پاکستان: بحران آٹے کایا نظام کا؟

|تحریر: آصف لاشاری|

ویسے تو پاکستان کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو بحران کا شکار نہ ہوچاہے وہ سیاست کا شعبہ ہو،معیشت کا،خارجہ امور کا یا انتظامیہ کا شعبہ ہو۔پاکستانی ریاست کو بحرانوں کی ریاست کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ حقیقت عیاں ہوتی جا رہی ہے کہ سماج پر حکمران طبقے کی گرفت کمزور ہوتی جا رہی ہے اور نظام پر حکمران طبقے کا کنٹرول ختم ہوتا جا رہا ہے۔نظام کی زوال پذیری کی وجہ سے جہاں ایک طرف اس ریاستی مشینری کے سنجیدہ حلقے بوکھلاہٹ کا شکار ہیں اور ریاست پر اپنی گرفت کو برقرار رکھنے کے لیے کٹھ پتلی مقننہ کے ذریعے عوام دشمن قانون سازی سے لے کر جبر کے ہر ممکنہ ہتھکنڈے استعمال کیے جا رہے ہیں تو دوسری جانب اس ملک کا تاریخی طور پر خصی اور نااہل کرپٹ سرمایہ دار طبقہ لوٹ مار کے ذریعے تیزی سے اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہے۔

اس ملک کا حکمران طبقہ ملک کو ترقی دے سکنے کی نااہلیت اور اپنی تکنیکی و تاریخی پسماندگی کی خصوصیات کی بنا پر اپنی دولت میں اضافے اور منافعوں کے لیے کرپشن،لوٹ مار اور چوری پر انحصار کرتا آیا ہے۔بورژوا مفادات و فرائض کی تکمیل تو دور یہ خصی طبقہ پچھلے ستر سالوں میں اپنے بورژوا تشخص کا تعین ہی نہیں کر سکااور اسی لیے کرپشن و لوٹ مار کے ساتھ ساتھ سامراجیوں کے ٹکڑوں پر انحصار کرتا رہا ہے۔اب نظام کی زوال پذیری نے ان کی لوٹ مار کی ہوس کو اور بھی زیادہ بڑھا دیا ہے۔حکمران طبقے اور اشرافیہ کی بڑھتی ہوئی ہوس جہاں موجودہ نظام کی زوال پذیری کا نتیجہ ہے وہیں یہ لوٹ مار کی ہوس مختلف ریاستی بحرانوں کوبے قابو کرنے میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔

اس بحران زدہ ریاست کے بحرانوں میں حالیہ اضافہ آٹے کا بحران ہے۔موجودہ بحران کو حکمرانوں کی غفلت،نااہلی اور بد انتظامی کا نتیجہ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ اعداد و شمار کی تھوڑی سی جانچ پڑتال اور حقائق کا سرسری تجزیہ ہی اس حقیقت کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ یہ بحران محض کسی بد انتظامی کا نتیجہ نہیں بلکہ اس ملک پر قابض لٹیرے حکمرانوں کی بڑھتی ہوئی دیدہ و دانستہ لوٹ مار کا شاخسانہ ہے۔اس ملک کے نااہل حکمران قدرتی آفات سے لے کر مصنوعی جنگی جنون اور مصنوعی بحرانوں سے اپنی تجوریاں بھرنے میں اپنی مثال آپ ہیں۔اس ملک پر قابض سیاسی جماعتوں کے آپس میں جتنے بھی اختلافات اور تضادات ہوں،عوام دشمنی اور لوٹ مار میں ساری جماعتیں ایک پیج پر ہیں۔ نون لیگ کی سابقہ حکومت نے فروری سے مئی 2018 ء تک تقریباً 4 لاکھ ٹن گندم بیرون ملک برآمد کی اور موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی گندم کی برآمد کا سلسلہ جاری رہا اور لاکھوں ٹن گندم برآمد کی گئی۔اس سارے کھیل میں حکومتی گٹھ جوڑ و سرپرستی میں بڑے تاجروں نے اربوں روپے کمائے۔کسانوں سے انتہائی سستے داموں خریدی گئی گندم سے آڑھتیوں،چھوٹے تاجروں اور بڑے ڈیلر حضرات نے اربوں روپے حاصل کیے جب کہ اپنی محنت سے گندم اگانے والے کسانوں کی اکثریت آج مہنگی گندم خریدنے پر مجبور ہے اور قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے۔پچھلے سال جہاں ایک طرف خراب موسمی حالات اور بارشوں نے کسانوں کی تیار فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچایا اور گندم کی فی ایکڑ پیداوار بڑے پیمانے پر متاثر ہوئی وہیں دوسری جانب آڑھتیوں اور چھوٹے تاجروں نے خراب فصل اور غیر معیاری گندم کا بہانہ بنا کر کسانوں کو انتہائی سستے داموں گندم بیچنے پر مجبور کیا۔پچھلے سال گندم کا سرکاری نرخ 1300 روپے من فی ایکڑ مقرر کیا گیا تھا لیکن غریب کسانوں کی بڑی اکثریت نے اپنی گندم 1000 سے 1200 روپے فی من کے نرخوں پر فروخت کی اور بمشکل اپنے اخراجات پورے کیے۔

پچھلے سال حکومت نے گندم کی خریداری کا ہدف جانتے بوجھتے ہوئے انتہائی کم رکھا اور فوڈ سنٹرز پر بوریاں حاصل کرنے کے عمل کو انتہائی پیچیدہ بناتے ہوئے کسانوں کو اپنی گندم آڑھتیوں کو بیچنے پر مجبور کیا۔اس طرح سے گندم آڑھتیوں کو منافع فراہم کرتے ہوئے سرکاری گوداموں تک پہنچی۔صرف بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ سونے پر سہاگہ یہ کہ 1300 روپے من خریدی ہوئی یہ گندم بڑے تاجروں کو افغانستان میں برآمد کرنے کے لیے سبسڈی دیتے ہوئے 776 روپے فی من فروخت کی گئی اور سری لنکا و دیگر ممالک میں برآمد کرنے کے لیے یہ گندم 600 روپے فی من میں فروخت کی گئی۔اسی طرح سرکاری گوداموں سے ہٹ کر آڑھتیوں و چھوٹے بڑے تاجروں کے نجی گوداموں میں پڑی ہوئی گندم بھی انتہائی مہنگے داموں (1800-2000 روپے فی من)باہر کے ممالک میں برآمد کی گئی۔حتیٰ کہ فلور ملز کے مالکان نے بھی آٹا بنانے کی بجائے سستے داموں خریدی گئی گندم کو مہنگے داموں بیچتے ہوئے منافع کمانے کو اہمیت دی۔اس طرح منافعوں کی ہوس میں لاکھوں ٹن گندم باہر کے دوسرے ممالک میں فروخت کرتے ہوئے موجودہ بحران کو جنم دیا گیا۔اور اب بحران کے نام پر انتہائی مہنگے داموں میں عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے گندم باہر کے ممالک سے خریدی جا رہی ہے۔اگلے مہینے تک غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے 3 لاکھ ٹن گندم 1800روپے فی من کے حساب سے خریدی جائے گی اور اس سارے عمل میں بھی کروڑوں روپے کے کمیشن کھائے جائیں گے۔درآمد و برآمد کے اس سارے گھن چکر میں غریب عوام کی پیدا کردہ گندم اور ان سے اکٹھے کیے گئے ٹیکس کے پیسوں سے یہ حکمران طبقہ اربوں روپے بناتا ہے اور عوام غربت کی چکی میں پستی رہتی ہے۔

ہم ایک ایسے نظام میں رہ رہے ہیں جہاں گندم پیدا کرنے والے کروڑوں غریب خاندان غربت کی اتھاہ گہرائیوں میں دھنسے ہوئے ہیں اور انہیں سبسڈی فراہم کرنے کی ضرورت کسی کو محسوس نہیں ہوتی اور کسانوں کا خون چوسنے والے کروڑ پتی تاجروں کو غریب عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے اربوں روپوں کی سبسڈی فراہم کی جاتی ہے۔بڑے تاجروں نے حکومت سے سبسڈی کی مد میں 10 ارب روپے وصول کیے اور سرکاری و نجی گوداموں سے خریدی گئی گندم سے منافع الگ سے حاصل کیا۔ایک اندازے کے مطابق فروری 2018 سے اب تک 16کروڑ ڈالرز مالیت کی گندم ملک سے زائد فروخت کی گئی۔اس سارے عمل سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ ریاست دولتمند سرمایہ دار طبقے کے مفادات کو تحفظ فراہم کرتی ہے اور محنت کشوں کا شدید ترین استحصال کرتی ہے۔

اس وقت ملک بھر میں آٹے کا بحران عروج پر ہے اور لوگ آٹا خریدنے کے لیے قطاروں میں لگنے پر مجبور ہیں۔پشاور میں نانبائیوں کی ہڑتال جاری ہے اور ایک روٹی کی قیمت 60 روپے تک جا پہنچی ہے۔اس ملک کے کروڑوں غریب فاقہ کش لوگ دن رات کی محنت سے بمشکل ایک وقت کی روٹی کما پا رہے تھے اور اس ملک کے وحشی کرپٹ حکمرانوں نے اپنے منافعوں کے لیے ان سے وہ ایک وقت کی روٹی بھی چھین لی ہے۔ایک طرف یہ حکمران غریبوں سے ان کے منہ کے آخری نوالے چھین رہے ہیں اور دوسری طرف وہ ان کی غربت بے بسی و مجبوری کا تمسخر بھی اڑا رہے ہیں۔کوئی حکومتی وزیر غریب عوام کو کیک کھانے کا طنز مارتا ہے تو کوئی انہیں روٹی کم کھانے کی ترغیب دیتا ہے۔حکمرانوں کے عوام پر طنز کرنے اور ان کی غربت و بے بسی کا تمسخر اڑانے کی ریت نئی نہیں ہے لیکن یہ حکمران بھول گئے ہیں کہ عوام کی ان حکمرانوں کو ان کے گریبانوں سے پکڑ کر ان کے محلوں سے نکال باہر کرنے کی ریت بھی زیادہ پرانی نہیں ہے۔عوام بہت جلد اپنی اس پرانی قابلِ فخر ریت کو زندہ کریں گے اور ان حکمرانوں کو ان کے محلوں سے گھسیٹ کر تاریخ کے کوڑا دان میں پھینک دیں گے۔

Comments are closed.