پاکستان: معاشی بحران اور بیروزگاری کا عفریت

|تحریر: رائے اسد|

سرمایہ دارانہ نظام کے بے شمار جرائم میں سے ایک بیروزگاری بھی ہے۔ بحران کے شدید ہونے کے ساتھ ساتھ یہ مرض بھی پھیلتا جا رہا ہے اور آئے روز بیروزگاری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پوری دنیا میں کروڑوں افراد بیروزگار ہیں اور ایک بڑی اکثریت ان لوگوں کی بھی ہے جو انتہائی کم تنخواہ پر یا جزوقتی کام کرنے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف امیروں کی دولت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ صرف پاکستان کی بات کی جائے تو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق یہاں بیروزگاری کی شرح 6 فیصد کے لگ بھگ ہے جو کہ سراسر جھوٹ ہے۔ در حقیقت اس سے کہیں زیادہ لوگ اس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بیروزگاری کی جو مختلف وجوہات بتائی جاتی ہیں ان میں سے ایک تعلیم کی کمی ہے۔ اول تو یہ بھی ریاست کی نا اہلی کا ہی ثبوت ہے کہ پاکستان میں شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ ہر شہری کو مفت اور معیاری تعلیم دینا ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے اور باقی معاملات کی طرح یہ ریاست اس میں بھی ناکام ہے۔ دوسرا یہ کہ تعلیم یافتہ لوگوں کی بہت بڑی تعداد ایک سے زائد ڈگریاں ہاتھ میں لیے روزگار کی تلاش میں دھکے کھا رہی ہے۔

جولائی 2019ء میں ڈان نیوز میں ایک سروے کی رپورٹ شائع کی گئی جس کے مطابق پاکستان میں تقریباً 8.78 ملین لوگ ایسے ہیں جن کے پاس کم از کم بیچلرز کی ڈگری ہے اور ان میں سے 1 ملین سے زیادہ لوگ بیروزگار ہیں۔

جنوری 2019ء کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 1ہزار سے زائد پی ایچ ڈی ہولڈرز بیروزگار ہیں اور کافی تعداد ایسے نوجوانوں کی ہے جو پی ایچ ڈی کرنے کے بعد گھروں میں ٹیوشن دے رہے ہیں یا پھر ان پڑھ سرمایہ داروں کے بنائے گئے نجی سکولوں میں انتہائی کم تنخواہ پر پڑھا رہے ہیں۔ اس سال کے شروع میں عمران خان کی رہائش کے سامنے احتجاج بھی ہوا تھا جس میں نوجوانوں نے اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگریاں جلائیں اور ان کا کہنا تھا کہ ایک کروڑ نوکریوں کا دعویٰ کرنے والے ایک ہزار پی ایچ ڈی ہولڈرز کو نوکری دینے کے قابل بھی نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ ایک بڑی تعداد ایسی ہے جو کم از کم بیچلرز کی ڈگری حاصل کرنے کے باوجود بیروزگار ہے۔ جولائی 2019ء میں ڈان نیوز میں ایک سروے کی رپورٹ شائع کی گئی جس کے مطابق پاکستان میں تقریباً 8.78 ملین لوگ ایسے ہیں جن کے پاس کم از کم بیچلرز کی ڈگری ہے اور ان میں سے 1 ملین سے زیادہ لوگ بیروزگار ہیں۔ صرف پڑھے لکھے نوجوانوں میں یہ شرح 16 فیصد سے زیادہ بنتی ہے جو کہ حکومتی دعووں سے کہیں زیادہ ہے۔ سروے کے مطابق ان بیروزگاروں کی اکثریت گھر سے دور رہنے کو ترجیح دیتی ہے جس کی واحد وجہ سماجی و خاندانی دباؤ ہی ہو سکتی ہے۔ جن پڑھے لکھے لوگوں کو روزگار میسر ہے ان میں سے بھی اکثریت معمولی تنخواہ پر اپنی قابلیت سے کم درجے کا کام کر رہی ہے۔

عالمی معاشی بحران کی وجہ سے پوری دنیا میں ہی کاروبار متاثر ہو رہے ہیں۔ پاکستان جو تاریخی طور پر ایک پسماندہ ملک ہے اور جہاں شروع سے ہی جدید صنعت پروان نہیں چڑھ سکی، یہاں یہ صورتحال مزید پریشان کن ہے۔ ہر شعبے میں آئے روز گراوٹ نظر آ رہی ہے اور کئی صنعتیں مکمل بندش کا شکار ہیں۔ ان میں ٹیکسٹائل کا شعبہ سرِ فہرست ہے۔ سال 2018ء میں پنجاب میں 125 ٹیکسٹائل یونٹ بند ہوئے۔ فیصل آباد کا پاور لومز سیکٹر پاکستان کا سب سے بڑا پاور لومز سیکٹر ہے جس میں ہزاروں لومز ہیں اور لاکھوں مزدور ان میں کام کرتے ہیں۔ پچھلے ایک سال سے اس سیکٹر کا ایک بڑا حصہ بند پڑا ہے اور تاحال لاکھوں محنت کش بیروزگار ہو چکے ہیں۔ عنقریب اس شعبہ کے مکمل طور ختم ہونے کے واضح امکانات ہیں اور اس کے اندر کام کرنے والے لاکھوں مزدوروں اور ان کے خاندانوں کی زندگیاں داؤ پر لگی ہے۔

آٹو موبائلز انڈسٹری کے شعبہ میں پچھلے مالی سال میں 6.11 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ کاریں بنانے والی تین بڑی کمپنیوں کی فروخت میں بڑے پیمانے پر کمی آئی ہے جن میں ٹویوٹا، ہنڈا اور سوزوکی شامل ہیں۔ 20 ستمبر 2019ء کو ڈان میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق انڈس موٹرز کمپنی نے اپنا پلانٹ عارضی طور پر بند کر دیا ہے۔ انڈس موٹرز ٹویوٹا گاڑیاں بنانے والی کمپنی ہے۔ موٹر سائیکلز کی فروخت میں بھی خاطر خواہ کمی آئی ہے اور یہاں تک کہ ٹریکٹرز کی ٖفروخت میں بھی ریکارڈ کمی دیکھنے کو ملی ہے۔ ٹریکٹر انڈسٹری کے لئے پارٹس بنانے والی کئی کمپنیوں نے مزدوروں کو نوکریوں سے نکالنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔ ان انڈسٹریز سے منسلک باقی محنت کشوں کا روزگار بھی خطرے میں ہے۔ اسی طرح باقی صنعتی شعبہ جات بھی گراوٹ کا شکار ہیں۔ ایک اخباری رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال 50 لاکھ افراد بیروزگار ہونے کی طرف جائیں گے۔

سرکاری ہسپتالوں کو بھی بیچا جا رہا ہے۔ غریب عوام سے سستے علاج کی سہولت بھی چھینی جا رہی ہے اور ساتھ ہی نجی کمپنیاں منافعوں کی ہوس میں بے شمار ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ بھی کر دیا جائے گا

عوام کے زخموں پر مزید نمک چھڑکنے کے لئے سرکاری اداروں کو نجکاری کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ کچھ اداروں میں یہ عمل پہلے ہو چکا ہے جیسے کہ پی ٹی سی ایل۔ صرف پی ٹی سی ایل کی مثال لی جائے تو نجکاری کی وجہ سے اب تک 60ہزار کے لگ بھگ محنت کشوں کو نوکری سے نکالا جا چکا ہے۔ آئی ایم ایف کی ایما پر مزید 50 سے زائد اداروں کی نجکاری کے لئے سمری تیار کی گئی ہے۔ ایم ٹی آئی ایکٹ نافذ کر کے سرکاری ہسپتالوں کو بھی بیچا جا رہا ہے۔ غریب عوام سے سستے علاج کی سہولت بھی چھینی جا رہی ہے اور ساتھ ہی نجی کمپنیاں منافعوں کی ہوس میں بے شمار ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ بھی کر دیا جائے گا جس سے مزید ہزاروں گھروں کا چولہا ٹھنڈا پڑ جائے گا۔ لیکن نجکاری کے اس حملے کے خلاف مزاحمت موجود ہے اور تحریک کا آغاز بھی ہو چکا ہے جو آنے والے عرصے میں مزید شدت اختیار کرے گی۔ دیگر اداروں میں بھی تحرک پیدا ہو رہا ہے جو جلد سطح پہ اپنا اظہار کرے گا۔ لیسکو، آئیسکو اور گدو پاور کی نجکاری کے خلاف واپڈا کے محنت کش میدان عمل میں اترچکے ہیں۔

دراصل بیروزگاری سرمایہ دارانہ نظام ہی کی پیداوار ہے۔ زیادہ منافع کمانے کے لئے سرمایہ دار کی کوشش ہوتی ہے کہ کم سے کم مزدوروں سے کام لیا جائے تاکہ تنخواہوں کی مد میں کم رقم خرچ کرنی پڑے۔ یہ نظام ہی بیروزگاروں کی فوج پیدا کرتا ہے تاکہ مزدوروں کو کم اجرت پہ کام کرنے کے لئے مجبور کیا جا سکے۔ سرمایہ دارہر مزدور کے ذہن میں یہ خوف ڈالتا ہے کہ اگر زیادہ تنخواہ کا مطالبہ کیا تو اس کے پاس ایسے مجبور لوگوں کی قطار ہے جو اس سے بھی کم پیسوں پر کام کرنے کے لئے تیار ہیں۔ اسی طرح تعلیمی اداروں میں بھی ”میرٹ“ کے نام پر مقابلہ بازی پروان چڑھائی جاتی ہے اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ جو سب میں سے ”بہترین“ ہوگا وہی آگے جائے گا۔ حالانکہ حقیقی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ بہت کم تعداد کو ئی اچھی نوکری حاصل کر سکے۔ اس بات کا اندازہ اپنے ارد گرد نظر دوڑا کر آسانی سے لگایا جا سکتا ہے۔ ایک طرف انفراسٹرکچر بالکل تباہ ہوچکا ہے جس کو بڑے پیمانے پر تعمیر کرنے کی ضرورت ہے اور دوسری طرف انجینئرز کام کی تلاش میں بیروزگار پھر رہے ہیں۔ اسی طرح ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کی نسبت ڈاکٹرز، نرسز اور دیگر عملہ انتہائی کم ہے۔ یہی حال ہمیں دیگر تمام شعبہ جات میں نظر آتا ہے۔ عوام کی اکثریت کو تعلیم سے محروم رکھنا بھی سرمایہ دارانہ نظام کی منافع خوری کی ہوس کا ہی نتیجہ ہے۔ تاکہ کم عمر بچوں کی محنت سستے داموں خریدی جا سکے۔ زمینوں کے مالکان ان کی محنت کا استعمال کر کے اناج اگا سکیں جس کو منڈی میں بیچ کر منافع کمایا جاسکے۔ سرمایہ دار فیکٹریوں میں ان کا خون نچوڑ کر ضروریاتِ زندگی کی اشیاء بنوائیں جنہیں مہنگے داموں بیچ کر دولت کے انبار لگا ئے جا سکیں۔ بدلے میں ان لوگوں کو صرف اتنی اجرت دی جاتی ہے کہ دو وقت کی روٹی مشکل سے پوری ہوتی ہے، بچوں کی تعلیم تو بہت دور کی بات ہے۔ اسی لیے مزدوروں کے بچوں کو مزدور ہی بننا پڑتا ہے یا پھر بیروزگار ہی رہ جاتے ہیں اور پھر کچھ ’عقلمند‘ دانشور کہتے ہیں کہ روزگار نہ ملنے کی وجہ تعلیم کی کمی ہے۔

یہ نظام لوگوں سے کام کرنے کا حق بھی چھین چکا ہے۔ نہ جانے کتنے لوگ صرف بیروزگاری کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ پچھلے کچھ عرصہ میں کئی ایسے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں جن میں غریب نوجوان روزگار نہ ملنے کی وجہ سے خودکشی کرنے پر مجبور ہوئے۔ اس کے علاوہ دیگر بے تحاشہ مسائل موجود ہیں اور بڑھتے جا رہے ہیں۔ سرمایہ دارانہ نظام ایک ناسور بن چکا ہے جس سے چھٹکارا حاصل کیے بغیر کوئی مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی طرف سے اس مسئلے پر سنجیدہ طریقے سے بات ہی نہیں کی گئی، حل کرنا تو دور کی بات ہے۔ ایک فیکٹری میں 1ہزار لوگ آٹھ گھنٹے کام کر رہے ہیں تو وہاں پر 2ہزار لوگوں کو رکھا جا سکتا ہے جس سے مزید 1ہزار لوگوں کو روزگار بھی ملے گا اور ان کے کام کرنے کا دورانیہ بھی نصف ہو جائے گا اور پیداوار میں بھی اضافہ ہوگا۔ لیکن یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب فیکٹریوں پر مزدوروں کا جمہوری قبضہ ہو۔ دیگر شعبہ جات میں بھی اسی طرح بیروزگاری کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ ایک مزدور ریاست اور منصوبہ بند معیشت ہی یہ مسائل حل کر سکتی ہے جو صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی تخلیق ہو سکتی ہیں۔ سوشلسٹ انقلاب ہی بنی نوح انسان کے لئے راہِ نجات ہے۔ لیکن یہ انقلاب ایک انقلابی پارٹی کے بغیر ناممکن ہے۔ ایک ایسی پارٹی جو مارکسزم کے انقلابی نظریات سے مسلح ہو۔ ایسی پارٹی کی تعمیر ہی آج مارکس وادیوں کا سب سے بڑا تاریخی فریضہ ہے۔

Comments are closed.