پاکستان: مزدور تحریک اور مستقبل کا لائحہ عمل

تحریر: | آفتاب اشرف|

lessons of pia strikeسرمایہ دارانہ نظام کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ محنت کش طبقے کا شدید استحصال کر کے اپنی تجوریاں بھرنے والے سرمایہ دار طبقے نے کبھی بھی اپنی آزادانہ مرضی سے محنت کشوں کا کوئی مطالبہ پورا نہیں کیا۔ اپنے انتہائی بنیادی مطالبات منوانے کے لئے بھی محنت کشوں کو متحد ہو کر سرمایہ داروں کے خلاف جدوجہد کرنا پڑی ہے اور اس جدوجہد میں ایک مخصوص مرحلے پر کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے اکثر و بیشتر ہڑتال کا ہتھیار استعمال کرنا پڑا ہے۔ سرمایہ دار طبقے کی اس ہٹ دھرمی کے پیچھے کوئی مخصوص اخلاقی وجہ نہیں بلکہ یہ متضاد مفادات رکھنے والے دو طبقات کی لڑائی کا سیدھا سادا معاملہ ہے۔ مزدور کا استحصال بڑھے گا تو سرمایہ دار کے منافع میں اضافہ ہو گا اور اس کے برعکس مزدور کے استحصال میں کمی سرمایہ دار کے منافع کو بھی ناگزیر طور پر کم کر دے گی۔ آسان الفاظ میں سرمایہ دار طبقے کے فائدے میں محنت کش طبقے کا نقصان ہے اور محنت کش طبقے کے فائدے میں سرمایہ دار طبقے کا نقصان۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ طبقہ محنت کشوں کے اتحاد سے ہمیشہ خوف کھاتا ہے اور ہر ممکن کوشش کرتا ہے کہ جہاں ایک طرف مزدوروں کو قوم، رنگ، نسل، مذہب، ذات، زبان اور پیشے کی بنیاد پر تقسیم کر کے رکھا جائے وہیں مزدور تحریک کو مسلسل جبر اور سازشوں کے ذریعے دبا کر رکھنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے اس مقصد کے لئے مزدور انجمنوں (ٹریڈ یونینز) پر پابندی، نئی ٹریڈ یونینز کی تخلیق میں رکاوٹ، ٹریڈ یونین قیادتوں کو ذاتی مفادات کا لالچ دے کر ساتھ ملانے سے لے کر مزدور تحریک کے خلاف میڈیا پراپیگنڈے اور ریاستی جبر کے استعمال تک تمام ہتھکنڈے شامل ہیں۔ لیکن ہڑتال محنت کش طبقے کا وہ ہتھیار ہے جس سے سرمایہ دار طبقہ خاص طور پر نفرت کرتا ہے اور خوف کھاتا ہے کیونکہ ہڑتال کی وجہ سے جہاں ایک طرف پیداوار رک جانے سے سرمایہ کے منافع پر ضرب پڑتی ہے تو دوسری طرف ہڑتال کے ذریعے محنت کشوں کو پیداوار کے عمل میں اپنی بنیادی اہمیت کا بھرپور احساس ہوتا ہے اور یہ احساس محنت کشوں کو بطور طبقہ اپنی طاقت کا ادراک دیتا ہے۔ ہڑتال کے دوران محنت کشوں پر سرمایہ دار طبقے کے ساتھ ساتھ میڈیا، لیبرڈیپارٹمنٹ، عدالت، پولیس اور دیگر غیر جانبداری کا ڈھونگ رچانے والے ریاستی اداروں کی اصل حقیقت بھی واضح ہو جاتی ہے اور وہ یہ جاننا شروع ہو جاتے ہیں کہ ان کا استحصال کرنے کے لئے سرمایہ دار طبقے کو تمام ریاستی اداروں کی بھرپور آشیرباد حاصل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرمایہ دار طبقہ اور ریاستی ادارے مزدوروں کو ہڑتال سے باز رکھنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں۔ کبھی قانونی ہتھکنڈوں سے محنت کشوں کو ہڑتال کے حق سے محروم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو کبھی مذہبی اور اخلاقی جواز تراش کر ہڑتال کو ایک گناہِ عظیم بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی ہڑتال کو میڈیا پراپیگنڈا کے ذریعے ایک ملک دشمن سرگرمی بنا دیا جاتا ہے تو کبھی اسے نام نہاد امن و امان کے لئے خطرہ بتایا جاتا ہے۔ اگر ان تمام طریقوں سے بھی بات نہ بنے تو پھر ہڑتال کو روکنے یا تڑوانے کے لئے محنت کشوں پر ننگے ریاستی جبر کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس تمام تر جبر و استبداد کے باوجود محنت کش طبقہ اپنی بقا کی خاطر بار بار جدوجہد کے میدان میں اترتا ہے اور اپنے حالات کو بدلنے کی کوشش کرتا ہے۔ گزشتہ سات آٹھ سالوں میں ہمیں دنیا کے بے شمار ملکوں میں محنت کش طبقے کی چھوٹی بڑی تحریکیں، عام ہڑتالیں اور انقلابی بغاوتیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ دنیا کی دیگر معیشتوں کی طرح پاکستانی معیشت بھی سرمایہ دارانہ نظام کے عالمی بحران سے شدید متاثر ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں گزشتہ چند برسوں میں غربت، مہنگائی، بیروزگاری اور سماجی انتشار میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ دیگر ممالک کے سرمایہ داروں کی طرح پاکستان کا سرمایہ دار طبقہ بھی معاشی بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر لاد رہا ہے اور اپنے منافعوں کی اندھی ہوس میں محنت کشوں پر وحشیانہ حملے کر رہا ہے۔ نجکاری، ٹھیکیداری، ڈاؤن سائزنگ، اجرتوں میں کمی، اوقات کار کی طوالت، مزدور دشمن لیبر قوانین، نئی ٹریڈ یونین بنانے پر عملاً پابندی جیسے عوامل محنت کشوں پر سرمایہ دار طبقے کی یلغار کا کھلا اظہار ہیں۔ مزدور طبقے پر ان بڑھتے ہوئے حملوں میں سرمایہ داروں کو حکومت اور ریاستی اداروں کا بھرپور تعاون بھی حاصل ہے۔ لیکن پاکستان کا محنت کش طبقہ اس تمام ظلم اور جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکاری ہے۔ حالات کی تمام تر سختی کے باوجود پاکستان میں ایک تازہ دم مزدور تحریک انگڑائی لے رہی ہے۔ گزشتہ چند سالوں میں واپڈا، PIA، اسٹیل ملز، ریلوے، پاکستان پوسٹ، ینگ ڈاکٹرز، نرسز، پیرامیڈیکس، اساتذہ، سوئی گیس، پورٹ ٹرسٹ، میونسپلٹی، واسا، نادرا، OGDCL سمیت بے شمار سرکاری اداروں میں احتجاج، جزوی یا مکمل ہڑتالیں اور چھوٹی بڑی تحریکیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سرکاری اداروں کے علاوہ ملک کے تقریباً تمام بڑے صنعتی مراکز میں بھی نجی صنعتوں کے ورکرز میں بھی شدید بے چینی ہے جس کا اظہار گاہے بگاہے مختلف نوعیت کے احتجاجوں، روڈ بلاک اور مختصر ہڑتالوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔ اگرچہ پچھلے کچھ عرصہ میں واپڈا اور PIA کی نجکاری مخالف اور ینگ ڈاکٹرز کی اجرتوں میں اضافے کی تحریکیں ملکی سطح پر ابھر کر سامنے آئی ہیں اور ان کی بازگشت عوام کی وسیع ترپرتوں تک سنی گئی ہے لیکن اس وقت مزدور تحریک کا مجموعی کردار ایک دوسرے سے الگ الگ چلنے والی، بکھری ہوئی بے شمار تحریکوں پر مبنی ہے اور یہی پاکستان میں مزدور تحریک کی اس وقت سب سے بڑی کمزوری ہے۔ مزدور تحریک کے اسی بکھرے ہوئے کردار کی وجہ سے عام محنت کشوں کی زبردست جدوجہد اور بے شمار قربانیوں کے باوجود ریاست اور سرمایہ دار طبقے کے معاشی حملے روزبروز بڑھتے جا رہے ہیں۔ مسائل مشترک ہونے کے باوجود جب تک مختلف اداروں اور صنعتوں میں چلنے والی محنت کشوں کی تحریکیں ایک دوسرے سے الگ تھلگ رہیں گی، تب تک حکومت اور سرمایہ داروں کے لئے ان تحریکوں کو علیحدگی میں ایک ایک کر کے کچلنا نسبتاً آسان ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلے کچھ سالوں میں ابھرنے والی زیادہ تر تحریکیں اپنے مطالبات منوانے میں مکمل طور پر کامیاب نہیں ہو سکیں، ایک محدود تعداد کو جزوی کامیابی حاصل ہوئی اور صرف چند ایک تحریکیں ایسی ہیں جو کہ قابل ذکر کامیابی حاصل کرنے کا دعویٰ کر سکتی ہیں۔ ان تمام تجربات کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرنا مشکل نہیں کہ مشترکہ مطالبات پر مبنی ایک پروگرام کی بنیاد پر مختلف اداروں اور صنعتوں کے محنت کشوں کے مابین ایک طبقاتی ایکتا قائم کئے بغیر مزدور تحریک کا بحیثیت مجموعی آگے بڑھنا ناممکن ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس طبقاتی اتحاد کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟؟؟
بائیں بازو کے بہت سے مایوس دانشور محنت کش طبقے کی شعوری پسماندگی کو مزدور تحریک کی حالت زار کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ یہ نقطہ نظر بالکل غلط اور بے بنیادہے۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ اپنی زندگی کے تجربات سے اہم نتائج حاصل کر رہا ہے اور تمام سیاسی پارٹیوں کو رد کر چکا ہے ۔ اس کے ساتھ ساتھ اس میں اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے اورایک انقلاب برپا کرنے کی تمام تر صلاحیت موجود ہے۔اگرچہ عام حالات میں سارا محنت کش طبقہ ایک جیسے نتائج اخذ نہیں کر رہا ہوتا لیکن گزشتہ کچھ عرصہ میں اپنے تلخ تجربات سے سبق سیکھتے ہوئے محنت کش طبقے کی ہراول پرتیں اس حقیقت کا ادراک حاصل کر چکی ہیں کہ ان کی نجات مزدور اتحاد کے بغیر ممکن نہیں ۔لیکن اس اتحاد کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے کوئی پلیٹ فارم موجود نہیں ۔ اس وقت ملک میں کوئی سیاسی پارٹی ایسی نہیں جو مزدوروں کے حقوق کی جدوجہد کر رہی ہو یا ان کے سلگتے ہوئے مسائل اجاگر کر رہی ہو۔ بلکہ اس کے بر عکس تمام سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی شکل میں بر سر اقتدار ہیں اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی مزدور دشمن پالیسیوں کو نافذ کرنے میں مصروف ہیں۔ قوم پرستوں سے لے کر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی تک تمام پارٹیاں نجکاری کی مزدور دشمن پالیسی کی مکمل حمایت کرتی ہیں۔ اسی طرح مزدور وں کی کم از کم اجرت میں اضافے کا سوال ہو یا یونین سازی اور سوشل سکیورٹی کے حق کا مسئلہ یہ تمام پارٹیاں اور ان کی قیادت میں موجود سرمایہ دار مزدوروں کے کھلے دشمن ہیں۔سوویت یونین کے انہدام کے بعد دنیا بھر میں مزدور تحریک کو جس پسپائی کا سامنا کرنا پڑا اس کا عملی اظہار پاکستان میں بھی ہوا ۔ جہاں مزدور وں کی یونین سازی سمیت تمام حقوق پر حملوں میں اضافہ ہوا، قیادتوں نے غداریاں کی وہاں مزدور راج اور سوشلزم کے نظریات کے خلاف بھی ایک بیہودہ پراپیگنڈہ کیا گیا اور مزدور تحریک کومزدوروں کے نظریات سے عاری کر دیا گیا۔آج کی مزدور تحریک کا سب سے بڑا المیہ سوشلزم کے نظریات سے دوری ہے۔ تنخواہوں میں اضافے کی جدوجہد سے لے کر نجکاری کے خلاف بر سر پیکار محنت کش طبقے کی قیادتیں جب تک سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کاادراک حاصل نہیں کرتی اور اس کے متبادل کو حتمی منزل نہیں بناتی وہ حکمرانوں کی چالوں کا شکار ہوتی رہیں گی ۔

اس کے ساتھ ساتھ ہمیں مزدوروں کے لیے موجود ان پلیٹ فارم کے کردارکی حقیقت کو بھی سمجھنا ہو گا جو مزدوروں کو اکٹھا کرنے کے لیے بنے ہیں اور ان کا مقصد مختلف یونینو ں اور مزدوروں کو ایک فیڈریشن میں اکٹھا کرنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مزدوروں کے اتحاد کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ بذات خود ٹریڈ یونین قیادتیں ہیں جن کی ایک بھاری اکثریت وقت اور حالات کے تقاضوں سے بہت پیچھے رہ گئی ہے اور موجودہ نظام کے آگے گھٹنے ٹیک چکی ہے۔ نتیجتاً وہ مزدوروں کی آواز سننے کی بجائے مزدور تحریک میں حکومت اور سرمایہ دار طبقے کے مفادات کے نگران بن کر رہ گئے ہیں۔ ٹریڈ یونین قیادتوں کی موقع پرستانہ تنگ نظری کی داستانوں سے کئی صفحات بھرے جا سکتے ہیں لیکن صرف ایک واضح مثال ہی ان نام نہاد ’’مزدور لیڈروں‘‘ کی اصلیت جاننے کے لئے کافی ہے۔ رواں سال فروری میں کراچی ائیرپورٹ پر PIAکے محنت کشوں کی نجکاری مخالف ریلی پر ریاستی اہلکاروں کی فائرنگ کے نتیجے میں دو محنت کش شہید ہو گئے تھے۔ سرمایہ دارانہ ریاست کی اس سفاکانہ غنڈہ گردی پر PIAکے ملازمین نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے آٹھ دن تک مکمل ہڑتا ل کی اور تمام پروازوں کو روک دیا جو اس سے پہلے اس ملک کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔اسی دوران پورے ملک کے محنت کش طبقے میں غم و غصے کی ایک لہر دوڑ گئی اور سرکاری اداروں سے لیکر بڑی نجی صنعتوں کے محنت کشوں تک، سب اس سانحے کے خلاف متحد ہو کر حکومت کو ایک منہ توڑ جواب دینا چاہتے تھے لیکن نمایاں ٹریڈیونین قیادتیں اس غصے اور بغاوت کو کوئی واضح لائحہ عمل دینے سے خوفزدہ ہو گئیں اور حکومتی اشاروں پر انہوں نے اپنے نام نہاد احتجاج کو محض مذمتی بیانات اور چند علامتی میٹنگز تک محدود رکھا۔ان قیادتوں کے اسی خصی پن کے باعث حکومت پی آئی اے کے محنت کشوں کی اس عظیم الشان جدوجہد کوزائل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ واقعہ اور اس جیسے دوسرے درجنوں واقعات اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ موجودہ ٹریڈ یونین قیادتوں کی بھاری اکثریت مزدور تحریک کو آگے لے جانے کی بجائے اس کو روکنے کے لئے ’’بریک‘‘ کا کام کر رہی ہے۔ مختلف مزدور تحریکوں کو ایک دوسرے سے الگ تھلگ رکھنے کے ساتھ ساتھ ٹریڈ یونینز کو مزدور نظریات (سوشلزم) سے کاٹ کر محض آنے ٹکے کی لڑائی کے پروگرام تک محدود کرنے اور مزدور تحریک کو غیر سیاسی بنانے کا جرم بھی انہی مزدور قیادتوں نے کیا ہے۔ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ یہ تمام ٹریڈ یونین قیادتیں کسی نہ کسی سرمایہ دارانہ سیاسی پارٹی کے ساتھ براہ راست یا بالواسطہ طور پر منسلک ہیں لیکن جب عام مزدور ملک کی سیاسی، سماجی، معاشی صورتحال پر سوال اٹھاتے ہیں اور حکمران طبقے سے نفرت کا اظہار کرتے ہیں تو انہیں فوراً سیاست سے دور رہنے اور اپنے کام سے کام رکھنے کا درس دیا جاتا ہے۔
اس تمام تر صورتحال سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ زیادہ تر ٹریڈ یونین قیادتیں اپنے اپنے مفادات کے تحت مزدور تحریک کی مزید بڑھوتری کی خواہش مند نہیں ہیں۔ اور ایسے میں یہ فریضہ محنت کش طبقے کی سب سے شعور یافتہ ہر اول پرتوں پر آ جاتا ہے کہ وہ اپنی قیادتوں کو آگے بڑھنے پر مجبور کرنے کے لئے دباؤ بڑھائیں اور لیڈرشپ کی کھلی غداری کی صورت میں متبادل قیادت فراہم کرتے ہوئے ان دھوکے باز لیڈروں کو مزدور تحریک سے نکال باہر کریں۔ لیکن اس مقصد کے لئے محنت کش طبقے کی لڑاکا پرتوں کو مزدور نظریات (سوشلزم) سے جوڑتے ہوئے تحریک کو آگے بڑھانے کے لئے ایک جامع پروگرام اور ٹھوس لائحہ عمل دینا پڑے گا۔ مزدور تحریک کو مضبوط نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنے اور ہراول پرتوں کو ان کے اپنے تجربات کی روشنی میں درست سیاسی نتائج اخذ کرنے میں مدد فراہم کرنے میں بائیں بازو کے کارکنان کا بھی ایک کلیدی کردار ہے اور آج کے عہد میں یہی ان کا اولین فریضہ بھی ہے۔
حالات تقاضا کر رہے ہیں کہ محنت کش طبقے کی شعور یافتہ پرتیں تمام محنت کشوں کے مشترکہ مطالبات پر مبنی ایک جامع پروگرام کی بنیاد پر ’’ایک کا دکھ۔۔۔ سب کا دکھ‘‘ کے نعرے کے تحت مزدور اتحاد کی طرف بڑھیں اور اس اتحاد کو عملی جامہ پہنانے کے لئے عام ہڑتال کا جراتمندانہ لائحہ عمل اپنانے کی جانب گامزن ہوں۔ جہاں کسی ایک ادارے یا صنعت میں ہونے والی ہڑتال اپنی محدودیت کی وجہ سے ریاست اور سماج کو نہیں ہلا پاتی اور جبر کا شکار ہو جاتی ہے وہاں کئی اداروں اور صنعتوں کے محنت کشوں کی شمولیت سے ہونے والی عام ہڑتال ریاست، حکومت اور سرمایہ دار طبقے کو مفلوج کر کے رکھ دیتی ہے۔ عام ہڑتال کے دوران ہی محنت کشوں کو نظام پیداوار میں اپنی بنیادی اہمیت اور بطور طبقہ اپنی بے پناہ قوت کا حقیقی معنوں میں احساس ہوتا ہے اور اپنی قوت کا یہ ادراک مزدور اتحاد کے نعروں کو مزدور راج کے نعروں میں بدل دیتا ہے۔
اگر پاکستان کے محنت کش غدار قیادتوں اور مفاد پرست سیاست دانوں کو پرے دھکیل کر ایک عام ہڑتال کی جانب بڑھتے ہیں تو ایک ہی دن ہوائی جہاز، ریلوے، بجلی، ٹیلی فون، گیس سمیت تمام ادارے بند ہو جائیں گے اور پوری ریاست مفلوج ہو کر اپنے گھٹنوں پر آ جائے گی۔ اس وقت نہ صرف نجکاری کی مزدور دشمن پالیسی سمیت دیگر مزدور دشمن قوانین کو ختم کروایا جا سکتا ہے بلکہ سرمایہ دارانہ ریاست اکھاڑ کر مزدور ریاست کے قیام کی جانب فیصلہ کن انداز میں پیش قدمی کی جا سکتی ہے۔پاکستان کی موجودہ صورتحال میں عام ہڑتال ہی وہ طریقہ کار اور منزل ہے جس کے حصول کے لیے نہ صرف مزدور تحریک خود آگے بڑھ سکتی ہے بلکہ ظلم و استحصال کا شکار دیگر طبقوں اور پرتوں کو اپنے ساتھ جوڑ سکتی ہے۔ اس منزل کی جانب سفر میں مزدور تحریک معاشی مطالبات کی حدود توڑ کر سیاسی میدان میں قدم رکھے گی اور رائج الوقت سیاست کو تاریخ کے کوڑے دان میں پھینکتے ہوئے اپنے طبقے کی سیاست کو زندہ کرے گی۔ ایسے میں نئی سیاسی تحریکوں اور پارٹیوں کا وجود میں آناناگزیر ہے۔ دوسری جانب حکمران طبقے کو بھی ان حالات سے نپٹنے کے لیے نئے سیاسی پلیٹ فارم کی ضرورت پیش آئے گی۔
گزشتہ چند سالوں میں سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف یورپی ممالک سے لے کر لاطینی امریکہ کے ممالک تک اور افریقہ سے لے کر ایشیا کے کئی ممالک تک محنت کش طبقے نے کئی عام ہڑتالیں کی ہیں اور اپنی طبقاتی طاقت کو پورے سماج میں تسلیم کروایا ہے۔ ہمسایہ ملک ہندوستان میں بھی گزشتہ چار سالوں میں تین ملک گیر عام ہڑتالیں ہو چکی ہیں اور 2ستمبر کو ایک مرتبہ پھر ہندوستان کے محنت کش طبقے نے انسانی تاریخ کی سب سے بڑی ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے مودی سرکار کی مزدور دشمن پالیسیوں کو چیلنج کیا ہے۔ ان تمام ممالک کے محنت کشوں کی طرح پاکستان کا محنت کش طبقہ بھی اپنی بقا کی لڑائی لڑنے کی بھرپور اہلیت اور جرات رکھتا ہے۔ پاکستان کے محنت کشوں کا ماضی جرات اور ہمت کی ایسی کئی داستانوں سے بھرا پڑا ہے جس کی سب سے واضح مثال ہمیں 69-1968ء کی انقلابی سرکشی کی صورت میں ملتی ہے جس میں محنت کش طبقے نے ایک انقلابی یلغار کے ذریعے ایوبی آمریت اور سرمایہ داروں کے گٹھ جوڑ پر مبنی حکومت کے پرخچے اڑا کر رکھ دیئے تھے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کا محنت کش طبقہ پہلے سے کہیں زیادہ بلند پیمانے پر اپنی تاریخ کو دہرائے گا اور اس مرتبہ اس جدوجہد کا انجام مزدور راج کے سرخ سویرے پر ہو گا۔

Comments are closed.