پاکستان: ڈوبتی معیشت، ظالم حکمران اور سلگتی عوام!

|تحریر: زین العابدین|

مثبت رپورٹنگ کے احکامات کے باوجود ’’لاڈلے‘‘ کی حکومت کی بچی کھچی حمایت بھی تیزی سے گر چکی ہے۔تبدیلی کا ڈھول پھٹ کر ناکارہ ہوچکاہے اور بجانے والوں کا ہی منہ چڑا رہا ہے۔ گہرے ہوتے معاشی بحران کا تمام تر بوجھ عام عوام پر ڈالنے کے بعد اب عوام کی ہڈیوں سے گودا تک نچوڑ لینے کی تیاریاں کی جار ہی ہیں۔ قرض لینے کی بجائے خود کشی کرنے کے دعوے کر نے والے اب آئی ایم ایف کے در پر ناک سے لکیریں کھینچ رہے ہیں مگر ابھی تک آئی ایم ایف کو رام نہیں کیا جاسکا۔ احتساب کی ڈگڈگی زور و شور سے بجائی جارہی ہے مگر معیشت اس کی ڈگڈگی پر ناچنے سے انکاری ہے۔ معاشی سرگرمیاں کم و بیش ماند پڑچکی ہیں اور کاروباری حضرات سخت اضطرابی کیفیت میں مبتلا شکایت کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ حکمران طبقے اور ریاست کے مختلف دھڑوں کے مابین جاری خانہ جنگی میں نواز شریف کو ایک بار پھر جیل بھیج دیا گیا اور زرداری اینڈ کمپنی کے نام ای سی ایل میں ڈال دیے گئے ہیں جس کے خلاف ن لیگ اور پیپلز پارٹی چائے کی پیالی میں بھی طوفان برپا کرنے کا قابل نہیں۔ عالمی اور خطے کی بدلتی صورتحال بھی پاکستان پر تیزی سے اثرات مرتب کررہی ہے۔ ٹرمپ کے افغانستان سے فوجوں کے انخلاکا عندیہ دیے جانے کے بعد سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں اور خطے میں طاقت کا توازن بھی تیزی سے تبدیل ہورہا ہے۔ ان حالات میں جہاں حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں کی آپسی لڑائیاں شدید ہو کر کنٹرول سے باہر ہوسکتی ہیں وہیں ان کی بنیاد میں کارفرما دیوالیہ ہوتی معیشت ان تضادات کو مزید ابھارے گی۔ آئی ایم ایف کے احکامات کی تعمیل میں اٹھائے جانے والے عوام دشمن اقدامات پاکستان میں بھی YellowVestطرز کی عوامی تحریکوں کو پھاڑنے میں عمل انگیز کا کردار ادا کریں گے۔

معیشت کی تباہی

پاکستان کی پہلے سے نحیف اور لاغر معیشت مزید بحران میں دھنستی دکھائی دے رہی ہے۔ سعودی عرب سے ملنے والے 6ارب ڈالر وں سے بیرونی اکاؤنٹ کو تنکے کا سہارا تو ملا ہے مگر یہ دیرپا ہرگز نہیں۔ اس امداد جس کا میڈیا میں خوب چرچا کیا گیا اور جس کو تبدیلی سرکار نے سفارتی محاذ پر اپنی بڑی کامیابی ثابت کرنے کی کوشش کی، پاکستان کی معیشت کو درکار جس بڑے ٹیکے کی ضرورت ہے اس کے سامنے کچھ بھی نہیں۔ مگر یہ قصہ بھی بعد میں کھلا کہ یہ سعودی امداد درحقیقت امداد نہیں بلکہ 3.4فیصد شرح سود پر حاصل کیا گیا قرض ہے۔ اسی طرح عرب امارات سے بھی امدادی پیکیج کا اعلان کیا چاجکا ہے مگر بحران جس قدر شدید ہے وہ ان ٹوٹکوں سے حل نہیں کیا جاسکتا۔ تمام تر حکومتی تردیدوں کے باوجود آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ناگزیر ٹھہر چکا ہے۔مگر امریکی ناراضگی کے سبب اس بار آئی ایم ایف کی جانب سے کڑی شرائط کا سامنا ہے جن کی تکمیل کی صورت میں خود وزیر خزانہ اسد عمر کے بقول تحریک انصاف حکومت کے لیے سیاسی طور پر کڑے نتائج ہوں گے۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے بعد پاکستان کی جانب سے شرائط کی تکمیل کے حوالے سے دستاویز آئی ایم ایف کو بھیج دی گئی ہے۔ مگر تاحال کوئی اتفاق رائے طے نہیں پاسکا۔ آئی ایم ایف کی جانب سے رکھی جانے والی شرائط پر عمل کی صورت میں آنے والے عوامی ردعمل سے تبدیلی سرکار خوف کا شکار ہے مگر سرمایہ داری کے آہنی تقاضوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑیں گے۔ اسی تسلسل میں جنوری میں ایک اور منی بجٹ لانے کی تیاریاں کی جارہی ہیں تاکہ آئی ایم ایف کی شرائط کو عملی جامہ پہنایا جاسکے۔


تمام تر حکومتی تردیدوں کے باوجود آئی ایم ایف سے قرض کا حصول ناگزیر ٹھہر چکا ہے۔مگر امریکی ناراضگی کے سبب اس بار آئی ایم ایف کی جانب سے کڑی شرائط کا سامنا ہے جن کی تکمیل کی صورت میں خود وزیر خزانہ اسد عمر کے بقول تحریک انصاف حکومت کے لیے سیاسی طور پر کڑے نتائج ہوں گے

آئی ایم ایف کی جانب سے رکھی جانے والی شرائط میں پہلی بجٹ خسارے میں کمی ہے جس کے لیے یہ مطالبہ کیا جارہا ہے کہ پاکستانی ریاست اپنے موجودہ اخراجات میں 16سو ارب سے 2ہزار ارب روپے تک کی کٹوتی کرے۔ اس شرط کو پورا کرنے کے دو راستے ہیں یا تو ترقیاتی بجٹ میں مزید کٹوتی کی جائے یا دفاعی اخراجات میں۔ ڈان لکھتا ہے کہ اس مطالبے نے انصاف حکومت کو عجیب سی صورتحال میں لاکھڑا کیا ہے کہ وہ جرنیلوں سے تنخواہوں میں کمی کا مطالبہ کریں۔ تحریک انصاف حکومت نے اقتدار میں آتے ہی جو پہلا بجٹ پیش کیا اس میں پچھلے بجٹ کے مقابلے میں ترقیاتی اخراجات میں 40فیصد کی کٹوتی کی گئی اور اب مزید کٹوتی کا مطلب ترقیاتی بجٹ کو عملی طور پر ختم کرنے کے مترادف ہے ۔ ترقیاتی بجٹ بند ہونے سے بجٹ خسارے میں تو کمی ہوسکتی ہے مگر اس سے کاروبار پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے اور معیشت مزید سست روی کا شکار ہونے کی جانب جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اگر ترقیاتی منصوبے ہی بند ہوجائیں گے تو ان سے منسلک کمپنیاں بند ہونے کی طرف جائیں گی اور بیروزگاری میں مزید اضافہ ہوگا۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ کوئی نیا اسپتال، سکول، کالج، یونیورسٹی، سڑک اور دیگر انفراسٹرکچر نہیں بن سکے گا۔پہلے ہی ٹھیکیدار اس حکومت سے نالاں دکھائی دیتے ہیں اور بیوروکریسی کی دم پر بھی پاؤں آ چکا ہے۔
مگر آئی ایم ایف کی جانب سے جس بڑی کٹوتی کا مطالبہ کیا جارہاہے وہ ترقیاتی بجٹ کو بند کرکے بھی پورا کرنا مشکل ہے اور جس کے لیے ناگزیر طور پر ریڈلائن کراس کرکے دفاعی بجٹ کی جانب دیکھنا ہوگا۔ اس کے دور رس اثرات ہوں گے اور حکمران طبقے آپس میں دست و گریباں ہوسکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ این ایف سی ایوارڈ کے تحت وفاق سے صوبوں کے ملنے والا حصہ بھی روکا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف سرکاری شرح سود 13سے 14فیصد تک بڑھانے کے مطالبہ کر رہاہے۔ اس سے قبل صرف رواں سال میں ہی شرح سود میں 4.75فیصد اضافہ کیا جاچکا ہے اور اس وقت پاکستان میں شرح سودایشیا میں سب سے زیادہ 10.5فیصد پر کھڑی ہے۔شرح سود میں اضافے کا مقصد افراطِ زر کو کنٹرول میں رکھنا ہے مگر اس کے پہلے سے بند ہوتے کاروباروں پر برے اثرات مرتب ہوں گے اور سرمایہ کاروں کے لیے قرض کا حصول مزید مہنگا ہوجائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ حکومت کو بھی اپنے اخراجات کے لیے کمرشل بینکوں سے بلند شرح سود پر قرض حاصل کرنا پڑے گا جو ریاستی اخراجات میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔ 

آئی ایم ایف کی جانب سے ایک اور مطالبہ روپے کی قدر کو مارکیٹ کی قوتوں پرآزادانہ چھوڑنا ہے جس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ اگر ایسا کیا جاتا ہے تو ڈالر کے مقابلے میں ایک روپیہ ڈیڑھ سو روپے سے بھی کہیں اوپر جاسکتا ہے۔ اس سے قوت خرید مزید سکڑنے اور مہنگائی میں ناقابل یقین اضافہ ہونے کی طرف جائے گا۔ اس سے قبل رواں ماہ کے آغاز میں روپے کی قدر میں بڑے پیمانے کی کمی گئی تھی جس روپیہ ڈالر کے مقابلے میں 144روپے پر جاکھڑا ہوا اور جس کے نتیجے میں سٹاک مارکیٹ کریش کر گئی۔رواں ماہ کے آغاز میں امسال پانچویں بار روپے کی قدر میں کمی کی گئی اور روپیہ سال2018ء میں اپنی 25فیصد قدر کھوچکا ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر کا کہنا ہے کہ پچھلی حکومت نے مصنوعی طور پر روپے کی قیمت کو اصل قدر سے زیادہ پر برقرار رکھا جس کی وجہ سے برآمدات پر برے اثرات مرتب ہوئے۔ برآمدات کو بڑھانے کی غرض سے یہ کڑوا گھونٹ پینا ضروری ہے۔ مگر حقیقت اس سے الٹ ہے۔ اس وقت معاشی بحران کے باعث عالمی تجارت سست روی کا شکار ہے۔ رہی سہی کسر امریکہ چین تجارتی جنگ نے پوری کردی ہے۔ معاشی سست روی کے باعث چین کی برآمدات میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ ایسے میں پاکستان جیسی پسماندہ صنعت کیسے عالمی منڈی میں مقابلہ کرتے ہوئے برآمدات میں اضافہ کرسکتی ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ٹیکسٹائل تھی جس میں مسلسل کمی واقع ہورہی ہے ۔ یہاں تک کہ پاکستانی منڈی میں سستا ہونے کی وجہ سے چینی کپڑا و دیگر اشیا بڑے پیمانے پربک رہی ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی صنعت خام مال بڑی مقدار میں درآمد کرتی ہے۔ روپے کی قدر میں کمی درآمدی بل میں مزید اضافہ ہوگا جس کی وجہ سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ مزید بڑھنے کی طرف جائے گا۔ مزید برآں روپے کی قدر میں کمی سے بیرونی قرضوں کے حجم میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ مزید کمی سے قرضوں کا حجم مزید بڑھنے کی طرف جائے گا۔ روپے کی قدر کی بابت پائی جانے والی ناقابل یقینی کیفیت کے کاروباری سرگرمیوں کو بھی متاثر کیا ہے اور قدر کی بابت Speculation کے باعث تجارتی شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے۔ فاریکس ٹریڈنگ ایسوسی ایشن کے مطابق روپے کی قدر میں اتار چڑھاؤ کے باعث 70فیصد کرنسی ایکسچینج کاروبار ختم ہوکر رہ گیا ہے۔ایسے دیگر بہت سے اثرات سے واضح ہوتا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے برآمدات کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا جبکہ معیشت مزید تباہی کی جانب گامزن ہے۔

مہنگائی اور ٹیکسوں کاطوفان

روپے کی قدر میں کمی سے افراطِ زر میں ہوشربا اضافہ ہوا ہے اور آٹے، دال اور سبزیوں سے لے کر روزمرہ استعمال کی تمام اشیا کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور عوام بلبلا اٹھے ہیں۔ محنت کش عوام کی قوت خرید میں بڑے پیمانے پر کمی ہوئی ہے۔ مگر اس کے مقابلے میں محنت کشوں کی اجرتوں اور تنخواہوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور تمام بوجھ عام عوام پر ڈال دیا گیا ہے۔ پہلے سے ہی انتہائی کم قوت خرید مزید سکڑ کر رہ گئی ہے۔ محنت کشوں کے لیے دو وقت کی روٹی پوری کرنا مشکل سے مشکل تر ہوچکاہے۔ ایسے میں تعلیم اور علاج عام عوام کی پہنچ سے باہر ہوگیا ہے۔ ساتھ ہی چند روز قبل بجلی کی قیمتوں میں مزید اضافے کی منظوری دے دی گئی ہے اور فی یونٹ بجلی کی قیمت میں 1.27روپے کا اضافہ کیا جارہا ہے۔ اس بیمار نظام کو چلانے کا یہی نسخہ ہے کہ محنت کش عوام کو زمین کے ساتھ لگا دیا جائے اور ان کا سانس لینا بھی ناممکن بنا دیا جائے۔ایک رپورٹ کے مطابق صرف دسمبر کے آغاز میں ہونے والی روپے کی قدر میں کمی سے مختلف اشیا کی قیمتوں میں 20فیصد اضافہ ہوچکا ہے۔ یہاں تک کہ بڑے شہروں کے ریسٹورنٹس اور شاپنگ مالز کا رخ کرنے والا درمیانہ طبقہ بھی چلا اٹھا ہے اور اپنے اخراجات میں کٹوتیوں پر مجبور ہے۔ ریسٹورنٹس کی آمدن میں کئی گنا کمی دیکھنے میںآئی ہے۔ایسے میں اگر آئی ایم ایف کے مطالبے پر روپے کی قدر میں مزید کمی کی جاتی ہے اور اس کو مارکیٹ کی قوتوں پر آزادانہ چھوڑا جاتا ہے تو مہنگائی کا ناقابل تصور طوفان آئے گا اور محنت کش عوام کے کے لیے زندگی کی ڈور کو قائم رکھنا دوبھر ہوگا۔ ایسے میں ان کے ہاتھ بڑے بڑے عالیشان محلوں میں رہنے والے سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سیاستدانوں کے گریبانوں کی جانب بڑھیں گے جن کی محنت کے استحصال کی بدولت ان کی عیاشیاں قائم و دائم ہیں۔

آنے والے مجوزہ منی بجٹ میں ریونیو بڑھانے اور خسارے کو کم کرنے کی خاطر 150ارب روپے سے زائد کے نئے ٹیکس لاگو کرنے کے لیے چھریاں تیز کی جاچکی ہیں۔ اس ضمن میں پچھلے بجٹ میں سرکاری ملازمین کو دی گئی 50فیصد ٹیکس چھوٹ کو ختم کیا جارہا ہے جس سے قوت خرید مزید سکڑنے کی طرف جائے گی۔ مزید برآں پٹرولیم مصنوعات پر جنرل سیلز ٹیکس میں اضافے کی تجویز بھی ہے جبکہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں مسلسل کمی کا شکار ہیں۔ ساتھ ہی موبائل کارڈز پر ختم کیے گئے ٹیکس کو دوبارہ لاگو کرنے کی طرف جائیں گے جس ضمن میں سپریم کورٹ سے رجوع کرنے کی تیاری کی جارہی ہے۔ درآمدات پرریگولیٹری ڈیوٹی میں مزید ایک فیصد اضافے کی بھی تجویز ہے جس کی باعث درآمدات مزید مہنگی ہونے کی طرف جائیں گی۔ پہلے ہی بالواسطہ ٹیکسوں نے غریب عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ ایسے میں نئے ٹیکسوں کا نفاذ اونٹ کی کمر پر آخری تنکا ثابت ہوسکتا ہے۔ ڈان میں چھپنے والی ایک خبر کے مطابق رواں مالی سال میں ایف بی آر کی جانب سے 3ہزار سے زائد انتہائی امیر افراد کو ٹیکس نوٹس جاری کیے گئے ۔ خبر میں بتایا گیا کہ محض 220افراد نے ان ٹیکس نوٹسوں کا جواب دیا۔ باقی امرا نے تو جواب دینا بھی گوارا نہیں کیا۔ یہ ان لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو یہ کہتے نہیں تھکتے کہ عوام ٹیکس نہیں دیتے۔ سرکار کی جانب سے اکٹھے کیے جانے والے ریونیو کا ایک بڑا حصہ بالواسطہ ٹیکسوں کی شکل میں ہے جس کا نشانہ غریب عوام بنتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں سرمایہ دار اور جاگیر دار جی کھول کر ٹیکس چوری کرتے ہیں۔ یہ حقیقت اس ریاست کے خصی پن کا اظہار ہے اور جس کا بوجھ محنت کش عوام پر ڈال دیا جاتاہے۔ بڑے بڑے سرمایہ داروں اور جاگیر داروں پر ٹیکس لگانے کی بجائے تحریک انصاف کی سرمایہ دار نواز حکومت نے اقتدار میں آتے ہی کارپوریٹ ٹیکس میں ایک فیصد کی کمی کرتے ہوئے 29فیصد کردیا۔ ساتھ ہی ساتھ کالے دھن کو سفید کرنے کے لیے بھی ان سرمایہ داروں کے لیے ایمنسٹی سکیمیں لانچ کی جاتی ہیں۔ یہ واضح کرتا ہے کہ تبدیلی کا راگ الاپنے اور انصاف کا نعرہ بلند کرنے والی یہ حکومت بھی سرمایہ داروں کے مفادات کی محافظ ہے۔

آئی ایم ایف کی شرائط تکمیل کے لیے گیس کمپنیوں نے اوگرا کو گیس کی قیمتوں میں مزیداضافے کی سمری بھیج دی ہے جس میں رواں سال کے 91ارب روپے کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے گیس اور ایل پی جی کے نرخوں میں مزید اضافے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اس سے قبل ماہ ستمبر میں انصاف حکومت نے گیس کے نرخوں میں 143فیصد اضافے کا اعلان کیا جس کے خلاف سخت عوامی ردعمل آیا جس کے بعد اس فیصلے کو واپس لے لیا گیا۔ جس کے بعد گھریلو صارفین کے لیے گیس نرخوں میں 10سے 20فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ مگر کمرشل اور صنعتی نرخوں میں 50فیصد سے زائد اضافے کو برقرار رکھا گیا جس کے بعد روٹی اور بیکری مصنوعات میں فوری اضافہ دیکھنے میں آیا اور ’عوام‘اس کی زد میں نہیں آئیں گے کا دعویٰ ہوا میں اڑ گیا۔ برآمدی صنعتوں کے لیے گیس کی قیمتیں برقرار رکھی گئیں تاکہ برآمداتی مقابلے بازی کو برقرار رکھا جا سکے۔ مگر اب صورتحال یہ ہے کہ کئی صنعتوں کو گیس کی قلت کا سامنا ہے اور کراچی میں سائٹ انڈسٹریل ایریا میں متعدد صنعتیں بند ہوچکی ہیں جس کے واضح اثرات برآمدات پر پڑیں گے اور حکومت کے برآمدات کو بڑھانے کے دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوں گے۔ لاکھوں گھریلو صارفین گیس کے بل ادا کرنے کے باوجود شدید سردی میں گیس سے محروم ہیں۔مگر تمام تر خسارے کا بوجھ پھر عوام پر ڈالاجارہا ہے۔ جہاں ایک طرف عام عوام کے لیے گیس نرخوں میں اضافہ کیا جارہا ہے وہیں حکومتی پارٹی سے تعلق رکھنے والے سرمایہ داروں کی صنعتوں کو گیس قیمت میں بڑی سبسڈی دی جارہی ہے جس میں جہانگیر ترین سرفہرست ہے۔ 

مزید برآں آمدن میں اضافے کے لیے جنوری میں پیش کیے جانے والے منی بجٹ میں بجلی کی قیمت میں مزید 20فیصد اضافہ متوقع ہے جس کے حوالے سے خبریں چھپ چکی ہیں۔ آئی ایم ایف کی جانب سے بجلی کے بلوں میں دی جانے والی سبسڈی کو مکمل ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا جارہا ہے تاکہ سرکلر ڈیٹ کو مزید بڑھنے سے روکا جا سکے۔ توانائی کے شعبے میں خسارے کا سارا بوجھ بھی عام عوام پر ڈلا جارہا ہے جو پہلے ہی بھاری بھر کم بجلی کے بلوں کے تلے دبے ہیں۔ جبکہ بڑے سرمایہ داروں، زمینداروں، بااثر افراد جو بڑے پیمانے پر بجلی چوری میں ملوث ہیں پر ہاتھ ڈالنے سے احتساب احتساب اور انصاف انصاف کی مالا جپنے والی حکومت کے پر جلتے ہیں۔یہکمزور اور نحیف حکومت اس قابل بھی نہیں کہ آئی پی پیز اور سی پیک میں لگنے والے توانائی منصوبوں کے عوام دشمن معاہدوں پر نظرثانی کی جسارت بھی کرسکیں۔

نجکاری کے حملے

جہاں ایک طرف حکومتی وزرا اور وزیر اعظم چیخ چیخ کر یہ بتاتے نہیں تھکتے کہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کی کوئی جلدی نہیں مگر ساتھ ہی آئی ایم ایف کے سامنے کشکول پھیلائے مزدور دشمن اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے سرگرداں ہیں۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں سب سے کڑی شرط عوامی اداروں کی نجکاری ہے جس کے لیے یہ اس حکومت نے کمر کس لی ہے۔ اس حوالے سے سب سے قبل یوٹیلٹی سٹورز کی نجکاری کی کوشش کی گئی جس کو یوٹیلٹی سٹور کے محنت کشوں نے بھرپور جواب دیتے ہوئے ناکام بنا دیا۔ اسلام آباد میں جاری یوٹیلٹی سٹور کے محنت کشوں کے نجکاری مخالف دھرنے پر اس مزدور دشمن حکومت نے پولیس چڑھا دی مگر ملازمین ڈٹے رہے جس کے بعد سرکار کو اپنا فیصلہ واپس لینا پڑا۔اسی طرح پی آئی اے میں مزدور یونین کی سرگرمی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اور اب پنجاب بھر کے ٹیچنگ ہسپتالوں کی نجکاری کا بل اسمبلی میں جمع کروا دیا گیا ہے۔ اس بل میں تمام ہسپتالوں کی نجکاری کر کے انہیں بورڈ آف گورنرز کے حوالے کر دیا جائے گا اور ان ہسپتالوں کے ڈاکٹروں، نرسوں، پیرا میڈیکس اور دیگر ملازمین کو بھی نجی سرمایہ کاروں کے حوالے کردیا جائے گا۔ حکومت کے اس عوام دشمن فیصلے سے بچا کھچا سستا علاج بھی عام عوام کی پہنچ سے باہر ہو جائے گا۔ علاج موجود ہونے کے باوجود پیسے نہ ہونے کے باعث غریب عوام کو ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا۔ مگر یہ سب اتنا آسان ہرگز نہیں ہوگا۔ اگر ان ہسپتالوں کے تمام ڈاکٹر ، نرسیں اور پیرا میڈیکس متحد ہوکر میدان عمل میںآئیں تو حکومت کے لیے اس اقدام کو عملی جامہ پہنانا ناممکن ہو جائے گا۔ یوٹیلٹی سٹورز کے محنت کشوں کی مثال ہمارے سامنے ہے۔لیکن تبدیلی سرکارکی جانب سے واپڈا، پی آئی اے، ریلوے، اسٹیل ملز اور دیگر اداروں کی نجکاری کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ تمام اداروں کے محنت کشوں کا اتحاد ہی اس حملے کو ناکام بنا سکتا ہے۔ ’’ایک کا دکھ، سب کا دکھ‘‘ کے نعرے تلے متحد ہوتے ہوئے ملک گیر عام ہڑتال ہی نجکاری پالیسی اور وزارت نجکاری کا خاتمہ کرسکتی ہے۔

بیروزگاری کا عفریت

اپنے انتخابی نعروں میں انصاف حکومت نے اقتدار میں آکر ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا تھا۔ مگر اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ ایک کروڑ نوکریاں دینے نہیں بلکہ لینے کا نعرہ تھا۔ ایک طرف نجکاری کے نتیجے میں لاکھوں محنت کشوں کو روزگار سے محروم کرنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں وہیں کاروباری مندی ، تجاوزات کے خلاف نام نہاد آپریشن اور دیگر ریاستی پالیسیوں سے پچھلے چند ماہ میں ہی لاکھوں لوگ روزگار سے محروم ہوچکے ہیں۔ پہلے تو اس خصی ریاست کا کوئی ایسا ادارہ ہی موجود نہیں جو ان اعدادوشمار کو اکٹھا کر سکے۔ ادارہ شماریات کے بیروزگاری کے اعدادوشمار کسی اور ہی سیارے کے اعدادوشمار معلوم ہوتے ہیں۔ چند ماہ قبل شاہین ائیر لائن، جو نجی شعبے میں سب سے بڑی ائیر لائن تھی، کے دیوالیہ نکل جانے کے باعث 3ہزار سے زائد ملازمین اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان ملازمین کی پچھلے کئی ماہ کی تنخواہیں تاحال واجب الادا ہیں جبکہ شاہین ائیر کے مالکان بیرون ملک فرار ہوگئے۔ ماہ دسمبر میں سامنے آنے والی بی بی سی اردو کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پچھلے صرف چند ماہ میں 20لاکھ سے زائد افراد بیروزگار ہوئے ہیں۔ بڑی تعداد میں صنعتیں بند ہوچکی ہیں۔ خاص طور پر فیصل آباد اور کراچی میں پاور لومز سیکٹرعملی طور پر بند ہوچکا ہے جس سے لاکھوں محنت کشوں کا روزگار منسلک تھا۔ پاور لومز کے بند ہونے کی سب سے بڑی وجہ چین سے آنے والی سستی ٹیکسٹائیل مصنوعات ہیں۔ چینی دھاگے سے لے کر تیار کپڑا پاکستانی مارکیٹوں میں فروخت ہورہا ہے جوکہ مقامی طور پر تیار کردہ کپڑے سے سستا اور معیاری ہے۔ رواں مالی سال میں ٹریکٹروں کی فروخت میں 70فیصد تک کمی واقع ہوئی ہے جس کے باعث ٹریکٹر بنانے والے دو پلانٹ بندش کے قریب ہیں اور سینکڑوں محنت کشوں کا روزگار داؤ پر ہے۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں کاریں بنانے والی کمپنی سوزوکی کی فروخت میں 40فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے اور اگلے سال سوزوکی پاکستان مہران کار بنانے کا پلانٹ بند کرنے کا اعلان کرچکی ہے اور سینکڑوں محنت کشوں کو جبری طور پر برطرف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ایک اور رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین ماہ میں آٹو انڈسٹری سے وابستہ 12سو محنت کش روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ آٹو انڈسٹری سے ہی وابستہ مزید 50ہزار روزگار خطرے میں ہیں۔

ساتھ ہی ساتھ ترقیاتی اور دیکھ بھال کے بجٹ میں کمی اور نئے ترقیاتی منصوبوں کے اجرا نہ ہونے سے لاکھوں افراد بیروزگار بیٹھے ہیں۔ ٹھیکیداروں کے ساتھ دیہاڑی پر کام کرنے والے ہزاروں مزدور کام نہ ملنے کے باعث بیروزگار ہوچکے ہیں۔ معاشی بحران کا بہانہ بناتے ہوئے بڑی تعداد میں میڈیا ورکرز کو جبری نوکریوں سے فارغ کیا جارہا ہے۔ پچھلے چند ماہ میں سینکڑوں میڈیا ورکرز کو نکال باہر کیا گیا جبکہ بیشتر ملازمین کی کئی کئی ماہ کی تنخواہیں واجب الادا ہیں ۔ کئی اخبارات اور ٹی وی چینلز بندش کے قریب ہیں۔ مگر میڈیا کی آزادی کا دم بھرنے والے کسی اینکر میں جرات نہیں ہوئی کہ اس حوالے کوئی پروگرام کرسکے نہ ہی الیکٹرانک میڈیا میں میڈیا ورکرز کے احتجاج کو کئی کوریج دی گئی۔ مگر چینلز مالکان کے منافعوں کو برقرار رکھنے کی خاطر سینکڑوں ملازمین کے چولہے ٹھنڈے کردیے گئے۔ یہی اس کارپوریٹ میڈیا کی آزادی کی حقیقت ہے جہاں چینلز مالکان کے اپنے منافعے بڑھانے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ان ملازمین کی سننے والا کوئی نہیں اور نہ ہی ان کی کہیں خبر آتی ہے۔ میڈیا ورکرز کا بد ترین استحصال جاری ہے اور لیبر قوانین کی دھجیاں اڑاتے ہوئے میڈیا مالکان مزدور دشمن اقدامات کر رہے ہیں۔ جنگ میڈیا گروپ سے پانچ سو سے زائد ملازمین کو نکال دیا گیا ہے جبکہ سما ء ٹی وی سے تین سو ملازمین کو نکالنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ وقت ٹی وی بند ہو چکا ہے جبکہ دیگر اداروں کی بھی ملتی جلتی صورتحال ہے۔

تجاوزات کے خلاف جاری مہم جس کا میڈیا میں خوب چرچا کیا گیا اور حکومت کی بڑی کامیابی بنا کر پیش کیا گیا، کے نتیجے میں سینکڑوں افراد متاثر ہوئے ہیں۔ حکومتی اعدادوشمار یہ تو بتاتے ہیں کہ کتنی زمین سے قبضہ چھڑوا لیا گیا مگر کتنے لوگوں کا روزگار تباہ ہوا اور کتنے چھوٹے کاروبار بند ہوئے، یہ اعدادوشمار حکومتی ترجیحات کا حصہ نہیں۔ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی صدر بازار اور گردونواح میں کیے گئے تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نتیجے میں ساڑھے 17ہزار افراد روزگار سے محروم ہوئے اور اگر ان سے جڑے اہل خانہ کا حساب لگایا جائے تو کل ملا کر ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ افراد ’’شہر کا حسن‘‘بحال کرنے کی زد میں آکر متاثر ہوئے۔مگر ڈیفنس ہاؤسنگ ، بحریہ ٹاؤنز اور دیگر بڑی گیٹڈ کمیونیٹیز جیسی ’Mega Encroachments‘ تاحال ناصرف قائم و دائم ہیں بلکہ پھل پھول رہی ہیں۔ غیر سرکاری اعدادوشمار کے مطابق پہلے ہی پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 50فیصد سے زائد ہے۔ ایسے میں اس عوام دشمن حکومت کی پالیسیاں مزید عوام کو بیروزگاری کی دلدل میں دھکیل رہی ہیں اور مارکس وادیوں کی یہ پیشین گوئی بالکل درست ثابت ہورہی ہے کہ ایک کروڑ نوکریوں کا اعلان ایک دھوکہ دہی کی داستان ہے جو جھوٹ اور فریب کے سوا کچھ نہیں۔

مزاحمتی تحریکوں سے بھرپور سال

نجکاری اور مہنگائی کی صورت میں ہونے والے حکمران طبقے کے حملوں کے تناظرمیں آنے والا وقت عوامی رد عمل امکانات سے بھرپور ہے۔ اس ملک کے محنت کش، کسان اور طلبہ ان حملوں کا بھرپور جواب دیں گے۔ اور جب اس ملک کے محنت کش نجکاری خلاف تحریکیں اور ہڑتالیں کریں گے تووہ کسی ففتھ جنریشن وارفئیر کا شکار نہیں ہوں گے بلکہ اپنے بقا کی جنگ لڑیں گے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کی تکمیل اور اپنے منافعوں کو برقرار رکھنے کی ہوس میں حکمران طبقہ آخر ی حد تک جائے گا جس کے خلاف ناگزیر طور پر تحریکیں ابھریں گی۔ مہنگی تعلیم، فیسوں میں اضافے، بڑھتی بیروزگاری طلبہ تحریک کے ابھرنے کی راہ ہموار کر رہی ہے۔ آنے والے دنوں میں مہنگائی اور بیروزگاری کا جو طوفان آئے گا وہ یہاں بھی پیرس کے عوام کی ’’Yellow Vest‘‘تحریک کی طرح تحریکیں برپا کریں گے۔ سالوں سے مزدوروں، کسانوں، نوجوانوں کے دلوں میں پنپ رہی ان سرمایہ داروں ، جاگیر داروں اور ان کی محافظ اس ریاست کے خلاف نفرت جس دن سڑکوں پر آئی ان کے ایوان لرز اٹھیں گے۔ یہ محنت کش طبقے کی بقا کی جنگ ہے جس کو وہ آخری سانس تک لڑے گا۔ مگر اس نظام میں رہتے ہوئے کبھی بھی مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی،نجکاری، ٹھیکیداری اور دیگر لعنتوں سے کبھی نجات حاصل نہیں کی جاسکتی۔ ایک منصوبہ بند معیشت ہی ان گنت صدیوں کے تاریک طلسم کو توڑ تے ہوئے انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرسکتی ہے۔ محنت کش طبقے کی قیادت میں برپا ہونے والا ایک سوشلسٹ انقلاب ہی سرمایہ دارانہ نظام کی ان تمام تر غلاظتوں کو ٹھکانے لگا سکتا ہے۔ مگر مارکسی نظریات اور درست پروگرام سے لیس ایک انقلابی پارٹی کے بنا اس خواب کو حقیقت نہیں بنایا جاسکتا۔ یہی تاریخ کا سبق ہے اور یہی ہمارا آج کا فریضہ ہے۔

Comments are closed.