انٹرویو: باجوڑ ایجنسی سے تعلق رکھنے والی ایک گھریلو ملازمہ کے حالات زندگی!

|ریڈ ورکرز فرنٹ۔ خیبر پختونخوا|

ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے نے ڈسٹرکٹ ہسپتال دیر لوئرمیں آئی ہوئی ایک بیمار خاتون سے ان کی زندگی اور درپیش مسائل کے حوالے سے بات چیت کی۔ ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے نے جب ان کو کہا کہ ہم آپ کے مسائل کے حوالے سے آپ کا انٹرویو اپنے اخبار ”ورکرنامہ“ میں شائع کریں گے تو وہ بہت خوش ہوئی لیکن اس نے کہا کہ میں اپنا نام شائع نہیں کرنا چاہوں گی۔

خاتون نے کہا کہ میرا تعلق باجوڑ سے ہے۔ میرے شوہر ایک بم دھماکے میں جاں بحق ہو گئے تھے۔ میرے 5 بچے،تین بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں۔ سب سے بڑی بیٹی کی عمر تیرہ سال ہے۔ جبکہ بیٹے ابھی چھوٹے ہیں۔ شوہر کی وفات کے بعد کمانے والا کوئی نہیں تھا۔ میرے بچے کباڑ اکٹھا کر کے بیچتے ہیں۔ کبھی ایک وقت کا کھانا مل جاتا ہے اور کبھی فاقے کرنا پڑتے ہیں۔

ریڈ ورکر ز فرنٹ کے نمائندے نے جب خاتون سے پوچھا کہ آپ ہسپتال کیوں آئی ہیں، تو اس نے کہا کہ میں کافی عرصے سے بیمار تھی لیکن میرے پاس علاج کے پیسے نہیں تھے، جس کی وجہ سے میں علاج نہیں کرا سکی۔ لیکن ابھی صحت بہت بگڑ گئی ہے۔ میں نے گاؤں میں کسی سے ادھار 500 روپے لئے اور ہسپتال آگئی۔ یہاں ڈاکٹر نے معائنہ کیا اور مجھے کچھ ٹیسٹ کرانے کیلئے کہا۔ لیکن جب میں لیبارٹری گئی تو لیبارٹری والے نے کہا کہ یہ سارے ٹیسٹ 1250 روپے میں ہوں گے۔ میں وہاں سے ٹیسٹ کرائے بغیر واپس آگئی۔ کیونکہ پانچ سو روپے میں کچھ کرائے میں خرچ ہو گئے، جو باقی رہ گئے ان سے نہ تو میں ٹیسٹ کروا سکتی ہوں اور نہ ہی دوائی خرید سکتی ہوں۔

خاتون نے کہا کہ میں دوسروں کے گھروں میں کام کرتی ہو لیکن اس سے بمشکل پانچ ہزار مہینہ کماپاتی ہوں۔ دوسرے طرف اخراجات بہت زیادہ ہیں۔ ہم نے گھر کی بجلی کٹوا دی ہے کیونکہ ہمارے پاس بل ادا کرنے کے پیسے نہیں ہوتے۔ لوگ میرے بچوں کو خیرات کے طور پر پرانے کپڑے دیتے ہیں۔ اگرچہ لوگ اپنے تئیں ہمارے ساتھ اچھا کر رہے ہوتے ہیں لیکن مجھے بہت برا لگتا ہے جب دوسروں کے پرانے کپڑے میں اپنے بچوں کو پہناتی ہوں۔

ریڈ ورکرز فرنٹ کے نمائندے نے جب ان سے پوچھا کہ آپ کی کیا خواہش ہے تو اس نے کہا کہ بس میرا یہی ارمان ہے کہ میں اپنے بچوں کو کسی سکول میں داخل کروادوں تاکہ وہ تعلیم حاصل کرسکیں۔ لیکن اب یہ خواہش بھی پوری ہوتی نظر نہیں آتی۔

Comments are closed.