پاکستان:محنت کشوں کی حالت زار

|تحریر:ثنا زہری|

محنت کشوں کی طویل ترین جدوجہد اور لازوال قربانیوں کی بدولت انیسویں صدی کے اواخر میں کام کے اوقات کار میں کمی و دیگر عوامی سہولیات کسی حد تک ملنا شروع ہو گئی تھیں۔ بیسویں صدی میں انقلابِ روس اور انقلابِ چین کے بعد دیگر ممالک میں انقلابی تحریکوں کی وجہ سے سرمایہ دار طبقے نے انقلابات سے خوفزدہ ہوکر سوشلزم کا راستہ روکنے کے لیے جہاں دیگر ذرائع استعمال کیے وہیں پر مجبور ہو کر محنت کشوں کو بھی تھوڑی بہت سہولیات اور مراعات دینا شروع کر دیں اور مزدور وں کے حقوق کے تحفظ کے لیے لیبر لاز اور پالیسیاں بنائی گئیں۔

پاکستان میں 1968-69ء کی انقلابی تحریک کی وجہ سے یہاں کے محنت کشوں کو بھی کچھ مراعات ملیں، لیبر لاز بنے، محنت کشوں کو یونین سازی کا حق دیا گیا، اولڈ ایج بینیفٹ اورورکرز ویلفیئر بورڈ جیسے ادارے قائم ہوئے

پاکستان میں 69-1968ء کی انقلابی تحریک کی وجہ سے یہاں کے محنت کشوں کو بھی کچھ مراعات ملیں، لیبر لاز بنے، محنت کشوں کو یونین سازی کا حق دیا گیا، اولڈ ایج بینیفٹ اورورکرز ویلفیئر بورڈ جیسے ادارے قائم ہوئے اور سوشل سیکیورٹی، پنشن، علاج معالجے کی سہولیات، مستقل روزگار اور محنت کشوں کے بچوں کو وظیفے دیئے جانے لگے۔ اس کے علاوہ لیبر اسکولز کا قیام بھی عمل میں لایا گیا۔ چند صنعتی یونٹس قومیائے گئے اور پبلک سیکٹر میں سرمایہ کاری ہوئی۔ اسٹیل مل جیسے ادارے قائم ہوئے جن کی وجہ سے روزگار کے مواقع بھی پیدا ہوئے۔ خدمات کے اکثر شعبے بھی پبلک سیکٹر کے زیرانتظام تھے جن سے محنت کشوں اور عوام کو سہولیات میسر تھیں جن میں بینک، ریلوے،پبلک ٹرانسپورٹ وغیرہ شامل ہیں۔ مگر سوویت یونین کے انہدام کے بعد کاؤنٹر ریفارمز کا عہد شروع ہوا۔ منصوبہ بندی کے تحت صحت اورتعلیم و دیگر قومی اداروں کی نجکاری شروع ہوئی اور محنت کشوں سے مراعات واپس چھیننے کے عمل کا بھی آغاز ہوا۔ بعض شعبوں کو غیر محسوس انداز میں نجکاری کی طرف لیجایا گیا۔ مثلاً، تعلیم کے شعبے میں نجی اسکول اور کالجز میں اضافہ ہونے لگا، اسی طرح نجی ہسپتالوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوا۔ اس بنا پر اگر دیکھا جائے تو تعلیم اور صحت کے شعبے کو کو عملاً نجی شعبے کے حوالے کیا جا چکا ہے کیونکہ نئے سرکاری ہسپتال اور اسکول آبادی کے تناسب سے قائم نہیں کیے گئے۔ جو موجود ہیں ان کی اتنی گنجائش نہیں کہ سب لوگ ان سے مستفید ہو سکیں لہٰذا عوام کو مجبوراً نجی ہسپتالوں و عطائی ڈاکٹروں طرف رجوع کرنا پڑتا ہے اور بچوں کی تعلیم کے لیے بھی پرائیویٹ اسکول و کالجز کی طرف رخ کرنا پڑتا ہے۔

یہ بنیادی شعبے آج کے دور میں انتہائی منافع بخش کاروبار بن چکے ہیں جہاں لوگوں کو بے دردی سے لوٹا جاتا ہے۔ مزید برآں، ان نجی اداروں میں کام کرنے والے ملازمین کا شدید استحصال بھی ہوتا ہے۔ ان کے ٹیکنیکل و نان ٹیکنیکل ملازمین انتہائی کم اجرت پر کام کرتے ہیں اور نہ کوئی جاب سیکیورٹی ہے اور نا ہی کسی قسم کی کوئی اور سہولت۔ جب چاہے مالکان ان کو ملازمت سے فارغ کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ، پی ٹی سی ایل اور بعد ازاں کے ای ایس سی کو بھی نجی شعبے کے حوالے کیا گیا تو ان کے ثمرات عوام کو اوور بلنگ، میٹر چارجز، وقتاً فوقتاً مختلف قسم کے جرمانوں،غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ وغیرہ کی صورت میں مل رہے ہیں اور محنت کشوں کو غیر مستقل ملازمت کی لٹکتی تلوار اور ٹھیکیداروں کے استحصال کا سامنا ہے۔

محنت کش تمام سہولیات سے محروم ہوکر بیگار کیمپ کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ ان غیر مستقل ورکرز کے حقوق کا تحفظ نہ تو لیبر ڈیپارٹمنٹ کرتا ہے اور نہ ہی یونین اشرافیہ جو کہ خود کو مزدوروں کے حقوق کا چیمپئین کہتے ہیں

اب سرکاری تعلیمی اداروں، ہسپتالوں، ریلوے،اسٹیٹ لائف و دیگر محکموں کو بھی نجی شعبے کے حوالے کرنے پر کام جاری ہے، جس پر حکمرانوں کو محنت کشوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔ نیولبرل پالیسیوں کی وجہ سے سرمایہ داروں کو کھلی چھوٹ مل گئی۔ منافع خوری کی ہوس کی وجہ سے مستقل ملازمت کے بجائے کنٹریکٹ ملازمین اور دیہاڑی دار مزدور بھرتی کرکے ان کو تمام تر بنیادی سہولیات و مراعات سے محروم کرتے ہوئے انتہائی کم اجرت دی جاتی ہے۔ ملز اور فیکٹریاں لیبر کنٹریکٹر کے حوالے کر کے بیگار کیمپوں میں تبدیل کر دی گئی ہیں جہاں پر محنت کشوں کا شدید ترین استحصال ہوتا ہے۔ حکومت کی اعلان کردہ کم از کم اجرت ساڑھے17ہزار روپے کے بجائے 10ہزار سے 12ہزار پر محنت کش کام کرنے پر مجبور ہیں اور آٹھ گھنٹے کے بجائے 12 سے 14 گھنٹے کام کرتے ہیں۔ ہفتہ وار چھٹی بھی نہیں ہوتی۔ اوورٹائم بھی نہیں ملتااورچھٹی کے دن کی دیہاڑی مزدور کی تنخواہ سے کاٹ لی جاتی ہے۔

فیصل آباد: پاور لومز محنت کشوں کا اجرتوں میں اضافے کے لیے احتجاج

غیر مستقل ملازمین کو تقرر نامے نہیں دیے جاتے تاکہ ان کے پاس اپنی ملازمت اور اس کی مدت کا کوئی ثبوت نہ ہو تاکہ مالکان اور ٹھیکیدار جب چاہے ان کو نوکری سے فارغ کر سکیں۔ اسی طرح، مالکان ان ملازمین کی اکثریت کو ای۔او۔بی۔آئی میں رجسٹر نہیں کراتے جوکہ ہر ورکر کا قانونی حق ہے۔ ان محنت کشوں کے پاس کوئی تحریری ثبوت نہیں ہوتا ہے کہ وہ کسی ادارے میں کلیم داخل کراسکیں۔ اس لیے وہ پنشن، سوشل سکیورٹی، میرج گرانٹ، ڈیتھ گرانٹ اور بچوں کے وظیفوں سے محروم ہوتے ہیں۔ ای۔او۔بی۔آئی میں رجسٹر ہونے کے لیے تنخواہ کا 5فیصد جمع کرانا ہوتا ہے۔ 1فیصد ورکر کی تنخواہ سے ماہانہ کٹوتی ہوتی اور 4فیصد متعلقہ کمپنی ادا کرتی ہے، مگر اس رقم کو ای۔او۔بی۔آئی میں جمع کرواکے مزدور کو رجسٹر کروانے کے بجائے فیکٹری مالکان، لیبر کنٹریکٹر، لیبر ڈیپارٹمنٹ اورسوشل ویلفیئر بورڈ کی افسر شاہی آپس میں بندر بانٹ کرلیتے ہیں۔ اسی طرح، محنت کش تمام سہولیات سے محروم ہوکر بیگار کیمپ کی چکی میں پستے رہتے ہیں۔ ان غیر مستقل ورکرز کے حقوق کا تحفظ نہ تو لیبر ڈیپارٹمنٹ کرتا ہے اور نہ ہی یونین اشرافیہ جو کہ خود کو مزدوروں کے حقوق کا چیمپئین کہتے ہیں، بلکہ یونین اشرافیہ غیر مستقل محنت کشوں کو اپنا ممبر تک تصور نہیں کرتے اور اگر غیر مستقل ملازمین اپنی یونین بنانے کی کوشش کریں تو یہی یونین اشرافیہ ان کے راستے کی رکاوٹ بن جاتی ہے۔ دوسری طرف، یہی غدار یونین اشرافیہ اور لیبر فیڈریشنیں ہر جگہ ہر وقت ٹھیکیداری نظام کے خلاف جدوجہد کے بلند بانگ دعوے کرتے نہیں تھکتے۔ کیونکہ یہی بکاؤ یونین قیادتیں اور نام نہاد فیڈریشنیں محنت کشوں کے حقوق کو تحفظ دینے کے بجائے سرمایہ داروں کے دلالی کرتی ہیں لہٰذا انہیں نوازا بھی جاتا ہے اور جہاں ایک طرف مزدور بدحال ہوتا جاتا ہے وہیں دوسری طرف ان مفاد یونین قیادتوں کا بینک بیلنس وقت کے ساتھ بڑھتا جاتا ہے۔

اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ محنت کش اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں، مزدور تحریک سے دلال یونین قیادتوں کو نکال باہر کریں اور مشترکہ نعروں اور مطالبات کے گرد ایک متحد مزدور تحریک کو پروان چڑھائیں جو کہ ایک ملک گیر عام ہڑتال کی راہ ہموار کرے گی۔ محنت کشوں کے پاس آگے بڑھنے کے لئے صرف یہی ایک راستہ بچا ہے۔

Comments are closed.