ایم ٹی آئی ایکٹ نا منظور۔۔۔ سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری یا عوام کا قتلِ عام؟

|منجانب: مرکزی بیورو،ریڈ ورکرز فرنٹ|

29اپریل بروز سوموار حکومت پنجاب نے بڑے سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کا بل یعنی ایم ٹی آئی ایکٹ بحث کے لئے صوبائی اسمبلی میں پیش کیا۔ حسب توقع اپوزیشن سمیت اسمبلی کے کسی بھی رکن نے نہ تو اس ایکٹ کی مذمت کی اور نہ ہی اسے مسترد کیا۔ صرف اس کالے قانون کو تھوڑی سی شوگر کوٹنگ کے ذریعے ایک پر فریب قابل قبول شکل دینے کے حوالے سے چند تجاویز سامنے آئیں جن پر غور کرنے کی ذمہ داری ایک ذیلی کمیٹی کو دی گئی ہے جو چند روز میں اپنی گزارشات پیش کرے گی، جس کے بعد اس ایکٹ کو چند کاسمیٹک تبدیلیوں کیساتھ منظوری کے لئے اسمبلی میں پیش کیا جائے گا۔ اس ساری صورتحال سے اسمبلی میں موجود تمام سیاسی پارٹیوں کا عوام دشمن کردار بالکل عیاں ہو جاتا ہے اور یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لوٹ مار کے مال میں حصہ داری اور اقتدار کی رسہ کشی کے حوالے سے ان تمام پارٹیوں میں چاہے جتنے بھی اختلافات کیوں نہ ہوں، عوام دشمنی میں یہ سب ایک پیج پر ہیں۔

یہ ایکٹ اگر منظور ہو گیا توصوبے بھر کے بڑے سرکاری ہسپتال فلاحی اداروں کی بجائے منافع خور کارپوریٹ ادارے بن جائیں گے جنہیں نجی شعبے سے تعلق رکھنے والے کاروباریوں پر مشتمل ایک بورڈ چلائے گا اور ان ہسپتالوں کا مقصد عوام کو مفت علاج معالجہ فراہم کرنے کی بجائے نجی ٹھیکیداروں، کمپنیوں اور حکومت کو زیادہ سے زیادہ منافع کما کر دینا ہو گا۔ اس مقصد کے لئے ہسپتالوں کے تقریباً تمام غیر طبی اور کئی ایک طبی شعبہ جات نجی کمپنیوں کو ٹھیکے پر دے دیے جائیں گے۔ زیادہ سے زیادہ پیسہ کمانے کی خاطر پروفیسر حضرات کو ہسپتال میں ہی نجی پریکٹس کرنے کے لئے پر کشش ترغیبات دی جائیں گی اور یوں ہسپتالوں کا پہلے سے ہی ناکافی انفراسٹرکچر زیادہ تر نجی مریضوں کے علاج کے لئے استعمال ہو گا۔ ان تمام اقدامات کے نتیجے میں ہسپتالوں میں مفت علاج وادویات کی سہولت کا خاتمہ ہو جائے گا اور بیمار پڑنے کی صورت میں ان ہسپتالوں کا رخ کرنا عوام کے لئے ایک بھیانک معاشی دھچکا ثابت ہو گا۔ عوام کو یہ معاشی بوجھ برداشت کرنے کے قابل بنانے کے لئے نجی انشورنس کمپنیوں کو میدان میں اتارا جارہا ہے تاکہ عوام ساری عمر اپنی روکھی سوکھی بھی ان کی جیب میں ڈالتے رہیں۔

دوسری طرف ہسپتالوں میں کام کرنے والے ڈاکٹرز،پیرامیڈکس اورنرسز کی مستقل سرکاری ملازمت کا خاتمہ ہو جائے گا اور انہیں ادارے کا ملازم قرار دے کاایک سال سے تین سال تک کے کنٹریکٹ پر رکھا جائے گاجسے کسی بھی وقت کوئی بھی ٹھوس وجہ بتائے بغیر منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح ہسپتالوں میں پہلے سے ہی ایڈہاک، کنٹریکٹ یا ڈیلی ویجز پر کام کرنے والے ملازمین ایک بڑی تعداد کو تو ویسے ہی چھانٹی کر دیا جائے گا تا کہ کم سے کم ملازمین سے زیادہ سے زیادہ کام کروا کہ نجی ٹھیکیداروں کی شرح منافع کو بڑھایا جا سکے۔یوں یہ ایکٹ ایک کالا قانون ہے جو عوام اور شعبہ صحت کے ملازمین،دونوں کا قاتل ثابت ہو گا۔

ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب کی جانب سے شائع کیا گیا نجکاری مخالف لیف لیٹ

لیکن جہاں ایک طرف حکومت عوام اور شعبہ صحت کے ملازمین پر شب خون مارنے کی تیاری کر چکی ہے وہیں دوسری طرف ینگ ڈاکٹرز، پیرامیڈکس اور نرسز نے بھی متحد ہو کر ہسپتالوں کو نجکاری سے بچانے کے لئے جدوجہد کا آغاز کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں گرینڈ ہیلتھ الائنس کے نام سے شعبہ صحت کے تمام ملازمین کی نمائندہ تنظیموں کا ایک نجکاری مخالف اتحاد بھی تشکیل پا چکا ہے جس میں سب سے فعال کردار ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن پنجاب ادا کر رہی ہے۔ اس نجکاری مخالف مہم کے سلسلے میں پچھلے تین ماہ کے دوران مختلف ہسپتالوں میں میٹنگز، سیمینارز اور کنونشز منعقد کیے گئے ہیں، احتجاجی ریلیاں منعقد کی گئی ہیں، نجکاری کے مضمرات سے متعلق بڑے پیمانے پر پوسٹرنگ اوربینرنگ کرنے کے ساتھ ساتھ لیف لٹس تقسیم کئے گئے ہیں۔

خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت2015 ء میں ہی یہ ایکٹ نافذ کر چکی ہے اور حال ہی میں وہاں پر بھی ینگ ڈاکٹرز کی قیادت میں اس ایکٹ کے خاتمے کے لئے شعبہ صحت کے ملازمین کی نجکاری مخالف تحریک چل رہی ہے

29اپریل کے بعد اس نجکاری مخالف مہم میں خاصی تیزی آئی ہے اور 2مئی سے صوبے کے تمام بڑے سرکاری ہسپتالوں کے شعبہ آؤٹ ڈور میں ہڑتال چل رہی ہے۔ یاد رہے کہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی سابقہ حکومت2015 ء میں ہی یہ ایکٹ نافذ کر چکی ہے اور حال ہی میں وہاں پر بھی ینگ ڈاکٹرز کی قیادت میں اس ایکٹ کے خاتمے کے لئے شعبہ صحت کے ملازمین کی نجکاری مخالف تحریک چل رہی ہے اور 2مئی سے پختونخوا، کے ہسپتالوں میں بھی آؤٹ ڈور ہڑتال کا آغاز ہو چکا ہے۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ دونوں صوبوں کی نجکاری مخالف تحریکیں ایک دوسرے کیساتھ رابطے میں ہیں اور اس سلسلے میں جناح ہسپتال لاہور میں حال ہی میں ایک مشترکہ پریس کانفرنس بھی کی گئی ہے۔ یہ بات درست ہے کہ عوام کو پیش آنے والی مشکلات کے پیش نظر شعبہ صحت کے ملازمین کو ہڑتال پر جانے سے حتی المقدور گریز کرنا چاہئے اور پوری کوشش کرنی چاہئے کہ احتجاج اور جدوجہد کے دیگر طریقوں کو بروئے کار لایا جائے کیونکہ ہسپتالوں میں ہڑتال حکومت کو مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے عوام اور شعبہ صحت کے ملازمین کے بیچ ایک خلیج حائل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ لیکن دوسری طرف یہ امر بھی ایک حقیقت ہے کہ اس ہڑتال اور مریضوں کے لئے اس سے پیدا ہونے والی مشکلات کی تمام تر ذمہ داری حکومت کے کندھوں پر عائد ہوتی ہے۔

لاہور جنرل ہسپتال میں ینگ ڈاکٹرز کی جانب سے لگایا گیا عوامی آگاہی کیمپ

اس کے علاوہ یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ ہسپتالوں میں ہڑتال کو جواز بناتے ہوئے عوام میں کئے جانے والے زہریلے حکومتی پراپیگنڈے کا توڑ کرنے کی خاطر ایک وسیع تر آگاہی مہم چلائی جائے اور ان کے سامنے اس عوام دشمن حکومتی پالیسی کی اصلیت کو واضح کیا جائے۔ اس کے علاوہ گرینڈ ہیلتھ الائنس کو بالکل واضح الفاظ میں یہ بات کہنی چاہیے کہ وہ ایم ٹی آئی ایکٹ کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہیں اور انہیں یہ کالا قانون کسی بھی شکل میں قبول نہیں ہے کیونکہ خطرہ ہے کہ حکومت تحریک کو دھوکہ دینے کے لئے اس ایکٹ میں کاسمیٹک تبدیلیاں کرنے سے لے کے ”ابھی صرف ٹرائل کے لئے ایک دو ہسپتالوں میں نافذ کریں گے“ سمیت کسی بھی قسم کے خوشنما جھوٹ بول سکتی ہے۔ اگر شعبہ صحت کی تنظیموں کی قیادتیں اس دھوکے میں آ جاتی ہیں تو یہ ایک جرم بلکہ بد ترین غداری ہو گی اور ملازمین کو اس حوالے سے چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ، شعبہ صحت کے ملازمین کی اس نجکاری مخالف جدوجہد کی بھر پور حمایت کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ہم اس تحریک میں جہد کار ملازمین کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔ لیکن کامیابی حاصل کرنے کی خاطر اس تحریک کو ابھی بہت سے چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا اور ایسی صورتحال میں درست سیاسی و نظریاتی سمجھ بوجھ کی روشنی میں ترتیب دیا گیا ایک ٹھوس لائحہ عمل وطریقہ کار ہی تحریک کی کامیابی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو یہ نہایت ہی ضروری ہے شعبہ صحت کی مختلف تنظیموں کے درمیان تشکیل پانے والے نجکاری مخالف اتحاد کو ہر صورت میں قائم رکھا جائے کیونکہ حکومت اپنے دلالوں کے ذریعے اس اتحاد میں دراڑیں ڈالنے کی بھر پور کوششیں کرے گی۔ اس سلسلے میں وائی ڈی اے پنجاب کی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ اس اتحاد کی کمان ایک طرح سے ان کے ہاتھوں میں ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی لازمی ہے کہ شعبہ صحت کے ملازمین اسٹیٹ لائف، یوٹیلیٹی سٹورز، سرکاری تعلیمی اداروں، واپڈا، پی آئی اے سمیت نجکاری کے نشانے پر موجود دیگر اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ ایک وسیع تر نجکاری مخالف اتحاد تشکیل کرنے کی طرف قدم بڑھائیں جو کہ نجکاری کی اس پالیسی کے خاتمے کے لئے مشترکہ جدوجہد کرے۔ اس مقصد کے لئے مشترکہ احتجاجوں سے لے کر وقت آنے پر ملک گیر عام ہڑتال کی کال بھی دی جا سکتی ہے جو حکومت کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دے گی۔

آخر میں ہم ریڈ ورکرز فرنٹ کی جانب سے ایک بار پھر اس نجکاری مخالف تحریک کی بھر پور عملی حمایت کا اعادہ کرتے ہیں اور شعبہ صحت کے ملازمین کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اگر وہ اسی جرأت وہمت اور درست حکمت عملی کیساتھ اپنی جدوجہد کو جاری رکھیں گے تو کامیابی ناگزیر طور پر ان کے قدم چومے گی۔

آگے بڑھو ساتھیو!
فتح ہماری ہو گی!

Comments are closed.