نجکاری کی دہشت گردی

|تحریر:آفتاب اشرف|

حال ہی میں آئی ایم ایف کی ٹیم قرضے کی شرائط کے مطابق پاکستانی معیشت کا دوسرا جائزہ مکمل کر کے واپس لوٹی ہے۔اگرچہ، اپنے دورے کے اختتام پر ہونے والی پریس کانفرنس میں ٹیم نے پاکستانی معیشت کی صورتحال پر ’اطمینان‘ کا اظہار کیا ہے لیکن اطلاعات کے مطابق اصل صورتحال اس سے بالکل مختلف ہے اور پاکستانی حکام سے میٹنگز کے دوران ٹیم نے قرضے کی مختلف مالیاتی و معاشی شرائط پوری نہ کر سکنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے اور حکومت کی زبردست سرزنش کی گئی ہے۔ آئی ایم ایف ٹیم کی ناراضگی کا سبب بننے والی وجوہات میں جہاں ٹیکس اہداف حاصل کرنے میں حکومت کی ناکامی، مالیاتی خسارے اور سرکلر ڈیٹ میں اضافے، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافہ کرنے سے حکومت کی خوفزدگی جیسے نکات شامل ہیں،وہیں تیزی سے سٹرکچرل اصلاحات کرنے میں حکومت کی ناکامی نے بھی ٹیم کو خاصاسیخ پا کیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آنے والے دنوں میں جہاں ایک طرف منی بجٹ کی صورت میں عوام کی پیٹھ پر بالواسطہ ٹیکسوں کے بوجھ اوربجلی اور گیس کے ٹیرف میں مزید اضافہ کیا جائے گا وہیں دوسری طرف حکومت عوامی اداروں کی نجکاری کے عمل کو بھی فاسٹ ٹریک کرنے کی بھر پور کوشش کرے گی۔ آئی ایم ایف ٹیم کی واپسی کے کچھ روز بعد عمران خان کا چند ہفتوں کے اندر اندر صوبہ پنجاب کے شعبہئ صحت میں ہر صورت ایم ٹی آئی ایکٹ کے نفاذ کا اعلان، جو دراصل سرکاری ہسپتالوں کی نجکاری کا قانون ہے، اسی حقیقت کی غمازی کرتا ہے۔

پاکستان کے عوام پچھلی دو دہائیوں سے مسلسل دہشت گردی کے بھیانک عفریت کا شکار ہیں اور آئے روز ملک کے مختلف حصے بم دھماکوں سے لرزتے رہتے ہیں لیکن دہشت گردی صرف وہ ہی نہیں ہوتی جو بارود اور بندوق کے ذریعے کی جاتی ہے بلکہ سامراجی مالیاتی اداروں، سامراجی بورژوازی اور ملکی سرمایہ دار طبقے وریاستی اشرافیہ کی تجوریاں بھرنے کی خاطر محنت کش عوام پر کی جانے والی معاشی دہشت گردی کے تباہ کن اثرات بارود کے ذریعے کی جانے والی دہشت گردی سے بھی کئی گنا زیادہ بھیانک ہوتے ہیں۔ سرکاری ہسپتالوں و تعلیمی اداروں، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور پاور پلانٹس، پی آئی اے، اسٹیٹ لائف، پاکستان پوسٹ، ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ، او جی ڈی سی ایل، سوئی پائپ لائنز، سرکاری بینکوں اور پی ایس او سمیت درجنوں دیگر عوامی اداروں کی نجکاری کا منصوبہ، درحقیقت عوام کے خلاف کی جانے والی اس معاشی دہشت گردی کی ہی ایک بد ترین شکل ہے۔ ان عوامی اداروں کی نجکاری سے جہاں ان میں کام کرنے والے محنت کشوں کو ڈاؤن سائزنگ، مستقل ملازمتوں کے خاتمے، اوقات کار میں اضافے اور اجرتوں میں کٹوتی جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا اور نتیجتاً لاکھوں گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑ جائیں گے وہیں عوام کی ایک وسیع ترین اکثریت پر بھی اس کے نہایت ہی بھیانک اثرات مرتب ہوں گے جن کا ایک مختصر جائزہ لینا ہی اس تحریر کا بنیادی مقصد ہے۔

سرکاری ہسپتالوں و تعلیمی اداروں، بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں اور پاور پلانٹس، پی آئی اے، اسٹیٹ لائف، پاکستان پوسٹ، ریلوے، کراچی پورٹ ٹرسٹ، او جی ڈی سی ایل، سوئی پائپ لائنز، سرکاری بینکوں اور پی ایس او سمیت درجنوں دیگر عوامی اداروں کی نجکاری کا منصوبہ، درحقیقت عوام کے خلاف کی جانے والی اس معاشی دہشت گردی کی ہی ایک بد ترین شکل ہے۔

سب سے پہلے تو یہ واضح کرنے کی ضرورت ہے کہ ”نجکاری سے ادارے کی کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے“ جیسی باتیں محض لبرل دانشوروں کی بکواس اور سرمایہ دار حکمران طبقے کی دروغ گوئی ہیں۔ کوئی بھی سرمایہ دار یا نجی کمپنی جب کسی عوامی ادارے کو خریدتی ہے تو اس کا مقصد عوام کو بہتر اور سستی سہولیات کی فراہمی نہیں بلکہ منافع خوری ہوتا ہے۔ لہٰذا نجکاری کا فوری نتیجہ ادارے کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولیات کے انتہائی مہنگا ہو کر محنت کش عوام کی پہنچ سے باہر ہو جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اسی طرح، شرحِ منافع کو بڑھانے کے چکر میں سہولیات کے معیار میں بھی عمومی طور پر گراوٹ ہی آتی ہے لیکن اگر کچھ بہتری ہو بھی تو دوسری طرف ان کی قیمت اتنی بڑھا دی جاتی ہے کہ درمیانہ طبقے کے لیے بھی انہیں افورڈ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں اس امر کی کلاسیکی مثال بجلی کے شعبے سے لی جا سکتی ہے جہاں 1990ء کی دہائی کے اوائل میں نجی سرمایہ کاری اور نجکاری کے عمل کا آغاز کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے لے کر اب تک نہ صرف بجلی کی قیمتیں بڑھتے بڑھتے آج آسمان کو چھو رہی ہیں بلکہ لوڈ شیڈنگ کا عفریت بھی ہر گزرتے سال کے ساتھ قابو سے باہر ہوتا گیا ہے۔ اور اس سب کے باوجود سرکلر ڈیٹ میں بھی مسلسل اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے حالانکہ ہر سال ’کپیسٹی پیمنٹ‘ کی مد میں سینکڑوں ارب روپے عوام کی ہڈیوں سے نچوڑ کر نجی پاور پلانٹس کے مالکان کو دیے جاتے ہیں۔ اسی طرح، کے ای ایس سی(کے۔ الیکٹرک) کی مثال سب کے سامنے ہے جس کی پیداواری صلاحیت میں نجکاری کے بعد سے لے کر اب تک ایک میگا واٹ کا اضافہ بھی نہیں کیا گیا جب کہ دوسری طرف بجلی کے ٹیرف اور غریبوں کے علاقوں میں لوڈ شیڈنگ میں ہوش ربا اضافہ ہوا ہے۔ 2015ء کے موسم گرما میں گرمی اور حبس سے کراچی میں ہزاروں غریبوں کی ہلاکت کی براہ راست ذمہ داری کے ای ایس سی کی نجکاری پر عائد ہوتی ہے۔

2015ء کے موسم گرما میں گرمی اور حبس سے کراچی میں ہزاروں غریبوں کی ہلاکت کی براہ راست ذمہ داری کے ای ایس سی کی نجکاری پر عائد ہوتی ہے۔

اسی طرح، اگر پی ٹی سی ایل کو دیکھا جائے تو 2005ء میں نجکاری کے بعد سے لے کر اب تک اتصالات انتظامیہ نے ملک کے فائبر آپٹک نیٹ ورک میں ایک انچ کا بھی اضافہ نہیں کیا،حالانکہ، اس کی طرف سے فراہم کی جانے والی سہولیات خطے کے دیگر ممالک کی نسبت ٹھیک ٹھاک مہنگی ہیں مگر معیار کا یہ عالم ہے کہ پورے خطے میں سست ترین انٹر نیٹ پاکستان میں ہے۔ ریلوے، جو اپنے سستے کرایوں کی وجہ سے پاکستان میں عام آدمی کا ترجیحی ذریعۂ سفر تھا، میں بھی ٹرینوں کو ٹھیکے پر دینے سے یہی صورتحال پیدا ہوئی کہ ایک طرف کرایوں میں ہوش ربا اضافہ ہوا جبکہ دوسری طرف ان مہنگے کرایوں کے تقابل میں معیار درحقیقت کم ہوا۔ مزید برآں، کئی ایک ٹھیکیداروں نے کچھ عرصہ ٹرینیں چلانے کے بعدیہ کام چھوڑ دیا کیونکہ تمام تر لوٹ مار کے باوجود انہیں مطلوبہ شرحِ منافع حاصل نہیں ہو رہی تھی۔

شعبۂ صحت میں بھی نجکاری عوام کے لیے ایک بھیانک خواب ثابت ہوئی ہے جس کی واضح مثال خیبر پختونخوا میں ایم ٹی آئی ایکٹ کے نفاذ اور نتیجتاً سرکاری ہسپتالوں کے کارپوریٹ ادارے بن جانے کے بعد ان میں فراہم کی جانے والی علاج معالجے کی سہولیات کے انتہائی مہنگے اور مزید غیر معیاری ہو جانے کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ اسی طرح، سرکاری تعلیمی اداروں کی نجکاری نے غریب کے بچے کے لیے تعلیم کے حصول کو ناممکن بنا دیا ہے۔ اس کی ایک واضح مثال لاہور میں گورنمنٹ کالج اور ایف سی کالج جیسی تاریخی درسگاہوں کی نجکاری کے بعد ان کی فیسوں میں مسلسل ہوش ربا اضافے سے دی جا سکتی ہے جس کی بدولت آج کسی محنت کش کا بیٹا یا بیٹی ان اداروں میں پڑھنا تو دور کی بات، ان میں قدم رکھنے کا بھی نہیں سوچ سکتا۔

نجکاری کے ”فوائد“ کے متعلق ریاستی حکام، حکومتی نمائندوں اور ان کے وظیفہ خوار دانشوروں کی جانب سے بولا جانے والا ایک اور سفید جھوٹ یہ ہے کہ اس سے ملکی معیشت کو فائدہ ہوتا ہے اور حکومتی خسارے میں کمی ہوتی ہے۔ مزید برآں، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نجکاری سے حاصل ہونے والی رقم سے ملک پر چڑھے قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے میں بہت مدد ملتی ہے۔ لیکن، حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور پاکستان میں نجکاری پروگرام کی تیس سالہ تاریخ اس امر کی گواہی دیتی ہے۔ مثال کے طور پر بجلی کے شعبے میں ہی نجی سرمایہ کاری کی وجہ سے پیدا ہونے سرکلر ڈیبٹ کی مد میں مختلف حکومتیں اب تک کل ملا کر کئی ہزار ارب روپے نجی سرمایہ کاروں کی جیبوں میں ڈال چکی ہیں۔ یہ ساری رقم یاں تو براہ راست بجلی کے بلوں میں اضافہ کر کے عوام کی جیبوں سے نکالی گئی ہے یا پھر حکومت نے اس ادائیگی کی خاطر مزید قرضے اٹھائے ہیں جن کی سود سمیت واپسی پھر عوام کی ہڈیوں کا گود انچوڑ کر ہی کی جاتی ہے۔

2015ء کی ایک رپورٹ کے مطابق، اس وقت تک نجکاری کے بعد صرف کے ای ایس سی کو ہی حکومت ایک سو ارب روپے سے زائد کی ٹیکس چھوٹ اور سبسڈی دے چکی تھی۔ اسی طرح، نجی پاور پلانٹس کو اب تک ایندھن، گیس وغیرہ کی مد میں کھربوں روپے کی سبسڈیاں دی جا چکی ہیں جنہیں عوام کا گوشت نوچ کر ہی ادا کیا گیا ہے۔ یہ ساری رقم مل کر اتنی بڑی ہے کہ اگر اسے سستی بجلی پیدا کرنے کے سرکاری منصوبوں پر لگایا جاتا تو نہ صرف عوام کو نہایت سستی بجلی میسر ہوتی بلکہ لوڈ شیڈنگ کا بھی نام و نشان نہ ہوتا۔ اسی طرح، اگر ہم ریلوے کا ذکر کریں تو اس میں ٹھیکے پر دی جانے والی ٹرینوں کے انجن، بوگیوں کی خریداری، عملے کی تنخواہیں، تکنیکی دیکھ بھال وغیرہ سب سرکاری(عوامی) پیسوں سے ہوتی ہے لیکن ٹرین سے حاصل ہونے والا منافع نجی ٹھیکیدار کی جیب میں جاتا ہے۔ ایسی بہت ساری مثالوں میں سے ایک مثال مسلم کمرشل بینک کی نجکاری کی ہے جس کے سارے ڈوبے ہوئے قرضے حکومت نے اپنے سرلے لیے، یعنی عوام کے کھاتے میں ڈال دیے، اور بینک کی بیلنس شیٹ بالکل صاف کر کے اسے اونے پونے داموں نشاط گروپ کو بیچ دیا گیا۔ اب پی آئی اے کی نجکاری کے متعلق بھی حکومت کا یہی منصوبہ ہے کہ تمام اخراجات یعنی عملے کی تنخواہیں، جہازوں کی تکنیکی دیکھ بھال وغیرہ حکومت کے ذمے ہو گا لیکن روٹس پرائیویٹائز کر دیے جائیں گے جن سے نجی سرمایہ کار خوب منافع بٹوریں گے۔ آسان الفاظ میں نجکاری کا سادہ سا اصول یہ ہے کہ اخراجات سارے سرکاری خزانے، یعنی عوام کی جیب سے ہوتے ہیں، مگر منافعے سرمایہ داروں اور نجی کمپنیوں کی جیب میں جاتے ہیں۔ اس سارے عمل سے سرکاری خزانے کو ہونے والے نقصان کو پھر عوام پر نئے ٹیکس لاد کر یا پھر نئے قرضے اٹھا کر پورا کیا جاتا ہے جن کی واپسی بھی عوام کو نچوڑ کر ہی کی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پچھلی تین دہائیوں سے جاری نجکاری کے باوجود جہاں ایک طرف عوام پر بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ مسلسل بڑھتا ہی گیا ہے وہیں اس سارے عرصے میں ملکی قرضہ بھی کم ہونے کی بجائے مسلسل اضافے کے ساتھ آج آسمان کی بلندیوں کو چھو رہا ہے۔ اسی طرح، ”نجکاری سے اداروں میں کرپشن ختم ہو جاتی ہے“ جیسی رٹی رٹائی بکواس کرنے والے وظیفہ خواروں کے منہ پر تھپڑ مارنے کے لیے حال ہی میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہورمیں منظر عام پر آنے والا کئی ملین ڈالر کا کرپشن سکینڈل ہی کافی ہے۔

عوامی اداروں کی نجکاری کیخلاف جدوجہد صرف ان اداروں میں کام کرنے والے محنت کشوں کی ہی لڑائی نہیں ہے، بلکہ حتمی تجزئیے میں یہ وسیع تر عوامی مفاد کی جنگ ہے کیونکہ اگر یہ نجکاری ہو گئی تو نہ صرف عوام کو جو بھی تھوڑی بہت سستی سہولیات دستیاب ہیں ان کا خاتمہ ہو جائے گا بلکہ لانگ ٹرم میں اس سے سرکاری خزانے کو ہونے والے نقصان کو بھی انہی کی جیبوں سے پورا کیا جائے گا۔ لہٰذا جہاں ایک طرف ان اداروں کے محنت کشوں کا فریضہ ہے کہ وہ اس حوالے سے جھوٹے حکومتی و ریاستی پراپیگنڈے کے توڑ کے لیے حقائق پر مبنی اپنا پیغام عوام کی وسیع تر پرتوں تک پہنچائیں وہیں عوام کا بھی فرض ہے کہ وہ اس لڑائی میں محنت کشوں کا ساتھ دیں کیونکہ اس میں انہی کا فائدہ ہے۔عوامی اداروں، صنعتوں کے محنت کشوں اور عوام کی وسیع تر پرتوں کی باہمی طبقاتی جڑت ہی ایک کامیاب ملک گیر عام ہڑتال کی راہ ہموار کرے گی جو کہ حکمرانوں کو منہ توڑ جواب دیتے ہوئے سماج کو نجکاری کی دہشت گردی سے نجات دلا سکتی ہے۔

Comments are closed.