لیون ٹراٹسکی کا 76 واں یومِ شہادت: محبت فاتحِ عالم

تحریر: |پارس جان|

Leon Trotsky

21 اگست 1940 ء کو میکسیکو میں ایک برف کے کلہاڑے کے ذریعے انسانی تاریخ کے عظیم ترین دماغوں میں سے ایک دماغ کو ابدی نیند سلا دیا گیا۔ یہ عظیم دماغ بالشویک انقلاب کے معمار ولادیمیر لینن کا قریب ترین ساتھی لیون ٹراٹسکی تھا۔ عالمی مزدور تحریک کی باشعور پرتوں اور انقلابی حلقوں میں لیون ٹراٹسکی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے۔ اور ساتھ ہی عالمی سامراجی طاقتوں کے برگزیدہ رہنما اور ان کے وظیفہ خوار بھی اس نام کی چمک دمک سے نہ صرف یہ کہ بخوبی آشنا ہیں بلکہ اس کے گزر جانے کے 76 سال بعد بھی یہ نام مسندِ اقتدار اور اس پر براجمان جابر حکمرانوں کے لئے خوف کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل لیون ٹراٹسکی کی کردار کشی کی گئی اور اس کے نظریات کا تمسخر اڑایا گیا۔ مشرق و مغرب میں یکساں طور پرٹراٹسکی کو کوسنا پیٹنا اور لعن طعن کرنا ضروری سمجھا جاتا تھا۔ سرمایہ دارانہ حلقوں میں ہی نہیں بلکہ سوویت بیورو کریسی کے زیرِ اثر دنیا بھر کی بائیں بازو کی تحریک میں بھی ٹراٹسکی کو CIA کا ایجنٹ اور محنت کش طبقے کے غدار کے طور پر پیش کیا جاتا تھا۔ ٹراٹسکی کی تحریریں بمشکل ہی کہیں دستیاب ہوتی تھیں۔ یوں ٹراٹسکی کو پڑھے بغیر ہی انقلابی نوجوانوں کی گزشتہ دو نسلیں اس عظیم انقلابی قائد سے نفرت کرتی رہیں۔ ٹراٹسکی کے نظریاتی دشمن (جو دائیں اور بائیں دونوں اطراف میں بدرجہ اتم پائے جاتے ہیں) بخوبی جانتے تھے کہ اگر ٹراٹسکی کا تحریری مواد آسانی سے میسر آ جائے تو اس کی تحریر کی چاشنی اور نظریاتی استدلال اس کے دشمنوں کی حقیقت کا پردہ فاش کر دے گا اور یوں ان کی اجارہ داری خاک میں مل جائے گی۔ پھر سوویت یونین کے انہدام نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی اور نام نہاد انقلابی جو پہلے ٹراٹسکی کو ثواب سمجھ کر گالیاں نکالتے تھے این جی اوز کھول کر سرمایہ داروں کے دلال بن گئے اور علی الاعلان سوشلزم اور مارکسزم کو ہی گالیاں نکالنے لگے ۔ بظاہر ایسا لگتا تھا کہ نظریات سمیت سب کچھ ختم ہو چکا۔
’تاریخ کے خاتمے‘ کو ابھی زیادہ وقت نہیں گزرا۔ ’ تہذیبوں کا تصادم ‘ بھی پوری شد ومد سے جاری ہے۔ نام نہاد اور مسخ شدہ مزدور ریاست کی قبر کی مٹی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی۔ سرمایہ داری کی فتح کے جشن کی شہنائیوں کی گونج بھی ابھی تک سنائی دیتی ہے مگراب ان شہنائیوں کی گونج اچانک سسکیوں، زاریوں اورقابلِ رحم فریادوں کی قوالی میں تبدیل ہونا شروع ہو گئی ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ قوال بھی نرے بے سرے ہیں۔ سرمایہ داری کی حتمی فتح کے عملی ’ لائسنس ‘ کی حیثیت رکھنے والی یورپی یونین کا نوحہ بالخصوص برطانیہ اور عموماً اکثریتی یورپ کے کوچہ و بازار میں صبح و شام باآوازِ بلند پڑھا جا رہا ہے۔ افسر شاہانہ سوشلزم سے سرمایہ داری کی طرف کامیاب ’لانگ مارچ ‘ کرنے والے چین کا چراغ گل ہونے کے قریب قریب پہنچ چکا ہے۔ سوویت یونین کے انہدام اور دیوارِ برلن کے گرنے کے بعد عالمی ذرائع ابلاغ میں جھوٹ اتنی فنکاری اور فراخدلی سے بولے گئے کہ سچ لگنا شروع ہو گئے تھے۔ بلکہ اس سے قبل سرد جنگ اور بالشویک انقلاب کے بارے میں کئے گئے تمام تر غلیظ اور مکروہ پراپیگنڈے کو بھی معتبر جواز میسر آ گئے تھے۔ مگر اب یہ سارا عمل اپنی نفی میں بدل کر اپنے کرتا دھرتا خواتین و حضرات کے لئے وبالِ جان بن گیا ہے۔
تازہ اور تندو تیز ہوا کے جھونکوں نے تاریخ کے میلے کچیلے اوراق کی گرد صاف کر دی ہے اور بہت سے مبہم اور ’مشکوک‘ حقائق اب ماضی کے مقفل کواڑوں کو دولخت کرتے ہوئے نسلِ نو کے سامنے سر تا پا برہنہ نیم دراز ہیں۔ گزشتہ صدی کے کاسہ لیس درباری ادیبوں، پیشہ ور’سرکاری‘ مورخین اور نیم مارکسی دانشوروں کے بے دریغ قاتلانہ حملوں سے بچ بچا کر اہم تاریخی مواد حالیہ واقعات کی مصدقہ گواہیوں کے ساتھ ایک تازہ دم نئی نسل کی نمائندہ فکر ی اور عملی تحریک کا حصہ بن چکا ہے۔ اپنوں اور پراؤں کے خنجر و دشنام سے یکساں گھائل ہونے والا بیسویں صدی کا سب سے بڑا سیاسی شہید لیون ٹراٹسکی اس تاریخی مواد کے ملبے سے سرخرو بر آمد ہوا ہے۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ جب ٹراٹسکی کے متعصب ترین دشمن اس سرخرو بر آمدگی کا چار و ناچار پرچار کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں تو اس کے سیاسی پرچم کو عالمی افق پر سربلند کرنے والے آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں۔ ٹراٹسکی کا اپنا پیش کردہ تناظر ’قیادت کا بحران‘ المناک حد تک حاوی دانش کا مضحکہ اڑا رہا ہے۔
Last Photograph of Leon Trotsky after Assasinationسٹالن اور اس کے حواری با اعتماد تھے کہ ٹراٹسکی کوقتل کر کے وہ اپنے جرائم پر پردہ ڈال دیں گے مگر تاریخ کا سب سے بڑا سبق یہی ہے کہ سچے نظریات کو کبھی قتل نہیں کیا جا سکتا۔ آج ٹراٹسکی کا نام اور اس کا کام پھر عوامی مباحثوں کا حصہ بننا شروع ہو گیاہے۔ مثال کے طور پر برطانوی لیبر پارٹی میں جاری خانہ جنگی میں دایاں بازو پارٹی کے منتخب قائد جیرمی کاربن پر ٹراٹسکائیٹ ہونے کا الزام لگا رہا ہے۔ جیرمی کاربن کو بدنام کرنے کے لئے بورژوا میڈیا پر اس قسم کے الزامات کی بوچھاڑ کی جا رہی ہے مگراس کیمپین کے الٹ نتائج برآمد ہو رہے ہیں۔ اس وقت ہزاروں نہیں لاکھوں نوجوان جیرمی کے گرد ایک متبادل اور مختلف زندگی کا خواب آنکھوں میں سجائے متحرک ہو رہے ہیں۔ ان کے علاوہ کروڑوں لوگ جو ابھی تک اس تحریک میں سرگرم نہیں ہیں، وہ بھی ان تمام تر مباحثوں کو بہت دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں۔ بالخصوص محنت کش طبقے کی لڑاکا پرتیں بخوبی جانتی ہیں کہ یہ ان کے لئے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ برطانیہ کے باہر نہ صرف یورپ بلکہ دنیا بھر کی مزدور تحریک ان انقلابی لہروں کا ارتعاش محسوس کر رہی ہے۔ ہم مارکسی جانتے ہیں کہ کاربن کوئی مارکس وادی نہیں ہے لیکن اس وقت یہ سوال کہ ’کیا کاربن واقعی ٹراٹسکائیٹ ہے؟ ‘جو خود بورژوا میڈیا کے ذریعے اچھالا جا رہا ہے وسیع تر عوامی حلقوں کی توجہ کا مرکز بنتا جا رہا ہے۔ عوامی امنگوں اور محنت کش طبقے کی سیاست کے محور کی حیثیت رکھنے والے جیرمی کاربن پر ٹراٹسکائیٹ ہونے کا الزام عائد کر کے بورژوازی کے سنجیدہ پالیسی ساز خود اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ وہ ٹراٹسکی کے نام اور نظریات سے ابھی تک خوفزدہ ہیں۔ لیون ٹراٹسکی جیسے مردودِ حرم، جو خود مارکسی تحریک میں بھی شجرِ ممنوعہ کی حیثیت رکھتا تھا، کامحنت کش طبقے کے حقیقی نمائندے کے طور پر دوبارہ زیرِ بحث آنا عوامی سطح پرٹراٹسکائیٹ تحریک کے احیاء کی طرف اہم پیشرفت ہے۔
Leon Trotsky, head of the Red Army, addressed the Red Guard in 1918 during the Russian Civil Warلیون ٹراٹسکی کی سیاسی زندگی کو تین ادوار میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اول دور تو وہ ہے جب ٹراٹسکی نے زارِ روس کی ریاستی مشینری کے خلاف انقلابی تحریک میں سرگرم شمولیت کی اور اس تحریک کو نظریاتی بنیادیں فراہم کرتے ہوئے اسے کامیابی سے ہمکنار کیا اورزار کے پسماندہ روس میں سوشلسٹ انقلاب برپا کر دیا۔ دوم اس مزدور ریاست کے اندر اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو استعمال کرتے ہوئے مختلف اور اہم ترین ریاستی امور سرانجام دیئے، چار اہم ترین وزارتیں سنبھالیں اور سرخ فوج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے کارہائے نمایاں سرانجام دیئے۔ اور سب سے آخری دور وہ ہے جب مزدور ریاست معروض کے بے رحمانہ جبر اور محنت کش طبقے کی تھکاوٹ زدہ پسپائی کی وجہ سے جوزف اسٹالن کی قیادت میں افسر شاہانہ زوال پذیری کی طرف مائل ہو گئی تو ٹراٹسکی نے تمام تر آسائشوں، عہدوں اور مرتبوں کو ٹھوکر مار کر اور تمام ممکنہ مشکلات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اس ردِ انقلابی یلغار کے مدمقابل تاریخ کے اس عظیم ترین انقلاب کا نظریاتی اور عملی دفاع کرنے کا فیصلہ کیا اور مرتے دم تک اس فیصلے پر کاربند رہا۔ اس دور میں ٹراٹسکی نے دو طرفہ لڑائی لڑی۔ وہ ایک طرف جہا ں سٹالنسٹ موقع پرستی اور مہم جوئی کو بے نقاب کرتا رہا وہیں وہ سرمایہ دارانہ نظام کے رکھوالوں اور بورژوا سیاسی و معاشی ناقدین کی طرف سے اس مسخ شدہ مزدور ریاست پر کئے جانے والے حملوں کے خلاف نبرد آزما رہا۔ اسی دور میں اس کے بیوی بچوں سمیت تقریباً سارے ہی خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ خودٹراٹسکی کو جلا وطن ہونا پڑا اور زندگی کی وہ تمام مشکلات اور دکھ برداشت کرنے پڑے جن کا کوئی بھی شخص محض تصور ہی کر سکتا ہے۔
اگر بغور مشاہدہ کیا جائے تو ٹراٹسکی کی سیاسی زندگی کو تمام تر سیاسی تاریخ میں ایک اہم ترین اور منفرد مقام حاصل ہے جو کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز سمیت کسی بھی دوسرے انقلابی استاد کے حصے میں نہیں آیا۔ زیادہ تر انقلابی رہنما ٹراٹسکی کی سیاسی زندگی کے پہلے دور تک ہی محدود رہے اور وہ اپنی زندگی میں کسی کامیاب انقلاب کی قیادت کا شرف حاصل نہ کر سکے۔ کارل کاؤتسکی، پلیخانوف اور ان جیسے کئی نامور مارکسی استاد تو دیو ہیکل واقعات کے سامنے ڈھیر ہو کر تبدیل شدہ معروض کے ہاتھوں سیاسی طور پر جاں بحق ہو گئے۔ مگر روزا لکسمبرگ، کارل لیبنیخت، بھگت سنگھ، لوممبااور ایران، چین، انڈونیشیا، چلی، پاکستان سمیت دنیا بھر کے دیگر بے شمار انقلابی قائدین اور کارکن اس راہ میں شہید ہو گئے۔ جوزف سٹالن اور کسی حد تک ماؤ زے تنگ اور ان کے ہمنواؤں کو ٹراٹسکی کی سیاسی زندگی کے دوسرے مرحلے کا تجربہ ہوا مگر وہ نظریاتی بے راہروی کا شکار ہو کر سوشلسٹ انقلاب کی عالمگیریت کے منحرف ہو گئے اور دنیا بھر کی مزدور تحریکوں کو زائل کرنے کا سبب بنے۔ کیوبا اور افغانستان میں بھی انقلاب کے کامیاب تجربات ہوئے مگر افغانستان کے انقلاب کی تقریباً ساری قیادت سوویت بیوروکریسی یا امریکی سامراج کی براہِ راست فوجی اور سفارتی مداخلتوں کی بھینٹ چڑھ گئی۔ کیوبا کا انقلاب بھی آہستہ آہستہ پسپائی اختیار کرتا گیا اورفیڈل کاسترو اور اس کے ساتھی کوئی سنجیدہ مزاحمت نہ کر سکے۔
چے گویرا نے انقلاب کو پھیلانے کی سنجیدہ کوششیں کیں اور جراتمندی سے آخری سانس تک سامراجیوں کے خلاف برسرِ پیکار رہامگر وہ مسلح جدوجہد کے غلط طریقہ کار کی وجہ سے ناکامی سے دوچار ہوااور مارکسی نظریات کے عظیم ورثے میں کوئی اہم اضافہ نہ کر سکا۔ یوں ٹراٹسکی کی زندگی کا تیسرا دور محض اسی کے نام سے منسوب ہے۔ کچھ لوگ ماضی کی مذہبی تحریکوں سے اس کی کچھ مشابہتیں کریدنے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں مگر ایسی کوئی بھی کوشش ہلکی سی بھی سائنسی اور غیر جانبدارانہ جانچ پھٹک برداشت نہیں کر پاتی۔ عملاً ٹراٹسکی ہی وہ واحد شخص ہے جو اپنی ہی تخلیق کردہ مزدور ریاست کی زوال پذیری کے خلاف لڑا اور وہ عظیم نظریاتی ورثہ بھی تخلیق کر گیا جو دنیا بھر کے انقلابیوں کی موجودہ اور آئندہ نسلوں کے لئے ہمیشہ مشعلِ راہ رہے گا۔ ٹراٹسکی کے بدترین دشمن، معذرت خواہان اور متعصب ناقدین سب مل کر بھی ٹراٹسکی سے اس کا یہ مقام کبھی نہیں چھین سکتے۔ علمِ تاریخ کے سچے طالبِ علموں اور سماج کی انقلابی تبدیلی کے مخلص سپاہیوں کے لئے ٹراٹسکی کی سیاسی انفرادیت اور علمی فوقیت سے انکار سیاسی اور نظریاتی کفر اور مرتدیت کا درجہ رکھتا ہے۔
leon trotsky reading militantٹراٹسکی کے آ خری ایام میں ایک بار اس سے کسی نے پوچھا تھا کہ اپنی سیاسی جدوجہد کے ان تینوں ادوار میں سے اسے خود کونسا دور پسند ہے تو اس کا جواب حیران کن تھا۔ اس نے کہا کہ اس کی زندگی کا آخری دور بہت اہم ہے اور وہ اسے بہت پسند کرتا ہے۔ اس جواب کے حیران کن ہونے کی بہت ساری وجوہات ہیں۔ عام طور پر زیادہ تر لوگ (سیاسی یا غیر سیاسی سب) اس سوال کا جواب اپنے بچپن یا لڑکپن کے دور کے حق میں دیتے ہیں کیونکہ عموماً عمر کے اس حصے کو بے فکری اور عدم ذمہ داری سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ٹراٹسکی اپنی خود نوشت کے پہلے صفحے پر ہی اس خیال کی تردید کر دیتا ہے اور انسانی زندگی کے کسی بھی دور کے طبقاتی کردار کی وضاحت کرتا ہے۔ زیادہ تر انقلابی اپنی جوانی کے ان برسوں کو ہمیشہ رشک اور حسرت سے یاد کرتے ہیں جب وہ طلبا اور محنت کشوں کی ہڑتالوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ کیونکہ جوانی توانائی سے بھرپور ہوتی ہے اور انقلابیوں کی عمر کا یہ حصہ خاص طور پر چاشنی، مہم جوئی اور سرکشی سے معمور ہوتا ہے۔ کچھ کم ظرف اور چھچھورے خود ساختہ انقلابی تو اپنی زندگی کا آخری دور اپنی جوانی کی کارگزاریوں کو یاد کرنے اور بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے نوجوان انقلابیوں کو مرعوب کر کے خوشامد، سستی شہرت اور مصنوعی تحسین کے حصول کے لئے ہی وقف کر دیتے ہیں۔
پھر ٹراٹسکی کو تو سرخ فوج کی قیادت اور دیگر اہم خدمات سر انجام دینے کا موقع ملا جو بہت ہی کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ان تمام معاملات کے باوجود ٹراٹسکی کو اپنی زندگی کا آخری دور پسند تھا جب وہ کافی حد تک بوڑھا ہو رہا تھا۔ مگر اس پسندیدگی کی سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ وہ خود کو نظریاتی طور پر اتنا جوان اور توانا محسوس کرتا تھا جتنا کہ وہ ماضی میں کبھی بھی نہیں تھا۔ ہر زخم، ہر وار اور ہر قربانی نے اسے پہلے سے زیادہ مضبوط اور چوکنا کر دیا تھا۔ لالچ، خود نمائی، مصالحت اور اقربا پروری جیسی بیماریوں کی اس عظیم دماغ میں قطعاً کوئی گنجائش ہی نہیں تھی۔ اقدار کی بلندی، ثقافتی معیار، اعصابی مضبوطی اور نفسیاتی برتری کے امتزاج نے حقیقتاً اسے آنے والی نسلوں کے لئے ایک قابلِ تقلید ماڈل انسان بنا دیاتھا۔ گفتار اور کردار کی عظمت نے اس کی تحریرو تقریر کو وہ کشش اور تاثیر عطا کی جو پڑھنے اور سننے والوں کو متوجہ اور ہمہ تن گوش کرنے کے لئے درکار ہوتی ہے۔ منور رانا کا یہ شعر لیون ٹراٹسکی کی کیا خوب تصویر کھینچتا ہے کہ

تقریر ہو تو ایسی کہ دشمن بھی داد دے
تحریر ایسی ہو کہ اضافہ کہیں جسے

وہ کوئی پیٹی بورژوا رومانوی کردار نہیں تھا جو حال کی دشواریوں اور وقتی مصائب سے فرار حاصل کرنے کے لئے ماضی کی یادوں اور خیالی آماجگاہوں میں پناہ حاصل کرتا۔ اور نہ ہی وہ کوئی خوش فہم خیال پرست تھا جو اپنی مبالغہ آمیز جادوئی صلاحیتوں سے وقت اور تاریخ کا نقشہ ہی تبدیل کر دینے کا خواہشمند ہوتا۔ اس کے برعکس وہ ایک حقیقت پسند اور سچا ماہرِ جدلیات تھا جو زندگی کے ہر لمحے کے بطن میں جھانک کر حقیقی خوشی کا جوہر کشید کر سکتا تھا۔ وہ اپنی زندگی کے پسندیدہ تیسرے دور میں بھی عہد کے عمومی کردار سے مکمل طور پر واقف تھا۔ اس نے خود لکھا کہ ’’رجعتی ادوار بیک وقت نظریاتی تنزلی کے ادوار بھی ہوتے ہیں۔ رجعتیت کے عہد میں جراتمند انقلابی سوچ بھی صرف مستقبل کی بنیادیں استوار کرتی ہے، مستقبل کا تناظر تخلیق کرتی ہے اور وہ بھی محض مختصر سی ہراول پرت کے شعور میں۔ تاہم یہ براہِ راست عملی طور پر لاگو نہیں کی جا سکتی‘‘اسی سائنسی بصیرت اور غیر معمولی فہم و فراست کے بلبوتے پر وہ حالات کے دھارے کے خلاف کھڑا ہو ا اور مستقبل کی تشکیل و ترویج کے لئے چوتھی انٹرنیشنل کے قیام کی شکل میں وہ بنیادیں استوار کر گیا جس پر آئندہ نسلیں ایک انقلابی عہدمیں نیا اور حقیقی انسانی معاشرہ تعمیر کریں گی۔ اس عہد کی آہٹ حالیہ تاریخ کی ہر پگڈنڈی پر محسوس کی جا سکتی ہے۔
Trotsky's Stalinلیون ٹراٹسکی کا یہ 76 واں یومِ شہادت اس لئے بھی بے پناہ اہمیت کا حامل ہے کہ اس بار ٹراٹسکی کی آخری تحریر ’’سٹالن‘‘ بھی پہلی دفعہ مکمل ترین شکل میں چھپ کر منظر عام پر آ چکی ہے۔ ٹراٹسکی کی اس کتاب کو بلاشبہ نہ صرف ٹراٹسکی کی زندگی بلکہ اس سارے انقلابی عمل اور اس عمل کے تمام تر تجربات کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے۔ کامریڈ ایلن ووڈز اور اس کتاب کی اشاعت کے کام میں شامل تمام تر ٹیم بالخصوص اور عالمی مزدور تحریک سے وابستہ تمام تر انقلابی کارکن بالعموم اس عظیم کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔30 سال کی سخت محنت اور جان توڑ کوششوں کے بعد بالآخر ہم یہ اہم تاریخی فریضہ سرا نجام دے پائے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد کسی بھی زبان میں چھپنے والی تمام کتابوں کی فہرست میں یہ کتاب بلاشبہ سب سے زیادہ اہم تاریخی دستاویز ہے۔ یہ کتاب ان تمام تاریخی اسباق کا خلاصہ ہے جن کے بغیر کوئی بھی حقیقی انقلابی کیڈر بڑے واقعات میں درست مداخلت کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کر سکتا۔ اس لئے بے حد وثوق سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب عالمی مزدور تحریک میں ٹراٹسکی کے نظریات کے فروغ اور احیاء میں کلیدی کردار ادا کرے گی۔

Comments are closed.