتے ہیں۔

درحقیقت کشمیر کی موجودہ بغاوت خطے کی دونوں سامراجی ریاستوں پاک و ہند کے لئے ایک ہی طرح سے خطرناک ہے۔ اگر یہ ایک جانب تمام پرانی ریاستی پارٹیوں اور قیادتوں کے کنٹرول سے باہر ہے تو دوسری جانب بھارتی ریاست کی تمام کوششوں کے باوجود بھی اس پر پاکستان کا حمایت یافتہ ہونے کا الزام نہیں لگایا جا سکا اور نہ ہی پاکستانی ریاستی اور خفیہ ایجنسیوں کی اس تحریک میں مداخلت کی کوشش کارگر ثابت ہو رہی ہے۔ یہاں تک کہ مسلح دہشت گردی کا حصہ بننے والے بھی زیادہ تر مقامی نوجوان ہی ہیں جن پر پاکستان کا ایجنٹ ہونے کا الزام نہیں لگایا جا سکا۔ اس حوالے سے پاک و ہند کے حکمران طبقات اور برطانیہ وامریکہ میں ان کے آقا سبھی اس انقلابی بغاوت کی شدت سے یکساں طور پر پریشان ہیں اور ٹریک 2سفارتکاری اسی پریشانی کی پیداوار ہے۔ لیکن حکمران طبقات کی پریشانی کا سبب وہ چند سو مسلح کاروائیاں کرنے والے نوجوان نہیں بلکہ یہ مسلح جہادی تو ہندوستانی ریاست کے لئے ایک تحفہ ہیں جن کو بنیاد بنا کر وہ نہ صرف اپنے وحشیانہ ریاستی جبر کو جاری رکھتی ہے بلکہ کشمیر کے نوجوانوں اور عوام کی حقیقی انقلابی بغاوت کو دہشت گردی جیسے غلیظ الزامات سے داغدار بھی کرتی ہے۔

انہی مسلح کاروائیوں کو دہشت گردی کا نام دے کر ان کو ذرائع ابلاغ میں دروغ گوئی سے پیش کر کے ہندو ستان کے نوجوانوں اور محنت کشوں کی کشمیر کی تحریک آزادی سے بننے والی ہمدردی کو کم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس کے بر عکس حکمران طبقات کے ایوانوں کو نوجوانوں کی وہ بغاوت لرزا رہی ہے جو وادی کے چوکوں، گلیوں اور تعلیمی اداروں میں احتجاجی مظاہروں اور ہڑتالوں کے ذریعے اپنا اظہار کررہی ہے۔ یہ بغاوت اس مقام پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں اس کو ہندوستانی ریاستی جبر کے خلاف ابھرنے کے لئے اب کسی ظاہری جواز کی بھی ضرورت نہیں رہی۔ پولیس یا فوج کی جانب سے کی جانیوالی ہر کاروائی چاہے کسی دوردراز دیہات میں ہی کیوں نہ ہو ہڑتالوں کے ایک پورے سلسلے کو جنم دے دیتی ہے۔ ہر قسم کے مذہبی و ثقافتی اجتماع ہندوستانی ریاست کے خلاف احتجاج میں بدل جاتے ہیں۔ ریاست اپنے وحشیانہ جبر کے باوجود اس قدر خوفزدہ ہے کہ جب بھی کسی چھاپے میں کوئی مسلح کاروائی کرنے والا مارا جاتا ہے تو اس کی خبر پھیلنے سے پہلے ہی انتظامیہ کشمیر یونیورسٹی سمیت کئی کالجز کو اگلے کچھ روز کے لئے بند کر دیتی ہے اور تمام اہم مساجد میں بھی جمعہ کی نماز کے موقع پر ہونے والے اجتماعات کو روکنے کے لئے ان کو بند کر دیا جاتاہے۔ اس قسم کے بھیانک ریاستی جبر کے باوجود اس بغاوت کو نہیں کچلا جا سکابلکہ یہ جبر کی علامتی اور معمولی سی صورت پر بھی پھٹ پڑتی ہے۔ اسی قسم کا ایک واقعہ گزشتہ دنوں اننت ناگ ڈگری کالج میں پیش آیا۔ 23 اگست کی ایکسپریس نیوز کے مطابق، اننت ناگ بوائز ڈگری کالج کے کیمپس میں پولیس نے کھیلوں کے ایک میلے کا انعقاد کیا تھا جس میں طلبہ کے ساتھ طالبات کی بھی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ آغازمیں ہر چیز بہت اچھی تھی اور طلبہ وطالبات میں مختلف کھیلوں میں شرکت کے حوالے سے کافی جوش وخروش موجود تھالیکن صورتحال اس وقت اچانک بگڑ گئی جب طلبہ نے میلے کے باقاعدہ آغاز سے پہلے پولیس کی جانب سے کیمپس میں ہندوستانی جھنڈا لہرانے پر اعتراض کرتے ہوئے اس کی مزاحمت کی۔ طلبہ نے احتجاج کرتے ہوئے ہند وستان مخالف نعرہ بازی شروع کردی اور سٹیج کو آگ لگانے کے ساتھ پورے پنڈال کو تہہ وبالا کر دیا۔ ہندوستان مخالف نعرہ بازی کے ساتھ طلبہ نے پولیس پر پتھراؤ کیا جس کو روکنے اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس نے آنسو گیس کا استعمال کیا۔ ایک گھنٹے تک طلبہ اور پولیس کے درمیان یہ تصادم جاری رہا اور طلبہ کو منتشر کرنے میں ناکامی کے بعد مزید نفری منگوانا پڑی۔ اس قسم کے واقعات وادی میں معمول بن چکے ہیں جن میں سے بہت ہی کم واقعات کی خبریں اخبارات میں شائع ہوتی ہیں لیکن سوشل میڈیا اس قسم کے واقعات کو دنیا کے سامنے لانے کا ایک متبادل ذریعہ بنا اسی لیے ریاست نے اب سوشل میڈیا کے خلاف بھی کریک ڈاؤن شروع کر دیا ہے۔ اس کے باوجود اس بغاوت کی شدت میں کمی نہیں آئی اور نہ ہی حالات معمول پر آرہے ہیں۔

قانونی ناٹک 

اب ایک نئے حربے کے طور پر ہندوستان میں کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کرنے کے لئے ایک عدالتی اور آئینی ڈرامہ شروع کر کے اس کو تحریک کے اوپر مسلط کر نے کے کوشش کی جا رہی ہے۔ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 35Aکو ختم کرنے کے لئے عدالت میں رٹ دائر کی گئی ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق ریاست کے باشندے کے علاوہ کوئی بھی فرد ریاست میں زمین کا مالک نہیں بن سکتا۔ یہ قانون دراصل 1927ء میں مہاراجہ ہری سنگھ نے ریاست میں ہندوستان کے دیگر حصوں سے آنے والے مہاجرین کی حوصلہ شکنی کرنے اورآبادی میں مقامی لوگوں کی اکثریت کو برقرار رکھنے کے ساتھ ساتھ ریاست میں سرکاری ملازمتوں اور ریاستی سبسڈی وغیرہ سمیت دیگر مراعات کا حق صرف ریاست کے باشندوں تک محدود کرنے کے لئے بنایا تھا۔

تقسیم ہند کے وقت ریاست کشمیر کا ہندوستان کے ساتھ مبینہ الحاق کشمیر کی خصوصی حیثیت کو تسلیم کرنے کی شرط پر ہوا تھا جس کے نتیجے میں ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 370Aاس خصوصی حیثیت کے ضامن کے طور پر آئین میں شامل کیا گیا جبکہ 1954ء میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے آرٹیکل 35Aجو ریاستی باشندوں کے تعین کا حق صرف ریاست کو دیتا ہے، شامل کیا گیا۔ دہلی کی ایک ہم شہری (We the Citizens) نامی این جی او جسے ہندو بنیاد پرست تنظیم RSSنے بنایا تھا نے 2014ء میں سپریم کورٹ میں آرٹیکل 35Aکے خاتمے کی درخواست دائر کی تھی۔ حکومت ہند نے اس معاملے پر عدالت میں اپنا مؤقف جمع کرانے کی بجائے اس پر بڑے پیمانے کی بحث کی تجویز دی ہے۔

اس معاملے نے حالیہ عرصے میں ایک نیا موڑ اس وقت لیا جب یہ افواہ گردش کرنے لگی کہ آرٹیکل 35A کے صدارتی حکم نامے کی اصلی فائل دیگر تمام اصل دستاویزات سمیت وزارتِ داخلہ کے دفتر سے غائب ہوگئی ہے۔ اس وقت کشمیر کی خصوصی حیثیت سے متعلقہ پانچ کیس کشمیر اور ہندوستان کی مختلف عدالتوں میں زیرِ التوا ہیں۔

یہ درست ہے کہ BJP اور خاص کر ہندو انتہا پسندRSS کے ایجنڈے میں یہ شامل ہے کہ وہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمے کی ہر ممکن کوشش کریں چونکہ ان کے خیال میں ایک بار کشمیر کی خصوصی حیثیت اور خاص کر سٹیٹ سبجیکٹ ایکٹ کا خاتمہ ہوگیا تو وادی کو مسلم اکثریتی علاقے سے ہندو اکثریتی علاقے میں تبدیل کرنا مشکل کام نہیں ہوگا۔ آبادی کے تناسب کو تبدیل کر کے وادی میں جاری آزادی کی تحریک کو مذہبی منافرت کی بھینٹ چڑھایا جا سکتا ہے اور اس خطے کے حکمران طبقات کے لیے یہ ایک آزمودہ نسخہ ہے۔ لیکن اگر ہم غور کریں تو موجودہ وقت میں اس آئینی بکھیڑے کے کہیں بڑے سیاسی مقاصد ہیں اور وہ ہیں کشمیر میں جاری بغاوت کومذہبی بنیادوں پر زائل کرنا۔ وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ بھی اس پر بیان بازی کر رہا ہے اوروزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی، جو BJPکے ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل ہے اور گزشتہ ایک سال سے زائد عرصے میں ہونے والے جبر کی برا ہ راست ذمہ دار ہے، بھی آرٹیکل 35Aکے تحفظ کے اعلانات کرتی پھر رہی ہے اور اس کے ساتھ حزبِ مخالف کی تمام جماعتوں کو اس معاملے پر متحد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اسی طرح علیحدگی پسندوں کے تمام دھڑے اور جماعتیں بھی جن کی ہڑتال کی کالوں پر نوجوان کان نہیں دھرتے تھے ان کو بھی ایک ایسا ایشو مل گیا ہے کہ جس پر ہڑتال کی کال پر لوگ بڑے پیمانے پر سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ یہ مدعا دراصل مسترد شدہ قیادتوں کے ذریعے آزادی کی جدوجہد کو پیچھے دھکیلنے اور کشمیر کی خصوصی حیثیت کے دفاع کے معاملے کو آگے لانے کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔

آرٹیکل35A کے دفاع کی آئینی اور سیاسی لڑائی میں آزادی کی جدوجہد کو دوبارہ ریاستی اداروں کی بھول بھلیوں اور عدالتی مقدمات میں قید کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ تحریک تمام ریاستی ڈھانچوں اور آئین و قانون کو پیروں تلے روند چکی ہے۔ ان تمام عدالتوں اور قانونی کاروائیوں کا مقصد ہی حکمران طبقے کی بالا دستی کو قائم رکھنا ہوتا ہے۔ ۔ اسی لئے ہم دیکھ رہے ہیں کہ آرٹیکل 35Aکے دفاع کو ذرائع ابلاغ میں بے حد اچھال کر اس کووقت کا سب سے بنیادی اور ضروری مسئلہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ دوسری جانب اگر غیر جذباتی انداز میں اس پہلو کا جائزہ لیا جائے کہ 70سالوں میں کشمیر کی خصوصی حیثیت تسلیم کیے جانے کے باوجود ہندوستانی سرمایہ دارانہ ریاست کے تحت کشمیر میں صرف بیروزگاری اور محکومی کی ہی پرورش ہوسکی ہے جس کے خلاف بغاوت آج ابھر کر دہلی اور اسلام آباد کے ایوانوں کو لرزا رہی ہے۔ اس لیے اگر اس خصوصی حیثیت کا خاتمہ کر بھی دیا جائے تو کیا ایسی تبدیلی آجائے گی کہ کشمیر کے نوجوان اور محنت کش آزادی کی جدوجہد سے دستبردار ہو جائیں گے؟ آزادی کی اس تحریک کومختلف حربوں کے ذریعے زائل کرنے کی گھناؤنی کاوشوں کیخلاف کشمیر کے نوجوان پہلے بھی لڑتے رہے ہیں۔ لیکن اب زیادہ شدت سے اس تحریک کو خطے کے محنت کشوں کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ آج ہندوستان کے محنت کشوں اور انقلابی طلبہ میں اس تحریک کی پہلے کی نسبت کہیں زیادہ حمایت موجود ہے۔ اس حمایت کو ٹھوس بنیادوں پر ایک یکجہتی اور مشترکہ جدوجہد کی جانب لیجانا ہو گا۔ ہندوستان میں ہونے والی محنت کشوں کی عام ہڑتالیں اور ابھرتی ہوئی طلبہ تحریک اس منزل کی جانب اہم پیش رفت ہے۔

آج عالمی سطح پر ہونے والے واقعات اور سیاسی و سماجی میدان میں رونما ہونے والے زلزلے نشاندہی کر رہے ہیں کہ کسی بھی خطے میں انقلابی تبدیلی کا امکان رد نہیں کیا جا سکتا۔ انہی واقعات میں سے ایک اسپین کی ریاست کیٹالان میں ابھرنے والی قومی آزادی کی عوامی تحریک ہے۔ اس تحریک میں جہاں اس ریاست کے لاکھوں عوام نے احتجاجوں میں شرکت کر کے اور سامراجی پولیس کے تشدد کا مقابلہ کر کے اپنی جدوجہد کو آگے بڑھایا وہاں اسپین کے دیگر اہم شہروں میں اس بنیادی حق کی حمایت میں ہونے والے عوامی مظاہرے اس تحریک کی طاقت کا اظہار ہیں۔ در حقیقت گزشتہ ایک دہائی کے دوران دنیا عالمی پیمانے پر ایک نئے عہد میں داخل ہو چکی ہے۔ یہ عہد عالمی سطح پر تیز ترین تبدیلیوں، سرمایہ داری کے زوال اور ہر خطے میں بڑے انقلابی اور رد انقلابی واقعات کے وقوع پذیر ہونے کا عہد ہے۔ خود ہندوستان کے اندر تبدیلی کا یہ عمل ہمیں ایک مختلف سطح پر جاری نظر آتا ہے جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ شدت آتی جا رہی ہے۔ ایسے میں وادی کشمیر کے نوجوانوں کی یہ بغاوت بر صغیر پاک و ہند میں آنے والے دنوں میں ابھرنے والے انقلابی واقعات کے قدموں کی پہلی چاپ ہے۔  

موجودہ صورتحال میں کشمیر کے نوجوانوں کے لئے ہندوستان کے ساتھ رہنا اگر زندہ رہنے کی شرط کے ساتھ منسلک کر دیا جائے تو بھی کشمیر کے نوجوان مر جانا پسند کریں گے مگر ہندوستان کے ساتھ نہیں رہیں گے اوروہ ابھی بھی یہی کر رہے ہیں۔ اس صورتحال کی زیادہ ذمہ داری ہندوستان کی کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت پر عائد ہوتی ہے جو غلط (دو مراحل پر مبنی انقلاب کے سٹالنسٹ) نظریات کی پیروی کرنے کے باعث ریاست کے بہیمانہ جبر میں براہ راست یا بلاواسطہ شریک کار ہیں، جنہوں نے نہ تو کبھی حق خودارادیت کے جمہوری نعرے کی حمایت اور ریاستی جبر کی مخالفت کی اور نہ ہی مختلف اقوام کے محنت کش طبقات کی باہمی طبقاتی جڑت کی تشکیل کے لئے کوئی عملی جدوجہد کی۔ اس کے بر عکس ہم دیکھتے ہیں کہ ان نام نہاد کمیونسٹ پارٹیوں کی قیادت ہندوستانی ریاست اور سرمایہ دار طبقے کے سب سے زیادہ وفادار دم چھلے کا کردار ادا کرتی آئی ہے۔ آج بھی یہ سٹالنسٹ قیادتیں ریاست کا تحفظ اپنا اہم ترین فریضہ سمجھتی ہیں جس کے متعلق اینگلز نے کہا تھا کہ یہ ایک جبر کا آلہ ہے جبکہ لینن نے اپنی تصنیف ریاست اور انقلاب میں اس سرمایہ دارانہ ریاست کے مزدور دشمن کردار کی تفصیل سے وضاحت کی تھی۔

کشمیر کی موجودہ بغاوت کا جائزہ لیا جائے تو اس میں قوم پرستی یا قومی علیحدگی کے ساتھ مذہبی بنیاد پرستی کے عناصر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہ ایک حقیقی آزادی کی تحریک ہے جو ہر قسم کے قومی و ریاستی جبر کے ساتھ سرمایہ دارانہ استحصال ولوٹ مار اور بیروزگاری سمیت تمام بنیادی مسائل سے آزادی کے لئے جدوجہد ہے۔ اس تحریک کا کردار واضح طور پر امیراور غریب حاکم و محکوم کی طبقاتی تقسیم کی بنیاد پر جنم لینے والی تحریک کا کردار ہے جس میں پورے ہندوستان کے محنت کش و مظلوم طبقات کی عمومی تحریک بننے کے تمام عناصر موجود ہیں سوائے ایک عنصر کے۔ اور وہ ہے ایک درست سائنسی نظرئیے اور پروگرام کی حامل انقلابی پارٹی۔ ایک انقلابی پارٹی کی درست رہنمائی کی عدم موجودگی کے باعث کشمیر کے نوجوانوں کو کئی گنا زیادہ قربانی دے کر نہ ہونے کے برابر حاصلات مل رہی ہیں۔

آج کشمیر کے نوجوانوں کو اپنے تجربات کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں ہونے والی اور اس وقت جاری جدوجہد وں کے اسباق اور نظریات سے اہم نتائج اخذ کرنا ہوں گے جو اس جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے ضروری ہیں۔ ہندوستان کی سرمایہ دارانہ ریاست کو اکھاڑ پھینکے بغیر کشمیر پر سے اس کے تسلط کا خاتمہ ممکن نہیں۔ کشمیر کے نوجوان اور محنت کش ہی اس ریاستی جبر کے شکار نہیں بلکہ ہندوستان کے سوا ارب محنت کش عوام بھی اس ریاست کے جبر و استحصال اور لوٹ مار کا شکار ہیں۔ یہ درست ہے کہ کشمیر میں یہ جبر زیادہ وحشیانہ اور بہیمانہ ہو جاتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ صرف کشمیریوں کا ہی مسئلہ نہیں اسی لئے اس جدوجہد کو پورے ہندوستان سے اس سرمایہ دارانہ نظام اور ریاست کے خاتمے کی جدوجہد بنانا ضروری ہے۔ اسی طرح پاکستان کے زیرِ قبضہ علاقوں پر سے پاکستانی ریاست کے تسلط کا خاتمہ اس خونخوار سامراجی ریاست کے خاتمے کے ذریعے ہی ممکن ہے جو پھر پاکستان کے محنت کش طبقے اور عوام کا بھی فریضہ ہے اور اسی لئے ان تمام بکھری ہوئی جدوجہدوں کو طبقاتی بنیادوں پر ایک مشترکہ دشمن کے خلاف متحد کر کے ہی حقیقی آزادی کی جدوجہد کو فتح سے ہمکنار کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ داری کے خاتمے کی درست جدوجہد صر ف مارکسزم کے سائنسی نظریات کی بنیادوں پر تعمیر ہونے والی پرولتاریہ کی بین الاقوامی انقلابی تنظیم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ باقی ہر قسم کی سیاست محض انقلابی لفاظی تک ہی محدود ہو کر رہ جاتی ہے جیسا کہ بر صغیر کی بیشتر بائیں بازو کی پارٹیوں اور گروہوں کی بھی اس وقت کی سیاست ہے۔

موجودہ عہد کے عالمگیر زوال اور دھماکہ خیز کردار کی درست وضاحت سے عاری ہر قسم کی سیاست واقعات کی لہروں پر ہچکولے کھاتی ہوئی ان واقعات کی تفہیم کی ناکام کوششوں میں مصروف ہے۔ کشمیر کی تحریک کو باقی دنیاکی عمومی کیفیت اور بالخصوص بر صغیر کے ساتھ جوڑ کر ہی اس کی کوئی درست وضاحت کرتے ہوئے اس کے مستقبل کا تناظر تخلیق کیا جا سکتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہندوپاک کا نام نہادبایاں بازو باجماعت و بلا استثنیٰ اس خطے میں رجعتیت کے حاوی ہونے کا راگ الاپ رہا ہے ان کے لئے کشمیر کی بغاوت یا تو وجود ہی نہیں رکھتی یا ان کو اس میں بھی اسلامی بنیاد پرستی کو تقویت دینے کا رحجان دکھائی دیتا ہے۔ اور اگر کسی بائیں بازو کے گروہ کو یہ بغاوت دکھائی بھی دے رہی ہے تو بھی ان کے لیے یہ اس کے اس خطے کے عمومی تناظر سے متصادم ہونے کے باعث ایک استثنیٰ ہے جس کے ابھرنے کی اپنی کوئی خیالی وجوہات ہیں یا وہ صرف مخصوص ہمت و ولولے کی پیداوار ہے و غیرہ وغیرہ۔ ان قنوطیت پسندوں کے لیے دنیا بھر میں جاری تمام تحریکیں ہی عمومی کیفیات کے متضاد مخصوص استثنائی صورتیں ہیں لہٰذا کشمیر کی بغاوت یا ہندوستان کے طلبہ کی انتہائی جاندار تحریکیں اور ہندوستانی محنت کش طبقے کی عام ہڑتالیں بھی رجعتیت کے اس معروض میں استثنیٰ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ نام نہاد بائیں بازو کے یہ دانشور اپنی قنوطیت پسندی کے لیے تاریخ سے بھی مثالوں کو حسب منشا استعمال کرتے ہیں جن سے ان کے اس بیہودہ مؤقف کی تائید ہو سکے۔ لیکن اس مؤقف کی بنیادی خامی اور غلطی جہاں یہ ہے کہ اس میں ان تحریکوں کی سائنسی بنیادوں پر درست وضاحت نہیں کی جاتی وہاں اس بائیں بازو کے مؤقف کا ایک المیہ ان کے شعور پر غالب پچھلا عہد ہے جس کی عینک لگا کر وہ موجودہ عہد کی وضاحت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اور یہی ان کی سب سے بڑی غلطی کے ساتھ ہر قسم کے غلط مؤقف اور عملی طو رپر کئے جانے والے غلط اقدامات کی جڑ ہے۔

بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ہم عالمی سطح پر ایک نئے عہد میں داخل ہو چکے ہیں اور اس عہد کی ہر چیز کا کردار دس سال پہلے کے کردار سے بہت مختلف ہے۔ دس سال پہلے کی صورتحال یعنی یورپی یونین کے پھیلاؤ سے لے کر امریکی سامراج کی بڑھتی ہوئی مالیاتی و عسکری طاقت تک، عالمی سرمایہ داری کے معاشی و مالیاتی عروج سے لے کر وسیع ہوتی ہوئی عالمی تجارت تک اور اس کے ساتھ اس وقت موجود مختلف ممالک کے اتحادوں سے لے کر عالمی سطح پر قائم ایک نیم امن و استحکام تک ہر چیز تہہ و بالا ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں سرمایہ داری کی بنیادوں کو ہلادینے والے واقعات پے درپے رونما ہو رہے ہیں اور تبدیلی کے اس عمل کی دنیا بھر میں عمومی سمت انقلابی ابھاروں اور بائیں جانب جھکاؤ پر مبنی ہے جس میں مارکسزم کے نظریات کی پذیرائی سو سال پہلے رونما ہونے والے بالشویک انقلاب کے اثرات کے علاوہ باقی تمام وقتوں کی نسبت آج تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ تبدیلی کے اس عمل میں بہت سی تحریکوں کی پسپائی بعض مخصوص خطوں (شام، یمن اور لیبیا) میں حالات کے مخصوص امتزاج کے نتیجے میں رد انقلابی خانہ جنگی اور خونریزی کو بھی جنم دے رہی ہے لیکن واقعات کا عمومی دھارا اپنی بھرپور طاقت کے ساتھ دیوہیکل طبقاتی جنگوں کی راہ ہموار کرنے کی جانب بڑھ رہا ہے۔ ان تمام دھماکہ خیز تبدیلیوں کے درمیان کشمیر کی تحریک کو استثنیٰ قرار دینے کے لئے یہ ضروری ہے کہ جمود اور رجعتیت کے تناظر کے ساتھ آپ کے مخصوص ذہنی یا مالیاتی مفادات وابستہ ہوں وگرنہ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی موجودہ تحریک کے ابھار سے پہلے 2 ستمبر 2015ء کو ہندوستان کے پندرہ کروڑ محنت کشوں نے انسانی تاریخ کی عددی طور پر دوسری بڑی اور 2 ستمبر 2016ء کو پھر ہندوستان کے اٹھارہ کروڑ محنت کشوں نے دنیا کی اب تک کی سب سے بڑی ہڑتال کر دی تھی۔ اب یہ محنت کش اس سال نومبر میں تین روزہ عام ہڑتال کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ ہڑتالیں کر کے ان محنت کشوں نے مودی حکومت کی تمام مزدور دشمن پالیسیوں کولاگو ہونے سے پہلے ہی مفلوج کر دیا تھا۔ کروڑوں محنت کش جب ہندوستانی سماج کی ہر نس ہر رگ میں دوڑنے والے سرمائے کی گردش کو اپنی ہڑتال کے ذریعے بند کر دیتے ہیں تو ان نام نہاد بائیں بازو کی قیادتوں کے لئے یہ کوئی غیر معمولی واقعہ نہیں ہوتانہ ہی یہ سماج کی تبدیلی کے لئے جدوجہد کرنے کی محنت کش طبقے کی آمادگی کا عملی اظہار ہوتا ہے لیکن دوسری جانب ہندو بنیاد پرستوں کا کوئی گروہ کسی غریب مسلمان کو گائے ذبح کرنے پر قتل کر دیتا ہے تو سارے دانشور یک زبان ہو کر رجعتیت یا فاشزم کی آمد کی چیخ و پکار شروع کر دیتے ہیں۔ محنت کشوں کی ہڑتال کو بنیاد بنا کر سماج کی تبدیلی کے عمل کو آگے بڑھانے کے لئے ایک اجلاس نہیں بلایا جاتا لیکن فاشزم اور رجعتیت(جو ان کے دماغوں میں زیادہ اور سماج میں کم ہے) کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے تمام نام نہاد سیکو لر قوتوں کے ساتھ اتحاد بنانے کے لئے درجنوں اجلاس منعقد کئے جاتے ہیں۔ بھارتی مقبوضہ کشمیر کی تحریک میں موجود 200 کے قریب مسلح جدوجہد کرنے والوں سے کشمیر میں اسلامی بنیاد پرستی کا ابھار ثابت کرنے کے لئے زمین و آسمان ایک کیا جا تا ہے لیکن ہزاروں نہتے طلبہ و طالبات جب وادی کی شاہراہوں اور چوکوں میں اپنے جوش و ولولے کی بنیاد پر بھارت کی درندہ صفت سرمایہ دارانہ ریاست کے وحشیانہ جبر کو شکست کھا کر پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کرتے ہیں اس بغاوت میں ان کو ہندوستانی انقلاب کو بھڑکانے والی چنگاری تک نظر نہیں آتی۔ یہ در حقیقت نظریاتی دیوالیہ پن کا اظہار ہے اور آج یہ تمام دانشور لبرل نظریے پر ایمان لا چکے ہیں۔ لیکن ان تمام قنوطی دانشوروں کے بدبودار تجزیوں کے بر عکس کشمیر کی موجودہ بغاوت سمیت ہندوستان کے طلبہ اور محنت کشوں کی تحریکیں اور ہڑتالیں مستقبل میں ابھرنے والی زیادہ بڑی لڑائیوں کا پیش خیمہ ہیں۔ ان جدجہدوں سے ضروری نتائج اخذ کرتے ہوئے انقلابیوں کو ایک حقیقی مارکسی بین الاقوامی تنظیم کی تعمیر کے اہم تاریخی فریضے کو برصغیر کے طول و عرض میں تیزی سے آگے بڑھانا ہوگا۔ بر صغیر سے سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ کرتے ہوئے تمام مظلوم اقوام سمیت سماج کی دیگر استحصال زدہ پرتوں کی حقیقی نجات ممکن ہے جس کی تکمیل مارکسی بین الاقوامیت کے نظریات اور طریقہ کار کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Comments are closed.