مظفر آباد: پیپلز نیشنل الائنس کے پرامن احتجاج پر ریاستی جبر

|رپورٹ: نمائندہ ورکر نامہ|

آج 22 اکتوبر کو پاکستانی مقبوضہ کشمیر کے نام نہاد دارالحکومت مظفرآباد میں پیپلز نیشنل الائنس(PNA) کے پر امن عوامی احتجاجی مارچ کویونیورسٹی گراؤنڈ کے سامنے سے شروع ہوتے ہی پولیس کی بھاری نفری نے روک دیا۔ مظاہرین کی بڑی تعداد جن میں خواتین بھی شامل تھیں، اسی مقام پر ہی رک کر اپنا پر امن احتجاج جاری رکھا جبکہ قائدین نے انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے احتجاجی مارچ کو روکنے کے غیر جمہوری عمل کی بھر پور مذمت کی۔ قائدین نے انتظامیہ کے ذمہ داران سے ایک پر امن عوامی مارچ کو روکے جانے کی وجہ بھی جاننے کی کوشش کی لیکن انتظامیہ کے ذمہ داران نے کوئی جواز بتائے بغیر عوامی مارچ کو آگے بڑھنے سے روکا رکھا۔ مظاہرین نے انتظامیہ کے اس جابرانہ اقدام کے خلاف اپنا پر امن احتجاج جاری رکھتے ہوئے یہ مطالبہ کیا کہ جب تک ان کو مارچ کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی اس وقت تک وہ اپنا پر امن احتجاج اسی جگہ پر جاری رکھیں گے۔

دن ایک بجے کے قریب پولیس نے احتجاجی مظاہرین پر اچانک دھاوا بول دیا اور نہتے اور پر امن مظاہرین کو منتشر کرنے کے لئے پولیس کی بھاری نفری نے مظاہرین پر آنسو گیس کی اندھا دھند شیلنگ، پتھراؤ اور لاٹھی چارج شروع کردیا۔ نہتے مظاہرین نے اس تشدد سے بھاگ کر مظفر آباد شہر کے اپر اڈا کے مختلف علاقوں میں پناہ لی۔ تھوڑی دیر کے بعد مظاہرین کی مختلف ٹولیوں نے دوبارہ جمع ہو کر پر امن احتجاج جاری رکھنے کی کوشش کی جس پر پولیس نے دوبارہ آنسو گیس کی فائرنگ اور لاٹھی چارج کیا۔ پولیس نے احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کے ساتھ اس علاقے کے تمام بازاروں اور رہائشی علاقوں پر بھی آنسو گیس کی شیلنگ کی جس سے مظاہرین کے ساتھ عام لوگوں کی بھی بڑی تعداد کے زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔اس کے علاوہ ایک راہ گیر کے جاں بحق ہونے کی بھی اطلاع ہے۔ پولیس اور مظاہرین کے درمیان اس تصادم کا سلسلہ لگ بھگ چار گھنٹے تک جاری رہا جس میں بعض جگہوں پر مظاہرین نے بھی پولیس پر جوابی پتھراؤ کیا۔

آج کے عوامی احتجاجی مارچ پر پولیس کا وحشیانہ تشدد ریاستی درندگی کی بد ترین مثال ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ نام نہاد آزاد کشمیر میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف احتجاج کرنا تو جائز ہے لیکن اس نام نہاد آزادی کی اصل حقیقت کو بے نقاب کرنا سب سے بڑا جرم ہے۔ درحقیقت پی این اے کے اس مارچ کا بنیادی مقصد ہی اس نام نہاد آزادی کے بیس کیمپ میں بیٹھے پاکستان کے گماشتہ حکمرانوں کی غلامانہ حیثیت کو عوام کے سامنے لانا تھا۔ پی این اے میں متحد تمام آزادی پسند تنظیموں کا اس بات پر مکمل اتفاق ہے کہ جب تک نام نہاد آزاد کشمیر حقیقی معنوں میں آزاد و خود مختار نہیں ہوتا اس وقت تک بھارتی مقبوضہ کشمیر کے عوام پر جاری بربریت کے خلاف کوئی معنی خیز احتجاج بھی نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن مظفر آباد کی غلام انتظامیہ خود کو بے نقاب ہونے سے بچانے کے لئے پر امن احتجاج کو بھی تشدد کا نشانہ بنانے سے گریز نہیں کرتی۔ اس تشدد نے یہ واضح کر دیا ہے کہ اس خطے کے آزادی پسندوں کو اپنے درست سیاسی موقف کو ایک جمہوری طریقے سے پھیلانے کے لئے بھی نام نہاد آزاد کشمیر کے حکمران طبقے اور انتظامیہ کے خلاف سب سے پہلے لڑنا ہو گا۔

مارکسسٹوں کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ کشمیر کی آزادی، کشمیر کے محنت کش طبقے کا طبقاتی مسئلہ ہے جس کو قومی نہیں طبقاتی بنیادوں پر ہی لڑ کر حاصل کیا جا سکتا ہے اور اس کا پہلا قد م کشمیر کے حکمران طبقے کے خلاف ایک انقلاب برپا کرنا ہے۔ آنے والے عرصے میں رونما ہونے والے واقعات اس موقف کے درست ہونے کے مزید ثبوت فراہم کریں گے اور باشعور آزادی پسند کارکنان کو بھی ان تجربات سے سیکھتے ہوئے درست نظریات کو اپناتے ہوئے اپنی آزادی کی جدوجہد کو آگے بڑھانا پڑے گا۔

متعلقہ:

کشمیر: نئی صورتحال میں انقلابیوں کی ذمہ داری

کشمیر:آزادی کا حصول محنت کش طبقے کی حمایت سے ہی ممکن ہے!

کشمیر کی آزادی کے لیے مودی سمیت پورے خطے کے حکمران طبقے سے لڑنا ہوگا!

Comments are closed.