فاٹا کا معمہ

|تحریر: کریم پرھر|

جمعرات کو ہونے والے کابینہ اجلاس میں وزیراعظم پاکستان نے فاٹا ریفارمز کمیٹی کی سفارشات کو منظور کرتے ہوئے فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے اور ایف سی آر کے خاتمے کا باقاعدہ اعلان کیا جس کی روشنی میں پانچ سال کے عرصے میں وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لایا جائے گا۔ برطانوی سامراج کی باقیات ’’ایف سی آر‘‘ کا خاتمہ ایک خوش آئند امر ہے مگر یہاں اس بات کا جائزہ لینا بہت ضروری ہے کہ فاٹا کے خیبر پختونخواہ میں ضم ہونے سے عام قبائلی عوام کی زندگیوں پر کیا فرق پڑے گا؟ کیا فاٹا کے عام عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، تعلیم، صحت، روزگار اور دہشت گردی سمیت دیگر سینکڑوں مسائل سے نجات مل جائے گی؟

تاریخی پسِ منظر

وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے پاکستان کے شمال مغرب میں واقع ایک قبائلی خطہ ہے، جو کہ مغرب اور شمال میں افغانستان کے صوبوں کنڑ، ننگرہار، پکتیا، خوست اور پکتیکا جبکہ مشرق اور جنوب میں خیبر پختونخوا اور بلوچستان کی سرحد سے ملحق ہے۔ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے سات قبائلی ایجنسیوں (ضلعوں) اور چھ فرنٹیئر ریجنز پر مشتمل ہیں، اور براہ راست نام نہاد فرنٹیئر کرائمز ریگولیشنز (FCR) کے قوانین کے ایک خصوصی سیٹ کے ذریعے پاکستان کی وفاقی حکومت کے زیرِ تسلط ہیں۔

جن علاقوں پر آج فاٹا مشتمل ہے انیسویں صدی کی گریٹ گیم میں سامراجی تسلط کے کھیل کے لیے میدانِ جنگ کا حصہ تھا۔ اور اس خطے کو برطانوی سامراج نے انیسویں صدی میں سکھ سلطنت سے چھینا مگر برطانوی سامراج اس خطے میں مکمل طورپر امن قائم رکھنے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہوا۔ اگرچہ صرف افغانستان کی طرف سے ان کو کچھ تحفظ حاصل تھا۔ برطانوی سامراج نے سب سے پہلے 1867ء اور پھر1877ء میں فرنٹیئر مرڈرس آؤٹ ریجز ریگولیشنز (FOR)کے ذریعے مقبوضہ قبائلی علاقوں کی آبادی کو کنٹرول کرنے کی کوشش کی جو کہ شروع سے ان کے خلاف برسرِ پیکار تھی۔ اس کے ساتھ انگریزوں نے اپنی بنائی ہوئی مقامی اشرافیہ (خان، ملک، سردار وغیرہ)کو کافی حد تک مضبوط کیا تاکہ وہ انگریز سامراج کے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ یہ ہندوستانی وسائل اور خام مال کی لوٹ مار اور وسطی ایشیا میں روسی توسیع پسندی کے خلاف خطے کے مؤثر کنٹرول کے لئے برطانوی سامراج کی گماشتگی کر رہے تھے، تاہم اس نوآبادیاتی حکومت کوقبائلی علاقوں میں اپنی رٹ قائم کرنا ہمیشہ مشکل ثابت ہوا۔ خطے کو محکوم بنانے کی کوششوں میں مایوس، برطانوی سامراج نے1901ء ان قبائلی علاقہ جات میں ایک نیا ’’فرنٹیئر کرائمز ریگولیشن(FCR)‘‘ نافذ کیا جس میں قواعد و ضوابط کے دائرہ کار کو وسعت اور انتظامی حکام کو عدالتی اتھارٹی سمیت وسیع اختیارات سے نوازا گیا۔ اسی سال میں ایک نیا انتظامی یونٹ بنایا گیا جسے شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب خیبر پشتونخوا) کا نام دیا گیا۔ اور انتظامی اتھارٹی کے تحت ایک چیف کمشنر رپورٹنگ کے لیے وائسرائے ہند کو جواب دہ تھا۔ انگریز سامراج نے اپنے مفادات کے لیے جو اشرافیہ تخلیق کی تھی، اس نے انگریز سامراج کی پشت پناہی کے ساتھ علاقے کے لوگوں پر ظلم و جبر کی انتہا کردی۔ انتظامیہ اورجرگے کے ان بے پناہ صوابدیدی اختیارات کے تحت ہونے والے اس جبر کی وجہ سے ایف سی آر کو ’’کالے قانون‘‘ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

فاٹا بعد از تقسیمِ ہند

اِن مقبوضہ علاقوں پر1947ء میں پاکستان کی نام نہاد آزادی اور 1956ء میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے کے بعد بھی ماضی کا ہی طرز حکمرانی جاری ہے۔ حتیٰ کہ 1970ء میں درہ خیبر کے راستے سے گزرنے والے بیرونی سیاحوں کو مرکزی سڑک کے قریب رہنے کی ہدایت کی جاتی تھی کیونکہ اس سے ملحقہ آس پاس کے علاقوں پر پاکستانی حکومت کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔ 70ء کی دہائی میں جب افغانستان میں خلق ڈیموکریٹک پارٹی نے انقلابِ ثور برپا کیا تو یہ امریکی سامراج اور سوویت بیوروکریسی کو ناگوار گزرا اور دونوں نے اپنے گماشتوں کے ذریعے اس انقلاب کو کاؤنٹر کرنے کے لیے مداخلت شروع کردی۔ اور فاٹا کا کردار اس میں اہم تھا۔ افغان جنگ میں امریکی سامراج کے ایماء پر پاکستانی ریاست نے فاٹا کے علاقوں کو (سٹریٹجک لانچنگ پیڈ) کے طور پر استعمال کیا۔ امریکہ کے انسٹی ٹیوٹ برائے امن کے مطابق، سوویت یونین کے خلاف ڈالر جہاد (سی آئی اے کے آپریشن سائیکلون) نے اس خطے کا نقشہ ہی بدل دیا۔ پاکستان کی گماشتہ ریاست نے دہشت گردی کے جو بیج بوئے تھے آج تک اْس کا نشانہ مظلوم عوام ہی بن رہے ہیں۔

2001ء میں افغانستان پر امریکی حملے کے بعد تحریک طالبان کے عسکریت پسندوں نے علاقے میں داخل ہوناشروع کر دیا۔ 2003ء تک، طالبان نے وفاق کے زیرانتظام قبائلی علاقوں میں محفوظ ٹھکانے بنا لئے اور سر حد پار افغانستان کے ساتھ ساتھ اْنہوں نے پاکستانی فوج اور پولیس پر بھی حملے کرنے شروع کر دیے۔ اور جیسا کہ جدلیات کا قانون ہے کہ چیزیں جلد یا بدیر اپنے الٹ میں تبدیل ہو جاتی ہیں، پاکستانی ریاست نے جو سانپ پال رکھے تھے وہ واپس ان کو کاٹنے لگے اور فاٹا کا امن سبوتاژ ہو گیا۔ اِن حالات و واقعات میں امریکہ سامراج کی پشت پناہی کے ساتھ پاکستانی ریاست نے مارچ 2004ء میں 80ہزارپاکستانی فوج کوالقاعدہ کی سرکوبی کے لئے فاٹا میں اتار دیا۔ جہاں ان کو ’’پاکستانی طالبان‘‘ کی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ 2004ء اور 2006ء کے درمیانی عرصے میں آٹھ گنا مزید فوج پاکستانی طالبان کی مزاحمت کچلنے کے لئے جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان میں داخل ہوئی۔ مشرف دور میں افغانستان میں اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لئے اختیار کی گئی پاکستانی ریاست کی منافقانہ پالیسیوں کے تحت ’گڈ‘ اور ’بیڈ‘ طالبان کی جھوٹی تفریق نے فاٹا کے عوام کو بیک وقت امریکی سامراج، پاکستانی ریاست اور طالبان کے تہرے جبر کا شکار کردیا۔ انہیں منافقانہ پالیسیوں کی وجہ سے پچھلے دس سال میں پاکستان میں چالیس ہزار افراد دہشت گردی کے ہاتھوں لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ اپنی بد نیتی اور نا اہلی چھپانے کے لیے بالآخر انہوں نے آپریشن ضربِ عضب کا سہارا لیا مگر اس کے بھی خاطر خواہ نتائج نہ نکلے اور ہمیشہ کی طرح دہشت گردوں کی کمر توڑنے کے تمام دعوے جھوٹ ثابت ہوئے۔ آپریشن ضربِ ’غضب‘ کے نتیجے میں لاکھوں قبائلی عوام بے گھر ہو ئے اور انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ فاٹا کے عوام شروع سے ہی ریاست کی اِس دوغلی پالیسی کیخلاف لڑ رہے ہیں مگر انگریز سامراج کے بنائے ہوئے خان، ملک، سردار اور نام نہاد پارلیمانی نمائندے حکمران طبقے کے مفادات کی نگہبانی کا فریضہ بھرپور طریقے سے سر انجام دے رہے ہیں۔

فاٹا خیبر پختونخوا کا حصہ یا الگ صوبہ؟

پاکستان کے قبائلی علاقوں سے منتخب اراکین قومی اسمبلی و سینیٹ نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ فاٹا کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے لیے ایک بل قومی اسمبلی میں پیش کیاجس کی حمایت اور مخالفت کی جارہی تھی، کہ وفاقی حکومت نے سرتاج عزیز کی قیادت میں ایک کمیٹی تشکیل دی جس نے فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کے لیے صوبہ خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے حق میں فیصلہ دیدیا۔ قبائلی علاقوں کو خیبرپختونخوا کا حصہ بنانے کی سب سے بڑی مخالف سمجھی جانے والی مذہبی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کو ابتدا ہی سے اصلاحاتی کمیٹی کی بعض سفارشات پر اعتراض رہا ہے اور اس کی وہ کھل کر مخالفت بھی کرتی رہی ہے۔ جمعیت فاٹا میں اصلاحات کی مخالف نہیں ہے تاہم وہ کہتے ہیں کہ قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے سے بہتر ہوگا کہ ان کو الگ صوبے کا درجہ دیا جائے۔ اِس رپورٹ کے حوالے سے پشتون قوم پرست پارٹیوں کی الگ الگ پوزیشن سامنے آئی ہے۔ پی کے میپ جو کہ بلوچستان کے پشتون علاقوں میں سیاسی اثرو رسوخ رکھتی ہے وہ فاٹا میں بالکل وجود ہی نہیں رکھتی مگر وہ اس انضمام کے خلاف مذہبی پارٹی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے اور انضمام کے مخالف کیمپ میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ مذکورہ پارٹی کا موقف ایک الگ صوبے کے حق میں ہے جس کو وہ انتظامی اور آئینی مفادات کے زمرے میں دیکھتے ہیں۔ 30 جنوری 2017ء کو اسلام آباد میں فاٹا کے چند پارلیمانی رہنماؤں، انگریز سامراج کی وارث اشرافیہ(ملک، سردار، خان) اور علماء کی ایک کانفرنس منعقد ہوئی جس میں کانفرنس کے شرکاء نے دونوں (انضمام مخالف) رہنماؤں کو مینڈیٹ دیا کہ وہ فاٹا کے مستقبل کے حوالے سے جو بھی فیصلہ کرینگے وہ انہیں منظور ہو گا۔ جبکہ دوسری پشتون قوم پرست پارٹی اے این پی جس کا بھی فاٹا میں سیاسی اثرورسوخ کم ہی ہے، اس کا موقف ہے کہ فاٹا کو صوبہ خیبر پختونخوا کا حصہ بنایا جائے اور اس حوالے سے وہ کسی ابہام کا شکار نہیں ہیں۔ جبکہ یہاں پر ایک بات واضح ہونی چاہیے کہ فاٹا کے انضمام کے حوالے سے پاکستانی ریاستی اسٹیبلشمنٹ جو فیصلہ کرے گی وہ سب کو قبول کرنا پڑے گا۔

دونوں صورتوں میں نام نہاد انگریز سامراج کے کالے قانون ’’ایف سی آر‘‘ کا خاتمہ ہو جائیگا مگر اس سب پر بات کرنے سے پہلے یہاں ایک امر قابلِ ذکر ہے کہ پشتون قوم پرستی آج کس نہج پر ہے۔ قوم پرستی ماضی میں اپنے عہد کی ضرورت اورترقی پسند سیاست کی آئینہ دار تھی، آج سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت کی وجہ سے اپنے الٹ میں تبدیل ہو کر ایک رجعتی نظریہ بن چکی ہے۔ اے این پی جو کہ ایک سیکولر لبرل جماعت تھی اور سویت یونین کے انہدام سے پہلے اس کا سیاسی قبلہ روس ہوا کرتا تھا اور جیسا کہ ہم واضح کر چکے ہیں کہ سوویت یونین کی افسر شاہی کے زیر اثر اس کے اندر نظریاتی اساسیت بھی ناپیدتھی اور افغان انقلابِ ثور میں ان کا کردار انتہائی ابہام کا شکار رہا۔ خلق ڈیمو کریٹک پارٹی کی حمایت کے بجائے انہوں نے سوویت بیوروکریسی کے حمایت یافتہ پرچم دھڑے کی کھل کے حمایت کی۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد جونہی امریکی سامراج عالمی افق پر ایک واحدسپر پاور کی حیثیت سے نمودار ہوئی تو مذکورہ پارٹی نے 2001ء میں کابل آمد پر عالمی سامراجی قوتوں کو خوش آمدید کہا۔ اس وقت سے انہوں نے امریکی سامراجیت کی کھل کے حمایت کی ہے۔ 2010ء میں صوبے کا نام تبدیل کر نے سے عام پشتونوں کا ایک بھی بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوا۔ اور اب یہ پارٹی جو کہ کبھی اسٹبلیشمنٹ مخالف ہوا کرتی تھی، اب اسٹیبلشمنٹ کا بازو بن چکی ہے۔ مگر اس صورتحال سے بھی عام پشتونوں کے مسائل کم نہیں ہوئے بلکہ بڑھ رہے ہیں۔

دوسری طرف اگر ہم پی کے میپ کا مختصراََ جائزہ لیں تو بنیادی طور پر اس پارٹی کا کردار انتہائی متزلزل اور غیر مستقل بنتا جا رہا ہے۔ بلوچستان میں تو ان کا کردار متعصب اور بعض اوقات لسانی بنیادوں تک محدود ہو جاتا ہے۔ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں، حکمران طبقات کے مفادات کے لیے بلوچ قوم پرستوں کے ساتھ لڑ کر بلوچستان کے محنت کش طبقے کو تقسیم کروانے میں پیش پیش رہے ہیں۔ اس کے موجودہ بیانات سے ایک دفعہ پھر پشتون بلوچ تعصب کو ہوا دی جا رہی ہے اور اس کے ساتھ بلوچ قوم پرست بھی اس معاملے میں کسی طور پیچھے نہیں ہیں۔ اس سے بلوچستان کے محنت کش عوام ایک دفعہ پھر تقسیم کا شکار ہوں گے۔ اس کے علاوہ فاٹا کے حوالے سے پارٹی کا موقف الگ صوبے کے حق میں زیادہ ہے جس سے وہ انگریز سامراج کی لکیروں کو قانونی شکل دے رہی ہے اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ وہ اپنے موقف کو انتظامی اور آئینی مفادات کی شکل دے کر پشتون قوم پرستی کا ثبوت دے رہی ہے۔ جبکہ ان تمام باتوں سے بلوچستان میں آباد عام پشتونوں کا ایک مسئلہ بھی حل نہیں ہوا جبکہ مسائل کا انبار لگا ہے۔ صحت، تعلیم، بیروزگاری، انفرا سٹرکچر، لوڈشیڈنگ اور دوسرے اْمور میں پارٹی کا کردار انتہائی عوام دشمن رہا ہے۔

فاٹا کا مسئلہ اتنا مشکل اور پیچیدہ بھی نہیں ہے جتنا کہ حکمران طبقہ پیش کر رہا ہے۔ فاٹا میں انگریز سامراج کے کالے قانون ’’ایف سی آر‘‘ کا فی الفور خاتمہ ہونا چاہیے مگر اصل سوال فاٹا کو الگ صوبہ بنانے یا خیبر پختونخواہ میں ضم کرنے کا نہیں بلکہ فاٹا کے عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، صحت، تعلیم، روزگار کی فراہمی اور انگریز سامراج کی کھینچی ہوئی اس سامراجی لکیر ’’ڈیورنڈ لائن‘‘ کے خاتمے کا ہے۔ ان سامراجی لکیروں نے ایک زبان، ایک ثقافت اور ایک رسم رواج کے لوگوں کو تقسیم در تقسیم کیا ہے۔ اب جبکہ سرمایہ داری فرسودہ حالت میں ہو کر ایک بند گلی میں داخل ہو چْکی ہے تو سرمایہ داری کو ختم کرنا فرض ہو چکا ہے۔ اسی بوسیدہ نظام کے اندر رہ کر پشتون قومی مسئلے سمیت پاکستان میں بلوچ، سندھی، سرائیکی اور کشمیری اقوام کے ساتھ ساتھ جتنی بھی مظلوم قومیتیں آباد ہیں ان کا قومی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا کیونکہ اس نظام کے پاس اب دینے کو کچھ نہیں ہے بلکہ اپنے نامیاتی بحران کی وجہ سے پہلے سے بھی زیادہ جابر اور استحصالی ہو گیا ہے۔ جیسا کہ لینن نے کہا تھا کہ ’’قومی مسئلہ آخری تجزیے میں روٹی کا مسئلہ ہے۔ ‘‘ اِن سب مسائل کا حل قوم پرستی سے مبرا ہو کر طبقاتی بنیادوں پر پرولتاریہ کی ایک عالمی فوج تیار کر کے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک عالمی سوشلسٹ سماج کی تعمیر ہے۔

Comments are closed.