لبنان: انقلاب کی چنگاری پھر بھڑک اٹھی!

|تحریر: ساشا مانالینا، جو اٹارڈ، حمید علی زادے؛ ترجمہ: ولید خان|

لبنانی انقلاب عارضی تعطل کے بعد ایک مرتبہ پھر آگے بڑھ رہا ہے۔ جاری سیاسی و معاشی بحران میں مظاہرین نے ”عوامی غیض و غضب کا ہفتہ“ منانے کا اعلان کیا ہے۔ لڑکھڑاتے لبنانی پونڈ اور غیر ملکی کرنسی پر پابندیوں نے عوامی غم و غصے کی ایک نئی لہر کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں مظاہرین اور ریاست دونوں کا موقف مزید سخت ہو گیا ہے۔ پچھلے دو دنوں میں کئی سو افراد زخمی اور گرفتار ہو چکے ہیں۔

حالیہ واقعات سے تین مہینے پہلے مظاہرے پرامن تھے۔ تحریک کے عروج پرسڑکوں پر20 لاکھ افراد موجود تھے اور جشن کا سماں تھا۔ لیکن ابھی تک عوام کے لئے کچھ تبدیل نہیں ہوا۔ پیسے کی گردش میں کمی کے ساتھ ان کا معیارِ زندگی پہلے سے زیادہ مخدوش ہو چکا ہے اور بجلی پانی کی قلت روز کا معمول بن چکے ہیں۔

ان حالات نے معیاری طور پر تحریک کو تبدیل کر دیا ہے۔ محروم مظاہرین کی حکمتِ عملی میں شدت پیدا ہو رہی ہے۔ خاص کر بینک اور کرنسی ایکسچینج دفاتر مظاہرین کے نشانے پر ہیں۔ ایک احتجاجی خاتون نے الجزیرہ ٹی وی کو بتایا کہ ”اور کوئی راستہ نہیں۔ سو دن ہو چکے ہیں۔۔کوئی نہیں سنتا۔۔ہم پر مجرم مسلط ہیں“۔

بینکوں پر حملے اور ریاستی جبر

پچھلے منگل اور بدھ مظاہرین نے دارالحکومت بیروت کے پوش علاقے حمرا میں موجود لبنان کے مرکزی بینک (BDL)کا گھیراؤ کر لیا اور عمارت پر پتھروں اور پٹرول بموں کی بارش کر دی۔ پورے شہر میں مشتعل مظاہرین نے کمرشل بینکوں کی کھڑکیاں توڑ دیں اور ATM مشینوں کو پتھروں اور آگ بجھانے کے آلات سے مسخ کر دیا۔

ہفتے اور اتوار کے دن مظاہرین نے لبنان بینکنگ ایسوسی ایشن (فنانس سیکٹر مالکان کی نمائندہ) کی مرکزی عمارت پر دھاوا بول دیا اور اس کے شیشے توڑتے ہوئے اس کی باہر کی دیواریں لوہے کی سلاخوں سے برباد کر دیں اور عمارت کے سامنے آگ لگا دی۔سیاسی کرپشن کے خلاف موجود غصہ واضح نظر آ رہا تھا۔ کئی افراد نے پارلیمنٹ کی کنکریٹ رکاوٹوں کو عبور کرنے کی کوششیں کی جبکہ کئی سو مظاہرین ”انقلاب! انقلاب!“ کے نعرے لگا رہے تھے۔

یہ کوئی حادثہ نہیں کہ یہی ادارے عوامی غم و غصے کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ ستمبر 2019ء سے بینکوں نے امریکی ڈالر نکالنے کی مقدار اور بیرونِ ملک ترسیل کرنے پر شدید پابندیاں عائد کی ہوئی ہیں تاکہ کرنسی ذخائر قائم رکھے جا سکیں۔ کئی سالوں کی ڈیفیسٹ فنانسنگ نے لبنانی پاؤنڈ کی قدرتباہ کر دی ہے (1 لبنانی پاؤنڈ= 0.00066امریکی ڈالر) اور اس وجہ سے بلیک مارکیٹ نے جنم لیا ہے جہاں ایک ڈالر 2470 پاؤنڈ تک جا پہنچا ہے۔ مظاہرین کو محسوس ہو رہا ہے کہ پیسے کے گردشی بحران کی قیمت ان سے وصولی جا رہی ہے جبکہ کرپٹ سیاست دان، افسر شاہی اور بینک مالکان ملک سے باہر اربوں ڈالر سمگل کر کے اپنے سوئس اکاؤنٹ بھر رہے ہیں۔ ان جذبات کی ترجمانی ہفتے کو لگائے گئے اس نعرے سے ہوتی ہے ”ہم یہ قیمت ادا نہیں کریں گے!“۔

ان حالات میں سماج کی سب سے پسماندہ اور پسی ہوئی پرتیں بینکوں پر حملوں میں پیش پیش ہیں۔ان لوگوں پر لبنانی پاؤنڈ کی قدر میں کمی اور کرنسی کی گردش پر پابندیوں کا سب سے تباہ کن اثر پڑ رہا ہے جس وجہ سے وہ اپنی بنیادی ضروریات بمشکل پوری کر رہے ہیں۔ ان سماجی پرتوں کی تحریک میں آمد سے تحریک ریڈیکلائز ہو گئی ہے اور اپنے معصومانہ آغاز سے اب زیادہ سنجیدہ اور تندوتیز جدوجہد کی جانب رواں دواں ہے۔

فنانس سیکٹر مالکان کے رویے نے بڑھتے ہوئے تناؤ میں تحریک کو اور زیادہ تندوتیز کر دیا ہے۔ بیروت بار ایسوسی ایشن کے وکیل حسین ال آچی نے بتایا کہ ”جیسے جیسے پابندیاں سخت ہوتی گئیں عوام کا غصہ بڑھتا گیا۔۔بینک ان صارفین کے خلاف نجی سیکیورٹی اور انٹرنل سیکیورٹی فورس کو استعمال کر رہے ہیں جو عمارت سے باہر نکلنے سے انکار کر دیتے ہیں (اپنے اکاؤنٹ سے پیسے نکالنے کی کوششوں کے بعد)۔ بینکوں میں کئی مرتبہ صارفین پر حملے کئے گئے اور انہیں ہراساں کیا گیا۔ ان میں سے کچھ کو تو چھوٹے آفسوں میں بند کر کے ان کے موبائل فون بھی چھین لئے گئے جو ظاہر ہے غیر قانونی ہے“۔

طفیلیہ فنانس سیکٹر لبنانی سرمایہ داری کا کلیدی ستون ہے اور عوام کو اچھی طرح ادراک ہے کہ مکروہ سیاست دانوں سے اس کے قریبی روابط ہیں۔ ال آچی کا کہنا ہے کہ ”یہاں بینک سیاسی طبقے کے ساتھ انتہائی قریبی تعلق میں موجود ہیں۔ سیاست دانوں کے بینکوں میں حصص ہیں یا وہ بینک کے بورڈ کے ممبران ہیں جس کی مد میں انہیں بھاری معاوضہ ملتا ہے۔ لبنان میں ریاست کو سب سے زیادہ قرضہ دینے والے بینک ہیں۔ جتنے بھی مشکوک کام ہو رہے ہیں اور جتنے کرپٹ پراجیکٹ آپ دیکھ رہے ہیں۔۔ ان سب کی بینکوں نے فنانسنگ کی ہے۔ سب کو نظر آتا ہے کہ بینک ریاستی کرپشن میں پوری طرح ملوث ہیں“۔

بینکوں کے خلاف ان اقدامات کے بعد سیکیورٹی فورسز نے بھی مظاہروں سے آہنی ہاتھوں سے نبٹنے کا اعلان کیا ہے۔ ہفتہ وار چھٹیوں میں اعلان کردہ مظاہروں کو لبنان کی سیکیورٹی فورسز اور افواج نے خبردار کیا تھا کہ نجی یا سرکاری ملکیت پر حملوں کا سخت ردِ عمل ہو گا۔ آخرکار بیروت میں مظاہرین پر آنسو گیس شیلنگ، واٹر کینن اور ربڑ کی گولیاں برسانے کے نتیجے میں 300 افراد زخمی اور 100گرفتار ہوئے جبکہ مظاہرین نے پتھروں، آتش بازی، درخت کی ٹہنیوں اور لوہے کی سلاخوں سے جواب دیا۔ مختلف مقامات پر یہ لڑائیاں گھنٹوں جاری رہیں۔

زخمیوں میں دو صحافیوں کے علاوہ مقامی چینل کا ایک کیمرہ مین اور MTV کا ایک رپورٹر بھی شامل تھے۔ اطلاعات کے مطابق کیمرہ مین کو ایک پولیس والے نے دھمکی دی کہ ”اگر تم نے فلم بنانی بند نہ کی تو میں یہ کیمرہ تمہارے سر پر توڑ دوں گااور یہ ڈنڈا تمہارے پچھواڑے میں گھسا دوں گا“۔ تحریک کے دوران دارالحکومت میں لگائے گئے کیمپوں کوبھی پولیس نے آگ لگا دی۔

اطلاعات ہیں کہ پولیس نے بغیر دیکھے بھالے رہائشی علاقوں میں آنسو گیس شیلنگ کی جن میں سے کچھ شیل لوگوں کی بالکونیوں میں جا گرے۔ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ پولیس نے ہوا میں شیل فائر کرنے کے بجائے سیدھا مظاہرین پر چلائے جس کے مہلک نتائج ہو سکتے ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے ایک ویڈیو کی تحقیق کی ہے جس میں ثابت ہوا ہے کہ دو خواتین مظاہرین پر پولیس کے جتھوں نے حملہ کیا۔ ایک خاتون کو سر میں ٹھوکر مار کر مارا پیٹا گیا جبکہ دوسری کی گردن زخمی ہو گئی اور اسے سر پر چوٹ آئی جس پر بعد میں پانچ ٹانکے لگوانا پڑے۔

دیگر ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ رائیوٹ پولیس مظاہرین پر تشدد کرتے ہوئے گرفتاریاں کر رہی ہے اور انہیں گھسیٹ کر پولیس اسٹیشنوں میں لے جایا جا رہا ہے۔ مظاہرین کی وکلاء دفاعی کمیٹی کے ایک ذریعے نے ہیومن رائٹس واچ کو بتایا ہے کہ ہفتے کی شام 55 افراد گرفتار ہوئے تھے۔ اگلے دن تمام گرفتار کو چھوڑ دیا گیا۔ غیر ملکیوں کو جنرل سیکیورٹی (یہ ایجنسی غیر ملکیوں کی آمدورفت کی ذمہ دار ہے) ٹرانسفر کر دیا گیا ہے۔ اس خوفناک جبر کے ساتھ ساتھ حکومت دیکھو اور انتظار کرو کی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے تاکہ لوگ تھک جائیں اور انقلاب مایوسی کا شکار ہو جائے۔۔ مظاہرین نے نعرے بازی کی کہ ”ہم ڈرتے نہیں ہیں، ہم بیزار نہیں ہوتے“۔

ان واقعات کے بعد حکومت نے ان نئے مظاہروں میں ہونے والے ”تشدد“ کی مذمت کی ہے۔ لیکن ہمیں بالکل واضح ہونا چاہیے کہ تشدد کی ذمہ دار مغرور، کرپٹ اور سفاک حکومت ہے جس نے عوام کو زندگی کی بنیادی ضروریات فراہم کرنے سے انکار کرتے ہوئے مسلح جتھوں کے ذریعے عوام پر حملہ کیا۔ بینک کی کھڑکیوں اور ATM مشینوں کی توڑ پھوڑ اور عوام پر تشدد، دونوں میں موازنہ کسی صورت قابلِ قبول نہیں۔
ان اقدامات سے ریاست کا کردار واضح ہو چکا ہے۔ یہ غیرجانبدار اور عوام کی محافظ نہیں بلکہ نجی ملکیت رکھنے والے حکمران طبقے کے مفادات کی محافظ ہے۔ جب تک حکمران طبقے کی نجی ملکیت پر حملہ نہیں ہو رہا تھا اس وقت تک پولیس پرامن تھی۔ لیکن جیسے ہی تحریک نے ریڈیکلائز ہو تے ہوئے بینکوں پر حملہ کیا ہے تو ریاستی قوتیں متحرک ہو گئی ہیں۔یہ ان تمام افراد کے لیے تنبیہ ہے جو موجودہ ریاستی ڈھانچے کو قائم رکھتے ہوئے میں ایک نئی مگر کسی بھی قسم کی حکومت کا مطالبہ کر رہے ہیں تاکہ عوامی مسائل کو حل کیا جا سکے۔

”سب کا مطلب سب ہیں“

انقلاب کا آغاز اکتوبر کے وسط میں ”حکومت گرا دو!“ کے نعرے سے ہوا۔ سب سے زیادہ مشہور نعرہ ”سب کا مطلب سب ہیں!“تھا جو اس حقیقت کا واضح اظہار تھا کہ پوری اسٹیبلشمنٹ عوامی عدم اعتماد کا شکار ہے۔
وزیرِ اعظم سعد ہریری کے استعفیٰ کے بعد اس کی جگہ امریکی یونیورسٹی کا نائب صدر حسن دیاب تعینات ہوا۔ شروع کے دنوں میں دیاب نے مکارانہ لفاظی سے تحریک کی حمایت کی۔ اگرچہ، وہ کوئی مقبول سیاست دان نہیں ہے لیکن وہ سیاسی اشرافیہ کا ممبر ہے (وہ 2011-13ء کے دوران وزیرِ تعلیم تھا)اور اس کے حکمران طبقے کے شام نواز اور حزب اللہ نواز دھڑوں کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ اس وجہ سے اسے تحریک نے مسترد کر دیا تھا جس کا مطالبہ یہ ہے کہ ایک غیر فرقہ پرست اور ”ٹیکنوکریٹ“ حکومت یعنی غیر جانبدار ”ماہرین“ کی ایسی حکومت بنائی جائے جس کا قابل نفرت سیاسی اشرافیہ یا لبنان کے کسی فرقہ پرست یا نسل پرست حصے سے تعلق نہ ہو۔

لیکن اس واقعے سے تحریک اور اس کے مطالبات کی کمزوری بھی واضح ہوتی ہے۔ دیاب ایک شاندار ٹیکنوکریٹ ہے۔ لیکن تمام ٹیکنوکریٹوں کی طرح وہ حکمران طبقے سے ہزار تانوں بانوں سے جڑا ہوا ہے۔ درحقیقت غیر جانبدار ٹیکنوکریٹ نام کی کسی شے کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ ایسے تمام کرداروں کے سرمایہ داری سے مفادات وابستہ ہوتے ہیں اور ان کا مفاد یہی ہے کہ سرمایہ داری قائم و دائم رہے۔

لبنان کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ اس میں بدکار لوگ حکمران ہیں جن کی جگہ محض ”غیر سیاسی“ افراد کو لانا کافی ہوگا۔ مسئلہ سرمایہ دارانہ نظام اور سرمایہ دار طبقہ ہے جو لوگوں کو درپیش مسائل حل کرنے سے قاصر ہے۔ ”آزاد ماہرین“ یا ٹیکنوکریٹوں کی کوئی بھی حکومت حکمران طبقے کے کسی ایک یا دوسرے دھڑے سے ہی وابستہ ہو گی اور موجودہ حکومت کے اقدامات کو ہی آگے بڑھائے گی۔

درحقیقت نیک نیت ”ماہرین“ کی کسی حکومت کی ضرورت نہیں۔ عوام کے لیے آگے بڑھنے کا واحد راستہ اقتدار اپنے ہاتھوں میں لینا ہے۔ جیسا کہ یہ نعرہ واضح کرتا ہے کہ ”سب کا مطلب سب ہیں!“ ہے۔ یعنی فرقہ پرستوں، وار لارڈز اور بہروپیوں کے بنائے ہوئے اس پورے غلیظ نظام کو اکھاڑ پھینک دیا جائے جو دہائیوں سے لبنانی عوام کا خون چوس رہا ہے۔ صرف محنت کش طبقہ ہی عوام کے تمام سلگتے مسائل حل کر سکتا ہے۔

لبنانی سیاسی دھڑوں کی اندرونی لڑائیوں کی وجہ سے دیاب ابھی تک کابینہ تشکیل نہیں دے سکا۔ بیروت میں مظاہرین نے نعرہ لگایا کہ ”وہ کابینہ بنانے کے عمل کو طول دے رہے ہیں (اس امید پر) کہ ہم بیزار ہو جائیں۔ ہم خود کابینہ بنائیں گے اور نہیں جائیں گے (سڑکوں سے)“۔اس نعرے کا دوسرا حصہ (”ہم یہ خود کریں گے“ کا ٹھوس ارادے کا اظہار ہے) اس ضرورت کا فطری اظہار ہے کہ ایک سماج کو محنت کش طبقے کے مفادات میں خود محنت کش طبقہ ہی منظم کر سکتا ہے۔

جیسا کہ ہم پہلے وضاحت کر چکے ہیں تحریک کو اپنی تنہائی توڑتے ہوئے محنت کش طبقے سے جڑت بنانے کی ضرورت ہے۔ بینکوں کی کھڑکیاں توڑنے سے سیاسی اسٹیبلشمنٹ کو پیغام تو جاتا ہے لیکن یہ فتح کی حکمتِ عملی نہیں۔ محنت کش طبقے کو اس حکمتِ عملی سے نہیں جیتا جا سکتا۔

اس کے برعکس تحریک کو فوری طور پر واضح سماجی اور معاشی مطالبات پر مبنی پروگرام وضع کرنے کی ضرورت ہے جس میں محنت کشوں کو درپیش غربت اور دیگر مسائل کا حل پیش کیا جائے۔ بینکاری سیکٹر کو قومیاتے ہوئے اس کی تمام کرنسی سپلائی پر جمہوری کنٹرول قائم کرنا ہوگا تاکہ لبنانی عوام کے مسائل حل کئے جائیں۔ پھر بینکوں کے کھاتے عوام کے سامنے کھول کر انقلاب بینکاری سیکٹر اور سیاست دانوں کے گٹھ جوڑ اور ان کی دیو ہیکل کرپشن سے پردہ اٹھاتے ہوئے مجرموں کو سزا دے۔

بیمار اور مجرمانہ بدانتظامی کے شکار بجلی اور پانی کے شعبوں کو بھی قومیانہ ہوگا اور پورے ملک میں ان شعبوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک عمومی صنعتی پروگرام تشکیل دینا ہوگا۔ اس وقت لبنان میں لگ بھگ ساری بجلی نجی شعبے سے پیدا ہورہی ہے جن کا مالکان مافیا کی طرح بھتہ وصولی کر تے ہوئے اس سیکٹر میں سنجیدہ سرمایہ کاری یا ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان ڈاکوؤں کی تمام نجی ملکیت چھینتے ہوئے تمام بنیادی سماجی سہولیات کو قومیاکر جمہوری بنیادوں پر چلانا ہوگا۔

ان معاشی مطالبات کو اس مرکزی مطالبے کے ساتھ جوڑنا ہوگا کہ محنت کش طبقہ سیاسی طاقت اپنے ہاتھوں میں لے۔ جمہوری اداروں کی تشکیل کی کال دینی چاہیے تاکہ وہ پورے ملک میں کام کی جگہوں اور محلوں میں تحریک کی معاونت کریں۔ محنت کشوں کے یہ ادارے طاقت و اقتدار کا وہ متبادل ثابت ہوں گے جس کا جنم انقلاب کی کوکھ سے ہو گا۔

ایک انقلابی کیفیت لامتناہی وقت تک جاری نہیں رہ سکتی۔کسی ایک لمحے پر یا تو انقلاب پسپائی اختیار کرے گا یا پھر آگے بڑھ کر فتح یاب ہو گا۔ اس وقت عوامی غم و غصہ انقلاب کو آگے بڑھا رہا ہے اور ا س میں ایک مرتبہ پھر اٹھان ہوئی ہے۔ لیکن طبقاتی بنیادوں پر منظم اور طبقاتی جدوجہد کے طریقہ کار کو اپنائے بغیر مایوسی اور تھکاؤٹ کے خطرات موجود ہیں جس کے نتیجے میں فرقہ پرست عناصر اور ریاست کی ردِانقلاب قوتیں دوبارہ ہمت پکڑ کر حملہ آور ہوں گی۔

صرف ایک منظم انقلابی قیادت ہی لازم مطالبات پیش کر سکتی ہے، عوام کو منظم کر سکتی ہے اور اس بحران سے باہر نکلنے کی قیادت کر سکتی ہے۔ محنت کشوں، طلبہ اور سپاہیوں کی انقلابی کمیٹیاں بنانے کی جارحانہ حکمتِ عملی کے ساتھ لبنانی انقلاب بھرپور قوت کے ساتھ آگے بڑھ سکتا ہے۔

Comments are closed.