کشمیر: ریاستی جبر، معاشی بحران اور ایک نئی عوامی بغاوت کا آغاز

|تحریر: یاسر ارشاد|

چھ مئی کو بھارتی مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کے ایک گاؤں بیگ پورہ میں بھارتی فوج، پولیس اور سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے مشترکہ آپریشن میں حزب المجاہدین کے کمانڈر ریاض نائیکو اور اس کے ایک ساتھی عادل احمد بٹ کی ہلاکت کے بعد ایک بار پھر کشمیر کی مزاحمت اور مسلح جدوجہد پر بحث چھڑ چکی ہے۔ ریاض نائیکو 2016ء میں برہان وانی کی شہادت کے بعد حزب المجاہدین کا کمانڈر بنا اور اسی کی طرح سوشل میڈیا مہم کے ذریعے مقامی نوجوانوں کو بھارتی ریاست کے خلاف مسلح جدوجہد پر اکسانے کے حوالے سے خاصا معروف تھا۔ نو ماہ کے وحشیانہ جبر اور نیم کرفیو کے باوجود بھارتی ریاست کو ریاض نائیکو اور اس کے ساتھی کے جنازوں پر حسب معمول ہزاروں لوگوں کی شرکت اور احتجاج کے پھوٹ پڑنے کا خوف لاحق تھا اسی لیے تاریخ میں پہلی بار مارے جانے والے نوجوانوں کی نعشوں کو ان کے ورثا کے حوالے نہیں کیا گیا۔ اگرچہ، گزشتہ نو ماہ سے کشمیر پر بدترین پابندیاں اور وحشیانہ فوجی جبر مسلط ہے لیکن اس کے باوجود کشمیر کی دھماکہ خیز صورتحال کا اندازہ بھارتی ریاست کے ان اقدامات سے لگا یا جا سکتا ہے۔ کشمیر میں بھارتی ریاست کی جانب سے پہلے کئی مہینوں تک سخت ترین لاک ڈاؤن، میڈیا رپورٹنگ پر پابندی اور مکمل انٹرنیٹ اور لینڈ لائن فون بند رکھنے کے بعد گزشتہ کچھ عرصے سے ہائی اسپیڈ انٹرنیٹ سروس معطل کر کے محض 2G انٹرنیٹ سروس مہیا کی جا رہی تھی۔ لیکن حالیہ فوجی آپریشن کے بعد دوبارہ انٹرنیٹ سروس مکمل طور پر بند کر دی گئی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کشمیر میں ایک نئی بغاوت پھوٹ چکی ہے جس کو محض کرفیواور پابندیوں کے ذریعے پھیلنے اور منظر عام پر آنے سے روکا جا رہا ہے۔ ریاض نائیکو کو جس آپریشن میں شہید کیا گیا اس کے بعد چند سیکنڈز کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوئی جس میں نوجوانوں کے ایک مشتعل ہجوم کو سیکیورٹی فورسز کی گاڑی پر حملہ آور دیکھا جا سکتا ہے۔

یہ ویڈیو اگرچہ محض ایک بالکل بظاہر چھوٹے سے واقعے کی منظر کشی کرتی ہے لیکن اس میں کشمیری نوجوانوں کے عمومی غصے اور نفرت کو ایک بے خوف بغاوت میں بدلتے دیکھا جاسکتا ہے۔
کشمیر پربھارتی ریاست کے وحشیانہ جبر کے اس نئے سلسلے کا آغاز 5 اگست 2019ء کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے ہو ا تھا۔ نو ماہ کے عرصے میں کرفیو، لاتعداد گرفتاریوں، انٹرنیٹ، موبائل فون اور لینڈ لائن فون کی سروس معطل کرکے کشمیر کے دنیا سے رابطے کا سارا نظام منقطع کر دیا گیا تھا۔ وادیئ کشمیر کو ایک جیل میں تبدیل کر دیا گیا تھا جہاں ہندوستانی ریاست کے خلاف بغاوت تین دہائیوں سے زائد عرصے سے جاری ہے۔ کشمیر کی ساری آبادی کو اپنے ہی گھروں میں قید کر کے ان کی ہر آواز کو دبا کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ کشمیر یوں نے اس نئے جبر اور سامراجی تقسیم کو چار وناچار قبول کر لیا ہے۔

کشمیر کی خصوصی ریاستی حیثیت کا خاتمہ کر کے اس کودوحصوں میں تقسیم کر کے یونین ٹیریٹریز بنا نے کے بعد گزشتہ دنوں کشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر کشمیری ڈومیسائل کے قواعد و ضوابط میں بھی رد وبدل کیا گیا۔ 31 مارچ کی 2020ء کی رات کو جاری ہونے والے جموں وکشمیر ری آرگنائزیشن آرڈر 2020ء کے مطابق ہر وہ شخص جو 15 سال سے کشمیر میں رہائش پذیر ہو، جو سات سال کشمیر میں زیر تعلیم رہا ہو یا محض دسویں یا بارہویں جماعت کے امتحان کشمیر کے بورڈ میں دیے ہوں اور اس کے ساتھ مرکزی حکومت کے تمام ایسے ملازمین جنہوں نے کشمیر میں دس سال خدمات سر انجام دی ہوں ان کے بچے بھی کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کرنے کے اہل ہوں گے۔ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے سے پہلے ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 35A کے مطابق کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کرنے کے متعلق قوانین کا اختیار کشمیر کی اسمبلی کے پاس تھا اور کشمیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کا 1927 ء میں بنایا ہوا باشندہ ریاست نامی شہریت کا قانون ہی نافذالعمل تھا۔ اس قانون کے مطابق کوئی بھی غیر مقامی کشمیر میں زمین اور سرکاری ملازمت حاصل کرنے کا اہل نہیں تھا لیکن ان تبدیلیوں کے بعد جو لوگ کشمیر کا ڈومیسائل حاصل کرنے کے اہل ہیں وہ سرکاری ملازمتوں سمیت زمین خریدنے کے بھی اہل ہو جائیں گے۔ یوں 5 اگست کے فیصلے کے بعد پایا جانے والا ایک خدشہ کہ ہندوستانی حکومت کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرکے اسے مسلم اکثریتی سے ایک ہندو اکثریتی ریاست بناتے ہوئے کشمیر میں جاری علیحدگی کی تحریک کو بھی ہمیشہ کے لیے کچلنے کی کوشش کرے گی بالآخر اس نئے قانون کے نفاذ سے حقیقت میں بدل گیا۔

ہندوستانی ریاست کی سفاکی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس قانون کو ایسے وقت میں مسلط کیا گیا جب کرونا وبا سے لڑنے کے لیے پہلے سے لاک ڈاؤن کشمیر کو ایک نئے لاک ڈاؤن کا بھی شکار ہونا پڑا تھا۔ بھارتی سامراجی حکمرانوں نے کشمیر کی تمام علیحدگی پسند اور ہند نواز قیادتوں کو بھی 5 اگست کے بعد گرفتار کر لیا تھا جن میں سے بعض کو مختلف خفیہ مصالحتی معاہدوں پر رضامندی کے بعد بتدریج رہا کیا جا رہا ہے۔ رہا ہونے والوں میں سے بعض نے سیاست سے ہی توبہ تائب کر لی ہے جبکہ کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ بھی رہائی کے بعد ابھی تک 5 اگست کے فیصلے پر کسی بھی قسم کی رائے دینے سے انکا ری ہے۔ یوں ایک دوہرے لاک ڈاؤن اور سامراجی جبر کی وحشت میں نو ماہ سے پابندیوں، تمام سماجی و معاشی سرگرمیوں کے خاتمے کی صورتحال سے دوچار کشمیری عوام اور نوجوان یہ سب کچھ ہمیشہ یونہی خاموشی سے برداشت کرنے کی بجائے بغاوت کو ترجیح دیتے ہیں۔ بزنس سٹینڈرڈ کی ویب سائٹ پر 17 دسمبر 2019 کو شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر کے دس اہم اضلاع میں کیے جانے والے سروے کے مطابق 5 اگست کو لگنے والے کرفیو اور لاک ڈاؤن کے نتیجے میں اگست سے دسمبر تک کشمیر کی معیشت کو 17870 کروڑ روپے کا نقصان ہو چکا تھا۔ اس میں دسمبر سے مئی تک ہونے والے مزید نقصان کو شامل کر لیا جائے تو یہ تخمینہ محتاط اندازوں کے مطابق بھی تقریباً 50 ہزار کروڑ تک پہنچ جا تا ہے۔ معیشت کے اعداد و شمار کبھی بھی سماجی حالات کی ٹھیک ٹھیک عکاسی نہیں کر پاتے یعنی اس تمام نقصان سے کتنے لوگ روزگار سے محروم ہو کر کس اذیت سے گزر رہے ہوں گے اس کا اندازہ ان ہندسوں سے لگا نا مشکل ہے۔ 29 جنوری 2020ء کو scroll.in ویب سائٹ پر شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ کشمیر چیمبر آف کامرس کے تخمینوں کے مطابق 5 اگست کے بعد صرف سیاحت اور دستکاری کے شعبے میں 144500 جبکہ مجموعی طور پر 496000 ملازمتیں ختم ہوچکی تھیں۔ اگست تا دسمبر 2018ء کے عرصے میں سیاحوں کی جتنی تعداد کشمیر آئی تھی 2019ء کے اسی عرصے کے دوران کشمیر آنے والے سیاحوں کی تعداد میں 86 فیصد کمی واقع ہوئی۔ ان اعداد و شمار میں کرونا کے باعث ہونے والا اضافہ شامل کیا جائے تو صورتحال کی گھمبیرتا میں ہزاروں گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ اگر ایک لمحے کے لیے اس تمام بربادی کو چھوڑ کر 5 اگست سے پہلے کی صورتحال کو تصور میں لایا جائے تو یہ واضح ہو جاتا ہے کہ اگر نسبتاً بہتر حالات میں کشمیری عوام بالخصوص نوجوانوں کی ایک بڑی اکثریت کے لیے بھارتی ریاست کا قبضہ کسی بھی صور ت میں قابل قبول نہیں تھا تو کس طرح یہ ممکن ہے کہ 5اگست کے بعد ہونے والے وحشیانہ جبر اور معاشی و سماجی بربادی کے بعد کسی قسم کی قبولیت ممکن ہو سکتی ہے۔

درحقیقت، وادی کی بغاوت 2016ء میں شروع ہونے کے بعد موسمی اور تحریک کے ناگزیر سستانے کے عارضی وقفوں کے ساتھ جاری تھی جس دوران بھارتی ریاست نے گزشتہ برس اگست میں اس پر ایک بھیانک حملہ کیا تھا۔ گزشتہ ایک دہائی کے دوران احتجاجی تحریک کی ہر نئی لہر کی فوری وجہ ریاست کے مسلح اداروں کے ہاتھوں کسی نوجوان کے بہیمانہ قتل جیسے واقعات ہی بنتے دکھائی دیتے ہیں جن میں مسلح جدوجہد میں ملوث نوجوان بھی شامل ہیں۔ لیکن تحریک کا اصل میدان مسلح جدوجہد نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس تشدد کے کسی ظالمانہ واقعے کے خلاف ابھرنے والا احتجاج آزادی کی ایک عمومی سیاسی و مزاحمتی تحریک کی شکل اختیار کر لیتا ہے جس میں طلبہ و طالبات کی شمولیت اس کو ایک نیا رنگ دے دیتی ہے۔ وادی کے تمام چھوٹے بڑے شہروں، قصبوں حتیٰ کہ دیہاتوں کو بھی یہ احتجاج اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔ 5 اگست کے شب خون کے بعد جس قسم کی پابندیاں عائد تھیں ان کے باعث فوری احتجاج ممکن نہیں رہا تھا مگر چند روز قبل ہونے والے فوجی آپریشن کے واقعے نے سطح کے نیچے دبے لاوے کو منظر عام پر آنے کا موقع فراہم کر دیا۔ ریاض نائیکو اور اس کے ایک ساتھی کے ریاستی قتل نے مقدار کو معیار میں تبدیل کر دیا اور ایک با ر پھرکشمیر کے کئی ایک علاقوں میں بھارتی ریاستی جبر کے خلاف احتجاج کی لہر پھوٹ پڑی ہے۔ یہ احتجاج محض ان دو نوجوانوں کے قتل کے خلاف ہی نہیں ہیں بلکہ 5اگست کے بعد سے پوری وادی کو جس جبر اور اذیت سے گزرنا پڑا اس کے خلاف مجتمع شدہ غصے اور نفرت کا اظہار ہے۔

اگرچہ بھارتی ریاست نے کرونا وبا کی روک تھام کے لیے پورے ہندوستان سمیت کشمیر کو لاک ڈاؤن کر رکھا تھا لیکن اس لاک ڈاؤن جیسی ہنگامی صورتحال میں بھی سامراجی عزائم کی تکمیل اور کشمیریوں پر 5 اگست سے مسلط جبر کے سلسلے میں کمی آنے کی بجائے اس میں اضافہ ہو گیا تھا۔ کرونا کو روکنے کے لیے ہونے والے لاک ڈاؤن کے دوران ہی کشمیر میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی راہ ہموار کرنے والی قانون سازی مسلط کر دی گئی۔ نو ماہ سے جاری لاک ڈاؤن کے باعث ہونے والی معاشی بربادی کے ساتھ کرونا لاک ڈاؤن لاگو تو کردیا گیا لیکن آبادی کی اکثریت کو درپیش معاشی مسائل کے حل کا کوئی دکھاوے پر مبنی اقدام بھی نہیں کیا گیا۔ اس تمام صورتحال میں لوگوں کے لیے زندگی اور موت میں فرق قائم کرنے والی باریک سی لکیر بھی مٹ چکی ہے جس کا اظہار ہمیں اس فوجی آپریشن کے خلاف ابھرنے والے احتجاج کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔ انٹرنیٹ کی مکمل بندش کی صور ت میں ان احتجاجوں کی خبریں اور تفصیلات منظر عام پر نہیں آ رہیں لیکن ابتدائی کچھ تصاویر اور ویڈیوز کو دیکھتے ہوئے یہ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ ایک نئی بغاوت کا آغاز ہو چکا ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس بغاوت کو بھیانک جبر، لاک ڈاؤن اور کرفیو کے ذریعے کھل کر اظہار سے روک لیا جائے لیکن اب یہ محض ایک وقتی معاملہ ہوگا اور لمبے عرصے تک اس روکا نہیں جا سکے گا۔ بغاوت کی قوت محرکہ اس کے اظہار کے سازگار حالات نہیں بلکہ کشمیری نوجوانوں اور عوام کا بھارتی جبر کے خلاف مزاحمت کا عزم ہے جو اس نو ماہ سے جاری غیر معمولی ظلم کے نتیجے میں کم نہیں ہو سکا بلکہ اس میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔

نیا عہد اور تحریک

یہ درست ہے کہ کشمیر کی یہ بغاوت تین دہائیوں سے جاری مزاحمتی تحریک کا ہی تسلسل ہے لیکن یہ اپنی بنیادوں میں ماضی کی تمام تحریکوں سے بہت حد تک مختلف بھی ہے۔

گزشتہ چند ماہ کے دوران کرونا وبا اور عالمی معاشی بحران نے ساری دنیا کو تہہ و بالا کر دیا ہے۔ کرونا وبا نے دنیا بھر میں سرمایہ داری کے تمام اہم مراکز کی ایک معمولی سی وبا کو روکنے میں نا اہلی کو عیاں کر دیا۔ چاند اور مریخ پر کمندوں کے دعویداروں اور ان کے استحصالی نظام کی تاریخی متروکیت روز روشن کی دنیا بھر کے عوام اور محنت کشوں پر آشکار ہو چکی ہے۔ سرمایہ داری نظام کے زوال کا آغاز 2008 ء کے عالمی مالیاتی بحران سے ہو گیا تھا اور یہ ایک پہلے سے بڑے تباہ کن بحران کے دھانے پر کھڑا تھا جس کے آغاز کا جھٹکا اس کو کرونا وبا کی صورت میں لگا۔ کرونا سے پہلے ہی 2019ء میں دنیا کے 37 ممالک میں دیوہیکل انقلابی بغاوتیں برپا ہو ئیں تھی۔ اگرچہ کشمیر مکمل لاک ڈاؤن کی کیفیت میں تھا لیکن ہندوستان میں کروڑوں محنت کشوں کی عام ہڑتال سمیت شہریت کے نئے قانون کے خلاف ایک بڑی احتجاجی تحریک کم وبیش ہندوستان کے تما م اہم شہروں تک پھیل چکی تھی۔ دنیا بھر میں جاری تحریکوں اور بغاوتوں کا یہ سلسلہ اس وقت عارضی طور پر کرونا لاک ڈاؤن کے باعث منقطع ہو چکا ہے لیکن جلد ہی یہ نئی شکتی اور طاقت کے ساتھ زیادہ بڑے پیمانے دوبارہ ابھرے گا اور پہلے سے زیادہ وسیع خطوں کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ کرونا وبا نے اس نظام کا تحفظ کرنے والے حکمران طبقات اور سیاسی پارٹیوں کے تمام دھڑوں کو ناکامی سے دوچار کر دیا ہے۔ سرمایہ داری سے فروغ پانے والے تمام نظریات مسترد ہو چکے ہیں جن میں سوشل ڈیموکریسی سے لے کرقوم پرستی تک سبھی شامل ہیں۔ گہرا ہوتا ہوا عالمی معاشی بحران جہاں عوام اور محنت کشوں کو نئی بربادیوں سے دوچار کرے گا وہیں اس نظام اور اس کے سبھی رکھوالوں کے خلاف ان کے ذہنوں میں نفرت اور حقارت میں بھی اضافہ کرے گا جو آنے والے مہینوں میں طوفانی واقعات اور انقلابی تحریکوں کی صورت میں اپنا اظہار کرے گی۔ اسی نئے عہد کی کوکھ سے کشمیر کی اس مزاحمتی تحریک کا جنم ہو رہا ہے جس کے باشعور حصے تبدیل شدہ عہد کا مارکسی نظریات کی بنیاد پر تجزیہ کرتے ہوئے اس تحریک کی ٹھوس نظریاتی بنیادیں استوار کرنے میں اہم کردار ادا کریں گے۔ اس وقت بھی اس تحریک کے بہت محدود ہی سہی لیکن کچھ حصے دنیا بھر میں رونما ہونے واقعات کا بغور جائزہ لینے اور ان سے درست نتائج اخذ کرنے کے عمل میں مصروف ہیں۔ تحریک کی سرگرم پرتیں خود اپنے تجربات سے درست نتائج اخذ کرتے ہوئے مارکسزم کے انقلابی نظریات پر تحریک کو تعمیر کرنے پر مجبور ہوں گے۔

ماضی کی قوم پرست اور جہادی تنظیموں اور قیادتوں کو مسترد کرتے ہوئے نئی نسل نے احتجاج کے لیے 2010ء میں سنگ بازی جیسے نئے طریقہ کار کو اختیار کیا تھا۔ یہی طریقہ کار 2016ء سے ابھرنے والی تحریک میں بھی جاری رکھا گیا

یہ درست ہے کہ کشمیر کی یہ بغاوت تین دہائیوں سے جاری مزاحمتی تحریک کا ہی تسلسل ہے لیکن یہ اپنی بنیادوں میں ماضی کی تمام تحریکوں سے بہت حد تک مختلف بھی ہے۔ اس تحریک میں ان تین دہائیوں کے اخذ کردہ نتائج کلی طور پر نہ سہی جزوی طور پر شامل ضرور ہیں۔ زیادہ تر تجزیہ نگار اور سیاسی کارکنان اس کو ماضی کی تحریکوں کا ہی تسلسل سمجھتے ہیں بالخصوص 1980ء کی دہائی میں شروع ہونے والی تحریک جس کی بنیاد مسلح جدوجہد کے طریقہ کا ر پر تھی۔ لیکن بغور جائزہ لیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ ماضی کی تحریک کا تسلسل ہونے کے باوجود اس کا آغاز ہی ماضی سے نجات پانے کے بعد ہوا تھا۔ اس وقت جاری تحریک میں بھی مسلح سرگرمیوں کی محض محدود سی موجودگی ہے لیکن اپنے عروج پر بمشکل تین سے ساڑھے تین سو نوجوانوں نے انفرادی دہشت گردی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی ہے۔ اس کی بھی بنیادی وجہ تحریک کی نظریاتی اور سیاسی کمزوری ہے۔ ماضی کی قوم پرست اور جہادی تنظیموں اور قیادتوں کو مسترد کرتے ہوئے نئی نسل نے احتجاج کے لیے 2010ء میں سنگ بازی جیسے نئے طریقہ کار کو اختیار کیا تھا۔ یہی طریقہ کار 2016ء سے ابھرنے والی تحریک میں بھی جاری رکھا گیا لیکن ان کی تحریکوں کی دوسری بنیادی خاصیت ماضی کی تمام قوم پرست اور آزادی پسند قیادتوں کو مسترد کرنا تھا جس کے باعث ان کو بغیر قیادت کے تحریکیں کہا جاتا تھا۔ ریاستی جبر کے خلاف لڑائی میں محض ماضی کے ایک غلط اور فرسودہ طریقے کو ترک کر دینا کافی نہیں ہوتا بلکہ اس سے زیادہ اہمیت نظریات کی ہوتی ہے۔ در ست سائنسی نظریات نہ ہونے کے باعث مزاحمتی تحریک میں متحرک کارکنان کے کچھ حصے ریاستی جبر کا شکار ہو کر انتقام کی آگ کو بجھانے کے لیے دوبارہ انفرادی دہشت گردی کی جانب مائل ہوچکے ہیں۔ کشمیر کی تحریک کی حقیقی قوتِ محرکہ اس کا مزاحمتی تحرک ہے لیکن پھر جدلیاتی طور پر یہی خالص تحرک اس کی سب سے بڑی کمزوری ثابت ہوتا ہے۔ مزاحمتی تحریک میں شامل ہونے والے نوجوان بھارتی ریاستی جبر کا بے جگری سے سامنا کرتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کس نظریے کی بنیاد پر اپنی اس لڑاکا تحریک کو منظم کریں تا کہ نوجوانوں کے ان جذبوں کو نظریاتی، سیاسی اور تنظیمی طور پر ایک باشعور اور پختہ تحریک تعمیر کرنے میں استعمال کیا جائے۔ اس کمزوری کی ایک بڑی وجہ ہندوستان کا سٹالنسٹ بایاں بازو بھی ہے جو نظریاتی و سیاسی بد عنوانی اور مارکسزم کے حقیقی نظریات سے انحراف کے باعث اس تحریک کی نظریاتی آبیاری کی صلاحیت سے ہی محروم ہو چکا ہے۔

انفرادی دہشت گردی

کشمیر کے موجودہ حالات میں نوجوانوں کے ایک حصے کا مسلح جدوجہد کی جانب راغب ہونا نہ صرف ناگزیر بلکہ بظاہر کسی حد تک منطقی بھی لگتا ہے۔ تاہم مسلح جدوجہد کوئی واحد کا ر آمد طریقہ کا ر نہیں ہے اور مارکسی نقطہ نظر سے یہ مکمل رجعتی اور رد انقلابی نتائج کا حامل ہے۔ بھارتی ریاستی قبضے اور جبر کا فوری رد عمل نوجوانوں کی ایک پرت کو مسلح جدوجہد جیسے غلط راستے پر گامزن کرتا ہے جس کے نتائج ہمیشہ ایک جانب ان نوجوانوں کے ریاستی قتل اور دوسری جانب پورے سماج پر پہلے سے بھیانک ریاستی جبر کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں۔ معروضی حوالے سے کسی حد تک منطقی ہونے کے باوجود یہ طریقہ کار اول تا آخر غلط اور تباہ کن ہے۔ کشمیر کے عوام اور نوجوان تاریخ میں کبھی نہ دیکھے گئے ظلم و بربریت کا شکار ضرور ہیں لیکن ظلم کی انتہا کسی غلط سیاسی طریقہ کار کو درست قرار دینے کی دلیل نہیں ہوتی۔ دوسری جانب کشمیر کی بغاوت اور مزاحمت کی تحریک میں مسلح جدوجہد کا عنصر انتہائی محدود ہے۔ اب تک اس مسلح تحریک میں شمولیت اختیار کرنے والے نوجوانوں کی مجموعی تعداد کسی بھی ایک وقت میں چند سو سے زیادہ نہیں ہو پائی۔

کشمیر کی بغاوت اور مزاحمت کی اصل بنیاد کشمیری عوام، محنت کش اور نوجوان ہیں جو ایک جانب دہشت گردی اور مسلح جدوجہد میں شمولیت اختیار نہ کر کے اس کو مسترد کرتے ہیں لیکن دوسری جانب ان کے خلاف بھارتی مسلح اداروں کی کاروائی کے دوران ان لڑاکوں کی مدد کر کے بھارتی قبضے کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں

کشمیر کی بغاوت اور مزاحمت کی اصل بنیاد کشمیری عوام، محنت کش اور نوجوان ہیں جو ایک جانب دہشت گردی اور مسلح جدوجہد میں شمولیت اختیار نہ کر کے اس کو مسترد کرتے ہیں لیکن دوسری جانب ان کے خلاف بھارتی مسلح اداروں کی کاروائی کے دوران ان لڑاکوں کی مدد کر کے بھارتی قبضے کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ یہ بغاوت اور مزاحمت جابر ریاست کے ہاتھوں قتل ہونے والے ان مسلح لڑاکوں کے جنازوں میں سیاسی احتجاجوں کی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ درحقیقت کشمیریوں کی ایک بڑی اکثریت کی ان مسلح نوجوانوں کے ساتھ ہمدردی کے جذبات کی بنیاد اس طریقہ کار کی حمایت سے زیادہ بھارتی ریاست سے نفرت کے باعث ہے۔ اس ہمدردی کی حیثیت اسی طرح علامتی ہے جس طرح اس تحریک میں بھارتی ریاست سے نفرت کے اظہار کی علامت کے طور پر گزشتہ سالوں میں کبھی کبھار پاکستانی پرچم لہرایا جاتا تھا۔ لیکن دوسری جانب زیادہ بڑی تعداد میں مسلح تحریک کا حصہ نہ بننے کا عمل تحریک کے شعوری معیار میں جست کی عکاسی بھی ہے۔ تھوڑی بہت ہمدردی کے موجود ہونے کی وجہ یہ ہے کہ تحریک کو آگے بڑھانے کے درست نظریات، طریقہ کار اور لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔

عالمی مارکسی رحجان د ہشت گردی کے اس پہلو کو پوری تحریک پر مسلط کرنے کی غلیظ کوششوں کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے یہ واضح کرتا ہے کہ یہ بنیادی طور پر اس تحریک کے خلاف ایک زہریلی سازش ہے جس میں اس خطے کے حکمران طبقات سمیت وہ تما م نام نہاد بایاں بازو، قوم پرست، نام نہاد لبرل ہمنوا بھی شامل ہیں جنہیں اس تحریک میں صرف مذہبی دہشت گردی کا عنصر ہی دکھائی دیتا ہے۔ درحقیقت یہ سبھی صرف وہی دیکھ سکنے کے قابل ہیں جو ان کے نظریاتی آقا اور ان کے دلال ذرائع ابلاغ انہیں دکھاتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ اس تحریک کا ابھی تک کوئی واضح نظریاتی اور سیاسی تشخص نہیں ہے اور اسی بنیاد پر حکمران طبقہ لاکھوں نوجوانوں اور عوام کی مزاحمتی سیاسی تحریک کو چند نوجوانوں کی مسلح کاروائیوں کا جواز پیش کر کے دہشت گردی کے الزام سے داغدار کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہند و پاک کے حکمران طبقات اور ان کے پالتو کسی دہشت گرد کی کاروائی یا اس کی ہلاکت کو ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کے ذریعے پوری طاقت سے اچھالتے ہیں۔ ریاض نائیکو کی ہلاکت کے بعد ایک جانب ہندوستان کی ریاست کے پالتو اسے دہشت گرد قرار دے کر اس کی مذمت کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب پاکستانی ریاست کے پالتو اسے ایک ہیرو بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ درحقیقت اس تمام بحث کا مقصد ہی اس جھوٹ کو فروغ دینا ہے کہ تحریک کا صرف ایک ہی دہشت گردی کا پہلو ہے۔ پاکستانی ریاست اس قسم کے واقعات کو اس لیے بھی زیادہ اچھالتی ہے تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ہندوستان کی جانب سے کشمیر کی مسلح تحریک کی حمایت کا الزام غلط ہے۔ مسلح جدوجہد کی موجودہ تحریک پاکستان کی حمایت کے بغیر ہو سکتی ہے تو ماضی کی تحریک کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟ دوسری جانب کشمیر کی سیاسی تحریک ہند و پاک کے حکمران طبقات کے ایوانوں کو لرزانا شروع کر دیتی ہے اسی لیے اس کو ایک دہشت گردی کی حامل تحریک بنا کر پیش کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ان کی اس کوشش میں اب سبھی نام نہاد ترقی پسند اور لبرل نما بائیں بازو بھی ان حکمرانوں کے راگ میں راگ ملا رہا ہے۔ ہندوستانی بایاں بازو تو کبھی بھی ہندوستان بوژوازی کی حدود سے متجاوز ہونے کی جسارت نہیں کرتا لیکن پاکستان کا نام نہاد بایاں بازو بھی کشمیر کی تحریک کے دہشت گردی کے ہاتھوں زائل ہو جانے کا پیشگی ماتم شروع کر چکا ہے۔ کشمیر کی موجودہ تحریک میں دہشت گردی کا ماتم در حقیقت حکمران طبقات کی زبان بولنے کے مترادف ہے۔

ہم مارکسی نقطہ نظر کے مطابق انفرادی دہشت گردی کے معمولی عناصر تو دور کی بات اس قسم کی محض سوچ کی بھی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے اس کے خلاف بے رحمی سے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ انفرادی دہشت گردی مقامی ہو یا بیرونی، کشمیر میں ہو یا کسی بھی دوسرے خطے میں، مارکس وادی اس کی بھرپور مخالفت کرتے ہیں لیکن اس کے ساتھ انفرادی دہشت گردی کے واقعات کے ذریعے کسی حقیقی سیاسی مزاحمتی تحریک کے کردار کو مسخ کرنے کی جو بھی کوشش کرے گا ہم اس کے خلاف بھی نا قابل مصالحت جدوجہد کرتے ہوئے تحریک کو درست نظریات کی بنیاد پر استوار کرنے کی جدوجہد جاری رکھیں گے۔ مارکسزم ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کسی بھی صورتحال کے تمام پہلوؤں کا مکمل جائزہ لے کر ان کے باہمی تعلق کے درست توازن کو سامنے لاتے ہوئے سیاسی موقف اختیار کیا جائے۔ اس بنیاد پر جائزہ لیا جائے تو کشمیر کی موجودہ مزاحمتی سیاسی تحریک وسیع عوامی بنیادیں رکھتی ہے جس میں انفرادی دہشت گردی کا چھوٹا سا پہلو بھی موجود ہے۔ اس تحریک کے باشعور حصوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اس کو مارکسی بین الاقوامیت کے حقیقی نظریات سے لیس کرتے ہوئے نوجوانوں کو انفرادی دہشت گردی کی جانب مائل کرنے والی وجوہات کا خاتمہ کرنے کی جدوجہد کریں۔ انفرادی دہشت گردی کی جانب مائل کرنے والی سب سے بنیادی وجہ ان متحرک نوجوانوں کی درست نظریاتی و سیاسی تربیت کا فقدان ہے۔ بھارتی ریاست کے سامراجی قبضے سے نجات کا درست سائنسی راستہ کیا ہے؟ اس وضاحت سے محروم یہ نوجوان محض اپنے جذبہئ بغاوت اور عزم کو ہی سب کچھ سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ریاستی جبر کے خلاف بے خوف احتجاج کرتے رہنے سے ہی ایک دن بیرونی اور عالمی طاقتوں کی مداخلت سے ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کا خاتمہ ہو جائے گا۔ اسی کمزوری کی بنیاد پر مسلسل بے اثر احتجاجوں سے مایوس ہو کر یا ریاستی جبر و تشدد کا شکار ہو کر کچھ نوجوان ریاست سے انتقام لینے کی خاطر ہتھیار اٹھانے کی جانب راغب ہوتے ہیں۔ کشمیر کی تحریک تنگ نظر قوم پرست قیادتوں اور پارٹیوں کو مسترد کرنے کے باوجود متبادل نظریات تک رسائی حاصل نہیں کر پائی۔ جونہی اس تحریک کی درست نظریات تک رسائی ممکن ہو گی اور ان نظریات پر بحث و مباحثے کو فروغ ملے گااس کے ساتھ ہی انفرادی دہشت گردی جیسے غلط طریقہ کار مکمل طور پر رد ہو جائیں گے۔ بھارتی کشمیر کے عوام اور نوجوانوں کی مزاحمتی تحریک کی سب سے بڑی حمایتی طاقت ہندوستان کے طول و عرض میں ابھرتی نوجوانوں اور عوام کی سرمایہ داری کے خلاف تحریکیں اور بالخصوص ہندوستان کا طاقتور محنت کش طبقہ ہے۔ مارکسزم کے بین الاقوامیت پر مبنی نظریات کی بنیاد پر ہی کشمیر کی اس مزاحمتی تحریک کی درست سمت کا تعین اور ان تحریکوں کے ساتھ جڑت بنائی جا سکتی ہے۔ ان نظریات کی بنیاد پر ہی یہ ممکن ہے کہ ہندوستان کی بائیں بازو کی تحریک پر حاوی اصلاح پسندانہ سٹالنسٹ نظریات سے بھی چھٹکارا حاصل کیا جائے۔

پاک و ہند تعلقات

ہند و پاک کے ریاستوں کے کشیدگی سے بھرپور سات دہائیوں پر مبنی تعلقات کی نوعیت بھی مسلسل تبدیلی کے عمل سے گزرتے ہوئے ایک بالکل نئے اور مختلف مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ گزشتہ برس فروری میں ان ممالک کے درمیان ایک نیم جنگی جھڑپ اور بھارتی مقبوضہ کشمیرکی خصوصی حیثیت کا خاتمہ اسی نئی کیفیت کا سطح پر اظہار تھا۔ کرونا وبا اور ایک نئے تباہ کن عالمی معاشی بحران کے آغاز سے پہلے کی صورتحال کا خلاصہ یہ تھا کہ بھارتی ریاست امریکی اور دیگر مغربی سامراجوں کی مکمل پشت پناہی سے اس خطے میں چین کے مد مقابل ایک طاقت کے طور پر ابھر رہی ہے۔ اس مفروضے کا ابھی خیالی تصور بھی مکمل نہیں ہو پایا تھا ایک نئے عالمی معاشی بحران نے امریکی سامراج سمیت سرمایہ داری کے سبھی مضبوط ستونوں کے دھڑام سے گرنے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے۔ اگرچہ حکمران طبقات اور ان کے ماہرین ابھی تک اسی پرانی دنیا کے باسی ہیں اور انہی پرانے خوابوں کی تکمیل کے خیالوں میں غرق دکھائی دیتے ہیں لیکن اس نئے عالمی معاشی بحران کے آغاز سے پیدا ہونے والی نئی صورتحال میں حالات بالکل مختلف ہو چکے ہیں۔

ہندوستان کے حکمران طبقات بھارتی مقبوضہ کشمیر پر اپنے تسلط کو مزید مضبوط کرنے کے اقدامات کو جاری رکھنے کے ساتھ پاکستانی مقبوضہ کشمیر پر قبضے کی بھڑک بازی کو تیز کرتے جا رہے ہیں۔ ہندوستان کے ذرائع ابلاغ نے اس جانب ایک بڑی پیش رفت کرتے ہوئے ملک کے موسم کی خبروں میں اب پاکستانی مقبوضہ کشمیر اور گلگت بلتستان کے موسم کی صورتحال بتانے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ اس کے پس پردہ مقاصد یہ بھی ہیں کہ بھارتی کشمیر کی مزاحمتی تحریک کی بحث کو منظر سے غائب کر کے اب پاکستانی مقبوضہ علاقوں پر قبضے کے گرد ساری بحث کو مرکوز کر دیا جائے۔ دوسری جانب کنٹرول لائن پر دو طرفہ فائرنگ کا سلسلہ بھی گزشتہ کچھ ہفتوں سے وقفے وقفے سے شدت اختیار کرتا رہتا ہے۔ اس دو طرفہ فائرنگ میں ہمیشہ سے ہی دونوں اطراف بسنے والے غریب کشمیر ی اور ان کے مال مویشی مارے جاتے ہیں اور ان کے گھراور فصلیں برباد ہوتی ہیں۔ کبھی کبھار اس کشیدگی میں زیادہ شدت آنے کی صورت میں دونوں اطراف کے کچھ غریب سپاہی بھی اس جنگی جنون کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان دونوں ریاستوں کی پہلے ہی سے بحران کا شکار معیشتوں کے لیے کرونا وبا کو روکنے کے لیے کیا جانے والا لاک ڈاؤن اور ایک نیا معاشی بحران نہایت مہلک اور تباہ کن اثرات کے حامل ثابت ہوئے ہیں۔ اگرچہ ہندوستانی معیشت کے اعشاریے پاکستان کی نیم جان معیشت کی نسبت بہت زیادہ بہتر تھے لیکن اس کے باوجود اس نئے بحران سے لاحق خطرات سے محفوظ رہنا ہندوستانی معیشت کے بس میں نہیں ہے۔ جہاں چینی معیشت کی شرح نمو چھ فیصد سے گر کر منفی میں جا چکی ہے جبکہ امریکہ سمیت دنیا کی سبھی بڑی معیشتوں کی گراوٹ کے سب تاریخی ریکارڈ ٹوٹنے کی پیش گوئیاں ایک معمول بن چکی ہیں وہاں ہندوستانی معیشت کی اوقات ہی کیا تھی۔ اس دیوہیکل معاشی بربادی سے ناگزیر طور پر ان ریاستوں کے سماجی اور ریاستی ڈھانچوں میں بہت بڑی تبدیلیاں جنم لیں گی جو ان کے باہمی تعلقات پر اثر انداز ہو کر ان کو تبدیل کر دیں گی۔

عالمی سامراجی تھانیدار، امریکہ کی بڑھتی ہوئی کمزوری اس خطے میں نئے طوفانوں کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ ہندوستانی ریاست کا بڑھتا ہوا داخلی بحران اس کو ایک کنٹرولڈ مگر پہلے سے بڑی خارجی جارحیت پر مجبور کرے گا اور اسی قسم کی صورتحال پا کستانی ریاست کی بھی ہوگی۔ امریکی سامراج کی ضمانت سے مشرقی سرحدوں پر قائم نیم امن کی بنیادیں مٹ چکی ہیں۔ اس معاشی بحران سے پہلے کی دنیا میں جو اقدام سرمایہ داری کے نقطہ نظر سے غلط تھااور اس لیے بظاہر ناممکن لگتا تھا وہ اب نہ صرف ممکن ہو سکتا ہے بلکہ بعض صورتوں میں ناگزیر ہو جائے گا۔ کرونا وبا، لاک ڈاؤن اور معاشی بحران سے مرنے اور برباد ہونے والے اس خطے کے محنت کش اور غریب عوام بھی ان قاتل حکمرانوں اور ان کے نظام کے خلاف زیادہ تیزی اور شدت کے ساتھ ایک انقلابی بغاوت میں ابھریں گے۔ اس تہہ و بالا ہوتی دنیا کی اتھل پتھل میں دنیا بھر کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی شعوری رہنمائی صرف مارکسزم کے نظریات کر سکتے ہیں جو قومی محرومی کے ساتھ طبقاتی غلامی کے خاتمے کو بھی ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے پایہئ تکمیل کو پہنچانے میں رہنمائی کرتے ہیں۔ کشمیر کے نوجوانوں کو بھی دہائیوں سے اندھیروں میں بھٹکتی اپنی تحریک کو مارکسزم کے درست نظریات سے روشناس کرانا ہوگا۔ کشمیر کی مزاحمتی تحریک کی ہندوستان کے محنت کشوں کی اس نظام کو اکھاڑنے کرپھینکنے کی جدوجہد کے ساتھ مارکسی نظریات کی بنیاد پر بننے والی جڑت ہی اس خطے سے استحصال اور جبر کی ہر شکل کا مکمل خاتمہ کرتے ہوئے قومی و طبقاتی جبر سے مکمل نجات کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے۔

Comments are closed.