200 اداروں کی نجکاری کا اعلان: نئی حکومت کا اقتدار سنبھالتے ہی محنت کشوں پر حملہ!

|تحریر:آفتاب اشرف|

تحریک انصاف کی حکومت اقتدار سنبھال چکی ہے اور اپنے اصل رنگ دکھانے لگی ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر نے عمران خان کے وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے سے قبل ہی عندیہ دیا تھا کہ ان کی حکومت 200 کے قریب سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اس مقصد کے لئے پہلے ان اداروں کو ایک ویلتھ فنڈکے سپرد کیا جائے گا جس کا کنٹرول حکومت کی بجائے نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کے پاس ہو گا اورپھر ان اداروں میں کانٹ چھانٹ کرنے کے بعد ان کی بولی لگا کر انہیں ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کے ہاتھ بیچ دیا جائے گا۔واضح رہے کہ یہاں کانٹ چھانٹ سے مراد بڑے پیمانے پر ڈاؤن سائزنگ اور مزدور یونینوں پر پابندی ہے۔حکومت کے نامزد کردہ وزیر برائے ریلوے شیخ رشید کی حالیہ پریس کانفرنسوں سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ اس مزدور دشمن حکومت کو اپنے نجکاری کے منصوبے پر عمل درآمد کرنے کی کتنی جلدی ہے۔ نجکاری کے لئے پیش کئے جانے والے اداروں کی فہرست میں واپڈا، ریلوے، پی آئی اے، اسٹیل مل، سوئی گیس پائپ لائینزلمیٹڈ، پی ایس او، او جی ڈی سی ایل، پوسٹ آفس سمیت کئی سرکاری ادارے شامل ہیں۔اس کے علاوہ حکومت صحت اور تعلیم کے شعبے میں’ اصلاحات‘ کے نام پربے شمار سرکاری ہسپتال اور تعلیمی ادارے بیچنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ محنت کشوں پر نجکاری کا شب خون مارنے کے لئے حکومتی نمائندے اور ان کے ٹوڈی دانشور طرح طرح کے دلائل گھڑ رہے ہیں تاکہ نجکاری کے لئے رائے عامہ ہموار کی جا سکے۔ اس مقصد کے لئے نہ صرف نجکاری کو ملکی قرضے اتارنے اور معاشی بحالی کے لئے ضروری قرار دینے سے لیکر اس کے نتیجے میں عوامی سہولیات کی فراہمی میں بہتری آنے جیسے جھوٹ بولے جا رہے ہیں بلکہ سرکاری اداروں کے محنت کشوں کو ان کی زبوں حالی کا ذمہ دار ٹھہرائے جانے جیسا زہریلا پراپیگنڈہ بھی کیا جا رہا ہے۔ یقینی طور پر محنت کشوں کو نجکاری کے اس حملے کو روکنے کے لئے متحد ہو کر لڑائی لڑنی پڑے گی لیکن اس کے لئے سب سے پہلے ضروری ہے کہ ان کے پاس اس جھوٹے حکومتی پراپیگنڈے کا ٹھوس اور مدلل جواب ہوتا کہ اس نجکاری مخالف جدوجہد کے لئے وسیع عوامی حمایت کو جیتا جا سکے۔ آئیے ایک ایک کر کے ان جھوٹوں کا پردہ چاک کرتے ہیں۔

قرضوں کی واپسی کا فریب

نجکاری پروگرام کے حوالے سے ایک عام بولا جانے والا حکومتی جھوٹ یہ ہے کہ نجکاری کے ذریعے حاصل ہونے والی رقم سے حکومتی قرضے (خصوصاً بیرونی قرضے) اد ا کر کے ان سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ یہ سراسر بکواس ہے۔عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی طاقتوں کی طرف سے دیے جانے والے سودی قرضوں کی نوعیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ پورا ملک بیچ کر بھی ان کو اتارا نہیں جا سکتا۔یہ قرضے دیے جانے کا مقصد ہی پسماندہ ممالک کو قرض کے جال میں پھنسا کر انہیں عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی طاقتوں کی معاشی و سیاسی گرفت میں رکھنا ہوتا ہے۔ 1991ء سے لیکر اب تک پاکستان میں بے شمار بڑی سرکاری صنعتوں، بینکوں اور اداروں کی نجکاری کی جا چکی ہے جس میں حبیب بینک لمیٹڈ، الائیڈ بینک لمیٹڈ، یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، مسلم کمرشل بینک، ڈی جی سیمنٹ، اٹک آئل ریفائنری، پاک سعودی اور پاک عرب فرٹیلائیزز، کیپکو، کے الیکٹرک، ملت ٹریکٹرز، غازی ٹریکٹرز اور پی ٹی سی ایل نمایاں ہیں۔ اس کے علاوہ بہت سے اہم تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں سمیت درجنوں اداروں کی نجکاری کی گئی ہے جبکہ جن اداروں کومکمل طور پر بیچا نہیں جا سکا وہاں جزوی طور پر نجکاری کر دی گئی ہے جیسے ریلوے میں پرائیویٹ کمپنیوں کو ٹرین چلانے کی اجازت سے لے کر واسا اوردیگر اداروں کو ٹھیکیداری نظام کے تحت دیا گیا ہے۔ اسی طرح نجکاری کی ہی پالیسی کے تحت بجلی کی پیداوار نجی کمپنیوں کی دی گئی جس کے باعث سرکلر قرضوں اور لوڈ شیڈنگ کا عذاب عوام آج تک بھگت رہے ہیں۔

نجکاری کمیشن کی سرکاری ویب سائیٹ کے مطابق ان اداروں کی نجکاری سے حاصل ہونے والی رقم کا 90فیصد قرضوں کی واپسی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ اس تمام عرصے میں پاکستان کے حکومتی قرضوں (ملکی اور بیرونی دونوں) میں کمی ہونے کی بجائے بے تحاشہ اضافہ ہوا ہے اورا س وقت کل حکومتی قرضہ جی ڈی پی کے 70فیصد سے زائد ہو چکا ہے۔ مزید براں تبدیلی کی دعوے دار یہ نئی حکومت بھی آئی ایم ایف،ورلڈ بینک،چین اور سعودی عرب سے دسیوں ارب ڈالر مزید قرضہ حاصل کرنے کے لئے پر تول رہی ہے۔

معاشی بحالی کا سراب

ٹی وی پر بیٹھے حکومت کے تنخواہ دار دانش ور نجکاری کو معاشی بحالی کے لئے نسخہ کیمیا بنا کر پیش کرتے ہیں۔ یہ صرف لفظی شعبدہ بازی کے سواکچھ نہیں ہے۔ ملک کی معاشی بدحالی کا اصل سبب سرمایہ دارانہ نظام کا عالمی بحران ہے جس کا آغاز 2008ء کے مالیاتی کریش سے ہوا تھا اور ابھی تک عالمی معیشت اس کے اثرات سے نکل نہیں پائی۔ مزید براں دنیا کے سارے سنجیدہ بورژوا معیشت دان ایک نئے عالمی معاشی بحران کا عندیہ بھی دے رہے ہیں جو 2008ء کے کریش سے بھی کہیں زیادہ خوفناک ہو گا۔اس وقت عالمی معیشت کی حالت اتنی دگر گوں ہے کہ امریکہ،برطانیہ اور چین جیسی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشتیں بھی سست روی یا گراوٹ کا شکار ہیں۔ ایسی صورتحال میں پاکستان کی پسماندہ سرمایہ داری کیسے کوئی خوشحالی لا سکتی ہے۔ لیکن ملکی اور عالمی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی نمائندگی کرنے والی حکومتیں اور ان کے دانشور بڑی چالاکی سے سرمایہ داری کی پھیلائی ہوئی معاشی بدحالی کا ذمہ دار سرکاری اداروں کو ٹھہرا کر ان کی نجکاری کے حق میں پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔ کیا بیہودہ منطق ہے یہ۔ یعنی سرمایہ داری کے بحران کو ختم کرنے کے لیے سرمائے کی حاکمیت کو (نجکاری کے ذریعے)مزید بڑھانا ہی مسئلے کا حل قرار دیا جاتاہے۔یہ ویسے ہی ہے جیسے کالے یرقان کے مریض کا علاج کالے یرقان کے وائرس سے متاثرہ خون کے ٹیکے لگا کر کرنے کی کوشش کی جائے۔

عوامی فلاح کا جھوٹ

نجکاری کے حق میں دہرایا جانے والا ایک اور صر یح جھوٹ یہ ہے کہ اس کے نتیجے میں عوامی فلاح و بہبود میں اضافہ ہو گا۔ یہ اتنا ہی بڑا جھوٹ ہے جتنا کوئی شخص یہ کہے کہ سورج مشرق کی بجائے مغرب سے طلوع ہوتا ہے۔ پہلے بات تو یہ ہے کہ نجکاری کے ذریعے کوئی بھی ادارہ خریدنے والا سرمایہ دار یہ سب منافع کے حصول کے لئے کرتا ہے نہ کہ عوامی فلاح کے لئے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بلند سے بلند شرح منافع کے لئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہوتا ہے جس میں سرفہرست ڈاؤن سائزنگ کے ذریعے پرائیویٹائز ہونے والے ادارے کے ملازمین کی بڑے پیمانے پر چھانٹی ہوتی ہے۔ اس سے جہاں ایک طرف سماج میں بڑے پیمانے پر بیروزگاری میں اضافہ ہوتا ہے وہیں دوسری طرف ادارے میں پیچھے بچ جانے والے مزدوروں کی نہ صرف اجرتوں میں کٹوتی کی جاتی ہے بلکہ ان کے اوقات کار بھی بڑھا دیے جاتے ہیں۔ یہ سب کرنے کے لئے نجکاری کا شکار بننے والے ادارے میں ٹریڈ یونین پر مکمل پابندی لگا دی جاتی ہے اور یوں مزدوروں پر معاشی جبر کے ساتھ ساتھ ان کا بنیادی ترین جمہوری حق بھی چھین لیا جاتا ہے۔ جب بھی کسی ادارے کو نجکاری کے لئے پیش کیا جاتا ہے تو اس وقت حکومت یا متوقع خریدار اعلان یہی کرتے ہیں کہ وہ مزدوروں کے حقوق کا خیال رکھیں گے۔ مگر یہ ایک نرا جھوٹ ہوتا ہے جس کا مقصد سبز باغ دکھا کر نجکاری کیخلاف مزدوروں کی مزاحمت کو کمزور کرنا ہوتا ہے۔ ایک دفعہ اگر مزدوروں کی مزاحمت دم توڑ جائے اور نجکاری ہوجائے تو پھر ان پر وحشیانہ حملے کئے جاتے ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال پی ٹی سی ایل کی نجکاری سے دی جا سکتی ہے۔ 2005ء میں جب پی ٹی سی ایل کی نجکاری کی گئی تو اس میں کل ستر ہزار سے زائد ملازمین کام کرتے تھے۔ یہ تعداد اب گھٹ کر صرف تیرہ ہزار رہ گئی ہے اور عنقریب مزید چار ہزار ملازمین کو نوکریوں سے فارغ کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسی طرح ایک اور سفید جھوٹ یہ بولا جاتا ہے کہ نجکاری سے عوامی سہولیات کی فراہمی میں بہتری آئے گی اور عوام کو سستی سہولیات مل سکیں گی۔ لیکن اگر ادارہ خریدنے والا سرمایہ دار ایسا کرے گا تو پھر وہ بلند منافع تو نہیں کما سکے گا۔ اسی لئے نجکاری کے بعد ادارے کی فراہم کردہ سہولیات سستی ہونے کی بجائے مزید مہنگی ہوں گی اور نہ صرف مہنگی ہوں گی بلکہ قیمت کے تناسب سے ان کے معیار میں بھی کمی آئے گی۔ صرف بجلی کے شعبے پر ہی نظر دوڑانے سے اس جھوٹ کی قلعی کھل جاتی ہے۔ 1993ء میں پاکستان میں بجلی کے شعبے میں نجکاری اور نجی سرمایہ کاری کا آغاز کیا گیا تھا۔وہ دن اور آج کا دن ،پاکستان میں گزرتے وقت کے ساتھ بجلی کا بحران بڑھتا ہی گیا ہے اور اس کی قیمت میں بھی کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے۔حکومت اب تک دسیوں کھرب روپے سرکلر ڈیبٹ کی صورت میں نجی پاور کمپنیوں کو ادا کر چکی ہے ۔اس رقم کو اگر ریاستی ملکیت میں نئے ہائیڈل پاور پراجیکٹس بنانے میں استعمال کیا جا تاتو آج ملک میں بجلی کا بحران نہ ہوتا۔ اسی طرح کے الیکٹرک کی نجکاری کے بعد کراچی میں بجلی کی سپلائی کی دگرگوں صورتحال سب کے سامنے ہے۔ آج سے چند سال پہلے کراچی میں گرمیوں کے مہینوں میں بجلی کی بندش کی وجہ سے ہزاروں اموات ہوئی تھیں۔ یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے، بس اب میڈیا پر اسے رپورٹ کرنے پر پابندی ہے۔ مندرجہ بالا بحث سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اگر سرکاری تعلیمی اداروں اور ہسپتالوں کی نجکاری کر دی جاتی ہے تو تعلیم اور علاج کی رہی سہی سستی سرکاری سہولیات بھی انتہائی مہنگی ہو کر غریب عوام کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی۔ 

خوشنما الفاظ کے پردے میں نجکاری

محنت کشوں کو دھوکا دینے کے لئے حکومت اکثر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ،مزدوروں کو شیئرز بیچ کر ادارے کا ’مالک‘ بنانا اور آؤٹ سورسنگ جیسی خوشنما لفاظیوں کا سہارا لیتی ہے۔ اس میں اب ویلتھ فنڈ کا اضافہ ہو گیا ہے جو خود معاشی ماہرین کے مطابق ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں کیونکہ پاکستان کی معیشت پہلے ہی خسارے میں ہے اس لیے یہاں ویلتھ فنڈ عمومی اصولوں کے مطابق بنایا ہی نہیں جا سکتا۔ محنت کشوں کوان لفاظیوں اور دھوکوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ سب نجکاری کے ہی مختلف نام ہیں اور ان سب کا نتیجہ محنت کشوں کی بربادی اور سہولیات کے عوام کی پہنچ سے دور ہو جانے کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔ اس کی سب سے واضح مثال پیپلز پارٹی کے پچھلے دور حکومت سے دی جا سکتی ہے جس نے ادارے کے کچھ شیئرز ملازمین کو فروخت کر کے باقی شیئرز نجی سرمایہ داروں کو فروخت کرنے کی راہ ہموار کرنے کا منصوبہ تیار کیا تھا۔ اسی طرح سرکاری ہسپتالوں اور تعلیمی اداروں کی نجکاری بھی آؤٹ سورسنگ کی بے ضرر اصطلاح کے پردے میں کی جا رہی ہے حالانکہ اس کا سیدھا سادا مطلب سرکاری اداروں کو ٹھیکے پر نجی کمپنیوں کے سپرد کرنا ہے تا کہ وہ منافع کما سکیں ۔

نجکاری ادارے کی کارکردگی بڑھاتی ہے

یہ ایک اور سفید جھوٹ ہے۔ 1991 ء سے لیکر اب تک نجکاری کا شکار بننے والے زیادہ تر صنعتی یونٹوں کو مالکان نے خرید کر ختم کر دیا۔ ان کی مشینری بطور سکریپ فروخت کر دی گئی اور ان کی زمین پر پوش رہائشی کالونیاں اور کمرشل عمارتیں تعمیر کی گئیں کیونکہ اس کام میں پیداوار کرنے سے زیادہ منافع تھا۔ اس وقت بھی اسٹیل مل کی فروخت کے پیچھے اصل محرک اسے چلانا نہیں بلکہ اس کی قیمتی اراضی کو ہتھیانا ہے۔ اسی طرح وزیر ریلوے شیخ رشید بھی ریلوے کی ہزاروں ایکڑ قیمتی اراضی نجی اور فوجی رئیل اسٹیٹ ڈویلیپرز کو فروخت کرنے یا لیز پر دینے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ پی آئی اے میں بھی یہی صورتحال ہے۔ کسی خریدار کو اس کے کور بزنس میں دلچسپی نہیں ہے، سب کی نظریں اس کی اربوں ڈالر کی بیرون ملک پراپرٹی پر ہیں جس میں نیویارک اور پیرس کے فائیو سٹار ہوٹل سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ پی ٹی سی ایل جیسے ادارے جن کو نجکاری پروگرام کی کامیابی کی مثال بنا کر پیش کیا جاتا ہے، وہاں ہم یہ سوال پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ یہ نام نہاد بہتری کتنے ہزار خاندانوں کا معاشی قتل عام کر کے حاصل ہوئی؟ نجی مالکان نے اب تک ادارے کے فائبر آپٹک انفراسٹرکچر میں کوئی خاطر خواہ اضافہ کیوں نہیں کیا؟ اور جن سہولیات کا اجرا نجی مالکان نے نہایت مہنگے داموں کیا، انہیں ادارے کو ریاستی ملکیت میں رکھتے ہوئے بھی انتہائی سستے ریٹس پر شروع کیا جا سکتا تھا۔ اس کے لئے درکار انفراسٹرکچر موجود تھا،تو پھر ایسا کیوں نہیں کیا گیا؟ نجکاری کی پوری رقم بھی ایک دہائی سے زائد عرصہ گزرنے کے باوجود وصول نہیں ہو پائی جبکہ ادارے کی تمام پراپرٹی نجی مالکان کے نام کی جا رہی ہے۔ اسی طرح عوام یہ پوچھنے میں بھی حق بجانب ہیں کہ نجکاری کے بعد کے الیکٹرک کی پیداواری صلاحیت میں کوئی خاص اضافہ کیوں نہیں کیا گیا حالانکہ اس کی نجکاری کے لئے یہی جواز گھڑا گیا تھا۔ 

ریاستی اداروں کی تباہی کا ذمہ دار کون؟

ریاستی اداروں کی تباہی کا ذمہ دار وہاں کے محنت کشوں کو قرار دینا حکمرانوں کے زہریلے پراپیگنڈے کا ایک انتہائی اہم جزو ہے۔اس سے عوام میں یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ سرکاری اداروں میں سہولیات کی عدم فراہمی وہاں کے محنت کشوں کے نکمے پن کی وجہ سے ہے۔یہ جھوٹ بولا جاتا ہے کہ ان اداروں کے محنت کش ہڈ حرام ہوتے ہیں۔یہ بہانہ بنایا جاتا ہے کہ کہ سرکاری اداروں میں ضرورت سے کہیں زیادہ ملازمین سفارشی بنیادوں پر بھرتی کئے گئے ہیں۔عوامی نفرت کو مزیدبڑھاوا دینے کے لئے ان ملازمین کے لئے سیاسی بھرتیوں کی تہمت انگیز اصطلاح بھی استعمال کی جاتی ہے۔ یہ سب سراسر جھوٹ ہے۔ ریاستی اداروں کی تباہی کا ذمہ دار حکمران طبقہ اور ریاست خود ہے۔ہم مثالوں سے اپنی بات کو مزید واضح کرتے ہیں۔ اسٹیل مل اس لئے تباہ حال ہے کہ پاکستانی ریاست نے اپنے نئے سامراجی آقا چین سے فری ٹریڈ ایگریمنٹ کر رکھا ہے جس کے نتیجے میں ڈیوٹی فری چینی مصنوعات(بشمول ا سٹیل) بڑی مقدار میں پاکستانی منڈی میں ڈمپ ہو رہی ہیں۔ اسی طرح تمام نئے تعمیراتی منصوبوں (بشمول سی پیک ) میں بھی معاہدوں کے تحت چینی اسٹیل استعمال ہورہا ہے۔ چین دنیا میں ا سٹیل کا سب سے بڑا پیدا کنندہ ہے اور اسی لئے اسکاا سٹیل انتہائی سستا بھی ہے۔ صورتحال یہ ہے کہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک کی ا سٹیل انڈسٹری بھی چینی ا سٹیل کا مقابلہ کرنے سے قاصر ہے۔ حال ہی میں امریکہ کی جانب سے دیگر چینی مصنوعات کے ساتھ ساتھ چینی ا سٹیل کی درآمد پر بھاری ڈیوٹی لگانے کا سبب بھی یہی ہے۔ ایسی کیفیت میں پاکستان کی ا سٹیل مل ڈیوٹی فری چینی ا سٹیل کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہے وہ بھی جب نہ تو اسے کسی سرکاری منصوبے کا ٹھیکہ ملتا ہے اور نہ ہی کسی حکومت نے دہائیوں سے اس کی مشینری کو اپ گریڈ کرنے کی کوشش کی ہے۔اسی طرح پی آئی اے کے فلیٹ میں صرف 33جہاز ہیں جبکہ اس کی مدمقابل خلیجی ممالک کی ایئرلائنز کے فلیٹ سینکڑوں جہازوں پر مشتمل ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ پچھلے دس سالوں میں پی آئی اے کے کئی منافع بخش ملکی اور غیر ملکی روٹ حکمرانوں نے بھاری کک بیکس کے عوض مختلف ملکی اور غیر ملکی ائیر لائنز کو دے دیے ہیں جو نجکاری کا ہی ایک طریقہ ہے۔ اسی طرح ریلوے کے لئے نئے انجنوں کی خریداری اور ان کی اندرون ملک تیاری کا انفراسٹرکچر تعمیر کرنا، ریلوے ٹریک کو اپ گریڈ کرنا، سگنلز کا نظام جدید بناناریاست کی ذمہ داری ہے نہ کہ ادارے کے محنت کشوں کی مگر ریاست اور حکمران طبقے کی نااہلی کا سارا ملبہ غریب محنت کشوں پر ڈال دیا جاتا ہے حالانکہ وہ تو خراج تحسین کے مستحق ہیں کہ حکومت کی طرف سے کوئی انفراسٹرکچر اپ گریڈیشن نہ ہونے کے باوجود کسی نہ کسی طرح ادارے کو اسی فرسودہ انفراسٹرکچر کے ساتھ چلائے جا رہے ہیں۔یہی صورتحال واپڈا میں ہے۔ نئے ڈیم اور ہائیڈل پاور پراجیکٹس تعمیر کر کے بجلی و پانی کی کمی کو پورا کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے نہ کہ محنت کشوں کی۔ اسی طرح لائن لاسز اور ٹرپنگ کے ذمہ دار فرسودہ ٹرانسمیشن سسٹم کا سارا ملبہ بھی ملازمین پر ڈال دیا جاتا ہے حالانکہ اسے بہتر کرنا حکومت کا کام ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں بھی یہی کچھ دیکھنے کو ملتا ہے۔ بیڈ ایک ہو گا تو مریض چار۔ مریض دس ہوں گے تووینٹیلیٹر ایک ہو گا۔ سہولیات کا اتنا فقدان ہے کہ بائی پاس جیسے ضروری آپریشن کا ٹائم دو تین سال سے پہلے کا نہیں ملتا۔اگر آپریشن ہو جائے تو دوائی نہیں ملتی۔ اب ہیلتھ بجٹ کو بڑھاتے ہوئے نئے ہسپتال تعمیر کرنا،مناسب اور وافر سہولیات مہیا کرنا حکومت و ریاست کی ذمہ داری ہے لیکن ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں اور سامراجی مالیاتی اداروں کے تلوے چاٹنے والے یہ حکمران سرمایہ داروں کی تجوریاں بھرنے کے لئے سوشل اور فزیکل انفراسٹرکچر پر کچھ خرچ تو کرتے نہیں ہیں بلکہ الٹا سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کو قربانی کا بکرا بنا کرنہ صرف عوامی غیض و غضب کا رخ ان کی طرف موڑنے کی کوشش کی جاتی ہے بلکہ اپنی نااہلی کا ملبہ ملازمین پر ڈال کر نجکاری کی راہ بھی ہموار کی جاتی ہے۔ اسی طرح ضرورت سے زائد ملازمین کا ہونا بھی ایک جھوٹ ہے۔ اس جھوٹ کے لئے اعدادوشمار میں بھی ہیرا پھیری کی جاتی ہے۔ اس کی واضح مثال پی آئی اے کی ہے جہاں ملازمین کی زائد تعداد کے متعلق جھوٹ بولنے کے لئے فلائٹ آپریشنز اور دیگر سروسز(کچن اور کیٹرنگ وغیرہ) کے ملازمین کی تعداد کو ملا کر پھر اس کا موازنہ دیگر ائیر لائنز کے صرف فلائٹ آپریشن سٹاف کی تعداد سے کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ پی آئی اے میں مدمقابلوں کی نسبت فی جہاز کہیں زیادہ ملازم کام کرتے ہیں۔ بر سر اقتدار آنے سے قبل موجودہ وزیر خزانہ اسد عمر نے بھی ایک ٹی وی پروگرام میں اس حقیقت کا اعتراف کیا تھا۔ اسی طرح واپڈا میں جہاں تین ورکر ہونے چاہئے وہاں صرف ایک ورکر ہے اور کام کی زیادتی اور سہولیات کے فقدان کا نتیجہ یہ ہے کہ ہر ہفتے واپڈا کے کسی محنت کش کی اپنے فرائض سر انجام دیتے ہوئے شہادت کی اطلاع ملتی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں عملے کی کمی کا اندازہ کسی بھی روز ان ہسپتالوں کے آؤٹ ڈور اور ایمرجنسی یونٹ میں مریضوں کی لمبی قطاروں سے لگایا جا سکتا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ان اداروں پر حقیقی معنوں میں بوجھ بنی ہوئی افسر شاہی اور اعلیٰ عہدیداران کی کرپشن اور اللے تللوں کا کوئی ذکر نہیں کرتاکیونکہ وہ ریاستی مشینری کا حصہ اور حکمران طبقے کے خاص کارندے ہوتے ہیں۔

کیا حکومت ریاستی ادارے بیچنے کا اخلاقی جواز رکھتی ہے؟

یہ نام نہاد منتخب ’جمہوری‘ حکومت یقیناًپچھلی حکومتوں کی طرح نجکاری کے پروگرام پر عمل درآمد کرانے میں مزید سہولت پیدا کرنے کے لئے پارلیمنٹ اور سینٹ سے ضروری قانون سازی کرانے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس میں کوئی حیرت والی بات نہیں کیونکہ پارلیمنٹ اور سینٹ میں بھی اسی عوام دشمن حکمران طبقے کے ہی نمائندے بیٹھے ہیں۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کوئی بھی حکومت ریاستی ادارے بیچنے کا اخلاقی جواز رکھتی ہے؟ نہیں،ہر گز نہیں۔ یہ ادارے کسی عمران خان، نواز شریف، زرداری، کسی جرنیل، وزیر یا بیوروکریٹ کے خاندان کی ملکیت نہیں ہیں۔ نہ ہی یہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک یا امریکہ اور چین کے قرضوں سے بنے ہیں۔ یہ عوام کے ٹیکسوں کے پیسے سے بنے ہیں اور ان میں کام کرنے والے محنت کشوں نے انہیں اپنے خون سے سینچا ہے۔ یہ عوام کی ملکیت ہیں۔ کسی حکومت کے پاس ان کو بیچنے کا اخلاقی جواز نہیں ہو سکتا چاہے وہ کوئی جمہوریت ہو یا آمریت۔ عوام کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ حکومت چاہے لاکھ قانون سازی کر لے ، ان اداروں کی نجکاری عوامی ملکیت کی چوری ہے۔ لہٰذا نجکاری مخالف جدوجہد میں ان اداروں کے محنت کشوں کا ساتھ دینا عوام کا فرض ہے کیونکہ ان کا اپنا مفاد بھی اسی میں ہے۔

نجکاری کیخلاف جنگ کا واحد راستہ۔۔۔ملک گیر عام ہڑتال!

نجکاری کیخلاف ٹھوس دلائل سے مسلح ہونے کے بعد درست لائحہ عمل کا سوال اٹھتا ہے۔اس حوالے سے ہم پاکستان کے محنت کشوں کو یہ واضح پیغام دینا چاہتے ہیں کہ نجکاری کیخلاف یہ جنگ مختلف اداروں کے محنت کش ایک دوسرے سے کٹ کر اور الگ تھلگ رہتے ہوئے نہیں لڑ سکتے۔ یہ دوسو کے قریب اداروں کے محنت کشوں کا مشترکہ مسئلہ ہے اور اس کیخلاف کامیاب جدوجہد کے لئے لازمی ہے کہ ان تمام اداروں کے محنت کش ایک نجکاری مخالف پلیٹ فارم پر اکھٹے ہو کر یہ لڑائی لڑیں۔ اس حوالے سے لڑائی کا سب سے بہترین طریقہ ایک ملک گیر عام ہڑتال کی کال ہے جو کہ ملکی معیشت اور سماج کا پہیہ جام کرتے ہوئے حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔ اس کے علاوہ یہ عام ہڑتال محنت کشوں کو بطور طبقہ اپنی طاقت کا احساس بھی دلائے گی اور پاکستان کا مزدور کئی دہائیوں کی غیر حاضری کے بعد پھر سے سماج کے سب سے طاقتور عنصر کے طور پر ابھرے گا۔ لیکن اس عام ہڑتال کی تیاری ابھی سے شروع کرنا ہو گی۔ ہر ادارے میں ہڑتالی کمیٹیاں بنانی ہوں گی جن میں اس ادارے کے تمام شعبوں کے محنت کشوں کی نمائندگی ہو۔ آگے چل کر یہی ہڑتالی کمیٹیاں عام ہڑتال کی کال دینے کے لئے ایک مرکزی ہڑتالی کمیٹی منتخب کریں گی جس میں ہر ادارے کی نمائندگی ہو گی۔ عام ہڑتال کی تیاری کے سلسلے میں ریاستی اداروں کے محنت کشوں کو نجی صنعتوں کے محنت کشوں کے ساتھ بھی رابطے قائم کرنا پڑیں گے اور انہیں اس ہڑتال میں شرکت کی دعوت دینا ہو گی۔ اس مقصد کے لئے نجکاری کے خاتمے کے بنیادی مطالبے کے ساتھ ساتھ اجرتوں میں خاطر خواہ اضافے اور لیبر ٹھیکیداری کے خاتمے کے مطالبات بھی پیش کرنا ہوں گے جو کہ سرکاری اداروں اور نجی صنعتوں کے مزدوروں کے مشترکہ مطالبات ہیں۔ یہ جنگ بھرپور عوامی حمایت کے بغیر نہیں جیتی جا سکتی۔ اس حوالے سے رائے عامہ کو ہموار کرنے اور حکومتی پراپیگنڈے کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے عوامی سطح پر ایک بھر پور آگاہی مہم بھی چلانی پڑے گی۔ ہمیں یقین ہے کہ ایماندار اور دلیر ٹریڈیونین قیادتیں اس سارے لائحہ عمل اور طریقہ کار سے بھرپور اتفاق کریں گی اور اس کا حصہ بنیں گی مگر بد قسمتی سے پاکستان میں ایسے مزدور دوست ٹریڈیونین لیڈروں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ گئی ہے۔ مزدور قیادتوں کی ایک بھاری ترین اکثریت اپنے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر مزدور تحریک میں حکمران طبقے کے ایجنٹوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ ایسے مفاد پرست اور بکاؤ مزدور لیڈر اس نجکاری مخالف جدوجہد کو ناکام بنانے کی بھرپور کوشش کریں گے لیکن محنت کشوں کو کامیابی حاصل کرنے کے لئے ان ٹوڈی لیڈروں سے جان چھڑانی پڑے گی اور ایک نئی ،لڑاکا اور مخلص قیادت تراشنی پڑے گی۔

پچھلے چند سالوں میں برازیل، فرانس، ہندوستان، یونان اور بلجیم سمیت دنیا کے بے شمار ممالک کے محنت کشوں نے اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے متحد ہو کر کامیاب ملک گیر عام ہڑتالیں کی ہیں۔ جب ان سب ممالک کے محنت کش ایسا کر سکتے ہیں تو پاکستان کے محنت کشوں میں بھی جرات، بہادری اور حوصلے کی کوئی کمی نہیں ہے۔ اسی لئے لازمی ہے کہ ان تمام ممالک کے محنت کشوں کے تجربات سے سیکھتے ہوئے یہاں کے محنت کش بھی اس راستے پر قدم بڑھائیں۔

مسائل کا حتمی حل۔۔۔سوشلسٹ انقلاب!

ایک ملک گیر عام ہڑتال کے ذریعے محنت کش نجکاری کے وار کو روک سکتے ہیں اور وقتی طور پر اس خطرے سے نجات حاصل کر سکتے ہیں لیکن جب تک یہ سرمایہ دارانہ نظام، سرمایہ دارانہ ریاست اور یہ حکمران طبقہ رہے گااس وقت تک محنت کشوں کو نجکاری، مہنگائی، بیروزگاری، غربت، افلاس، لاعلاجی اور اس جیسے دیگر مسائل سے مکمل اور مستقل نجات نہیں مل سکتی۔ ان تمام مسائل کا مستقل حل صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے جس میں محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ کرتے ہوئے ایک مزدور ریاست تخلیق کرے گا اور تمام ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت اور اپنے جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے ایک منصوبہ بند معیشت کی تعمیر کرے گاجس میں تمام پیداوار منافع کے لئے نہیں بلکہ سماجی ضروریات کو پورا کرنے کی غرض سے کی جائے گی۔ لیکن اس مقصد کے لئے صرف مزدور تحریک کا ہونا کافی نہیں بلکہ اس تحریک کو درست نظریات، پروگرام، طریقہ کار اور لائحہ عمل سے مسلح کرنے کے لئے ایک انقلابی پارٹی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ ایک ملک گیر عام ہڑتال نجکاری کے حملے جیسے فوری خطرے کا سد باب کرنے کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے، غریب کسانوں اور نوجوانوں کے معاشی وسیاسی مفادات کی ترجمانی کرنے والی ایک حقیقی انقلابی پارٹی کی تعمیر میں بھی ایک اہم سنگ میل ثابت ہو گی۔

Comments are closed.