پاکستان: آئی ایم ایف کے سامراجی شکنجے کی تفصیلات

|تحریر:آفتاب اشرف|

حکومت اور اپوزیشن کی نورا کشتی بھر پور شور شرابے کے ساتھ جاری ہے۔ اسکینڈلز، الزامات، افواہوں، کھوکھلی دھمکیوں اور ذاتیات پر مبنی غلاظت کو حکمران طبقہ سیاست کا نام دے کر زبر دستی پورے سماج پر مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور سول بیوروکریسی سمیت تمام ریاستی ادارے بھی اس گندگی میں بری طرح لتھڑے ہوئے ہیں۔ ایک سرکس لگا ہوا ہے جس میں تمام فریقین مغلظات بکنے اور گھٹیا شعبدے بازیاں دکھانے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوششوں میں مگن ہیں۔ یہ درست ہے کہ حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے مختلف دھڑوں کے مابین ہونے والی اس لڑائی کی ایک بڑی وجہ لوٹ مار کے مال میں حصے داری پر پڑنے والی پھوٹ ہے جس نے ان میں موجود دراڑوں اور گروہ بندیوں کو بالکل واضح کر دیا ہے لیکن یہ محض تصویر کا ایک رخ ہے۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ واضح کرتا ہے کہ لوٹ کھسوٹ کی آپسی لڑائیوں سے قطع نظر حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے تمام دھڑے عوام دشمنی میں متفق ہیں اور ملک کے حالیہ معاشی بحران کا ملبہ پوری طرح سے محنت کش عوام اور درمیانے طبقے کے کندھوں پر ڈالنے کے لئے تیار ہیں۔ اسی لئے اس تلخ حقیقت سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لئے شعوری طور پر کوشش کی جارہی ہے کہ لوگوں کا دھیان کسی اور طرف لگا رہے اور حکمران طبقہ اپنے سامراجی آقاؤں کی آشیرباد کے ساتھ اپنی واردات جاری رکھے۔ یہ سیاسی افق پر نظر آنے والے اس تعفن آمیز کھیل کا وہ پہلو ہے جسے ہمیں کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔

اسی حوالے سے 8جولائی کو آئی ایم ایف نے پاکستان کو دیے جانے والے قرضے اور اس سے منسلک شرائط کے بارے میں ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں مالی سال 24-2023ء تک کے اعدادوشمار اور تخمینے شامل ہیں۔ رپورٹ کی تفصیلات اتنی روح فرسا اور رونگٹے کھڑے کرنے والی ہیں کہ کسی بھی عوام دوست شخص کا دل دہل جائے لیکن زر خرید میڈیا کے ذریعے بھر پور کوشش کی گئی ہے کہ اس رپورٹ کا ذکر سیاسی سرکس کے شور میں دب کر رہ جائے اور عوام کو پتہ ہی نہ چلے کہ سامراجی مالیاتی ادارے اور ملک کا گماشتہ حکمران طبقہ ان کی پیٹھ پیچھے کس طرح انہیں ذبح کرنے کے لئے چھریاں تیز کر رہے ہیں۔ یہ رپورٹ ملک کے گرد کسے سامراجی شکنجے کی جکڑ کو بھی بالکل عیاں کر دیتی ہے اور طمانچہ ہے ان اعلیٰ ریاستی عہدے داروں کے منہ پر جو ایک طرف کلف لگی وردیاں پہن کر دن رات ’ملکی سلامتی و خود مختاری‘ کے بھاشن دیتے ہیں اور دوسری طرف سامراجی اداروں کی عوام و ملک دشمن پالیسیوں کے نہ صرف بھر پور حامی ہیں بلکہ ان کے خلاف آواز بلند کر نے والوں پر ’غدار‘ کا ٹھپہ لگانے میں ایک منٹ نہیں لگاتے۔

آئیے، دیکھتے ہیں کہ اس رپورٹ میں کیا بتایا گیا ہے۔ ہماری بھر پور کوشش ہوگی کہ ہم اعدادوشمار کے گورکھ دھندے اور خوشنما لفاظیوں کے پردے میں چھپی عوام دشمن پالیسیوں کو آسان ترین الفاظ میں اپنے قارئین کو سمجھا سکیں۔

آئی ایم ایف قرضے کی بنیادی شرائط

قرضے کی کل مالیت 6ارب ڈالر ہے جو قسطوں کی صورت میں 39ماہ پر محیط عرصے میں پاکستان کو دیا جائے گا۔ قرضے سے منسلک شرائط پر عملدرآمد کی مانیٹرنگ کے لئے پہلے 12ماہ میں سہ ماہی بنیادوں پر حکومتی ’کارکردگی‘ کا ریویو کیا جائے گا اور اگر صورتحال تسلی بخش رہی تو پھریہ ریویو ہر6ماہ بعد ہو گا۔ اگرچہ قرضے کی آخری قسط مالی سال23-2022ء کی پہلی سہ ماہی میں پاکستان کو مل جائے گی لیکن قرضے کی شرائط مالی سال 24-2023ء کے اختتام تک لاگو رہیں گی اور اسی لئے اس وقت تک آئی ایم ایف کے ریویو بھی جاری رہیں گے۔ قرضے کی بنیادی شرائط مندرجہ ذیل ہیں:

مالیاتی استحکام کا حصول۔ اس کا اصل مفہوم یہ ہے کہ ٹیکس آمدن میں اضافہ کیا جائے اور حکومت کے ترقیاتی و دیگر(مثلاً سر کاری ملازمین کی تنخواہیں وغیرہ) اخراجات اور عوامی سبسڈیوں میں کمی کی جائے تا کہ بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارے پر قابو پایا جا سکے۔

ادائیگیوں کے توازن کی صورتحال کو بہتر بنانا یا دوسرے الفاظ میں معیشت کے بیرونی شعبے کو مستحکم کرنا۔ اس مقصد کے لئے جہاں ایک طرف بے تحاشا نئے بیرونی قرضے(آئی ایم ایف قرضے کے علاوہ) حاصل کئے جائیں گے اور پرانے شارٹ ٹرم بیرونی قرضوں کو رول اوور کروایا جائے گا وہیں پیشگی شرط پوری کرتے ہوئے حکومت نے روپے کی قدر کو اسٹیٹ بینک کے عمل دخل سے آزاد کرا کے منڈی کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے جس سے اس کی قدر شدید گراوٹ کا شکار ہے۔ خیال یہ ہے کہ روپے کی قدر میں گراوٹ سے درآمدات میں کمی(مہنگی ہونے کی وجہ سے) اور برآمدات میں اضافہ(بنیادی طور پر مزدور کے سستا ہوجانے کے باعث) ہوتا جائے گا اور یوں تجارتی خسارے میں کمی واقع ہو گی۔ اسی طرح بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کے لئے معیشت کی لبرلائزیشن کی رفتار کو مزید تیز کیا جائے گا۔ رپورٹ کے مطابق ان تمام اقدامات سے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں خاطر خواہ کمی واقع ہو گی۔

روپے کی قدر میں گراوٹ سے پیدا ہونے والے افراط زر کو قابو میں رکھنے کے لئے اسٹیٹ بینک کی طرف سے شرحِ سود میں اضافہ۔ رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک شرحِ سود کو افراطِ زر سے کم از کم 1.5 فیصد زیادہ رکھنے کا پابند ہے۔ یہاں ہم بتاتے چلیں کہ حکومتی اندازوں کے مطابق رواں مالی سال میں افراطِ زر 13فیصد سے بھی بڑھ جائے گا۔

بجلی اور گیس کی مد میں سبسڈی کا تقریباً خاتمہ کر دیا جائے گا اور صارفین سے ان کی پوری قیمت وصول کی جائے گی۔ اس مقصد کے لئے اوگرا کی طرز پر نیپرا کو بھی نرخ مقرر کرنے کی مکمل خود مختاری دی جائے گی اورپیٹرولیم مصنوعات میں ہونے والی ماہانہ ایڈجسٹمنٹ کی طرح بجلی کے نرخ بھی سہ ماہی بنیادوں پرایڈجسٹ کئے(یعنی بڑھائے) جائیں گے تاکہ 2020ء کے اختتام تک گردشی قرضوں کا خاتمہ کیا جا سکے۔

سرکاری اداروں کی نجکاری۔ اس کا اصل مقصد بیک وقت حکومتی اخراجات میں کمی اور ملکی و غیر ملکی سرمایہ داروں کو سرمایہ کاری کے منافع بخش مواقع فراہم کرنا ہے۔ بھر پور منافع بخش اداروں جیسے نئے لگنے والے دو ایل این جی پاور پلانٹس، سرکاری ہوٹلز اور کچھ بینکوں کی نجکاری تو رواں مالی سال میں ہی کر دی جائے گی۔ بقیہ تمام اداروں کی ری سٹرکچرنگ یعنی ڈاؤن سائزنگ کی جائے گی، ان کے مزید حصے بخرے کئے جائیں گے اور ستمبر2020ء تک مکمل یا جزوی طور پر پرائیویٹائز کئے جانے والے اداروں کی لسٹ فائنل کی جائے گی۔ واضح رہے کہ پی آئی اے، اسٹیل مل، سوئی گیس، واپڈا کی تقسیم کار کمپنیوں، ائر پورٹس، ریلوے اور سرکاری تعلیمی اداروں وہسپتالوں سمیت کوئی ایسا پبلک یوٹیلیٹی ادارہ نہیں ہے جو نجکاری کی کوششوں سے محفوظ رہے گا۔ جن اداروں کی ری سٹرکچرنگ یا نجکاری ممکن نہ ہو اور وہ مسلسل خسارے میں بھی جا رہے ہوں، انہیں سرے سے بند کر دینے کی تجویز بھی رپورٹ میں شامل ہے۔

اگر ہم مندرجہ بالا تمام اقدامات کو آپس میں جوڑ کر بطور ایک کُل کے دیکھیں تو واضح ہو جاتا ہے ان تمام کا حتمی مقصد اتنی مالیاتی گنجائش پیدا کرناہے کہ پاکستان اپنے اندورنی و بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی بلا تعطل ادائیگی کے قابل رہے یعنی دوسرے الفاظ میں وہ قرضے جو نہ پاکستان کے محنت کش عوام نے لئے اور نہ ہی ان پر خرچ ہوئے،ان کی واپسی عوام کا خون نچوڑ کر کی جاتی رہے۔آئیے، اب ذرا رپورٹ کی خون آشام جزیات میں جاتے ہیں۔

عوام کی ہڈیوں کے گودے سے مالیاتی استحکام کا حصول

رپورٹ کے مطابق مالیاتی خسارے کو، جو کہ رواں مالی سال(مالی سال20-2019ء) میں جی ڈی پی کے 7.1 فیصد(3200ارب روپے)کے برابر رہے گا، مالی سال24-2023ء تک کم کر کے جی ڈی پی کے 2.3فیصد (1600ارب روپے) تک لایا جائے گا۔ واضح رہے کہ رپورٹ کے تخمینے کے مطابق رواں مالی سال کا نومینل جی ڈی پی(افراطِ زر کو منہا کئے بغیر)44.5ٹریلین روپے جبکہ مالی سال24-2023ء کا نومینل جی ڈی پی68.5ٹریلین روپے ہو گا۔ لیکن مالیاتی استحکام کے بارے میں آئی ایم ایف کے احکامات اور ان کے عوام پر اثرات کا زیادہ بہتر اندازہ ہمیں مالیاتی خسارے میں کمی کے اعدادوشمار کی بجائے پرائمری بیلنس(سود کی ادائیگیوں کے علاوہ بجٹ کابیلنس) سے ہوتا ہے۔ پچھلے مالی سال(مالی سال19-2018 ء) میں پرائمری بیلنس کا خسارہ جی ڈی پی کے 1.6فیصد کے برابر تھا۔ رواں مالی سال میں اسے کم کر کے جی ڈی پی کے 0.4 فیصد کے برابر لایا جائے گا اور مالی سال 24-2023ء میں پرائمری بیلنس جی ڈی پی کے 2.7 فیصد کے برابر سرپلس میں ہو گا۔ مگر آخر یہ سب ہو گا کیسے؟ اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ عوام پر ٹیکسوں کا کمر توڑ بوجھ لاد کر اور حکومت کے ترقیاتی و عوامی اخراجات اور سبسڈیوں میں زبردست کمی کر کے۔

قرضے کی شرائط کے مطابق رواں مالی سال میں کل ٹیکس آمدن کا ہدف 6.3 ٹریلین روپے(1 ٹریلین:1000ارب)رکھا گیا ہے جس میں سے ایف بی آر کے ذمے5.5ٹریلین کی ٹیکس کولیکشن ہے۔ مالی سال 24-2023ء کا ٹیکس آمدن کا ہدف12ٹریلین روپے ہے جس میں سے 10.5 ٹریلین کی ٹیکس کولیکشن ایف بی آر کے ذمے ہے۔ ریفرنس کے لئے ہم بتاتے چلیں کہ مالی سال18-2017ء میں (قرضے کی پیشگی شرائط سے قبل) کل 4.5 ٹریلین روپے کی ٹیکس آمدن ہوئی تھی جس میں سے 3.8ٹریلین روپے ایف بی آر نے اکٹھے کئے تھے۔ مزید برآں اس ٹیکس اضافے کا زیادہ تر بوجھ بھی محنت کش عوام پر ہی ڈالا جائے گا۔ یہ امر اس بات سے واضح ہو جاتا ہے کہ مالی سال18-2017ء میں ایف بی آر کی کل ٹیکس آمدن میں سے1537ارب روپے براہ راست ٹیکسوں (بشمول بینک ٹرانزیکشنز پر عائد ود ہولڈنگ ٹیکس)کی مد میں اکٹھے ہوئے تھے جبکہ مالی سال 24-2023ء میں یہ رقم3800ارب روپے ہو گی،جس کا بھی ایک قابل ذکر حصہ تنخواہ دار درمیانے طبقے اور چھوٹے کاروباریوں پر لگنے والے انکم ٹیکس اور دیگر براہ راست ٹیکسوں سے آئے گا، اور بقیہ 6700ارب روپے بالواسطہ ٹیکسوں سے اکٹھے کئے جائیں گے۔ رپورٹ میں بھی سارا زور جی ایس ٹی کے نفاذ میں استثنا کے خاتمے اور زیادہ تر اشیا پر یکساں جی ایس ٹی کے نفاذ، کسٹم، ایکسائز، امپورٹ اور ریگولیٹری ڈیوٹیوں میں اضافے، جی ایس ٹی کی بتدریج ویٹ(VAT) سے تبدیلی اور دیگر انواع واقسام کے بالواسطہ ٹیکسوں پر ہے جبکہ سرمایہ دار طبقے پر عائد ہونے والے براہ راست ٹیکسوں یعنی کارپوریٹ ٹیکس اورسپر ٹیکس میں اضافے اورویلتھ ٹیکس کا نفاذ تو دور کی بات، ان کا ذکر تک نہیں ہے۔

دوسری طرف اگر ہم حکومتی اخراجات میں کٹوتی کی بات کریں تو رواں مالی سال میں تمام ترقیاتی منصوبوں (وفاقی اور صوبائی دونوں) کے لئے کل ملا کر صرف1500ارب روپے کی رقم رکھی گئی ہے جبکہ مالی سال24-2023ء میں یہ رقم محض2600ارب روپیہ ہو گی۔ لیکن یہ تو محض تخمینے ہیں، حقیقی ترقیاتی اخراجات اس سے بھی کہیں کم ہوں گے۔ اس کی ایک واضح مثال پچھلے مالی سال سے لی جا سکتی ہے جس میں وفاق کے زیر انتظام ترقیاتی منصوبوں کے لئے930ارب روپے کی رقم مختص کی گئی تھی لیکن حقیقت میں بمشکل 500ارب روپے ہی خرچ کئے گئے۔ اسی طرح عوام کو حاصل تمام سبسڈیوں کو بھی بتدریج کم یا مکمل طور پر ختم کر دیا جائے گا۔ اس کی ایک واضح مثال بجلی اور گیس کے شعبے میں عام صارفین سے پوری پیداواری لاگت وصول کرنے کی شرط ہے۔ جبکہ دوسری طرف برآمدی صنعتوں اور فرٹیلائزر انڈسٹری وغیرہ کو حاصل سبسڈی کچھ کمی کے ساتھ بر قرار رکھی جائے گی۔ اسی طرح سینکڑوں سرکاری اداروں کی نجکاری، ڈاؤن سائزنگ یا سر ے سے خاتمے کی شرائط رکھنے کی ایک بڑی وجہ بھی حکومتی اخراجات میں کمی لانا ہے۔ اس کے نتیجے میں بیروزگار ہونے والے لاکھوں محنت کشوں کا کیا ہو گا اور نجکاری کے نتیجے میں مہنگی ہونے والی بنیادی سہولیات تک عوام کی رسائی کیسے ہو گی؟ اس کی پرواہ نہ حکمران طبقے کو ہے اور نہ آئی ایم ایف کو۔ مزید برآں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پینشنوں میں آنے والے سالوں میں برائے نام اضافہ ہی ہو گا جو افراطِ زر سے پیدا ہونے والی کسر کو بھی پورا نہیں کرے گا، یعنی حقیقی اجرتوں میں کمی واقع ہوگی۔

دلچسپ بات یہ ہے حکومت کے ترقیاتی وعوامی اخراجات میں ہر ممکن کمی کی منصوبہ بندی کے باوجود وفاق کے سب سے بڑے غیر پیداواری خرچے یعنی فوجی اخراجات میں نہ صرف کوئی کمی نہیں کی جائے گی بلکہ تمام تر سرکاری جھوٹوں کے برعکس ان میں ہر سال بڑا اضافہ کیا جائے گا۔ سرکاری اعلانات اور بجٹ دستاویزات کے برعکس رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کا بنیادی فوجی بجٹ بھی1150نہیں بلکہ 1300ارب روپے ہے۔ 700ارب روپے کے اضافی فوجی اخراجات اس کے علاوہ ہیں جس میں فوجی پینشنیں، فوجی ترقیاتی اخراجات، اسلحے کی خریداری اور دفاعی صنعتوں وغیرہ کے اخراجات شامل ہیں۔ مالی سال24-2023ء میں کل فوجی اخراجات3100ارب روپے تک پہنچ جائیں گے جس میں 2000ارب روپے کا بنیادی دفاعی بجٹ اور 1100ارب روپے کے اضافی فوجی اخراجات شامل ہیں۔ مزید برآں رپورٹ میں تقریباً7000ارب روپے مالیت(رئیل اسٹیٹ سمیت) پر مبنی افواج پاکستان کی کاروباری سلطنت پر ٹیکس عائد کرنے کے متعلق بھی کوئی عندیہ نہیں دیا گیا۔ یقینی طور پر اسٹیبلشمنٹ کو یہ چھوٹ خطے میں امریکہ کے سامراجی مفادات کے تحفظ اور خصوصاً افغانستان سے آبرومندانہ انخلامیں اس کے لئے سہولت کاری کرنے اور چین سے ایک مناسب فاصلہ قائم کرنے کی یقین دہانی پر ہی دی گئی ہے۔ لیکن اس چھوٹ کا برقرار رہنا اور یہاں تک کہ تمام معاشی شرائط پوری کرنے کے باوجود قرضے کی اقساط کا ملتے رہنا بھی بہت حد تک اسٹیبلشمنٹ کی واشنگٹن نوازی پر منحصر ہے۔ اسی لئے رپورٹ میں خاص طور پر FATF کی گرے لسٹ کا ذکر کیا گیا ہے اور صاف الفاظ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کو ہر صورت میں FATFکی تمام شرائط پوری کرنا ہوں گی ورنہ قرض کی فراہمی میں تعطل آ سکتا ہے۔

ستم ظریفی تو یہ ہے کہ وفاق کے لئے تمام تر ٹیکس اضافوں اور کٹوتیوں کے باوجود بھی صنعتکاروں کو دی جانے والی سبسڈیوں، وفاقی سول افسر شاہی، اعلیٰ عدلیہ، حکومت کے اپنے اخراجات اور خصوصاً بھاری فوجی بجٹ کی وجہ سے آئی ایم ایف کا مطلوبہ پرائمری بیلنس سرپلس حاصل کرنا ممکن نہیں تھا۔ اس صورتحال سے نپٹنے کے لئے وفاق نے آئی ایم ایف کے ’تعاون‘ کے ساتھ تمام صوبوں سے یہ معاہدہ کیا ہے کہ وہ ہر مالی سال کے آخر میں صوبائی بجٹوں میں سے بچت کرکے پیسے وفاق کو بھیجیں گے تا کہ آئی ایم ایف کی شرط پوری کی جا سکے۔ یاد رہے کہ ان میں صوبہ سندھ بھی شامل ہے جہاں نام نہاداینٹی اسٹیبلشمنٹ اور’عوام دوست‘ پیپلز پارٹی کی حکومت ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں صوبے جی ڈی پی کے ایک فیصد کے برابر رقم(445ارب روپے) وفاق کو بھیجیں گے جبکہ مالی سال2021-22ء میں یہ رقم جی ڈی پی کے2.7 فیصد (1500ارب روپے) کے برابر ہو جائے گی۔ صوبے یہ ’بچت‘ کیسے کریں گے؟ اس کا جواب ہے کہ عوام پر نت نئے صوبائی ٹیکس لگا کر، صوبائی سطح پر ترقیاتی وعوامی اخراجات میں کمی کر کے اور صوبوں کو منتقل ہوجانے والے صحت اور تعلیم جیسے بنیادی عوامی ضرورت کے شعبہ جات کی نجکاری کر کے۔

جیسا کہ ہم نے پہلے بتا یا کہ ان تمام عوام دشمن شرائط کا واحد مقصد پاکستان کو اپنے قرضے اور ان کا سود واپس کرنے کے قابل بنائے رکھنا ہے لہٰذا ٹیکسوں میں کمر توڑ اضافے اور تباہ کن آسٹیریٹی کی بدولت جو رقم حاصل ہو گی اس کا سب سے بڑا مصرف بھی یہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے بجٹ میں 2900ارب روپے کی رقم سود کی ادائیگی کے لئے رکھی گئی ہے جبکہ مالی سال24-2023ء میں یہ 3500ارب روپے ہو گی۔لیکن ہمارے اندازے کے مطابق یہ رقم ان تخمینوں سے کہیں زیادہ ہو گی کیو نکہ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق بڑھتے ہوئے افراط زر کو کسی حد تک قابو میں رکھنے کے لئے شرح سود میں مسلسل اضافہ کیا جائے گاجس سے حکومت کے اندرونی قرضوں پر سود کی ادائیگیوں میں بھی اضافہ ہو گا۔ مزید برآں یہ صرف سود کی ادائیگیوں کے اعدادوشمار ہیں،قرضوں کے اصل زر کی واپسی اس کے علاوہ ہے۔ مگر کیا عوام کا معاشی قتل عام کر کے بھی ملک قرضوں سے آزاد ہو جائے گا یا پھر پانچ سال بعد صورتحال اس سے بھی بدتر ہو گی؟ اس سوال کا جواب ہم آ گے چل کر دیں گے۔

معیشت کا بیرونی شعبہ اور آئی ایم ایف کا عوام دشمن نسخہ

بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے اور پچھلے بیرونی قرضوں اور ان کے سود کی واپسی کے دباؤ کے تحت بگڑتا ہوا ادائیگیوں کا توازن وہ سب سے بڑی فوری وجہ تھی جس کے لئے پاکستان کو ایک مرتبہ پھر آئی ایم ایف کا رخ کرنا پڑا۔ بے قابو ہوتے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کی سب سے بڑی وجہ بڑھتا ہو ا تجارتی خسارہ تھا جس کی سب سے بنیادی وجہ پاکستانی بورژوازی کا تاریخی خصی پن اور تکنیکی نا اہلی ہے جس کے سبب وہ ایک طرف تو تمام تر حکومتی سبسڈیوں، مزدوروں کے ننگے استحصال اور ٹیکس چھوٹ کے باوجود اپنی برآمدات بڑھانے میں ناکام رہی ہے اور دوسری طرف درآمدات پر انحصار کم کرنے کے لئے جدیدصنعت کو بھی پروان نہیں چڑھا سکی۔ رہی سہی کسر پچھلے چند سالوں میں سی پیک منصوبے کے لئے بڑے پیمانے پر تعمیراتی خام مال اور مشینری وغیرہ کی درآمد، آزاد تجارت کے معاہدوں (خصوصاً چین کے ساتھ) کے تحت درآمدی مال کی بھر مار اور اوپری درمیانے طبقے کے لئے اندھا دھند لگژری آئٹمز کی امپورٹ نے پوری کر دی۔ اب ان درآمدات کو سستا رکھنے کے لئے پچھلی حکومت نے روپے کی قدر کو مصنوعی طور پر قائم کئے رکھا اور اس مقصد کے لئے اسٹیٹ بینک کا فاریکس ریزرو استعمال کیا جاتا رہا جو خود مسلسل لئے جانے والے نئے بیرونی قرضوں کے مرہون منت تھا۔ اس ساری پالیسی سے فائدہ ملکی صنعتکاروں کے ایک حصے کو تھا جو اپنی پیداوار کے لئے درآمدی خام مال اور مشینری استعمال کرتے تھے، پاکستان میں کام کرنے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تھا جنہوں نے پاکستانی روپے میں منافع کما کر ڈالرز کی صورت میں باہر بھیجنا ہوتا ہے، بیرونی صنعتکاروں (خصوصاً چینی) کو تھا جن کا مال دھڑا دھڑ پاکستان آ رہا تھا، بڑے امپورٹرز کو تھا، اوپری درمیانے طبقے کو تھا اور خود حکمرانوں کو تھا جنہوں نے ملک سے کی گئی لوٹ مار کو فارن کرنسی کی صورت میں آف شور اکاؤنٹس میں بھجوانا ہوتا تھا۔ اب اس سارے گھن چکر میں محنت کش طبقے کا تو کوئی قصور نہیں تھا۔ نہ تو وہ پاکستانی صنعتکاروں کی تاریخی نالائقی،تکنیکی نا اہلی اور خصی پن کے ذمہ دار ہیں اور نہ ہی یہ تمام حکومتی پالیسیاں انہوں نے بنائی تھیں۔ اسی طرح جہاں تک بیرونی قرضوں کے مسلسل بڑھتے ہوئے حجم اور ان کی واپسی کی وجہ سے ادائیگیوں کے توازن پر دباؤ کا معاملہ ہے تو نہ یہ قرضے محنت کش عوام نے لئے اور نہ ہی ان پر لگے۔ مگر پھر جب ان تمام وجوہات کی بنا پر معیشت کے بیرونی شعبے کی صورتحال بگڑنے لگی توجو نسخہ آئی ایم ایف کے احکامات پر پاکستان کے حکمران طبقے نے اختیار کیا ہے، اس کے سب سے بھیانک اثرات محنت کش طبقے اور نچلے درمیانے طبقے کی زندگیوں پر پڑ رہے ہیں۔ اس نسخے کے مطابق روپے کی قدر کو اسٹیٹ بینک کے عمل دخل سے آزاد کرا کے کرنسی مارکیٹ کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا گیاجس کا ناگزیر نتیجہ ملکی کرنسی کی قدر میں تیز گراوٹ کی صورت میں نکلا ہے۔ پچھلے دو سالوں میں روپے کی قدر میں 50فیصد سے زائد کمی ہو چکی ہے۔ عام خیال یہ ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے درآمدات مہنگی ہو کر ملکی منڈی کی پہنچ سے باہر ہو جائیں گی اور یوں ان کا حجم کم ہو جائے گاجس سے تجارتی خسارے اور بالآخر کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی واقع ہو گی۔

رپورٹ کے مطابق پچھلے مالی سال میں (پیشگی شرائط کے تحت) کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تقریباً13ارب ڈالر تھا(جی ڈی پی کا 4.6فیصد) جو مالی سال18-2017ء کے 20ارب ڈالر(جی ڈی پی کا 6.3فیصد) کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے خاصا کم تھا۔ رواں مالی سال میں یہ 6.7 ارب ڈالر(جی ڈی پی کا 2.6فیصد) تک سکڑ جائے گا اور مالی سال 24-2023ء میں یہ 6.1ارب ڈالر(جی ڈی پی کا 1.8فیصد) ہو گا۔مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اس متوقع کمی کا زیادہ تر انحصار تجارتی خسارے میں کمی پر نہیں ہے۔ مثلاً پچھلے مالی سال کامجموعی تجارتی خسارہ (گڈز اینڈ سروسز ملا کر)34.5ارب ڈالر رہا جبکہ مالی سال 24-2023ء میں یہ 6.1ارب ڈالر کی کمی کے ساتھ 28.4 ارب ڈالر ہو گا۔ مزید برآں یہ کمی بھی درآمدات میں کمی کے ذریعے نہیں بلکہ برآمدات میں اضافے کی غیر حقیقی توقعات پر مبنی ہے۔ جیسے کہ پچھلے مالی سال میں اشیاء کی درآمدات54.3ارب ڈالر کی تھیں، جو کہ رواں مالی سال میں 51.7ارب ڈالر تک گر جائیں گی(بنیادی طور پر بڑے سی پیک پراجیکٹس کی تکمیل کی وجہ سے) لیکن مالی سال 24-2023ء تک پھر بڑھتے ہوئے 63.5ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ جبکہ اشیاء کی بر آمدات پچھلے مالی سال میں 23ارب ڈالر کی تھیں جن کے مالی سال 24-2023ء تک 36.7 ارب ڈالر تک بڑھ جانے کی توقع ہے۔ لیکن رپورٹ کے مطابق جہاں ایک طرف تجارتی خسارے میں کچھ کمی واقع ہو گی وہیں دوسری طرف اسی تمام عرصے میں انکم بیلنس(ٹریڈ بیلنس کی طرح کرنٹ اکاؤنٹ بیلنس کا ایک اور حصہ) کا خسارہ4.8 ارب ڈالر سے بڑھ کر 8 ارب ڈالر (سی پیک پراجیکٹس کے منافعوں کی واپسی اور بڑھتے ہوئے شارٹ ٹرم بیرونی قرضوں پر سود کی ادائیگیوں کی وجہ سے) تک پہنچ جائے گا۔ لہٰذا بحیثیت مجموعی اس عرصے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں ہونے والی متوقع کمی کا غالب انحصار زر مبادلہ کے مجموعی کرنٹ آؤٹ فلو میں کسی بڑی کمی (تجارتی اور انکم خسارے میں کمی کے ذریعے) کی بجائے اس کے مجموعی کرنٹ ان فلو یعنی تارکین وطن کی ترسیلات زر اور براہ راست بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کی توقعات پر ہے۔ رپورٹ کے مطابق پچھلے مالی سال میں ترسیلات زر لگ بھگ 22ارب ڈالر کی تھیں جو مالی سال 24-2023ء میں 27ارب ڈالر تک پہنچ جائیں گی۔ اسی طرح براہ راست بیرونی سرمایہ کاری جو پچھلے مالی سال صرف1.8ارب ڈالر رہی، مالی سال 24-2023ء میں 5 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔ توقعات پر مبنی یہ تخمینے حقیقت کا روپ دھار پائیں گے یا نہیں؟ اس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے لیکن فی الحال اتنا کہہ دینا کافی ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے تجارتی خسارے میں کسی قابل ذکر کمی کی توقعات نہ تو پوری ہو رہی ہیں اور نہ ہی ہو سکیں گی۔
کرنٹ اکاؤنٹ خسارے سے آگے چل کر اگر ہم ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچنے کے لئے درکارزرِمبادلہ کی کل ضروریات کا جائزہ لیں تو رپورٹ کے مطابق پچھلے مالی سال میں یہ ضروریات25ارب ڈالر(جی ڈی پی کا 8.8 فیصد)کی تھیں (جنہیں پورا کرنے کے لئے 15ارب ڈالر کے نئے بیرونی قرضے لئے گئے) جبکہ مالی سال 24-2023ء میں یہ ضروریات بتدریج بڑھتے ہوئے31.2 ارب ڈالر(جی ڈی پی کا 9.2 فیصد)کی ہوجائیں گی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب اس تما م عرصے میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں بڑی کمی کی توقع ہے تو پھر ادائیگیوں کے توازن کو برقرار رکھنے کے لئے زرِمبادلہ کی کل ضروریات کیوں بڑھ رہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تمام عرصے میں پہلے لئے گئے میڈیم اور لانگ ٹرم بیرونی قرضوں اور ان کے سود اور شارٹ ٹرم بیرونی قرضوں کے اصل زر کی واپسی میں ہوشربا اضافہ ہو گا۔ مثلاً پچھلے مالی سال میں 11.5ارب ڈالر قرضوں اور ان کے سود کی واپسی کے لئے درکار تھے جبکہ مالی سال 24-2023ء میں یہ رقم 24ارب ڈالر ہو گی۔ اس رقم کا بندوبست کرنے کے لئے مزید کتنا بیرونی قرضہ اٹھایا جائے گا اور پانچ سال بعد ملکی قرضوں کی مجموعی صورتحال کیا ہو گی؟ آئیے دیکھتے ہیں۔

قرضوں کا پہاڑ

پچھلے مالی سال کے اختتام پر ملک کا کل بیرونی قرضہ104ارب ڈالر تھا جس میں سے 85ارب ڈالر حکومتی قرضہ تھا جبکہ بقیہ میں سے بھی ایک بڑی مقدار ایسے قرضوں کی ہے جنہیں حکومتی گارنٹی حاصل ہے۔ اسی طرح حکومت کا اندرونی قرضہ تقریباً22ٹریلین روپے (3 ٹریلین کے گردشی قرضوں اور سرکاری اداروں کے قرضوں سمیت) تھا۔ یوں پچھلے مالی سال کے اختتام پر کل حکومتی قرضہ جات(بیرونی اور اندرونی ملا کر) جی ڈی پی کے 79فیصد کے برابر تھے جبکہ نومینل جی ڈی پی38.5ٹریلین روپے تھا۔ تخمینے کے مطابق مالی سال 24-2023ء کے اختتام پر کل حکومتی قرضہ جی ڈی پی کے67فیصد کے برابر آ جائے گا کیونکہ نومینل جی ڈی پی 68.5ٹریلین روپے تک ہو گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ 67فیصد بھی ترقی پذیر ممالک کے لئے عمومی طور پرتجویز کردہ60فیصد کی ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی ریشو سے بہت زیادہ ہے۔ دوسری بات یہ کہ یہ کمی بھی نومینل جی ڈی پی میں بڑھوتری کے تخمینے پر مبنی ہے جو کہ اول تو ابھی محض ایک توقع ہی ہے لیکن اگر نومینل جی ڈی پی اتنا ہو بھی جاتا ہے تو اس اضافے کا غالب حصہ افراط زر میں اضافے کی وجہ سے ہو گا نہ کہ پیداوار میں حقیقی بڑھوتری کی بدولت۔ اسی لئے اگر حقیقی جی ڈی پی (افراطِ زر کو منہا کر کے) کے حوالے سے بات کی جائے تو ڈیبٹ ٹو جی ڈی پی ریشومیں نہ صرف یہ کہ کوئی خاص کمی نہیں ہو گی بلکہ الٹا اس میں اضافہ ہونے کے بھی خاصے امکانات ہیں۔چونکہ اس حوالے سے ابھی ہمارے پاس کوئی اعدادو شمار میسر نہیں ہیں لہٰذا فی الحال ہم اگلے پانچ سالوں میں قرضوں کے حجم میں ہونے والے عددی اضافے پر ہی ایک نظر ڈالتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان کوادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچنے کے لئے رواں مالی سال سے لے کر مالی سال24-2023ء تک کل ملا کر140.4ارب ڈالر کی رقم درکار ہو گی۔ حکومت پاکستان نے آئی ایم ایف کو گارنٹی دی ہے کہ وہ اس تمام عرصے میں 57.2 ارب ڈالر کے قرضے رول اوور کروا لے گی جس میں زیادہ تر چینی، سعودی، اماراتی اور مختلف خلیجی بینکوں کے قرضہ جات شامل ہیں۔ یوں پاکستان کو اس سارے عرصے میں مجموعی طور پر 83.2ارب ڈالر کے نئے بیرونی قرضوں کی ضرورت پڑے گی جس میں سے صرف 6 ارب ڈالر آئی ایم ایف سے حاصل ہو گاجبکہ باقی قرضے ورلڈ بینک، ایشین ڈویلپمنٹ بینک، چین، سعودی عرب، قطر، عرب امارات اور مختلف نجی بینکوں سے حاصل کئے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ عالمی مالیاتی منڈی میں یورو اور سکوک بانڈز بھی فلوٹ کئے جائیں گے۔ اس میں سے 48ارب ڈالر کی رقم پرانے میڈیم اور لانگ ٹرم قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگیوں اور شارٹ ٹرم قرضوں کے اصل زر کی ادائیگی پر خرچ ہو گی۔ بقیہ رقم کا زیادہ تر حصہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے استعمال ہو گاجبکہ کچھ رقم اسٹیٹ بینک کے زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے کے لئے استعمال ہو گی۔ اور یہ سب کرنے کے بعد مالی سال 24-2023ء میں ملک کا کل بیرونی قرضہ،جس کی بھاری ترین اکثریت حکومتی قرضہ جات پر مبنی ہو گی،133ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا یعنی آئی ایم ایف پروگرام کے آغاز سے29ارب ڈالر زیادہ۔

اسی طرح اگر حکومت کے اندرونی قرضوں کی بات کی جائے تو وہ پچھلے مالی سال کے اختتام پر22 ٹریلین روپے تک پہنچ چکے تھے۔ یاد رہے کہ حکومت نے پچھلے مالی سال میں صرف اسٹیٹ بینک سے 7.7 ٹریلین کے نئے اندرونی قرضے اٹھائے جس کی وجہ سے(پرانے قرضوں کی واپسی کے بعد)حکومت کے کل اندرونی قرضے میں تقریباً2.3 ٹریلین روپے کا اضافہ ہوا۔ رپورٹ کے مطابق مالی سال 24-2023ء کے اختتام تک حکومت کے اندرونی قرضہ جات بڑھ کر25.2 ٹریلین روپے کے ہو جائیں گے۔ اس بات سے قطع نظر کہ بڑھتی ہوئی شرحِ سود کی وجہ سے حکومت کو اندرونی قرضے کتنے مہنگے پڑیں گے اور ہر سال کتنی بڑی رقم ان کے سود کی ادائیگیوں میں خرچ ہو گی، ہمارے نزدیک یہ 25.2ٹریلین روپے کا تخمینہ بھی بالکل غلط ہے(حقیقت میں اس سے کہیں زیادہ اضافہ ہو گا) کیونکہ اس کی بنیاد حکومت کی ٹیکس آمدن کے تخمینے پر ہے جو کہ ہماری نظر میں زمینی حقائق سے سراسر متصادم ہے۔ اگرچہ آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت مالیاتی خسارے کو کم سے کم کرنے کے لئے محنت کش طبقے اور تنخواہ دار درمیانے طبقے پر ٹیکسوں کی بھرمار کر دی جائے گی لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس کے باوجود حکومت اپنے ٹیکس آمدن کے اہداف پورے کرنے سے قاصر رہے گی۔ ایسا کیوں ہو گا؟ کیونکہ صرف یہ ایک تخمینہ نہیں بلکہ پوری رپورٹ ہی سماج کے ٹھوس معاشی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے ہوائی مفروضوں اور کھوکھلے اندازوں پر مبنی ہے۔ یہ جہاں ایک طرف سامراجی آقاؤں اور ملکی حکمران طبقے کی عوام دشمنی اور طبقاتی سفاکی کو عیاں کرتی ہے وہیں بورژوا دانش کے زوال کا بھی ایک اعلیٰ نمونہ ہے۔

تخمینے اور زمینی حقائق

اگر آئی ایم ایف کے پروگرام کو کلاسیکی بورژوا نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہ سراسر معاشی تباہی کا نسخہ ہے۔ مثلاً روپے کی قدر میں ہونے والی گراوٹ، جو آنے والے سالوں میں بھی جاری رہے گی، کی وجہ سے پیدا ہونے والے افراط زر نے ملکی منڈی کی قوتِ خرید کو بری طرح تباہ کر دیا ہے۔ رہی سہی کسر بالواسطہ ٹیکسوں کی بھر مار سے پیدا ہونے والی مہنگائی نے پوری کر دی ہے جبکہ دوسری طرف حقیقی اجرتوں میں تیزی سے کمی ہو رہی ہے۔ اس سب سے عوام کی زندگیاں تو برباد ہو ہی رہی ہیں لیکن ملکی منڈی کی کھپت میں ہونے والی کمی سے صنعتیں اور کاروبار بھی خاصے متاثر ہورہے ہیں۔ مزید برآں بڑھتے ہوئے افراطِ زر کے تناسب سے بڑھنے والی شرح سود نے بھی جہاں ایک طرف کاروباری لاگت میں بے پناہ اضافہ کیا ہے وہیں دوسری طرف درمیانے طبقے کی کھپت کو بھی شدید زک پہنچائی ہے۔

ان تمام عوامل کی وجہ سے ملکی صنعت، جو پہلے ہی اپنی تکنیکی پسماندگی اور آزاد تجارتی معاہدوں کی وجہ سے تباہی کے دہانے پر کھڑی تھی، مزید برباد ہو رہی ہے اور صنعتی بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے۔ سینکڑوں ٹیکسٹائل یونٹ بند ہو چکے ہیں، ہزاروں پاور لومز بر باد ہو چکی ہیں، کار سازی کی صنعت میں اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہنڈا اور ٹویوٹا جیسی کمپنیوں نے ہر ماہ دس دن کے لئے پیداوار بند کرنے کا اعلان کر دیا ہے، یہی صورتحال ٹریکٹر سازی کی صنعت کی ہے جس میں ٹریکٹر بنانے والے تینوں بڑی کمپنیاں سیلز میں کمی کی وجہ سے بحران کا شکار ہیں۔ اسی طرح رئیل اسٹیٹ سیکٹر کے بحران اور ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کی وجہ سے مالی سال19-2018ء کے پہلے نو ماہ میں اس سے پچھلے مالی سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں اسٹیل انڈسٹری کی گروتھ میں 11فیصد اور سیمنٹ انڈسٹری میں 5فیصد کمی دیکھنے میں آئی۔ جبکہ فارما سوٹیکل انڈسٹری کی گروتھ میں 8.4فیصد اور پراسیسڈ فوڈ اور تمباکو کی صنعت میں 4.7فیصد کی کمی ہوئی۔ یہاں تک کہ یونی لیور جیسی ملٹی نیشنل کمپنی کی سیلز کی ڈبل ڈیجٹ گروتھ بھی گر کر سنگل ڈیجٹ پر آ گئی۔ بحیثیت مجموعی لارج سکیل مینوفیکچرنگ کی گروتھ صرف2.9 فیصد رہی جبکہ اس سے پچھلے مالی سال کے اسی عرصے میں یہ 6.3 فیصد تھی۔ یوں پاکستان اکنامک ریویو19-2018ء کے مطابق مینوفیکچرنگ کے شعبے کا ملکی جی ڈی پی میں حصہ لگ بھگ 13فیصد تھا جبکہ بعض غیر سرکاری رپورٹس کے مطابق یہ 12.1فیصد تھا جو رواں مالی سال میں مزید کم ہو جائے گا۔ آنے والے سالوں میں یہ صنعتی بحران یقیناً مزید شدت اختیار کرے گا اور بڑے پیمانے پر صنعتوں اور ان سے منسلک دیگر کاروبار کی بندش دیکھنے میں آئے گی جس کی وجہ سے سماج میں بیروزگاری کا ایک سیلاب آجائے گا۔ رہی سہی کسر سرکاری اداروں کی نجکاری، ڈاؤن سائزنگ اور آؤٹ سورسنگ پوری کر دے گی جس کی وجہ سے لاکھوں محنت کش اپنے روزگار سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے۔ یہ تمام صورتحال ملکی منڈی کی قوتِ خرید کو مزید کم کرے گی جس کی وجہ سے صنعتی بحران مزید شدید ہوتا جائے گا۔

اس ساری صورتحال میں ہم نہیں سمجھتے کہ حکومت اپنے ٹیکس آمدن کے اہداف پورے کر پائے گی۔ اس حقیقت کا کسی حد تک اندازہ آئی ایم ایف اور ریاست کو بھی ہے۔ اگرچہ آئی ایم ایف نے ملکی سرمایہ دار طبقے پر کوئی نیا براہ راست ٹیکس لاگو کرنے، ان کی سبسڈیوں میں کوئی بڑی کٹوتی کرنے یا کارپوریٹ ٹیکس، سپر ٹیکس وغیرہ کی شرح میں اضافہ کرنے کی کوئی شرط نہ رکھ کرانہیں ہر ممکن ریلیف دینے کی کوشش کی ہے لیکن دوسری طرف ٹیکس آمدن کے اہداف پورے کرنے کی خاطر غیر رسمی معیشت، جس کا حجم رسمی معیشت کے تقریباً75فیصد کے برابر ہے، کو رجسٹر کر کے ٹیکس نیٹ میں لانے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے۔ مگر حکومت کو اس سلسلے میں زبر دست مزاحمت کا سامنا ہے۔ حال ہی میں تاجروں کی طرف سے کی گئی ملک گیر ہڑتال اسی حقیقت کی غمازی کرتی ہے جو کہ اپنے کاروبار کی ڈاکومینٹیشن کرانے اور ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے پر کسی صورت راضی نہیں ہیں۔ اسی طرح جی ایس ٹی میں استثنا کے خاتمے، ایکسائز ڈیوٹیوں کے بڑھنے اور کئی قسم کے درآمدی خام مال پر امپورٹ ڈیوٹیوں کے بڑھنے کی وجہ سے صنعتی اشیاء کی قیمتوں میں زبر دست اضافہ ہوا ہے۔ اگرچہ صنعتکاروں نے یہ اضافہ فوراً سے صارفین پر منتقل کر دیا ہے لیکن اس کی وجہ سے ان کی سیلز بھی بری طرح کم ہوئی ہیں۔ اوپر سے حکومت صنعتی شعبے کی ڈاکومینٹیشن کو بہتر کرنے کی کوشش کر رہی تا کہ ٹیکس چوری کا خاتمہ کیا جا سکے۔ اس صورتحال میں مختلف صنعتی شعبوں (خصوصاً ٹیکسٹائل سیکٹر)کے مالکان حکومت کو فیکٹری لاک آؤٹ(سرمائے کی ہڑتال)کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ یہ بنیادی طور پر عالمی سرمایہ داروں (آئی ایم ایف) اور ملکی سرمایہ داروں کے بعض حصوں کے آپسی تضادات ہیں جو کہ نامیاتی نہیں بلکہ سطحی نوعیت رکھتے ہیں۔ ہم بطور مارکس وادی ان مزدور دشمن صنعتکاروں اور بڑے تاجروں سے کسی قسم کی کوئی ہمدردی نہیں رکھتے اور سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ مزاحمت محض ان کے اپنے طبقاتی مفادات کے تحفظ کے لئے ہے۔ اسی لئے ہم اصولی طور پر ان کے ٹیکس نیٹ میں لائے جانے کے حق میں ہیں تا کہ ان کی ٹیکس چوری روکی جاسکے لیکن دوسری طرف ہم یہ بھی واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ اگر بالفرض حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہو بھی جاتی ہے، جس کے امکانات انتہائی کم ہیں، تو بھی عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی۔ مزید برآں اس ٹیکس چوری کے رکنے سے جو بھی ٹیکس آمدن ہو گی وہ عوام پر نہیں بلکہ ملکی وغیر ملکی نجی بینکوں، عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی ممالک کے قرضوں، سود کی واپسی اور ریاستی اشرافیہ کی عیاشیوں پر خرچ ہو گی جبکہ اس کی وجہ سے پہلے سے موجود کاروباری بحران مزید شدت اختیار کر جائے گا جس کا سب سے خوفناک خمیازہ بیروزگاری کی شکل میں محنت کشوں کو ہی بھگتنا پڑے گا۔ مگر غالب ترین امکانات یہ ہیں کہ حکومت کی وساطت سے ملکی سرمایہ دار طبقہ آئی ایم ایف کو کوئی درمیانی راستہ نکالنے پر قائل کر لے گا۔

آسان ترین الفاظ میں حکومت ڈاکومینٹیشن کے معاملے میں کاروباری طبقے کے تحفظات اور مزاحمت کا خوب واویلا مچا ئے گی اور متبادل کے طور پر آئی ایم ایف کے سامنے بالواسطہ ٹیکسوں میں مزید اضافے اور عوامی اخراجات میں مزید کٹوتی کی تجاویز رکھے گی جنہیں قبول کر لیا جائے گایعنی سرمایہ داروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے میں ناکامی کی کسر بھی عوام پر ٹیکسوں کے بوجھ میں مزید اضافے اور عوامی سہولیات میں مزید کمی کر کے ہی پوری کرنے کی کوشش کی جائے گی مگر دوسری طرف یہ سب منڈی کی قوت خرید میں کمی کر کے صنعتی بحران کو بھی بڑھاوا دے گا۔ اسی لئے ہم سمجھتے ہیں کہ حکومت تمام تر عوام دشمن اقدامات کے بعد بھی اپنے ٹیکس آمدن کے اہداف کوپورا کرنے سے قاصر رہے گی کیونکہ ایک تو عوام کی ہڈیوں میں اتنا گودا رہ ہی نہیں گیا جسے نچوڑ کر یہ اہداف پورے کئے جا سکیں اور دوسرا حکومت کی یہ کوشش زبر دست عوامی مزاحمت کو بھی جنم دے گی جس پر ہم آگے چل کر بات کریں گے لیکن فی الوقت صرف اتنا کہیں گے کہ ٹیکس آمدن کے اہداف پورے کرنے میں ناکامی کی وجہ سے حکومت کے لئے مالیاتی خسارے اور بجٹ کے پرائمری بیلنس کے اہداف پورے کرنا بھی ممکن نہیں ہو گا جس کا ناگزیر نتیجہ رپورٹ کے تخمینوں سے کہیں زیادہ اندرونی قرضے اٹھانے کی صورت میں نکلے گا۔

اسی طرح اگر معیشت کے بیرونی شعبے کی بات کی جائے تو رپورٹ کے مطابق کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں متوقع کمی کا زیادہ تر دارومدار برآمدات، ترسیلات زر اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے پر ہے۔ ہمارے نزدیک یہ سارے تخمینے ہی ہوائی ہیں۔ پاکستان کی برآمدات کم ہونے کی بنیادی وجہ پاکستانی بورژوازی کی تکنیکی پسماندگی ہے جس کی وجہ سے وہ کمتر افزودگی محن اور نتیجتاً زیادہ لاگت پیداوار ہونے کے سبب اپنے بیرونی مد مقابلوں سے مسابقت نہیں کر پاتی اور اس کمی کا مداوا سبسڈیاں، ٹیکس چھوٹ، مزدوروں کا ننگا استحصال اور روپے کی قدر میں گراوٹ سمیت کوئی چیز نہیں کر سکتی۔ واضح رہے کہ پچھلے دوسالوں میں روپے کی قدر میں 50فیصد سے زائد کمی کے باوجود برآمدات میں کمی ہی ہوئی ہے، جو کہ مالی سال18-2017ء میں 24.7ارب ڈالر سے گر کرپچھلے مالی سال میں 23ارب ڈالر پر آ چکی ہیں۔ واضح رہے کہ اگر ایک طرف روپے کی قدر میں کمی سے پاکستانی صنعتکار کے لیبر اخراجات میں اپنے بیرونی مدمقابلوں کی نسبت خاصی کمی ہوئی ہے وہیں دوسری طرف چونکہ پاکستانی صنعت پیداوار کے لئے بڑے پیمانے پر درآمدی خام مال اور مشینری پر انحصار کرتی ہے لہٰذا درآمدات کے مہنگے ہونے کی سبب پیداوار کے لئے درکار ان لوازمات کی ان پٹ لاگت میں بھی خاصا اضافہ ہوا ہے۔ مزید برآں یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب نہ صرف ملک میں ایک صنعتی بحران کی سی کیفیت ہے بلکہ عالمی معیشت بھی مسلسل سست روی کا شکار ہے اور اس پر ایک نئے معاشی بحران کے بادل شدت سے منڈلا رہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں پسماندہ پاکستانی صنعت کے لئے سکڑتی ہوئی عالمی منڈی میں اپنی جگہ بنانا اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ برآمدات میں اضافے سے متعلق رپورٹ کے تخمینے بالکل غلط ثابت ہوں گے۔

اسی طرح شاید ترسیلات زر میں تھوڑا بہت اضافہ تو ہو جائے کیونکہ ملک کے معاشی حالات سے تنگ آ کر پچھلے چند سالوں میں محنت کشوں اور پروفیشنلز کی ایک بہت بڑی تعداد روزی روٹی کے لئے بیرون ملک گئی ہے لیکن دوسری طرف عالمی اور خصوصاً خلیجی ممالک کی معاشی سست روی کی وجہ سے نہ صرف تارکین وطن کی بچتوں میں کمی آ رہی ہے بلکہ ایک قابل ذکر تعداد پچھلے عرصے میں مایوس ہو کر وہاں سے واپس بھی لوٹی ہے۔ لہٰذا اگر ترسیلات زر میں اضافہ ہوتا بھی ہے تو یہ رپورٹ کے تخمینوں سے کہیں کم ہو گا۔ یہی صورتحال بیرونی سرمایہ کاری کی مد میں بھی نظر آئے گی۔

پاکستان میں پچھلے پانچ سالوں میں سب سے زیادہ براہ راست بیرونی سرمایہ کاری چین نے سی پیک منصوبے کے تحت کی تھی لیکن اب ایک طرف تو سی پیک کے زیادہ تر ارلی ہارویسٹ پراجیکٹس مکمل ہو چکے ہیں اور دوسری طرف آئی ایم ایف اور امریکی سامراج کی چین کے ساتھ مناسب فاصلہ رکھنے کی شرائط کے تحت نئے سی پیک پراجیکٹس کھٹائی میں پڑ چکے ہیں اور مستقبل میں بھی اس صورتحال میں کوئی بڑی تبدیلی آنے کے امکانات نہیں ہیں۔ اسی طرح سعودی، اماراتی اور قطری سرمایہ کاری کے وعدے محض کاغذی باتیں اور حکومت کے پبلیسیٹی سٹنٹ ہیں۔ جہاں تک بات ملٹی نیشنل کمپنیوں کی طرف سے بیرونی سرمایہ کاری کی ہے تو وہ کیوں ایک ایسے ملک میں سرمایہ کاری کریں گی جس کی منڈی کی قوت خرید تیزی کے ساتھ کم ہو رہی ہے اور پہلے سے موجود ملٹی نیشنلز کی سیلز گر رہی ہیں۔ اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ حکومت کی نئی بیرونی سرمایہ کاری کو دی گئی ٹیکس چھوٹ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی بیرونی کار ساز کمپنیاں پاکستان میں سرمایہ کاری کے منصوبے بنا رہی تھیں لیکن معاشی بحران کی وجہ سے اب ان میں سے زیادہ تر بھاگنے کے چکروں میں ہیں۔ انہی تمام وجوہات کی بنا پر پاکستان میں ہونے والی براہ راست بیرونی سرمایہ کاری مالی سال 18-2017ء میں 3.5 ارب ڈالر سے کم ہو کر پچھلے مالی سال میں محض1.8ارب ڈالر رہ گئی اور آنے والے سالوں میں اس میں کسی خاطر خواہ اضافے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ ان تمام عوامل کی بنا پر ہم یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ حکومت کے لئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کے اہداف پورے کرنا کم وبیش ناممکن ہے۔

ایسی صورتحال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کسی حد تک قابو میں لانے کے لئے حکومت کے پاس ایک آپشن تو بڑے جھٹکوں کے ذریعے روپے کی قدر میں تیز کمی (اور اس سے منسلک شرح سود میں تیز اضافے) کا رہ جاتا ہے مگر اس سے ملکی منڈی کی قوت خرید میں مزید کمی ہو گی اور معاشی و صنعتی بحران مزید گہرا ہو جائے گا جس سے موجودہ سٹیگ فلیشن کی صورتحال بگڑ کر کھلی کساد بازاری میں تبدیل ہو جائے گی۔ دوسرا آپشن یہ ہے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو پورا کرنے کے لئے رپورٹ میں موجود نئے بیرونی قرضوں کے تخمینے سے بھی زیادہ قرضے اٹھائے جائیں لیکن اس سے ملک پر کل بیرونی قرضوں کا بوجھ رپورٹ کے تخمینوں سے بھی کہیں زیادہ ہو جائے گا۔ غالب امکانات یہ ہیں کہ حکومت کو کسی حد تک ان دونوں آپشنز کا استعمال کرنا پڑے گا۔ اسی طرح حکومت نے آئی ایم ایف کی شرائط کے تحت ادائیگیوں کے توازن کے بحران سے بچنے کے لئے اگلے پانچ سالوں میں چین، سعودی عرب، عرب امارات اور قطر سے جن قرضوں کو رول اوور کرانے اور نئے قرضوں کے حصول کی گارنٹی لی ہے، اس پر بھی پوری طرح سے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا کیونکہ بنیادی طور پر یہ ممالک سٹریٹجک وجوہات کی بنا پر پاکستان کو یہ قرضے دے رہے ہیں اور خطے کی بدلتی ہوئی صورتحال کی وجہ سے نہ صرف ان کی سٹریٹجک ترجیحات تبدیل ہو سکتی ہیں بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ پاکستان ان کے سٹریٹجک مطالبات پورے کرنے سے قاصر ہو جائے یا اس کی سکت ہی کھو دے۔ حتیٰ کہ بذات خود آئی ایم ایف کا پروگرام بھی خطے اور خصوصاً افغانستان میں امریکی سامراج کی سہولت کاری کرنے کے ساتھ منسلک ہے اور ان معاملات میں امریکی سامراج کی ہلکی سی بھی ناراضگی آئی ایم ایف اور اس کے ساتھ ہی ورلڈ بینک اور اے ڈی بی کے قرضوں کی فراہمی کو بھی رکوا سکتی ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط میں قرضے کے تسلسل کو FATF کے تقاضے پورے کرنے کے ساتھ نتھی کر کے پاکستان کو درحقیقت یہی پیغام دیا گیا ہے۔ ان عوامل کے ساتھ ساتھ بگڑتی ہوئی عالمی معاشی صورتحال بھی پاکستان کے لئے نئے بیرونی قرضوں کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بن سکتی ہے۔ اس تمام صورتحال کا مطلب یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے قرضہ ملنے کے باوجود بھی پاکستان ادائیگیوں کے توازن کے حوالے سے مسلسل سراسیمگی، بھاگ دوڑ اور دباؤ کا شکار رہے گا اور کسی بھی پہلو سے لگنے والا کوئی ایک جھٹکا بھی اسے بیرونی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ کی طرف دھکیل سکتا ہے۔

اب مندرجہ بالا ساری بحث کو سمیٹا جائے تو آنے والے سالوں میں روپے کی قدر میں بڑی کمی، شرحِ سود میں بڑے اضافے، مہنگائی میں ہوشربا بڑھوتری، حقیقی اجرتوں میں زبر دست کمی، ملکی منڈی کی قوتِ خرید میں تیز گراوٹ، خوفناک صنعتی بحران، صنعتوں اور کاروبار کی بڑے پیمانے پر بندش، ٹیکسوں میں کمر توڑ اضافے، سرمائے کے انخلا، ترقیاتی وعوامی اخراجات میں بڑی کٹوتیوں اور اس سب کے نتیجے میں غربت، بیروزگاری، بھوک، ننگ وافلاس میں ناقابل بیان اضافے اور محنت کش عوام کی پہلے کبھی نہ دیکھی گئی بربادی کی منظر کشی ہوتی ہے۔ مزید برآں یہ سب کرنے کے بعد بھی نہ صرف مالیاتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں کمی کے اہداف پورے نہیں ہو سکیں گے بلکہ ملک پر قرضوں کے بوجھ میں بھی بڑا اضافہ ہو گا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اس رپورٹ میں موجود باقی تمام مفروضوں کی طرح جی ڈی پی کی حقیقی شرحِ اضافہ کے اعدادو شمار بھی ان تمام زمینی حقائق سے بالکل متصادم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے جی ڈی پی کی حقیقی شرحِ اضافہ(افراطِ زر کو منہا کر کے)مالی سال18-2017ء میں 5.5فیصد تھی جو پچھلے مالی سال میں کم ہوکر 3.3فیصد پر آگئی۔ یہاں ہم بتاتے چلیں کہ بعض غیر سرکاری اندازوں کے مطابق یہ درحقیقت اس سے بھی کم تھی۔ رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال میں یہ مزید کم ہو کر2.4فیصد پر آ جائے گی لیکن اس کے بعد اس میں (حیرت انگیز طور پر)بتدریج اضافہ ہوتا جائے گا اور مالی سال 2022-23ء میں یہ 5فیصد ہو جائے گی۔ رپورٹ میں درج نومینل جی ڈی پی کے تخمینے تو روپے کی قدر میں مسلسل گراوٹ اور نتیجتاً بڑھتے ہوئے افراطِ زر کی وجہ سے کسی حد تک درست ہو سکتے ہیں لیکن ہم یہ سمجھنے سے بالکل قاصر ہیں کہ جی ڈی پی کی حقیقی شرح اضافہ میں یہ بڑھوتری کیسے ممکن ہے۔ اس کی توجیح صرف یہی دی جا سکتی ہے کہ آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام نے یہ ہوائی تخمینہ دے کر یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ بس تھوڑا سا مشکل وقت اگر کاٹ لیا جائے تو پروگرام کے نتیجے میں معیشت درست ڈگر پر آ جائے گی اور ترقی کرنے لگے گی۔ لیکن ہماری نظر میں آئی ایم ایف کا پروگرام پاکستان کی پہلے ہی سے پسماندہ اور کھوکھلی سرمایہ دارانہ معیشت کو بالکل تباہ کر کے رکھ دے گا۔ اسی لئے ہمارا تناظر ہے کہ آنے والے سالوں میں بہترین ممکنہ صورتحال کے تحت بھی جی ڈی پی کی حقیقی شرحِ اضافہ1.5 سے3 فیصد تک رہے گی، بشرطیکہ کیلکولیشن کے لئے بیس لائن سال تبدیل کرنے جیسے شماریاتی ہیر پھیر نہ کئے جائیں، جبکہ بدترین ممکنہ صورتحال کا نتیجہ کساد بازاری، بیرونی ادائیگیوں پر ڈیفالٹ اور معاشی انہدام کی صورت میں نکل سکتا ہے۔

راہِ نجات۔۔۔سو شلسٹ انقلاب!

ہم بغیر کوئی لگی لپٹی رکھے واشگاف الفاظ میں سب کو یہ بتا دینا چاہتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے کسی بھی قسم کی بہتری کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ جب یہ نظام عالمی سطح پر ایک نامیاتی بحران کا شکار ہو کرترقی یافتہ سرمایہ دارانہ سماجوں کو بھی پیچھے کی طرف دھکیل رہا ہے اور اپنی تاریخی متروکیت کا کھل کا اظہار کر رہا ہے، تو ایسے میں پاکستان کی گلی سڑی، کھوکھلی اور گماشتہ سرمایہ داری میں کسی بہتری کی گنجائش کیسے نکل سکتی ہے۔ جو لوگ بڑے ’حقیقت پسند‘ بن کر اس نظام کی حدود میں رہتے ہوئے اصلاحات کے ذریعے بہتری لانے کے باتیں کرتے ہیں، وہ یا تو احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں یا پھر ذاتی مفادات کی ہوس میں شعوری طورپر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نجات کا صرف اور صرف ایک ہی راستہ ہے اور وہ سوشلزم کا راستہ ہے۔ ہم واضح کرتے چلیں کہ یہاں ہم کسی نام نہاد سکینڈے نیوین سوشلزم، ریاستی سرمایہ داری یا بورژوا فلاحی ریاست کی بے کار بات نہیں کر رہے۔ سوشلزم سے ہماری مراد وہی ہے جو مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی نے اپنی تحریروں میں بیان کیا ہے۔ صرف ایک سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت ہی تمام سامراجی قرضوں اور اثاثوں کو ضبط کرتے ہوئے، تمام نجی بینکوں اور مالیاتی اداروں، بڑی صنعتوں، معدنی وسائل اور جاگیروں کو محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیتے ہوئے پیداوار کو منافع کی جکڑ بندیوں سے آزاد کرا سکتی ہے اور اسے انسانی ضرورت کی تکمیل کی خاطر منظم کر سکتی ہے۔ صرف یہی ایک طریقہ ہے محنت کش عوام کو روٹی، کپڑا، مکان، علاج، تعلیم، روزگار اور دیگر بنیادی ضروریات زندگی کی وافر اور باعزت فراہمی کو یقینی بنانے کا۔ مگر سرمایہ داری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہوئے سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کی تعمیر ایک مزدور ریاست کی تخلیق کے بغیر ناممکن ہے۔ اور ایک صحت مند مزدور ریاست صرف ایک مزدور انقلاب کے نتیجے میں ہی تخلیق کی جا سکتی ہے جس میں محنت کش طبقہ غریب کسانوں، بیروزگار نوجوانوں، محکوم قومیتوں، طلبہ اور نچلے درمیانے طبقے کی قیادت کرتا ہوا طاقت پر قبضہ کر لے۔ ہمیں یقین ہے کہ پاکستان کا محنت کش طبقہ کسی صورت اپنے معاشی و سماجی قتل عام کو چپ چاپ بر داشت نہیں کرے گا۔ وہ اپنے تجربات سے سیکھ رہا ہے، سمجھ رہا ہے اور ایک بڑی بغاوت کے لئے تیار ہو رہا ہے۔ لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ وہ جب انقلاب کے میدان میں اترے تو اس کی راہنمائی کے لئے درست نظریات، پروگرام، طریقہ کار اور لائحہ عمل سے مسلح ایک انقلابی پارٹی موجود ہو۔ ایک ویسی ہی پارٹی جیسی لینن نے انقلابِ روس کو پایہئ تکمیل تک پہنچانے کے لئے تخلیق کی تھی۔ اس پارٹی کو عین انقلاب کے وقت تعمیر نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہ کام تحریک کے پھٹ پڑنے سے پہلے کا ہے۔ یہی آج اس ملک کے مارکس وادیوں کا اہم ترین تاریخی فریضہ ہے۔

Comments are closed.