کشمیر: ابھرتی مزدور تحریک

|تحریر: گلباز خان|

عالمی معیشت ایک دہائی قبل شروع ہونے والے بحران سے ابھی تک نکل نہیں پائی ہے۔ معاشی بحالی کے امکانات کہیں بھی نظر نہیں آ رہے بلکہ ایک نئے اور زیادہ گہرے بحران کے لیے حالات تیار ہو رہے ہیں۔ ہر ملک معاشی عدم استحکام،سماجی بدحالی اور سیاسی انتشار کا شکار ہے۔ سرمایہ داروں اور حکمرانوں کی لوٹ مار میں کمی کے بجائے اضافہ ہو رہا ہے۔ محنت کش عوام ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے پر مجبور ہے۔ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک سے لے کر تیسری دنیا تک ایک ہی طرح کی عوام دشمن پالیسیوں کو بحران سے نکلنے کے لیے محنت کش طبقے پر مسلط کیا جا رہا ہے۔ نجکاری، ڈاؤن سائزنگ، بے تحاشہ ٹیکس اورہر طرح کی کٹوتیوں پر مبنی رجعتی پالیسیاں متعارف کروائی جا رہی ہیں۔ نتیجتاً بیروزگاری، مہنگائی اور غربت میں تیز ترین اضافہ ہورہا ہے۔ایسے میں پاکستان جیسی کمزور معیشت پر بحران کے اثرات نے عوام کے مسائل میں کئی گناہ اضافہ کیا ہے۔ ریاست بوکھلاہٹ کا شکار ہے اور معیشت کو چلانے کے لیے سخت ترین شرائط پر مہنگے قرضے لیے جا رہے ہیں۔

آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کی ایما پر روپے کی قدر میں 30فیصد سے زائد کمی اور بجلی،گیس،ایندھن،اشیاء خوردونوش حتیٰ کہ ادویات کی قیمتوں میں بھی ظالمانہ اضافے کو سخت فیصلوں پر مبنی انقلابی اصلاحات قرار دیا جا رہا ہے جن سے غریب عوام کی کچھ عرصہ چیخیں تو نکلیں گی لیکن پھر سب اچھا ہو جائے گا۔ مگر محنت کش عوام اب سمجھنا شروع ہو گئی ہے کہ اس نظام میں اُن کے حالات تو اچھے ہو نہیں سکتے البتہ”تبدیلی سرکار“کے بینک بیلنس ضرور اچھے ہو جائیں گے۔ پاکستان کے چاروں صوبوں سمیت گلگت بلتستان اور نام نہاد ”آزاد کشمیر“ میں محنت کش طبقے کی مختلف پرتوں نے حالیہ سالوں میں بار ہامختلف تحریکوں اور احتجاجوں کے ذریعے اپنی طاقت اوربدلتے شعور کا اظہار کیاہے۔

کشمیر بھر میں جہاں طلبہ اور عوام نے مختلف مسائل کے گرد لاتعداد احتجاجی مظاہرے کر کے اپنے بلند شعور کا اظہار کیاہے وہیں سب سے اہم تبدیلی مختلف شعبوں کے محنت کشوں کے شعور میں نظر آئی ہے۔سب سے زیادہ تحرک سرکاری ملازمین میں نظر آتا ہے۔ ہر روز کسی نہ کسی محکمہ کے مزدور حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج پر ہوتے ہیں یااحتجاج کی تیاری کر رہے ہوتے ہیں۔

گزشتہ عرصے میں پیرامیڈیکل سٹاف اورڈاکٹرز کے علاوہ نرسوں نے بھی اپنے مطالبات کے حق میں احتجاجی تحریک اور ریلیاں منظم کیں۔ اس وقت بھی محکمہ بہبود آبادی کے کنٹریکٹ ملازمین سمیت سینکڑوں لیڈی ہیلتھ ورکرز مستقل روزگار کی جدوجہد کر رہی ہیں اور اساتذہ کی تنظیم نے بھی ریاست گیرتحریک چلائی جس میں کلاسز کے بائیکاٹ سے لے کرضلعی سطح پر جلسے جلوس منظم کیے اور دارالحکومت مظفرآباد میں مرکزی جلسہ کیا۔ اساتذہ کے زیادہ تر مطالبات کو تسلیم کر لیا گیا ہے اور اپ گریڈیشن کے مسئلہ پر تاحال تاخیری حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔

اسی طرح محکمہ اکلاس اور بحالیات حتیٰ کہ محکمہ پولیس کے کنٹریکٹ ملازمین کے احتجاجی مظاہرے بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ لیکن حال ہی میں غیرجریدہ فنی ملازمین،PWD اور ایپکانے انتہائی جاندار اور متاثر کُن ہڑتالیں کی ہیں۔ فنی ملازمین کی تنظیم کے مرکزی صدر اعجاز شاہسوار کی برطرفی کے خلاف شروع ہونے والی ہڑتال ایک ماہ سے زیادہ عرصہ جاری رہی۔محکمہ برقیات کی بیوروکریسی کے خلاف جبری تبادلوں اور انتقامی کارروائیوں کی وجہ سے مزدوروں میں شدید نفرت پائی جاتی ہے جبکہ سیفٹی انتظامات اورسٹاف کی کمی کے باعث آئے روز حادثات میں لائن مین بے موت مارے جا رہے ہیں۔ انتہائی کم تنخواہوں، کنٹریکٹ ملازمتوں اور سیفٹی انتظامات کی کمی کی وجہ سے محنت کشوں میں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔

فنی ملازمین کی تنظیم کے مرکزی صدر اعجاز شاہسوار کی برطرفی کے خلاف شروع ہونے والی ہڑتال ایک ماہ سے زیادہ عرصہ جاری رہی

اعجاز شاہسوار کی برطرفی اور جھوٹے مقدمات کے خلاف تحریک اُس وقت انتظامیہ کے لیے مشکلات کا باعث بن گئی جب ملازمین اتحاد ایکشن کمیٹی کے تحت مختلف محکموں کے ملازمین بھی اس تحریک میں شامل ہوگئے۔عین اُسی وقت PWD،پیرامیڈیکل سٹاف،جو ڈیشل ایمپلائز ایسوسی ایشن،ایپکا اور دیگر محکموں کے ملازمین کی شمولیت سے تحریک مضبوط ہوگئی جس کے باعث ضلعی انتظامیہ نے ایک بھونڈی سازش تیار کی کہ جب وزیر اعظم ریاست جموں و کشمیرفاروق حیدر رات کے اندھیرے میں سیاحتی مقام بنجونسہ میں قیام پذیر تھے برقیات کے تین ملازمین کے خلاف وزیر اعظم کی بجلی کاٹنے کا الزام لگا کر جھوٹیFIRکاٹ دی۔ ملازمین نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے جوابی درخواست جمع کرائی اور موقف اختیار کیا کہ یہ کارستانی انتظامیہ کے اپنے لوگوں نے تحریک کو سبوتاژ کرنے کے لیے کی ہے۔ سروس ٹربیونل کے تحت اعجاز شاہسوار کی بحالی کا فیصلہ سنایا گیا اور ضلعی انتظامیہ نے ہفتہ کی مہلت لی ہے کہ معاملات کویکسو کر لیاجائے گا جس کے بعد تحریک دو ہفتوں کے لیے موخر ہو گئی ہے۔

ایکشن کمیٹی کا حصہ PWDورکرز ایسوسی ایشن بھی اپنے دیرینہ مطالبات کے ساتھ تحریک میں شامل ہے۔1200سے زائد کنٹریکٹ ملازمین اس وقت بھی6سے8ہزار ماہانہ پر کام کر نے پر مجبور ہیں جبکہ10ماہ سے تنخواہیں ادا نہیں کی جا رہی ہیں۔انتہائی شدید موسمی حالات میں شاہراہوں پر کام کرنے والے مزدور 30سے35سال تک عارضی ملازمتوں پر کام کرفارغ ہو جاتے ہیں۔

راولاکوٹ: ایپکا کے احتجاجی مظاہرے کا ایک منظر جس میں دیگر یونینز نے بھی شرکت کی

PWDکی حالیہ تحریک ملازمتو ں کی مستقلی،کم از کم تنخواہ 15 ہزارمقرر کیے جانے اور ایک ضلع کی آسامیوں کی دوسرے اضلاع میں منتقلی کے خلاف مطالبات پر جاری ہے۔گزشہ ہفتے ہونے والے مذاکرات میں یقین دہانی کروائی گئی کہ ایک ماہ کے اندر تمام مسائل کوحل کر لیا جائے گا۔یوں ہڑتال کو موخر کر دیا گیا ہے۔یاد رہے کہ اس سے پہلے بھی دو وزراء عظم ان مطالبات کو تسلیم کر چکے ہیں لیکن اُن پر ابھی تک کوئی عملدرآمد نہیں ہوا۔ ایپکا نے 17اپریل سے ہڑتال کا آغاز کیا ہوا ہے جو ابھی تک جاری ہے۔ تنخواہوں میں 100فیصداضافہ،اپ گریڈیشن اور لازمی سروسز ایکٹ کی منسوخی جیسے بنیادی مطالبات کے ساتھ ایپکا نے کافی بڑی تعداد میں محنت کشوں کو ہڑتالی ریلیوں کی طرف راغب کیا ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ محنت کشوں کی اس عظیم جدوجہدمیں ان کے ساتھ ہے۔ہم سمجھتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام اور حکمران طبقہ محنت کشوں کا شدید ترین معاشی استحصال کر رہا ہے۔نجکاری،ڈاؤن سائزنگ اور دیگر مسائل کے خاتمے کے لیے محنت کش طبقے کو ایک زیادہ سنجیدہ جدوجہد کی طرف بڑھنا ہو گا۔تمام اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ اتحاد بناتے ہوئے ہی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔ملازمین اتحاد ایکشن کمیٹی کی مشترکہ جدوجہد ایک خوش آئند قدم ہے۔محنت کش طبقے کا اتحاد ہی ان کی بقا اور نجات کا باعث بنے گا۔ نجکاری مردہ باد! سرمایہ داری مردہ باد! مزدور راج زندہ باد !

Comments are closed.