کشمیر: آزادی مارچ پر تشدد کی مذمت کرتے ہیں‘ عام ہڑتال کی تیاری کی جائے!

|رپورٹ: ورکر نامہ، کشمیر|

تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جموں کشمیر لبریشن فرنٹ(JKLF) کی جانب سے تیتری نوٹ کے مقام پر بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و پابندیوں کے خلاف اور کنٹرول لائن پر دو طرفہ فائرنگ سے متاثرہ کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کرنے کے لئے 7 ستمبر کو کئے جانے والے مارچ پر مختلف مقامات پر ہونے والے تشدد اور گرفتاریوں کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہیں۔ آزادی مارچ کے دو بڑے قافلے کوٹلی اور راولاکوٹ سے تیتری نوٹ کی جانب رواں تھے جن کا مقصد تیتری نوٹ کے مقام پر ایک پر امن دھرنے کے ذریعے احتجاج کرنا تھا لیکن دونوں قافلوں کو راستے میں روکنے کے لئے پولیس نے تشدد اور آنسو گیس کا اندھا دھند استعمال کیا اور درجنوں لوگوں کے زخمی ہونے کے ساتھ کوٹلی شہر کے نزدیک دریائے پونچھ کے پل پر پولیس کی شیلنگ سے دو نوجوانوں کے دریا میں گرنے کی اطلاعات بھی موصول ہو رہی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق دریا میں گرنے والے نوجوانوں میں سے ایک کو نکالا جا چکا ہے جبکہ دوسرا تاحال لاپتہ ہے۔
محکوم کشمیریوں کی آزادی کے لئے اور بھارتی مظالم کے خلاف کئے جانے والے پر امن احتجاجی مارچ پر پولیس کے اس وحشیانہ تشدد سے یہ واضح ہو رہا ہے کہ پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے حکمران طبقات اور ریاستی ادارے ہر قسم کی جمہوری آزادیوں کو تشدد اور جبر کے ذریعے ختم کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔

کشمیر: آزادی مارچ کے مختلف مناظر، جو کہ کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ کہا جا رہا ہے۔

آزادی مارچ کے راولاکوٹ سے شروع ہونے والے قافلے میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ شامل تھے اور جوں جوں یہ قافلہ آگے بڑھتا گیا اس میں مزید ہزاروں کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے گئے اور ہجیرہ کے مقام سے آگے سفر شروع کرنے تک یہ کشمیر کی تاریخ کا سب سے بڑا مارچ بن چکا تھا۔ جبکہ تیتری نوٹ کراسنگ پوائنٹ سے چند سو گز کے فاصلے پر مقامی لوگوں اور کارکنان کی بڑی تعداد دن سے دھرنے کے لئے پنڈال لگا کر اس کے استقبال کے لئے موجود تھے۔ اسی طرح سینکڑوں مظاہرین پر مشتمل مختلف قافلے کوٹلی، تتہ پانی، سہنسہ اور دیگر علاقوں سے تیتری نوٹ کی جانب رواں تھے جن کو مختلف مقامات پر تشدد اور آنسو گیس کی شیلنگ کے ذریعے روکنے اور منتشر کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہجیرہ سے عوام کا جم غفیر جب تیتری نوٹ کی جانب رواں ہوا تو دوارندی کے مقام پولیس کی بھاری نفری نے مارچ کو روکنے کی کوشش کی اور سورج غروب ہوتے ہی مظاہرین پر اندھا دھند آنسو گیس کی فائرنگ شروع کر دی۔ اس مارچ کو سوشل میڈیا کے ذریعے براہ راست نشر ہونے سے روکنے کے لئے ہجیرہ اور گرد و نواح کے علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ کی سروس بھی معطل کر دی گئی تھی۔ پولیس کی جانب سے مظاہرین پر شیلنگ اور لاٹھی چارج کے باوجود مظاہرین کو مکمل طور منتشر نہیں کیا جاسکا اور مظاہرین نے دوارندی بازار میں دھرنا دے دیا اور اس کے ساتھ مظاہرین کی بڑی تعداد نے ہجیرہ بازار میں بھی دھرنے کا آغاز کردیا۔ رات گئے کارکنان اور قائدین کی کچھ تعداد پولیس کو چکما دے کر کراسنگ پوائنٹ کے قریب دھرنے کے طے شدہ مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہوگئی جس کے بعد ہجیرہ اور دوارندی میں جاری دھرنے ختم کر کے کراسنگ پوائنٹ کی طرف جانے کی کوشش میں کچھ لوگوں کو گرفتار کیا گیا جن کی تعداد واضح نہیں ہے۔ رات دس بجے کی قریب جزوی طور پر موبائل سروس بحال کی گئی جس کے بعد زخمیوں کی تصاویر کے ساتھ ان دھرنوں کی خبریں بھی سوشل میڈیا پر گردش کرنا شروع ہوئی ہیں لیکن تمام صورتحال واضح نہیں ہو پائی۔ اس بہیمانہ تشدد کی خبریں سامنے آتے ہی کوٹلی اور مظفر آباد سمیت مختلف شہروں میں احتجاج کئے گئے اور ان گرفتاریوں کے خلاف آج بھی راولاکوٹ سمیت مختلف شہروں میں احتجاج کئے گئے۔

آج کے آزادی مارچ میں عوام کی بھاری تعداد کی غیر متوقع شرکت درحقیقت حکمرانوں کی بے عملی کے خلاف ایک نفرت کا اظہار ہے۔

حکمرانوں کی بے عملی اور عوامی رد عمل کا طوفان

مودی حکومت کے فیصلے پرپاکستانی ریاست سمیت کشمیر کے حکمرانوں کی بے عملی کے خلاف عوامی بے چینی اور غصہ ایک طوفان کی شکل اختیار چکا ہے۔ اس لانگ مارچ سے دو دن پہلے کھوئی رٹہ سیکٹر کے ملحقہ علاقوں میں نوجوانوں کے ایک خود رو مارچ کی خبریں بھی سوشل میڈیا پر گردش کررہی ہیں جس میں نوجوانوں نے کنٹرول لائن عبور کر کے بھارتی مقبوضہ علاقوں میں کشمیر کا جھنڈا لہرایا اور بھارتی فائرنگ سے چند نوجوانوں کے زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ اس قسم کے خود رو مارچ اور آج کے آزادی مارچ میں عوام کی بھاری تعداد کی غیر متوقع شرکت درحقیقت حکمرانوں کی بے عملی کے خلاف ایک نفرت کا اظہار ہے۔ یہ نفرت اپنے آغاز میں کنٹرول لائن عبور کرنے جیسے اقدامات کے ذریعے اپنا اظہار دو وجوہات کی بنا پر کررہی ہے؛ پہلی یہ کہ آج تک نام نہاد آزاد کشمیر کے لوگوں کو یہ بتایا جاتا رہا کہ یہ آزادی کا بیس کیمپ ہے جس کا مقصد بھارتی مقبوضہ علاقوں کو آزاد کرانا ہے اور وہاں جاری تحریک کی حمایت کرنا یہاں کے لوگوں کا اولین فریضہ ہے اور دوسری یہ کہ یہاں کی زیادہ تر آزادی پسند تنظیموں کا یہ روایتی طریقہ کار رہا ہے کہ آزادی کی تحریک کا بڑا مقصد ہے کہ کشمیر کو تقسیم کرنے والی اس خونی لکیر کو توڑ دیا جائے اور موودی حکومت کے موجودہ فیصلے کے خلاف بھی کچھ قوم پرست تنظیموں نے اسی طرح کے احتجاجوں کا اعلان کیا۔ اسی لئے آج جب بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام پر ایک وحشیانہ بربریت مسلط کی گئی ہے اور اس کے خلاف پاکستان کے حکمران طبقات کچھ بھی کرنے سے قاصر ہیں تو خود عوام اور نوجوان اپنے طور پر ان کی مدد کرنے کے لئے اسی طریقے پر عمل پیرا ہو رہے ہیں۔ عوام اور نوجوانوں میں سب سے زیادہ غصہ پاکستانی فوج کی جانب سے جنگ نہ کرنے کے بیانات کے باعث ہے کہ جس کی پرورش ہی کشمیر کی آزادی کے لئے ہندوستان سے جنگ کرنے کے نام پر کی گئی تھی وہ اس فیصلہ کن وقت پر جنگ کرنے سے معذرت کر چکی ہے۔ اس کے ساتھ کنٹرول لائن پر جاری مسلسل گولہ باری سے متاثر ہونے والے لوگوں میں پلنے والا غم و غصہ ہے جنہوں نے بعض اطلاعات کے مطابق دو روز قبل تیتری نوٹ سے ہجیرہ کی جانب مارچ کیا اور مقامی انتظامیہ کے دفاتر کے سامنے دھرنا دیا ’اس نعرے کے ساتھ کہ گولی ہم کھائیں اور عیاشیاں تم کر و‘ یہ نہیں چلے گا۔ درحقیقت مودی کے اس فیصلے اور یہاں کے حکمرانوں کی بے عملی کے باعث طویل عرصے سے پلنے والاغم وغصہ سطح پر اظہار کرنا شروع ہو چکا ہے۔ طویل عرصے سے قائم سکوت ٹوٹ گیا ہے اور سیاسی سرگرمی کا عمل تیز تر ہونا شروع ہو چکا ہے۔ آزادی مارچ میں ہزاروں لوگوں کی شرکت قیادت اور انتظامیہ دونوں کے لئے غیر متوقع تھی اور عوام کا غم و غصہ پر امن احتجاجی دھرنوں سے بڑے اقدام کا تقاضا کر رہا ہے۔ لوگ اس وقت کسی ایسے سنجیدہ اقدام کا تقاضا کر رہے ہیں جس کے ذریعے موجود صورتحال کو تبدیل کیا جا سکے لیکن تا حال قیادت اس صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہے۔

سیاسی پروگرام کی اہمیت

کشمیر کی تمام قوم پرست قیادت شعوری طور پر واقعات سے بہت پیچھے کھڑی ہے اور ابھی تک ماضی کے فرسودہ طریقوں پر کاربند ہے۔ نیچے سے عوام کا دباؤ کسی بڑے عملی اقدام کا متقاضی ہے لیکن یہ قیادت کا فریضہ ہے کہ اس صورتحال کو ایک درست سیاسی پروگرام کے گرد منظم کرنے کی جانب بڑھے۔ تمام تر غم و غصے کو سیاسی تحرک میں زائل ہونے سے بچائے اور ایک عوامی تحریک کو سیاسی اور تنظیمی حوالے سے تعمیر کرنے کا عمل شروع کرے۔ احتجاجی مظاہروں کی اپنی اہمیت ہے لیکن محض احتجاج کے ذریعے کسی بھی آزادی کی جنگ کو نہیں جیتا جاسکتا اور نہ ہی احتجاج کا صرف ایک ہی طریقہ ہے جس پر یہ قیادتیں کاربند ہیں۔ اس طرح کے احتجاجوں میں مہم جوئی جیسے غلط عنصر سمیت دوسر سیاسی طور پر بھیانک حد تک غلط پہلو یہ بھی شامل ہے کہ ایسی ہر سرگرمی کو پاکستان کے حکمران طبقات صرف بھارت کے خلاف ہونے والا احتجاج بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اگرچہ ان تنظیموں کے کارکنان اور قیادتیں اس کی مختلف وضاحتیں پیش کرنے کی کوشش کرتی ہیں کہ یہ ذرائع ابلاغ ہمارے موقف کو مسخ کر کے پیش کرتے ہیں لیکن بنیادی غلطی کو سمجھنے اور اس کو ترک کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ در حقیقت نام نہاد آزاد کشمیر کی قوم پرستی جن سیاسی بنیادوں پر پروان چڑھی ان میں پاکستان کے قبضے کے خلاف جدوجہد ہمیشہ ثانوی اہمیت کی حامل رہی اور اسی کی وجہ سے بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کو پاکستان کی حمایت یافتہ ہونے کے الزام سے داغدار کرنے میں ان قوم پرستوں کی اس قسم سرگرمیوں کا بھی اہم کردار ہے۔ یہ ایک سادہ سی حقیقت ہے کہ ایک سامراجی ریاست کے زیر قبضہ علاقے کے لوگ اپنی آزادی کی جدوجہد کو چھوڑ کر پہلے دوسری ریاست کے زیر قبضہ علاقوں کو آزاد کرانے کی کوشش کریں گے تو ان کو اس سامراجی ریاست کا آلہ کار ہی کہا جائے گا۔ اگر کشمیر کے آزادی پسند کارکنان اور قیادتیں اس بنیادی سچائی کو نہیں سمجھیں گے تو ایسی غلطیوں کو مسلسل دہرانے کے مرتکب ہوتے رہیں گے جو تحریک آزادی کے بار بار ابھار اور ناکامی کا باعث بنیں گے۔ اس وقت اگرچہ احتجاج میں بڑے پیمانے پر لوگ شامل ہونے کو تیار ہیں لیکن صرف احتجاج کرنے سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جاسکے گا۔ ایک جانب بھارتی مقبوضہ کشمیر میں جاری ظلم و جبر کو اس طریقے سے نہیں روکا جاسکتا دوسری جانب اس خطے کے لوگوں کا غم و غصہ بھی ان مارچوں میں زائل ہو جائے گا۔ ہمیں ہر دیہات کی سطح پر عوامی اور نوجوانوں کی کمیٹیاں تشکیل دیتے ہوئے اس ساری تحریک کو ایک انقلابی پروگرام کے گرد جوڑتے ہوئے پورے کشمیر کی ایک عام ہڑتال منظم کرنے کی جانب بڑھنے کی ضرورت ہے۔ کنٹرول لائن کو عبور کرنے جیسی عوام کو تھکا دینے والی سرگرمیوں کی بجائے عوام کو منظم کرتے ہوئے کنٹرول لائن کو مکمل طور پر مٹا دینے کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہونے کی ضرورت ہے۔ عوام کی توانائیاں چند ایک بے نتیجہ احتجاجوں میں زائل ہونے کے بعد تھکاوٹ کا ناگزیر مرحلہ آ جائے گا جو پھر سیاسی عمل میں ان کی شمولیت اور دلچسپی کو کم کرنے کا باعث بنے گا اس لئے موجودہ صورتحال کو تحریک کی سیاسی بنیادیں تعمیر کرنے کے لئے استعمال کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی پروگرام کے ذریعے ہی عوام اور نوجوانوں کے شعور کو بلند کرتے ہوئے انہیں کسی تنظیمی نظم و ضبط کی پابندی پر قائل کیا جا سکتا ہے اور اس کے بعد ہی کوئی منظم لڑائی لڑنے کی منصوبہ بندی کی جا سکتی ہے۔ ایک سائنسی پروگرام اور نظریے کے بغیر کسی بھی جدوجہد کو کامیابی سے ہمکنار نہیں کیا جا سکتا اور یہی کشمیر کی تحریک کی سب سے بنیادی اور اولین ضرورت ہے۔

Comments are closed.