گلگت بلتستان: یوم مئی 2022ء کے موقع پر مزدور یکجہتی کے لیے لیفلیٹ کی اشاعت

|ریڈ ورکرز فرنٹ، گلگت بلتستان|

یومِ مئی 2022ء کے موقع پر ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے گلگت بلتستان میں مزدور یکجہتی کیلئے شائع کیا گیا لیفلیٹ۔

(گلگت بلتستان: محنت کشوں کے ساتھ بڑھتا ہوا ظلم و استحصال اور اس کے خلاف مشترکہ جدوجہد کی ضرورت)

پاکستان میں جاری سرمایہ دارانہ نظام کا بحران روز بروز شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ اس بحران سے نکلنے میں ناکامی پر اب مقتدر قوتوں نے پی ٹی آئی حکومت کا خاتمہ کر کے درجن سے زیادہ اپوزیشن پارٹیوں پہ مشتمل متحدہ حکومت تشکیل دی ہے مگر بحران میں کمی آنے کی بجائے مزید شدت آ رہی ہے۔ نئی حکومت نے بھی انہی عوام دشمن سرمایہ دارانہ معاشی و سیاسی پالیسیوں کو برقرار رکھا ہوا ہے جو ماضی سے چلی آ رہی ہیں۔ ماضی کی نام نہاد جمہوری حکومتوں اور فوجی آمریتوں کی طرح شہباز شریف کی قیادت میں ملکی و عالمی سرمایہ دار طبقے اور ریاستی اشرافیہ کی نمائندہ اس نئی حکومت نے بھی محنت کشوں کو کوئی ریلیف دینے کی بجائے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے گئے شرمناک معاہدے کی بنیاد پر بالواسطہ ٹیکسوں میں اضافہ، ترقیاتی اخراجات میں کٹوتی اور تیل، بجلی، گیس اور دیگر ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے جا رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ عوامی اداروں کی نجکاری اور جبری برطرفیوں کے نئے حملوں کی بھی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔ یہ حکومت بھی ماضی کی تمام حکومتوں کی طرح سرمایہ دار طبقے، عالمی مالیاتی اداروں اور ریاستی اشرافیہ کے منافعوں اور لوٹ کھسوٹ میں اضافہ کرنے کے لئے ہر ممکن اقدام کرنے کو تیار ہے اور بحران کا تمام تر بوجھ محنت کش طبقے کے کندھوں پر لادا جا رہا ہے۔

گلگت بلتستان کے محنت کش بھی اس معاشی بحران کی براہ راست لپیٹ میں ہیں۔ یہاں چند سرکاری محکموں کے سوا ملازمت کے دیگر مواقع نہ ہونے کی وجہ سے بیروزگاری میں برق رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ان سرکاری محکموں پر بھی عملاً مراعات یافتہ طبقے اور ان کے حواریوں کا قبضہ ہے۔ محنت کشوں اور سفید پوش درمیانے طبقے کے نوجوانوں پر سرکاری و پرائیویٹ اداروں میں ملازمت کے دروازے بند ہیں جس کے باعث بیروزگاری تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسی طرح امیر اور غریب میں فرق اب ایک وسیع خلیج میں بدل چکا ہے۔ 

سرکاری محکموں اور نجی اداروں میں کام کرنے والے چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں اور الاؤ نسز میں بڑھتی مہنگائی کے تناسب سے اضافہ نہیں کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے چھوٹے ملازمین کے لئے اپنی بنیادی ضروریات پوری کرنا بھی ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ محکمہ صحت میں ینگ ڈاکٹروں کی ملازمت کی مستقلی، ان کی پروفیشنل ٹریننگ اور ترقیوں کا مسئلہ ہے۔ اسی طرح پیرامیڈیکل اسٹاف، نرسوں اور دیگر ہیلتھ ورکرز کو رسک الاؤنس نہیں دیا جا رہا، کئی سالوں سے ان کی ترقیاں بھی التوا کا شکار ہیں جبکہ بیشمار کا روزگار بھی مستقل نہیں۔ محکمہ برقیات میں لائن مینوں اور پاور ہاؤسز میں کام کرنے والے چھوٹے ملازمین کو رسل الاؤنس اور دیگر بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی کا مسئلہ ہے۔ لائن ڈیپارٹمنٹس کے پچاس ہزار سے زیادہ چھوٹے ملازمین کی تنخواہیں سیکریٹریٹ اور کچھ دیگر محکموں کے ملازمین کی تنخواہوں کی نسبت کم ہیں اور وہ اس تفاوت کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ سرکاری ٹرانسپورٹ ادارے نیٹکو میں سینکڑوں محنت کشوں کو تنخواہوں کی عدم ادائیگی کا سنگین مسئلہ درپیش ہے۔ پرائیویٹ تعلیمی اداروں کے ہزاروں اساتذہ کو آج بھی چھ ہزار سے پندرہ ہزار کے درمیان انتہائی قلیل اجرت دی جاتی ہے اور ریاست کی طرف سے غیر ہنر مند مزدوروں کیلئے اعلان کردہ کم از کم پچیس ہزار روپے اجرت کا اطلاق ابھی تک نجی اداروں کے ساتھ سرکاری محکموں میں کام کرنے والے عارضی ملازمین پر بھی نہیں کیا جا رہا۔ مختلف محکموں اور نجی اداروں میں ٹھیکیداروں کے ماتحت کام کرنے والے ہزاروں محنت کشوں کو انتہائی قلیل اجرت دی جاتی ہے اور وہ بھی کئی کئی مہینوں تک ادا نہیں کی جاتی۔ اسی طرح این جی اوز، ہوٹلوں اور کمرشل اداروں میں کام کرنے والے چھوٹے ملازمین کو انتہائی قلیل اجرت پر رکھ کر ان سے 12 سے 16 گھنٹے کام لیکر ان کا بدترین استحصال کیا جا رہا ہے۔ شہر اور دفاتر میں صفائی کرنے والے محنت کشوں کو بھی سال ہا سال سے مستقل نہ کرکے قلیل اجرتوں کے ذریعے انکا بدترین استحصال کیا جا رہا ہے۔ دیکھا جائے تو سرکاری و پرائیویٹ اداروں کے ان محنت کشوں کے مسائل اور انکے ساتھ ہونے والی ناانصافیاں سرمایہ دارانہ ریاست اور اسکی مزدور دشمن پالیسیوں سے جڑی ہوئی ہیں۔ حکمران اور ریاستی اشرافیہ اپنی لوٹ مار اور عیاشیوں کو جاری رکھنے اور سرمایہ دار طبقہ اپنی منافعوں میں اضافے کیلئے مزدوروں اورچھوٹے ملازمین کو قربانی کا بکرا بنانے پہ تلے ہوئے ہیں جبکہ محنت کشوں اور چھوٹے ملازمین کو اپنے حقوق کیلئے جلسہ، جلوس اور ہڑتال کے آئینی حق سے بھی ریاستی طاقت کے ذریعے روکا جاتا ہے۔ اس تمام جبر واستحصال کا مقابلہ کسی ایک محکمے، ادارے،شعبے یا صنعت کے محنت کش اکیلے نہیں کر سکتے۔ اس کے لئے گلگت بلتستان کے تما م محکموں اور نجی اداروں کے محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوتے ہوئے پورے پاکستان کے محنت کش طبقے کیساتھ ایک طبقاتی اتحاد بنانا پڑے گا۔ ریڈ ورکرز فرنٹ تمام بکھرے ہوئے محنت کشوں کی جدوجہد کو جوڑتے ہوئے انہیں طبقاتی بنیادوں پر متحد کر رہا ہے تا کہ وہ نہ صرف اپنے فوری مطالبات کے حصول کی جنگ لڑ سکیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے اور سماج کی سوشلسٹ تبدیلی کی جدوجہد کے لئے بھی منظم ہوں۔ کیونکہ صرف سرمایہ داری کا خاتمہ اور اس کی جگہ دولت پیدا کرنے والے تمام ذرائع پر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول پر مبنی سوشلسٹ نظام ہی مزدور طبقے کو اس کے تمام دکھوں سے حتمی نجات دلا سکتا ہے۔

گلگت بلتستان کے محنت کشوں کا اتحاد اور یکجہتی زندہ باد!
دنیا بھر کے محنت کشوایک ہو جاؤ!
سرمایہ داری۔۔۔مردہ باد!
مزدور راج پر مبنی سوشلزم۔۔زندہ باد!

Comments are closed.