|تحریر: فرینسسکو مرلی، ترجمہ: عرفان منصور|
جمعہ، 13 جون کی صبح اسرائیل نے ایران پر ایک شدید حملہ کیا، جس میں اُس نے ایرانی عسکری قیادت کے کچھ لوگوں کو نشانہ بنایا اور بعض جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچایا۔ یہ حملہ دو مراحل پر مشتمل تھا۔ اسرائیلی حملوں کی دوسری لہر بوقتِ تحریر جاری ہے، جن کا ہدف تہران (Tehran)، کرَج (Keraj)، قُم (Qom) کے ساتھ ساتھ نطنز (Natanz) میں جوہری افزودگی کی تنصیبات (Nuclear Enrichment Facility) ہیں، جنہیں دوسری بار نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہ کھلی جارحیت مشرقِ وسطیٰ کو ایک مہلک آگ میں جھونکنے کا خدشہ پیدا کر رہی ہے، جس کے نتائج دور رس اور سنگین ہو سکتے ہیں۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں
ایک کہاوت ہے کہ بلی نو بار موت کو دھوکہ دے سکتی ہے، مگر نیتن یاہو بلی سے بھی زیادہ دھنی ہے، کم از کم سیاسی طور پر تو ایسا ہی ہے۔ وہ حالیہ دنوں میں ایک اور تحریکِ عدم اعتماد اور فوجی بھرتی کے قانون کو آرتھوڈوکس یہودیوں پر لاگو کرنے کے باعث پیدا ہونے والے حکومتی بحران سے بچ نکلا ہے۔
ماضی کی طرح ایک بار پھر نیتن یاہو نے اپنی انفرادی حکمتِ عملی اور ارادے کو اپنے اتحادیوں اور مخالفین پر مسلط کرنے کی منفرد صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اس نے امریکہ اور ایران کے درمیان جوہری مذاکرات میں تعطل کو فوری طور پر اپنے لیے ایک موقع میں بدلتے ہوئے ایران پر حملوں کا آغاز کر دیا، جن کا ہدف جوہری تنصیبات، عسکری مراکز اور اہم حکام تھے۔ اسرائیل نے ان حملوں کو ایک طویل جنگی کاروائی کا آغاز قرار دیتے ہوئے اس کا نام ”آپریشن رائزنگ لائن“ (Operation Rising Lion) رکھا ہے۔
یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ ایران اس حملے کے جواب میں کیا کرتا ہے، مگر ایک بات واضح ہے: نیتن یاہو کے ایران پر حملے نے پورے مشرقِ وسطیٰ کو ایک کھلی جنگ کی دہلیز پر لا کھڑا کیا ہے۔
امریکی سامراج کی پوزیشن کیا ہے؟
یہ بات بالکل واضح ہے کہ امریکی انتظامیہ نیتن یاہو کے منصوبوں سے بخوبی آگاہ تھی اور غالب امکان یہی ہے کہ وہ حملے کے وقت سے بھی باخبر تھی۔ واشنگٹن کی منظوری کے بغیر اسرائیل کے لیے اس نوعیت کا حملہ کرنا ناممکن سا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ متعدد مواقع پر اس امر کا اعتراف کر چکا ہے کہ نیتن یاہو کافی عرصے سے ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔
تاہم یہ بھی واضح ہے کہ نیتن یاہو نے ٹرمپ کی جانب سے حملہ نہ کرنے کے فرمانوں کو جس دانستہ بے پروائی سے نظر انداز کیا، وہ اس بات کا عندیہ ہے کہ وہ کسی کو، حتیٰ کہ ٹرمپ کو بھی، اپنی پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ وہ پورے اعتماد کے ساتھ یہ سمجھتا ہے کہ کسی بڑے تصادم تک پہنچنے کی بجائے ابھی واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی کی گنجائش موجود ہے۔
اسی رویے کی جھلک غزہ جنگ بندی کے معاملے میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، جس پر دستخط کرنے پر نیتن یاہو مجبور تو ہوا، مگر پہلے دن سے ہی اُسے ناکام بنانے کا مصمم ارادہ کیے بیٹھا تھا۔ جب اُس نے یکطرفہ طور پر جنگ بندی کی خلاف ورزی کی، تو ٹرمپ نے بھی کسی نئی جنگ بندی کے لیے زور دینا چھوڑ دیا۔ اُس کے بعد سے ٹرمپ نے اسرائیل کو فلسطینیوں کے خلاف نسل کش جنگ جاری رکھنے، غزہ میں قحط کو بطور ہتھیار استعمال کرنے، شام میں گولان کی پہاڑیوں پر قبضہ بڑھانے اور مغربی کنارے میں نئی آباد کاریوں کے اعلانات کی مکمل آزادی دی۔ امریکی سامراج اور ٹرمپ کو فلسطینی عوام کی زندگی یا بقاء سے کوئی سروکار نہیں، جنہیں خطے میں محض بڑی طاقتوں کے کھیل کے مہرے کے طور پر استعمال کیا جاتا رہا ہے۔
تاہم، اپنے اقتدار کو بچانے اور حکومت پر گرفت مضبوط رکھنے کے لیے، نیتن یاہو کے لیے صرف غزہ میں جاری نسل کش جنگ کافی نہیں۔ جب جب اسرائیلی سماج پر جنگ کا دباؤ کم ہونے لگتا ہے، تو اندرونی سیاسی و معاشی بحران نمایاں ہو کر نیتن یاہو کی حکومت کو کمزور کرنے لگتا ہے۔ اسی لیے نیتن یاہو اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ شدت کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ میں تنازع کو ہوا دینے میں مصروف ہے، تاکہ امریکہ کو کسی نہ کسی صورت ایران کے ساتھ جنگ میں گھسیٹا جا سکے۔ اُس نے اب اپنا داؤ چلا دیا ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی سامراج کا مفاد کیا ہے؟ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو (Marco Rubio) نے باقاعدہ طور پر نیتن یاہو سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف یکطرفہ کاروائی کی ہے۔ روبیو نے دو ٹوک الفاظ میں کہا: ’ہم اس میں شامل نہیں ہیں۔‘ اور مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا: ’واضح رہے کہ ایران کو امریکی مفادات یا اہلکاروں کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔‘
یہ بیان بظاہر خطے میں موجود امریکی فوجی اڈوں کو تحفظ دینے کی کوشش ہے، لیکن اس کا مطلب ایران کے لیے ایک براہِ راست دھمکی بھی لیا جا سکتا ہے۔
اسی دوران، ٹرمپ ایک جانب ایران کے ساتھ فوری معاہدے کی پیشکش پر اصرار کر رہا ہے، جس کے بارے میں اُس کا کہنا ہے کہ یہ اسرائیل کو ’مزید سخت‘ حملوں سے روک سکتا ہے۔ مگر ساتھ ہی وہ کھلے عام دھمکیاں بھی دے رہا ہے اور اسرائیل کے حملے کے لیے ایران کو موردِ الزام ٹھہرا رہا ہے کہ ایران نے ماضی کے معاہدوں کو ماننے سے انکار کیا۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے واضح طور پر اسرائیل کو مزید امریکی فوجی امداد فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔
اس کا کیا مطلب ہے؟ آثار ایسے ہیں کہ ٹرمپ وقتی طور پر نیتن یاہو کے فیصلے کی حمایت کر رہا ہے تاکہ اسرائیل کے کندھے پر بندوق رکھ کر ایران کے ساتھ ایسا معاہدہ کیا جائے جو امریکی سامراج کے لیے زیادہ سے زیادہ سود مند ہو۔ اب بھی، ٹرمپ کے لیے اصل مقصد ایران کے ساتھ کوئی معاہدہ ہی دکھائی دیتا ہے۔ جب کہ نیتن یاہو کے لیے بنیادی ہدف جنگ کو مزید بڑھانا ہے۔ یوں ٹرمپ اور نیتن یاہو ایک نہایت خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں، جو مشرقِ وسطیٰ میں کھلی جنگ کے شعلے بھڑکانے کا سبب بن سکتا ہے۔
اسی دوران یورپی راہنماؤں کی نمائندگی کرتے ہوئے، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے، غزہ پر اسرائیلی مظالم پر اپنی میٹھی میٹھی تنقید فراموش کر کے، تمام فریقوں سے ’کشیدگی کم کرنے‘ کی اپیل کی ہے (جس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر ایران جوابی کاروائی کرے، تو وہی جارح قرار پائے گا)، جب کہ وہ پوری طرح سے ’اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق‘ کی حمایت بھی کر رہا ہے۔ اس بار تو میکرون کو جرمن وزارتِ خارجہ نے بھی پیچھے چھوڑ دیا، جنہوں نے ’اسرائیلی سرزمین پر ایرانی حملے‘ کی سخت الفاظ میں مذمت کی ہے۔ دونوں منافقت کی اوجِ ثریا پر مسند نشین ہیں۔
اسرائیل نے کیا حاصل کِیا ہے؟
ایران پر اسرائیل کے حالیہ حملے میں دو سو سے زائد جنگی طیارے شامل تھے، جو بغیر کسی نقصان کے اپنے اڈوں پر واپس پہنچ گئے۔ یہ حملے ایران کے روسی ساختہ فضائی دفاعی نظام کو چیرتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچے اور یہ امر ماسکو سمیت بہت سی جگہوں پر خفت اور کئی دیگر نتائج کو جنم دے گا۔ اسرائیل کا دعویٰ ہے کہ ایران کے فضائی دفاعی نظام کو ایسے ڈرونز کے ذریعے ناکارہ بنایا گیا جو پہلے سے خفیہ طور پر ایران میں پہنچا دیے گئے تھے۔
اسرائیلی خفیہ ایجنسیوں نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے، جیسا کہ جولائی 2024ء میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ (Ismail Haniyeh) کو تہران میں ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی میزبانی کے دوران قتل کر کے کیا گیا تھا کہ انہیں ایرانی ریاست کے سب سے حساس اور خفیہ مقامات تک براہِ راست رسائی حاصل ہے۔ ایرانی اعلیٰ عسکری قیادت کے کئی ممتاز جرنیلوں، جیسے میجر جنرل محمد باقری، حسین سلامی اور غلام علی راشد، کے قتل کے ساتھ ساتھ جوہری پروگرام کی قیادت کرنے والے سائنسدانوں کو نشانہ بنانا، اس امر کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
تاہم، اسرائیل کے ایرانی سائنس دانوں اور اعلیٰ عہدیداران کے قتل کی ایک طویل تاریخ ہے، لیکن یہ حملے کبھی بھی ایران کے جوہری پروگرام کو حقیقی معنوں میں سست یا مفلوج نہیں کر سکے۔ سابقہ حملوں سے کہیں زیادہ، اس حملے کا اصل مقصد بھی ایران کی جوہری صلاحیتوں کو نقصان پہنچانا نہیں، بلکہ ایران کو مشتعل کرنا معلوم ہوتا ہے۔
ایران جوابی کاروائی میں کیا کر سکتا ہے؟
ایران کی اسرائیل کے خلاف براہِ راست جوابی کاروائی کی صلاحیت کا مظاہرہ 1 اکتوبر 2024ء کو اُس وقت ہوا، جب حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کے قتل کے جواب میں ایران نے 300 سے زائد میزائل اور ڈرون فائر کیے۔ ایران کی طرف سے پیشگی انتباہ کے باوجود، درجنوں ایرانی میزائل اسرائیلی دفاعی نظام کو چیرتے ہوئے اپنے اہداف تک پہنچے، جن میں فوجی اڈے بھی شامل تھے۔ اس وقت امریکی صدر بائیڈن کی حکومت کی بوکھلاہٹ ظاہر کرتی تھی کہ اسرائیلی دفاعی نظام کی ناکامی نے شدید تشویش پیدا کر دی تھی۔ اسرائیل کی مدد کے لیے، بائیڈن نے فوراً 100 امریکی فوجی اسرائیل بھیجنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ جدید امریکی فضائی دفاعی نظام چلا سکیں۔
تاہم، جوابی کاروائی کے لیے ایران کے پاس براہِ راست حملے کے ساتھ ساتھ اور راستے بھی ہیں۔ فی الحال حزب اللہ اسرائیل پر حملے کا ارادہ نہیں رکھتی۔ اکتوبر میں اسرائیل کی طرف سے لبنان پر حملوں اور دراندازی کے نتیجے میں حزب اللہ کمزور ہو چکی ہے اور فی الوقت اپنی افواج کی تنظیمِ نو میں مصروف ہے، حالانکہ اس کے پاس اب بھی میزائلوں اور ڈرونز کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے۔ حالیہ واقعات سے یہ بات ظاہر ہوئی ہے کہ اسرائیل نیچی پرواز والے ڈرونز اور بڑے پیمانے پر میزائل حملوں کا مقابلہ کرنے میں کمزور ہے۔ البتہ، حزب اللہ کی جانب سے کسی بھی کاروائی کی صورت میں اسرائیل کی طرف سے لبنان پر جنگ میں مزید شدت آ جائے گی۔
حوثیوں نے یمن سے اپنی جوابی کاروائی بڑھانے کا اعلان کر رکھا ہے۔ حوثیوں پر مئی میں ایک مہینے پر محیط امریکی بمباری مہم ہوئی، جسے صدر ٹرمپ نے معطل کر دیا کیونکہ امریکی فوجی قیادت پر یہ واضح ہو گیا کہ اس بمباری سے حوثیوں کی دفاعی یا عسکری صلاحیت کو کوئی خاص نقصان نہیں پہنچا۔ چنانچہ، ٹرمپ نے براہِ راست تصادم سے گریز کرتے ہوئے حوثیوں کے ساتھ ایک علیحدہ معاہدہ کر لیا تاکہ بحیرہ احمر میں امریکی جہازوں پر حملے نہ ہوں۔ تاہم، اس معاہدے میں اسرائیلی بحری جہاز شامل نہیں تھے۔
اگر امریکہ ایران کی جوابی کاروائی کے مقابلے میں اسرائیل کا دفاع کرتا ہے، تو اس کا بحیرہ احمر کی بحری نقل و حمل پر وسیع پیمانے پر اثر پڑ سکتا ہے۔ اس خطے میں موجود امریکی فوجی اڈے اور جنگی جہاز دوبارہ حملوں کی زد میں آ سکتے ہیں۔
یہ صورتحال بالخصوص ایسے میں کہ جب عالمی معیشت پہلے ہی شدید کساد بازاری کے دہانے پر کھڑی ہے، بین الاقوامی تجارتی راستوں اور تیل کی قیمتوں پر انتہائی سنگین اثر ڈال سکتی ہے۔ اگر ایران آبنائے ہرمز (Strait of Hormuz) کو بند کرنے کا فیصلہ کرتا ہے، جہاں سے دنیا کا تقریباً 20 فیصد تیل گزرتا ہے، تو اس کا اثر اور بھی تباہ کن ہو گا۔
ادھر، حوثیوں نے کئی بار اسرائیلی اہداف کو نشانہ بنانے کی اپنی صلاحیت ثابت کی ہے۔ ماضی میں ان کے کئی طویل فاصلے تک پار کرنے والے میزائل اسرائیل کے دفاعی نظام کو توڑتے ہوئے اپنے ہدف تک پہنچے، یہاں تک کہ تل ابیب (Tel Aviv) کے بن گوریون (Ben Gurion) ہوائی اڈے کو عارضی طور پر بند کرنا پڑا۔
عراق میں موجود ایران نواز ملیشیا بھی بڑی حد تک محفوظ ہیں، اور انہیں اسرائیل یا خطے میں موجود امریکی اڈوں پر حملوں کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اس حملے کا ایک واضح نتیجہ یہ ہو گا کہ ایران اپنا جوہری ہتھیاروں کا پروگرام فوراً تیز کر دے گا۔ اسرائیل کا یہ حملہ ایران کے جوہری پروگرام کو روکنے یا سست کرنے میں شاید ہی مؤثر ثابت ہو۔ بلکہ، امریکہ اور ایران کے درمیان جاری جوہری مذاکرات کو سبوتاژ کر کے، نیتن یاہو اپنے بیانات کے بالکل الٹ نتیجہ حاصل کر رہا ہے۔ یہ اس امر کا مزید ثبوت ہے کہ ان کا اصل مقصد مشرقِ وسطیٰ میں جنگ کو بڑھانا ہے۔
ایران نے یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ اس کے پاس اسرائیل کی ”سب سے زیادہ خفیہ بات“ یعنی جوہری پروگرام سے متعلق ثبوت موجود ہیں۔ ایران نے ان دستاویزات کو منظرِ عام پر لانے کی دھمکی دی ہے، جو یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسرائیل کے جوہری صلاحیت حاصل کرنے میں دیگر فریقین کی مدد شامل رہی ہے۔ تاہم، ایک ایسے راز کی دستاویزی تصدیق جو پہلے ہی فاش ہے، شاید زمینی صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی نہ لا سکے۔
اسرائیل کے حملے نے ایک بار پھر ایران کی کمزوری کو بے نقاب کیا ہے اور دانستہ طور پر ایرانی حکومت کو رسوا کیا ہے۔ جوابی کاروائی کے محکم امکانات ہیں۔ اکتوبر 2024ء میں یہ بات واضح تھی کہ ایران اسرائیل کو ایک سخت پیغام دینا چاہتا تھا، مگر کسی بڑی جنگ میں الجھنے کا خواہاں نہیں تھا۔ لیکن اس بار یہ بھی عیاں ہے کہ اسرائیل امریکہ کی براہِ راست مدد اور خطے میں اردن سمیت دیگر رجعت پرست عرب حکومتوں کے تعاون کے بغیر اپنی حفاظت کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
اگر اسرائیل اور ایران کے مابین کھلی جنگ چھڑ گئی، تو اس کے نتائج نہایت تباہ کن ہوں گے، نہ صرف ان حکومتوں کے استحکام کے لیے، بلکہ خطے میں موجود امریکی اثاثے بھی جوابی حملوں کی زد میں آ سکتے ہیں اور یوں امریکہ مزید اس تنازع میں کھینچا چلا جائے گا۔
اس صورتحال کے پیش نظر، امریکی بحریہ نے پہلے ہی بیلسٹک میزائل دفاعی نظام سے لیس یو ایس ایس تھامس ہڈنر (USS Thomas Hudner) نامی تباہ کن جنگی جہاز، کو مشرقی بحیرہ روم کی طرف روانہ کر دیا ہے۔ ایک اور جنگی جہاز کو بھی پیش قدمی کے احکامات دے دیے گئے ہیں تاکہ بوقتِ ضرورت وائٹ ہاؤس کی درخواست پر اسے فوری طور پر تعینات کیا جا سکے۔
نیتن یاہو نے ایک بار پھر مشرقِ وسطیٰ میں بحران کو شدید تر کر دیا ہے جو نہ صرف خطے کے استحکام، بلکہ عالمی معیشت کے لیے بھی سنگین نتائج کو جنم دے سکتا ہے۔ یہ صورتحال امریکہ کی خطے میں مداخلت کو ایک بار پھر ایجنڈے پر لاکھڑا کرتی ہے