اداریہ ورکر نامہ: ظلم پھر ظلم ہے، بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے!

 

محنت کش عوام پر ظلم اور جبر کی تمام تر حدود پار کی جا چکی ہیں اور حکمران طبقہ انسانی تاریخ کے پرانے تمام ریکارڈ توڑکر عوام پر جبرکے نئے پہاڑ توڑتا چلا جا رہا ہے۔ مہنگائی، بیروزگاری، لاعلاجی سمیت شاید ہی تاریخ میں حکمرانوں کی جانب سے برپا کیے جانے والا کوئی ظلم ہو گا جو آج نہیں ڈھایا جا رہا۔ پورا سماج ایک ایسی تپتی ہوئی بھٹی بن چکا ہے جس میں حکمرانوں کی جانب سے ہر طرح کی غلاظت انڈھیلی جارہی ہے اور عوام اس بھٹی میں نجات کا راستہ تلاش کرتے ہوئے مسلسل موت کے منہ میں سرکتے چلے جا رہے ہیں۔

حکمران طبقات کی عوام دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں کرونا کی وبا بے قابو ہوئی اور ہزاروں لوگ موت کے منہ میں چلے گئے گوکہ سرکاری اعداد و شمار میں ان کا شمار بھی کرنا مناسب نہیں سمجھا جا رہا، انہیں صحت کی سہولیات تو انہوں نے کیا دینی تھیں۔ اسی طرح نجی ہسپتالوں، دوائیوں کی کمپنیوں اورحکومتی اہلکاروں کے کمیشنوں نے صحت کی بنیادی ترین سہولیات میں بھی تاریخ کی بد ترین لوٹ مار کی انتہا کر دی گئی جس کے باعث آبادی کی وسیع اکثریت کی پہنچ سے یہ بنیادی ضرورت چھین لی گئی۔ اس کے علاوہ آٹے، چینی، تیل اور دیگر تمام بنیادی ضرورت کی اشیا کی ذخیرہ اندوزی، گراں فروشی، منافع خوری اور لوٹ مار کی بھی کھلی چھوٹ دی گئی اور عوام سخت گرمی میں گھنٹوں لائنوں میں لگ کر ان ضروریات کو انتہائی مہنگے داموں خریدنے پر مجبور ہوئے۔ اس سارے عرصے میں لاکھوں افراد کئی کئی دن فاقے کرنے پر مجبور ہو گئے اور بھوک کے باعث بڑے پیمانے پر ہلاکتیں بھی ہوئیں جنہیں سرکاری سطح پر بیان کرنا یا میڈیا پر خبر دینا گناہِ عظیم بنا دیا گیا ہے۔ اس تمام عرصے میں اس ملک کے سرمایہ داروں، سرکاری افسران، وزیروں، مشیروں اور دیگر اعلیٰ ترین عہدوں پر فائز افراد نے کتنے بڑے پیمانے پر پیسے کمائے اس کا شاید بھی اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ اور یہ کاروبار ابھی ختم نہیں ہوا بلکہ اس میں تیزی آتی جا رہی ہے اور حکمران طبقے کی لوٹ مار کی ہوس اور ظلم اور جبر بڑھتا جا رہا ہے۔

محنت کشوں پر کیے جانے والے ان حملوں میں کمی آنے کی بجائے مزید اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ آئی ایم ایف کے احکامات پر عوام پر ٹیکسوں میں مزید اضافہ کیا جا رہا ہے، سرمایہ داروں کو ٹیکسوں میں چھوٹ دی جا رہی ہے اور ان کو لوٹ مار کے مزید مواقع بھی فراہم کیے جا رہے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں کو بتدریج بیچا جا رہا ہے جس سے صحت کا تمام تر نظام زمین بوس ہو رہا ہے اور بہت سی نئی وباؤں اور بیماریوں کے پھیلنے کے امکانات بڑھتے جا رہے ہیں جس سے اموات میں اضافہ ہوگا۔ تعلیم کا بجٹ بھی بتدریج ختم کیا جا رہا ہے اور اب درمیانے طبقے سے بھی اعلیٰ تعلیم کا حق چھین لیا گیا ہے اور یہ مراعات صرف امرا کے لیے مختص کر دی گئی ہے۔ پرائمری تعلیم کی حالت پہلے ہی ابتر تھی جو مزید ختم ہوتی جا رہی ہے۔ حکمرانوں کی پالیسیوں سے کروڑوں افراد بیروزگار ہو چکے ہیں اور شدید ترین غربت اور محرومی میں رہنے والے افراد کی تعداد ہر روز بڑھتی جا رہی ہے۔ محنت کش طبقے کے نوجوان اعلیٰ ترین ڈگریاں حاصل کرکے بھی بیروزگار ہیں جبکہ حکمران طبقے کی اولادیں کچھ کیے بغیردنیا کی ہر سہولت سے فیض یاب ہو رہی ہیں۔

محنت کشوں کو انقلابی سیاست سے دور رکھنے کے لیے حکمران طبقے کے افراد سیاست کو بھی مکمل طور پر اپنی گرفت میں رکھنے کی بھرپور کوششوں میں مصروف ہیں۔ حکمران جماعت کے علاوہ اپوزیشن کی تمام پارٹیاں انہی حکمران طبقے کے افرادکی گرفت میں ہیں اور وہ نان ایشوز کے گرد تمام تر سیاست کو گھمانے کی کوششوں میں ہمہ تن مصروف رہتے ہیں تاکہ محنت کشوں کے حقیقی مسائل پر گفتگو کو دبایا جا سکے۔ آپس میں لوٹ مار کی تقسیم پر ہونے والے اختلافات کو عوام کا سب سے بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اس میں میڈیا، ملا اور دیگر ذرائع ابلاغ کا سہارا لیا جاتا ہے۔ بیرونی یا اندرونی دشمن کا خوف ابھار کر عوامی تحریکوں کو کچلنے کا فارمولا بھی نیا نہیں اور صدیوں سے حکمران اسے استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ماضی میں انقلابات کو کچلنے کے لیے بیرونی دشمن سے جنگ کا خطرہ بھی ابھارا جاتا رہا ہے اور کئی دفعہ جنگیں بھی کی گئی ہیں تاکہ امیر اور غریب کے تضاد اور کشمکش کو ابھرنے سے روکا جائے اور مختلف ممالک کے حکمران طبقے کے لوٹ مار کے باہمی اختلافات کو عوام کا حقیقی مسئلہ بنا کر مسلط کیا جائے۔ اس کے علاوہ محنت کش عوام پر جبر جاری رکھنے کے لیے قانون، عدالتیں، پولیس اور فوج سمیت دیگر ادارے بھی تاریخی طور پر ابھر کر سامنے آئے اور آج کی ریاست کی موجودہ شکل ابھری جو آج بھی تاریخی متروکیت کے باوجود کسی نہ کسی شکل میں قائم ہے۔ برطانوی سامراج کا مسلط کردہ ریاستی ڈھانچہ، قوانین اور دیگر تمام ادارے یہاں آج بھی موجود ہیں اور عوام کو حکمران طبقے کے مظالم کیخلاف آواز بلند کرنے سے روکنے کے لیے مصروف عمل نظر آتے ہیں۔

لیکن اس تمام تر ڈھانچے کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام ہے جو آج پوری دنیا میں زوال پذیر ہے اور تیزی سے ٹوٹ کر بکھر رہا ہے۔ امریکی سامراج جو اس نظام کا سب سے بڑا ٹھیکیدار تھا، تیزی سے کمزور ہو رہا ہے اور اس کی معاشی بنیادیں زوال پذیر ہیں۔ اس درندے کے پیٹ میں محنت کش عوام کی تحریکیں اس نظام کو للکا ر رہی ہیں جن سے امریکی صدر بھی اپنے گھر وائٹ ہاؤس میں کچھ دیر کے لیے دم دبا کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا تھا اور ایک زیر زمین بنکر میں خوفزدہ ہوکر چھپنے پر مجبور ہو گیا تھا۔ دیگر تمام سرمایہ دارانہ ممالک کی حالت بھی زیادہ مختلف نہیں۔ دنیا کی دوسری بڑی معیشت چین کے سامراجی عزائم پوری طرح ابھرنے سے پہلے ہی ٹوٹ رہے ہیں اور اس کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے۔ ہانگ کانگ کی عوامی تحریک کے بعد اب چین کے اندر وسیع عوامی تحریکیں ابھرنے کے امکانات موجود ہیں۔ یورپی یونین کا شیرازہ بکھرنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں جبکہ عوامی تحریکیں اور انقلابات آج دنیا بھر کی سیاست کا بنیادی حصہ بن چکی ہیں۔

ایسے میں سرمایہ دارانہ نظام کی کمزور ترین کڑیوں کا مستقبل کسی بھی طرح مستحکم اور پائیدار نہیں ہو سکتا بلکہ آنے والے عرصے میں انقلابی طوفانوں کے ایک نہ ختم ہونے والے سلسلے کا آغاز ہو گا۔ یہ پورا خطہ بہت بڑی تبدیلیوں کی جانب تیزی سے بڑھ رہا ہے جو تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ 1947ء کے بٹوارے اور 1971ء کے سقوط ڈھاکہ جیسے انسانی المیے اور تاریخی واقعات مستقبل کے واقعات کے سامنے معمولی نظر آئیں گے۔ ان واقعات کی بنیاد بھی عالمی سطح اور خطے میں ہونے والی اہم سماجی ومعاشی تبدیلیوں نے رکھی تھی۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد تمام نوآبادیاتی ممالک سمیت ہندوستان میں بھی عوامی تحریک ابھری تھی اور ملک گیر سطح پر مزدوروں کی ہڑتالیں اور بغاوتیں اس سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کر رہی تھیں۔ 1968-69ء میں دوبارہ ملک کے مشرقی و مغربی حصے میں ایک ہی وقت میں انقلابی تحریک ابھری تھی جس نے ایک دفعہ پھر اس سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادوں کو ہلا دیا تھا اور اس کے خاتمے کا نعرہ بلند کیا تھا۔ لیکن انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی اور درست مارکسی نظریات سے لیس قیادت نہ ہونے کے باعث یہ انقلابات اس نظام کا خاتمہ نہیں کر سکے جو آج بھی کروڑوں انسانوں کو بھوک اور بیماری کے ہاتھوں قتل کرتا چلا جا رہا ہے۔

موجودہ حالات میں سب سے ضروری اور اولین فریضہ ایک ایسی انقلابی قوت کی تعمیر کا ہے جو آنے والے اہم واقعات کا درست ادراک رکھتی ہو۔ اس کے علاوہ ان طوفانوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے درکار سائنسی نظریات پر مبنی بنیادیں رکھنے کے ساتھ ساتھ وہ جرأت اور حوصلہ بھی رکھتی ہو جو انقلابی قوتوں کا ہمیشہ سے شیوہ رہا ہے۔ اگر ایک ایسی قوت آج اس کرۂ ارض کے کسی بھی خطے میں موجود ہوئی تو آنے والے انقلابات میں حصہ لیتے ہوئے ایک سوشلسٹ انقلاب اسی نسل میں برپا کیا جا سکتا ہے جو عالمی سوشلسٹ انقلاب کا آغاز ہو گا اور ظلم، جبر اور استحصال پر مبنی اس نظام کا ہمیشہ کے لیے صفایا کر دے گا۔

Comments are closed.