پاکستان: دیہی محنت کش خواتین کی حالتِ زار

|تحریر: آصف لاشاری|

فوٹو بشکریہ پاکستان ٹو ڈے

دیہاتوں میں رہنے والی ایک بڑی محنت کش آبادی کا روزگار زرعی شعبے سے وابستہ ہے۔ ماضی میں زرعی شعبہ پاکستانی معیشت میں ایک بہت بڑا کردار اور حجم رکھتا تھا اور پاکستان کی کل لیبر فورس کا ایک بہت بڑا حصہ اس شعبے سے وابستہ تھا۔پچھلی چند دہائیوں کے اندر اس شعبے کے اندر بہت زیادہ تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ پاکستان کے خصی حکمران طبقے کی جانب سے زرعی سوال کو حل نہ کر سکنے اور زرعی شعبے کو جدید بنیادوں پر استوار نہ کر سکنے کی وجہ سے زرعی شعبہ زوال پذیری کی جانب گیا ہے۔ آج بھی پاکستان کی کل آبادی کا لگ بھگ 60 فیصد حصہ دیہاتوں میں رہائش پذیر ہے۔ ماضی میں دیہاتوں کے اندر رہنے والی محنت کش آبادی کا روزگار کے لیے مکمل انحصار زراعت پر ہوا کرتا تھا لیکن زرعی شعبے کی بربادی اور زراعت کی زبوں حالی کی وجہ سے اس محنت کش آبادی کا بہت بڑا حصہ روزگار کے حصول کے لیے شہروں اور بیرونی ممالک ہجرت کرنے پر مجبور ہوا۔ اس وجہ سے پاکستانی معیشت میں زرعی شعبے کا حصہ بڑے پیمانے پر کم ہونے کی طرف گیا۔ پاکستانی ادارہ برائے شماریات کے مطابق قومی جی ڈی پی میں زرعی شعبے کا حصہ 18.9 فیصد جبکہ کل لیبر فورس کا 42.3فیصد زرعی شعبے سے منسلک ہے۔

اگرچہ پچھلے سالوں میں زرعی شعبے کا حجم ماضی کی نسبت کم ہوا ہے لیکن آج بھی ورک فورس کے حوالے سے یہ سب سے بڑا شعبہ ہے۔ زرعی شعبے سے منسلک لیبر فورس جو کہ کل قومی لیبر فورس کا لگ بھگ42 فیصد ہے، کا اگر بغور جائزہ لیا جائے اور اس میں شامل مرد محنت کشوں اور خواتین محنت کشوں کا تناسب نکالا جائے تو ہمیں نظر آتا ہے زرعی شعبے سے منسلک لیبر فورس کا ایک بڑا حصہ محنت کش خواتین پر مشتمل ہے۔ لیبر فورس سروے 15-2014ء کے مطابق زرعی شعبے کے اندر مرد محنت کشوں کا حصہ 33 فیصد جبکہ خواتین محنت کشوں کا حصہ لگ بھگ 73 فیصد کے برابر ہے۔ زرعی شعبے میں محنت کش خواتین کی شمولیت کا یہ تناسب معیشت کے باقی کسی بھی شعبے کے نسبت کئی گنا زیادہ ہے۔

زرعی شعبے سے منسلک تمام تر کام ہمیں خواتین محنت کش سر انجام دیتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ فصلوں کی بیجائی سے لے کر کٹائی اور پیداوار کو محفوظ کرنے سے انہیں بوریوں میں بند کرنے تک کا تمام کام ہمیں خواتین محنت کش کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ اسی طرح مال مویشیوں کے لیے چارہ کاٹنے سے لے کر چارہ ڈالنے اور صفائی وغیرہ کا سارا کام بھی دیہی محنت کش خواتین کی لازمی ذمہ داری کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

کھیتوں میں تلخ محنت سرانجام دینے کے علاوہ یہ محنت کش خواتین گھروں کے اندر بھی سارے کام سر انجام دیتی ہیں۔ گھروں کے اندر یہی خواتین بچوں کی پرورش، کھانا پکانے، برتنوں و کپڑوں کی دھلائی کا کام بھی سرانجام دیتی ہیں۔ کھیتوں میں محنت کرنے سے لے کر گھر کی تمام تر ذمہ داریاں ایک بیگار کام کی شکل اختیار کر چکی ہیں۔ یہ تمام تر کام محنت کش خواتین بغیر کسی اجرت کے سرانجام دیتی ہیں۔ پچھلی چند دہائیوں میں زرعی ڈھانچے کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں بھی دیہی محنت کش مرد و خواتین کے استحصال میں بھی شدت آئی ہے۔ ماضی کے نسبتاً خوشحال کسان گھرانے ناپید ہو چکے ہیں۔ زرعی ڈھانچے کے اندر ہونے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں ماضی کے لاکھوں کسان گھرانے زرعی مزدوروں یا انتہائی مسائل کا شکار چھوٹے کسانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔ ان محنت کش گھرانوں کے مردوں کی اکثریت سالوں تک بڑے شہروں یا بیرونی ممالک میں محنت مزدوری کرتے ہیں اور خواتین دیہاتوں کے اندر اجرت پر یا بٹے پر کھیتی باڑی کا کام کرتی ہیں۔

سخت ترین محنت، غذائی قلت اور تلخ غیر انسانی حالاتِ زندگی نے ان محنت کش خواتین کی زندگی کو جہنم بنایا ہوا ہے۔ محنت کش خواتین کی اکثریت خطرناک بیماریوں کا شکار ہے۔ ہر دس میں سے آٹھ خواتین آئرن اور زنک کی کمی کا شکار اور جسمانی طور پر انتہائی کمزور ہیں۔ اسی طرح، خواتین کی بہت بڑی اکثریت ہیپا ٹائٹس، ٹی بی، شوگر اور اس طرح کی دیگر متعدی بیماریوں کا شکار ہیں۔ غربت، جہالت، پسماندگی اور صحت کی سہولیات کے نہ ہونے کی وجہ سے بیشتر خواتین بغیر علاج کرائے چپ چاپ موت کے منہ میں چلی جاتی ہیں۔

جسمانی طور پر کمزور ہونے اور صحت کی سہولیات کے میسر نہ ہونے کے باعث گھروں میں ہی بچوں کی پیدائش کی وجہ سے ہزاروں خواتین زچگی کے دوران ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہیں۔ جہاں ان محنت کش خواتین کی دورانِ زچگی اموات کی شرح بہت زیادہ ہے، وہیں ان کے بچوں میں بھی شرحِ اموات بہت زیادہ ہے۔ اپنے بچوں کے کم عمری میں ہی اس جہاں سے گزر جانے کی اذیت ان کی زندگی کے لازمی جزو کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ان محنت کش خواتین اور ان کے بچوں کی اموات کہیں رپورٹ نہیں ہوتیں۔

اسی طرح، غیر انسانی حالاتِ زندگی، دکھوں اور مصائب کے انبار اور سماجی گھٹن کی وجہ سے اکثریتی خواتین نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں اور ان نفسیاتی مسائل کی وجہ سے یہ خواتین پیروں اور ملاؤں کی ہوس و بربریت کا نشانہ بنتی ہیں۔ ان میں سے کئی مستقل طور پر ذہنی مریض اور کئی ان جعلی پیروں کے جعلی علاج کے نام پر کیے جانے والے تشدد سے ہلاک ہو جاتی ہیں۔ ان میں سے چند ایک کیس ہی اخباروں میں رپورٹ ہو پاتے ہیں۔

طبقاتی و صنفی جبر کی طرح ثقافتی جبر بھی ان خواتین کی زندگی پر بہت طرح سے اثر انداز ہوتا ہے۔ ہم ایک زوال پذیر نظام کے اندر زندہ رہ رہے ہیں اور اپنی زوال پذیری میں اس نظام نے دنیا بھر میں طبقاتی، قومی اور صنفی جبر کو ہزاروں گنا بڑھا دیا ہے۔ یہ تمام تر جبر دیہی علاقوں اور سماج کی پسماندہ پرتوں میں اور بھی شدید ہو جاتا ہے۔ دیہی علاقوں میں جہاں ایک طرف قریبی رشتے داروں کی جانب سے مخفی جنسی جبر و استحصال موجود ہے اور اس طرح کے زیادہ تر واقعات اگر زبان زدِ عام ہو جائیں یا گھر کی چار دیواری سے باہر پہنچ جائیں تو اس کا نتیجہ بد نامی کے کلنک کو مٹانے کے لیے خواتین کے قتل کی صورت میں نکلتا ہے۔ غیرت کے نام پر ہونے والے اکثریتی قتل درحقیقت اسی قسم کی ’بے غیرتی‘ کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ اسی طرح کم عمری کی شادی سے لے کر محض گھر اور کھیتوں کے کام کاج کے لیے مزدور لانے کی خاطر بڑی عمر کی خواتین کے چھوٹے کم عمر بچوں سے شادی کرا دینے کے واقعات بھی بڑی تعداد میں وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں یا محض اس وجہ سے کہ خواتین کا رشتہ خاندان سے باہر نہ ہونے دیا جائے، اپنے خاندان کے ایک ہی مرد کے ساتھ دو دو تین تین خواتین کی شادی کروا دینے کے واقعات بھی معمول کا حصہ ہیں۔

سماج کی دیگر مظلوم پرتوں کی طرح دیہی محنت کش خواتین کی زندگی بھی ایک اذیت گاہ میں تبدیل ہو چکی ہے سرمایہ دارانہ نظام کی زوال پذیری نے ان کی زندگیوں کو انتہائی بری طرح سے متاثر کیا ہے۔ زوال پذیری کے عہد میں سرمایہ دارانہ رشتوں کے دیہی سماج میں سرائیت کرنے کے عمل نے بہت پیچیدہ مسائل کو جنم دیا ہے۔ ایک طرف بڑے زمینداروں، بڑے تاجروں و دولتمندوں کی ایک چھوٹی اقلیت نے جنم لیا ہے اور دوسری طرف دیہی سماج کی ایک بہت بڑی اکثریت انتہائی غربت کے اندر دھنس چکی ہے۔ پرانا دیہی نظام ٹوٹ کر بکھر چکا ہے، لیکن ابھی تک اس کی جگہ لینے کے لیے کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ دیہاتوں کے اندر رہنے والے کروڑوں محنت کشوں کی بربادی کا ذمہ دار موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، اس لیے دیہی سماج کو بربادی کی اتھاہ گہرائیوں سے نکالنے اور ایک مکمل غلامی کی زندگی بسر کرنے والی دیہی محنت کش خواتین کی نجات کے لیے موجودہ نظام کو اکھاڑ پھینکنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ آنے والے عرصے میں یہ دیہی محنت کش مرد و خواتین شہروں میں اسی طرح کے مصائب کا شکار محنت کش مردوں اور عورتوں کے شانہ بشانہ موجودہ ظالمانہ نظام کے خلاف لڑیں گے اور موجودہ نظام کو اکھاڑ پھینکتے ہوئے ایک سوشلسٹ سماج تعمیر کریں گے۔

Comments are closed.