مزدور تحریک: کٹھن رستے بتاتے ہیں کہ منزل کتنی حسین ہو گی

|تحریر: پارس جان|

ان حکمرانوں نے محنت کشوں کے خلاف ننگی معاشی جارحیت کی انتہا کر دی ہے۔ شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو جب عوام پر کسی نئے ٹیکس یا اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے کا نیا وار نہ کیا جاتا ہو۔ موجودہ حکمران انتہائی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی سے ہر وار کو آخری وار سمجھ کر برداشت کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں اور روشن مستقبل کی نوید سناتے نہیں تھکتے۔ محنت کش طبقے کی زندگیاں تو پہلے ہی اجیرن تھیں اب پیٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافے کے باعث درمیانے طبقے کی وسیع تر پرتوں کا معیارِ زندگی بھی کبھی نہ دیکھی گئی رفتار سے گراوٹ کا شکار ہو چکا ہے۔ روزگار کے نئے مواقع تو کب کے ناپید ہو ہی چکے تھے کہ اب آئے روز سینکڑوں محنت کشوں کی برطرفیاں معمول کی بات بن چکی ہیں۔ کورونا وبا کی تیسری لہر ابھی تک مکمل ختم نہیں ہوئی تھی کہ اب ملک کے طول و عرض میں ڈینگی کا راج ہے۔ زندگی بچانے والی عام سی ادویات اور پھلوں کو خریدنے کی غریب عوام کی استطاعت پہلے ہی جواب دے چکی ہے۔ حکمران طبقے کے وظیفہ خوار اور پالیسی ساز اس صورتحال میں عوام کی داد رسی کرنے کی بجائے اس کے تسلسل کو ہی اپنی پالیسی اور حکمت قرار دے چکے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ عوام کو بھوک اور بیماری سے اتنا نڈھال اور بیزار کر دیا جائے کہ ان میں حکمرانوں سے سوال کرنے یا مزاحمت کرنے کی سکت ہی باقی نہ بچے۔ لیکن محنت کش بار بار اپنی لڑنے کی اور روزگار اور جینے کے حق کے دفاع کی خواہش، صلاحیت اور توانائی کا اظہار کر چکے ہیں۔ حکمرانوں کو جب بھی خدشہ لاحق ہوتا ہے کہ محنت کش جوابی حملہ کر سکتے ہیں تو وہ پھر مصنوعی اور کٹھ پتلی تحریکیں عوام پر مسلط کرنے کی کوششیں تیز کر دیتے ہیں۔ کبھی مذہبی جذبات کو اشتعال دلا کر رائے عامہ کو ہراساں کیا جاتا ہے تو کبھی سرمایہ نواز نام نہاد اپوزیشن پارٹیوں کو مہنگائی کے خلاف لفظوں کی جگالی کرنے اور مگر مچھ کے آنسو بہانے کے لیے سڑکوں پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی خصوصیت ہی یہ ہے کہ اس میں ہر چیز خریدی اور بیچی جاتی ہے۔ کسی بھی انسانی حظ اور آسائش سے لبریز جمالیاتی شاہکار سے لے کر رستے ہوئے زخموں اور بہتے ہوئے اشکوں تک ہر چیز بیچ دی جاتی ہے۔ اب عوامی حمایت سے مسلسل محروم ہوتی اپوزیشن کو ہی دیکھ لیجیے۔ یہ مہان سوداگر کتنی فنکاری سے اب ”مہنگائی“کو بھی بیچنے نکلے ہیں تاکہ اس کے بدلے عوامی حمایت کو خریدا جا سکے۔ لیکن یہ نادان یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ اب یہ ”مہنگائی“بھی عوام کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہے۔ ان کے پاس اس کے بدلے میں دینے کو سوائے گالیوں کے کچھ بھی نہیں۔ اور عوام کی نفرت اور غصے پر مشتمل یہ گالیاں بھی اب اتنی بدحواس ہو چکی ہیں کہ ان میں حکومت اور اپوزیشن کی تمیز ہی ختم ہو چکی ہے۔ عوام نے زندگی کے تلخ سکول سے یہ سبق سیکھا ہے کہ چہرے بھلے ہی الگ الگ ہوں کردار سب کے یکساں ہیں۔ اور وہ بہت تیزی سے یہ بھی سیکھ رہے ہیں کہ سول قیادتوں سے لے کر عسکری راجاؤں تک، یہ سب کئی بار اقتدار کے مزے لوٹ چکے اور یہ موجودہ حالات کوئی ایک مہینے یا سال کی پیداوار نہیں بلکہ ان تمام کی پالیسیوں کے تسلسل کا ہی نتیجہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر حیلے حربے کے باوجود چھوٹے چھوٹے وقفوں کے بعد پھر مزدور تحریک سر اٹھاتی ہے اور اپنے بے پناہ انقلابی پوٹینشل سے حکمران طبقے کی نیندیں حرام کر دیتی ہے۔ پاکستان ہی میں نہیں بلکہ دنیا بھر میں یہ عمل ناہموار شدت اور رفتار سے محسوس کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں ابھی اگرچہ ایک ملک گیر تحریک سیاسی سطح پر نمودار نہیں ہو سکی مگر موجودہ صورتحال میں اس کے بیج ضرور موجود ہیں۔ اور دنیا بھر کی ابھرتی تحریکوں سے شکتی لے کر جلد یا بدیر ایک بڑا سماجی دھماکہ ناگزیر ہوتا چلا جا رہا ہے۔

2019ء کے سال کو دنیا بھر میں تحریکوں کے احیا کا سال کہا جا سکتا ہے۔ امریکہ اور یورپ کے ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ ساتھ لبنان اور عراق جیسے پسماندہ اور جنگ زدہ ممالک میں بھی 2019ء میں لاکھوں لوگ بحران کا سارا ملبہ عوام پر ڈالنے کی جارحانہ پالیسیوں کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ یہ عوامی ریلا ایک کے بعد دوسرے ملک میں پھیلتا ہی چلا جائے گا اور اس سفاک نظام کو بھی اپنے ساتھ بہا لے جائے گا مگر ایسا نہ ہو سکا اور پھر صورتحال ڈرامائی طور پر تبدیل ہو گئی۔ سچ تو یہ ہے دنیا بھر کا حکمران طبقہ اس عوامی ریلے کو ایک نئی عرب بہار سے تشبیہ دے رہا تھا اور پالیسی سازوں کے مختلف دھڑے ایک دوسرے کو عوام سے ڈرا کر اپنا قبلہ درست کرنے کی تلقین کر رہے تھے۔ ایسے میں کورونا بحران نے اس انقلابی عمل میں رخنہ ڈال کر حکمرانوں کو وقتی طور پر تو سانس لینے کا موقع فراہم کر دیا مگر یہ آسودگی اپنے اندر کہیں زیادہ کٹھنائیاں لیے ہوئے تھی۔ بھوک اور بیروزگاری کی دلدل میں غرق ہوتے ہوئے محنت کش عوام کے سر پر ناگہانی موت کے سائے بھی منڈلانے لگے تھے اور وہ وقتی طور پر پھر سکتے کی کیفیت میں مبتلا ہو گئے۔ حکمران طبقے نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار کرنے کے لیے اپنی نمائندہ ریاستوں اور حکومتوں کو ان بے یار و مددگار محنت کشوں کی بوٹیاں نوچنے کے تاریخی فریضے پر لگا دیا۔ ان تمام بہیمانہ اور وحشیانہ اقدامات کے باوجود سرمایہ داری کا بحران ٹلنے کی بجائے مزید مشتعل ہو چکا ہے اور بدلے میں عوام پر پہلے سے بھی زیادہ بوجھ لادنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ مگر اب عوام کی برداشت کا پیمانہ ایک دفعہ پھر لبریز ہونے کے قریب ہے۔ اس کا اظہار حال ہی میں دنیا بھر میں محنت کشوں کی ہڑتالوں اور احتجاجوں کی حالیہ لہر میں دیکھا جا سکتا ہے۔

لاطینی امریکہ سے لے کر چین تک اور ترکی سے لے کر سوڈان تک ہر جگہ محنت کش تحریک کی نئی اٹھان قابل دید ہے۔ سب سے بڑھ کر امریکہ میں جہاں معیشت کی بحالی کا بھی بہت شور مچایا جا رہا تھا محنت کشوں نے حکمران طبقے کے تجزیہ نگاروں کو فرطِ حیرت میں مبتلا کر دیا ہے۔ آکوپائی وال سٹریٹ کی تحریک کی طرح ہی بلیک لائیوز میٹر کی باغیانہ سرکشی میں بھی درمیانے طبقے کے نوجوان ہی مرکزی کردار ادا کرتے رہے تھے۔ مگر گزشتہ ماہ یعنی اکتوبر میں امریکی محنت کشوں میں بڑے پیمانے پر سیاسی ہلچل دیکھنے میں آئی ہے اور کہا یہ جا رہا ہے کورونا وبا کے متوازی امریکہ میں ایک اور وبا پھوٹ پڑی ہے اور وہ ہڑتالوں کی وبا ہے۔ ان ہڑتالوں کی مناسبت سے ماہِاکتوبر کو سٹرائیکتوبر بھی لکھا جا رہا ہے۔ کان کنی، مواصلات، تعمیرات، شوبز، ٹرانسپورٹ، فوڈ اور کارپینٹری تک تمام شعبہ جات میں محنت کش سخت غصے میں ہیں۔ بالخصوص کورونا سے جنگ لڑنے والے شعبہئ صحت کے محنت کش اب طبقاتی جنگ کے لیے صفیں درست کر رہے ہیں۔ امریکہ میں یہ ممکنہ طبقاتی جنگ اب بہت لمبے عرصے تک مؤخر ہوتی نظر نہیں آ رہی۔ دوسری طرف چین میں بھی سیاسی درجہ حرارت میں لگاتار اضافہ ہو رہا ہے۔ گزشتہ 6 ماہ میں محنت کشوں کی مزاحمت پر مبنی سرگرمی کے ساڑھے 5 سو سے زیادہ واقعات رپورٹ کیے گئے ہیں۔ یعنی چین میں روزانہ کم از کم تین اہم ہڑتالیں ہو رہی ہیں۔ پراپرٹی کے شعبے کی دیوہیکل کمپنی ایور گرینڈ کے دیوالیہ نے ہزاروں محنت کشوں کے روزگار کے خاتمے کا اعلان کر دیا تھا اور اب آٹو انڈسٹری کے بڑے گروپ باؤننگ کا دیوالیہ نکلنے والا ہے۔ حکومت نے 12 ارب یوآن کی خطیر رقم کے ذریعے اس دیوالیہ کو بچانے کی کوشش تو کی ہے مگر صورتحال بہتر ہوتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی۔ یہاں سینکڑوں محنت کشوں کے 8 ماہ سے بھی زیادہ کے واجبات ہیں۔ اسی طرح کی صورتحال رفتہ رفتہ باقی شعبوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہے جو ہڑتالوں کی شرح میں برق رفتار اضافے کا موجب بنے گی۔ اکتوبر میں ہی جنوبی کوریا میں شاندار عام ہڑتال دیکھنے میں آئی۔ سوڈان میں فوجی آمریت کے تازیانے نے 2019 ء کی گھائل تحریک میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور محنت کش فوجی کُو کے خلاف ڈٹ گئے ہیں۔ کُو کے بعد ہونے والی عام ہڑتال میں محنت کشوں کے ساتھ ساتھ 40 لاکھ سے زائد لوگ سڑکوں پر تھے جہاں انہوں نے انتہائی دلیری کے ساتھ گولیوں اور آنسو گیس کا سامنا کیا۔ سوڈانی انقلاب زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔ ترکی میں بھی یہ اکتوبر حکمران طبقے کے سر پر کسی عذاب سے کم نہیں تھا جہاں پوسٹل ورکرز، تعمیرات، صحت، میونسپلٹی، کان کنی اور ٹیکسٹائل کے محنت کشوں نے شدید معاشی حملوں کا ہڑتال کی شکل میں منہ توڑ جواب دیا۔ اس سے ملتی جلتی صورتحال ہم دو ماہ قبل ایران میں بھی دیکھ چکے ہیں۔ غرضیکہ دنیا کا کوئی خطہ یا ملک ایسا نہیں جہاں محنت کش طبقے نے اپنی بقا کی تازہ دم لڑائی کے لیے کمر نہ کسی ہو۔ پاکستان بھی اسی سیارے پر واقع ہے اور یہاں بھی حالات محنت کش طبقے کو اسی انقلابی سمت میں دھکیل رہے ہیں۔ ہم بحیثیت مجموعی ایک انقلابی عہد میں داخل ہو چکے ہیں۔

جہاں دنیا بھر کی یہ تحریکیں پاکستان کے محنت کشوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کریں گی، پاکستان کا ریاستی و معاشی بحران بھی محنت کشوں کو انقلابی نتائج اخذ کرنے پر مجبور کرے گا۔

جہاں دنیا بھر کی یہ تحریکیں پاکستان کے محنت کشوں کے شعور پر گہرے اثرات مرتب کریں گی، پاکستان کا ریاستی و معاشی بحران بھی محنت کشوں کو انقلابی نتائج اخذ کرنے پر مجبور کرے گا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے حالیہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار نہیں ہو سکے۔ جس کے باعث عوام پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ لادا جائے گا۔ اور سب سے بڑھ کر نجکاری کا عمل مزید تیز کر دیا جائے گا۔ ان حالات میں ریلوے، واپڈا، پی آئی اے، پاکستان پوسٹ اور دیگر پبلک سیکٹر کے محنت کشوں کے پاس سوائے لڑائی کے کوئی آپشن باقی نہیں بچتا۔ لاکھوں لوگوں کے سروں پر لٹکتی برطرفیوں کی تلوار انہیں آپس میں جڑنے پر مجبور کرے گی۔ ہم گزشتہ چند سالوں میں شعبہ صحت، ریلوے اور سرکاری ملازمین کے اپنے شعبوں کی حد تک بڑے عملی اتحاد بنتے ہوئے دیکھ چکے ہیں۔ اگرچہ تحریک کی عمومی پسپائی کے زیر اثر اور قیادت کی بے راہروی کے سبب ان اتحادوں میں دراڑیں پڑتی رہتی ہیں مگر حالات پھر ان کو بغل گیر ہونے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ یہ عمل یونہی ہچکولے لیتا ہوا آگے بڑھے گا اور کسی مرحلے پر ان شعبہ جات کے داخلی اتحادوں سے متجاوز ہو کر مختلف شعبوں کے مابین نت نئے عملی محاذوں کی تشکیل کی راہ ہموار ہو گی۔ پاکستان کی مزدور تحریک کی سب سے بڑی نامیاتی کمزوری پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے محنت کشوں کے مابین حائل ہو جانے والی وسیع سیاسی خلیج ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے محنت کشوں نے پبلک سیکٹر کے محنت کشوں کو محنت کش سمجھنا ہی ترک کر دیا تھا۔ ظاہر ہے کہ اس کی وجہ معیارِ زندگی میں واضح امتیاز تو تھا ہی مگر ساتھ ہی ساتھ پبلک سیکٹر کے محنت کشوں کی عمومی ثقافتی گراوٹ نے بھی اس میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ مگر اب صورتحال اپنے الٹ میں تبدیل ہو چکی ہے اور پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کے محنت کشوں کے مابین سیاسی خلیج کے خاتمے کے لیے تمام معروضی عوامل بلوغت کو پہنچ کر ایک دوسرے کی افزودگی کو جلا بخش رہے ہیں۔ حکمران طبقے کے پاس اس سارے عمل میں رخنہ ڈالنے کی کوئی مؤثر تدبیر نہیں ہے۔ وہ اس وقت محنت کشوں کو کسی بھی قسم کی معاشی رعایت دینے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ کسی بھی قسم کی حتیٰ کہ ادنیٰ سے ادنی اصلاح کا بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ مزدور تحریک پر ننگا جبر کرنے کی مہم جوئی انہیں بہت مہنگی پڑ سکتی ہے اور ریاست کے داخلی خلفشار کے باعث ماضی کی طرز کی خونی آمریت مسلط کرنے کے فوری امکانات بھی نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ایسے میں سوائے مذہبی، قومی، لسانی اور صنفی منافرت اور تعصبات کو ہوا دینے کے اور وہ کر بھی کیا سکتے ہیں۔

حال ہی میں مذہبی جنونیت کو پھر شعوری طور پر ہوا دی گئی۔ اس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف اور سامراجی آقاؤں کی طرف سے دفاعی اخراجات یا عسکری افرادی قوت میں کمی کرنے کا مسلسل بڑھتا ہوا دباؤ بھی ہے اور اس حالیہ مذہبی لہر کے ذریعے انہیں یہ پیغام دیا گیا ہے کہ اگر ہم دفاع کو کمزور کریں گے تو یہ ملاں ریاست اور ایٹم بم پر قابض ہو کر پوری دنیا کے امن کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ مگر اس پرانتشار کیفیت کو بہرحال تحریکوں کو بدگمان اور متذبذب کرنے کے لیے ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ درست ہے کہ محنت کش طبقے کی کچھ پچھڑی ہوئی پرتوں میں مذہبی سیاست کے گرد تحرک دیکھنے میں آیا ہے مگر زیادہ تر ریاستی امداد پر چلنے والے مدارس اور درمیانے طبقے کی بوکھلائی ہوئی پرتیں ہی اس جنونیت کو سماجی ایندھن فراہم کرتی آئی ہیں۔ محنت کشوں کی بھاری اکثریت نے اسے نہ تو پہلے کبھی سنجیدہ لیا تھا اور نہ وہ اس بار اس کا حصہ بنے ہیں۔ لفظوں کی حد تک اگر کہیں محنت کشوں میں کوئی حمایت نظر بھی آتی ہے تو اس کی بنیادی وجہ شدید اور مسلسل سیاسی ہیجان اور سماجی عدم استحکام ہی ہے۔ اس سے قبل ہم نے افغانستان میں بننے والی طالبان کی حکومت کے لیے بھی زبانی کلامی تھوڑی بہت حمایت دیکھی تھی۔ دراصل محنت کشوں کی پسماندہ پرتیں جب اس طرح کی نیم فسطائی قوتوں کی طرف ہمدردی کا رویہ اختیار کرتی ہیں تو اس کی وجہ ان قوتوں سے نظریاتی یا دلی ہم آہنگی نہیں ہوتی بلکہ وہ رائج الوقت سیاسی توازن سے نفرت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ اور غصے کے عالم میں وہ کہہ دیتے ہیں کہ اس سے تو بہتر ہے کہ یہاں طالبان ہی آ جائیں۔ درحقیقت یہ یہاں کی لبرل دانش اور سیاست کے محنت کشوں کی طرف حقارت آمیز رویے کا ایک فوری اور فطری ردِعمل بھی ہوتا ہے۔ وہ ملاؤں سے محبت کا اظہار نہیں کر رہے ہوتے بلکہ لبرل اور نام نہاد سیکولر اشرافیہ سے نفرت کا اظہار کر رہے ہوتے ہیں۔ اور وہ اس میں اس لیے حق بجانب بھی گردانے جا سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار پیپلزپارٹی، اے این پی سمیت تمام پارٹیوں کو آزمایا ہے اور ہر بار ان قیادتوں نے ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک ہی چھڑکا ہے۔ ان لبرلز سے تمام تر نفرت کے باوجود بھی وہ عملی طور پر ملاؤں کے پیروکار نہیں بنتے محض باتوں کی حد تک ان سے ہمدردی کا اظہار کر کے دل کا بوجھ ہلکا کر لیتے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کی تحریکوں کو توڑنے کے لیے مذہبی تعصب میں استعمال ہونے کی صلاحیت کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ قومی منافرت کا معاملہ بھی لگ بھگ اسی کیفیت سے دوچار ہے۔ یہ ایک ٹھوس حقیقت ہے کہ یہ ریاست محنت کشوں کے معاشی استحصال کے ساتھ ساتھ مظلوم اقوام پر جبر اور تسلط پر ہی قائم ہے اور اس جبر کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ مگر دوسری ٹھوس سچائی یہ بھی ہے کہ قوم پرست قیادتیں اپنی عوام کو کوئی سنجیدہ متبادل فراہم نہیں کر سکیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ محنت کش طبقے کے وجود سے ہی انکاری ہیں۔ جو بھی مزدور یا محنت کش طبقے کا لفظ تک استعمال کرتا ہے اسے وہ قوم کا غدار قرار دے دیتے ہیں۔ دوسری طرف وہ خود دیگر سامراجی قوتوں کے آلہ کار بننے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہیں ہوگا کہ بلوچ اور سندھی قوم پرست قیادتیں گالیاں تو پنجاب کے محنت کشوں کو دیتی ہیں مگر وہ اپنے ہاریوں اور مزدوروں کو بھی قوم کا غدار ہی سمجھتی ہیں۔ پنجاب کے محنت کشوں سے نفرت کے لیے وہ یہ دلیل دیتے ہیں کہ انہوں نے آج تک بلوچستان یا سندھ وغیرہ میں جاری ریاستی جبر کے خلاف کبھی احتجاج کیوں نہیں کیا۔ جبکہ اپنے محنت کشوں سے بے پناہ نفرت کی وجہ یہ ہے کہ یہ ہماری (قوم پرستوں) کی قیادت کو تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار بند جدوجہد یا علیحدگی کی سیاست میں ان کا ساتھ کیوں نہیں دیتے۔ قوم پرست محنت کشوں کے شعوری ارتقا کو سمجھنے سے یکسر قاصر ہیں۔ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ شعور کا تعین سماجی وجود سے ہوتا ہے اور عام حالات میں محنت کش سرمایہ دارانہ جبر کے لیے یعنی خود اپنے اوپر جبر کے لیے بھی خام مال ہی ہوتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس میں قومی و صنفی جبر سمیت جبر کی ہر شکل شامل ہے لیکن پھر حالات کے تھپیڑے انہیں اس نظام اور ریاست کو اکھاڑ پھینکنے کی تحریک میں لا کھڑا کرتے ہیں۔ جیسا کہ 1968-96ء کی فقیدالمثال انقلابی تحریک میں ہم نے دیکھا کہ انہوں نے اس فوج اور ریاست کے وجود کو ہی چیلنج کر دیا جو قومی جبر کے بغیر سانس تک نہیں لے سکتی مگر اس تحریک کی قیادت پیپلزپارٹی کی جھولی میں جا گری اور ذوالفقار علی بھٹو جس پر محنت کشوں نے ریاست کے خلاف اندھا اعتماد کیا تھا، اسی نے دوبارہ بلوچستان پر فوج کشی کر دی۔ تحریک کی پسپائی نے محنت کشوں کے شعور کو بھی پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔ یہ بار بار دوہرایا گیا اور رہی سہی کسر سوویت یونین کے انہدام نے پوری کر دی مگر اب پھر سماجی شعور کروٹ لے رہا ہے اور پنجاب کے محنت کشوں میں بھی جوں جوں ریاست سے نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ بلوچستان سمیت دیگر صوبوں میں جاری ریاستی جبر کا نام نہاد جمہوری جواز بھی ختم ہو رہا ہے۔ حب الوطنی کے غبارے سے ہوا نکل رہی ہے۔ کشمیر پر سیاست کے ڈرامے کے ڈراپ سین نے بھی اس عمل کو مہمیز دی ہے۔ اور معاشی جبر کی وحدت نے بین الصوبائی مزدور اتحاد کی تشکیل کرتے ہوئے مستقبل کے سیاسی خطوط وضع کر دیئے ہیں۔ ریاست دیوالیہ قوم پرست قیادت کو مزید استعمال کرنے کی جتنی بھی کوشش کرے گی، یہ قوم پرست پہلے سے بھی تیزی سے غیر مقبول ہوتے چکے جائیں گے۔ محنت کشوں میں قومی، نسلی، صنفی و لسانی امتیازات سے بالاتر ایک طبقاتی وحدت کا عمل تاریخی لازمہ بن چکا ہے، اسے حقیقت کا روپ دھارنے سے مؤخر تو کیا جا سکتا ہے روکا نہیں جا سکتا۔

اگرچہ حکمران طبقے کے پاس تو ممکنہ مزدور تحریک کو انحطاط پذیر کرنے کی صلاحیت قدرے ماند پڑ چکی ہے مگر اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ مزدور تحریک خطِ مستقیم میں سیدھی آگے بڑھتی چلی جائے گی۔ ہرگز نہیں۔ مزدور تحریک کے رستے میں حائل سب سے بڑی رکاوٹ خود اس کی اپنی قیادت ہی ہے۔ موقع پرست ٹریڈ یونین اشرافیہ خود ان تمام تر تعصبات میں لتھڑی ہوئی ہے جو مزدور تحریک کو داخلی طور پر دیمک کی طرح چاٹ جاتے ہیں۔ ان میں ادارہ جاتی تعصبات، پبلک اور پرائیویٹ سیکٹر کا تعصب، قومی، مذہبی و لسانی تعصب سمیت ہر طرح کا تعصب شامل ہے۔ مزدور اشرافیہ میں پائے جانے والے ان تعصبات کی وجہ ان افراد کی شخصیت یا ذہنیت میں تلاش نہیں کرنی چاہیے بلکہ ان کے اس تاریخی مقام اور سیاسی کردار میں مضمر ہے جو ان کی اس حیثیت کے برقرار رہنے کی بنیادی شرط ہے۔ ٹریڈ یونین اشرافیہ انتظامیہ کی منظور نظر رہے بغیر اپنی سماجی حیثیت برقرار ہی نہیں رکھ سکتی۔ اور انتظامیہ، مالکان اور حکومتی و ریاستی مشینری کا منظورنظر رہنے کے لیے اور ساتھ ہی محنت کشوں میں بھی مسیحائی کا ناٹک جاری رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ مزدور سیاست کو ادارے کے عمومی اور معاشی معاملات تک ہی محدود کر دیا جائے۔ مزدور سیاست میں یہ نامیاتی رجحان موجود ہوتا ہے کہ وہ اپنی فعالیت میں بار بار معاشی حدود سے متصادم ہو جاتی ہے۔ اس رجحان کو شکست دینے کے لیے ٹریڈ یونین اشرافیہ کے پاس پھر مذکورہ بالا تعصبات کی آڑ لینے کے علاوہ کوئی دوسرا ہتھیار باقی نہیں بچتا۔ ان کے مفادات اسی نظام اور اس غلیظ استحصالی معمول کے ساتھ ناقابل علیحدگی انداز میں منسلک ہو چکے ہوتے ہیں۔ لیکن جب تحریک آگے بڑھتی ہے تو وہ اس کے دباؤ میں اپنی پوزیشن سے ہٹ کر تحریک کے ساتھ ساتھ آگے بڑھنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر پھر وہ اپنی حدود سے باہر نہیں جا پاتے۔ ایسے میں مزدور تحریک کو آگے بڑھنے کے لیے انقلابی نظریات، سائنسی حکمتِ عملی اور لائحہ عمل کی ضرورت پڑتی ہے جو تحریک کے نامیاتی پوٹینشل سے ہم آہنگ ہو کر اسے ٹھوس سچائی میں تبدیل کر سکے اور تمام قسم کے تعصبات کی زنجیروں سے مزدور تحریک کو آزاد کرا سکے۔ یہ نظریات مزدور تحریک میں آسمان سے وارد نہیں ہو سکتے بلکہ انقلابی کارکنوں اور نظریاتی طور پر بالغ سیاسی ورکرز کی مزدور تحریک میں منظم مداخلت کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ انقلابیوں کا کام یہ نہیں ہوتا کہ وہ موقع پرست قیادتوں کے لعن طعن تک خود کو محدود کر لیں بلکہ اس سے قبل انہیں ہر مسئلے کا ٹھوس حل پیش کرتے ہوئے فوری معاشی مطالبات کو سیاسی پروگرام سے جوڑنا ہوتا ہے۔ انقلابیوں کا فرض ہے کہ وہ مروجہ قیادتوں سے مسابقت کی فضا بنانے کی بجائے انہیں جہاں تک بائیں طرف دھکیلا جا سکتا ہے ہمدردانہ حمایت کے دم پر انہیں وہاں تک لے جائیں۔ اس عمل میں وہ جہاں ایک طرف نسبتاً دیانتدار قیادتوں کو بھی انقلابی پروگرام پر جیت سکتے ہیں وہیں وہ محنت کشوں کی ہراول پرتوں تک انقلابی نظریات کا اہم وسیلہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ اسی طریقے سے ایک شعبے کی تحریک کو دوسرے شعبے سے اور مختلف اداروں اور علاقوں کی تحریک کو آپس میں جوڑتے ہوئے مزدور تحریک کو فعال نامیاتی اکائی میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔ مزدور تحریک کی انقلابی پیش رفت میں مذکورہ بالا تمام تر معروضی امکانات کو عملی جامہ پہنانے کا صرف اور صرف یہی راستہ ہے۔ یہ وہ موضوعی دھار ہے جس کے ذریعے مزدور تحریک کے تمام معروضی اوزار درست طریقے سے اس گلے سڑے نظام اور متعفن ریاستی مشینری کی توڑ پھوڑ کے تاریخی فریضے کے لیے استعمال کیے جا سکتے ہیں اور پھر اس جابرانہ ریاست کے ملبے پر ایک صحتمند سوشلسٹ مزدور ریاست تعمیر کی جا سکتی ہے۔

Comments are closed.