پاکستان کا معاشی بحران: اس خرابے میں کوئی خیر نہیں

|تحریر: پارس جان|

بالآخر تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مملکت خداداد میں پرانی پارلیمنٹ میں نئی حکومت کا قیام عمل میں آ چکا ہے۔ جو لوگ عمران خان کی وزیراعظم ہاؤس سے رخصتی پر خوشی سے بغلیں بجا رہے ہیں، وہ حقیقت سے یا تو مکمل طور پر نابلد ہیں یا پھر انہوں نے دانستہ آنکھیں بند کی ہوئی ہیں۔ حکومت کی تبدیلی سے ریاست کا بحران اور داخلی خانہ جنگی کم ہونے کی بجائے مزید شدت اختیار کر سکتی ہے۔ وقتی طور پر شکست خوردہ ریاستی دھڑا جو عمران خان کی پشت پناہی پر معمور ہے، اتنی آسانی سے ہتھیار ڈالنے والا نہیں ہے۔ وہ اس نئی حکومت کو ناکام کرنے کے لیے ہر حد تک جائیں گے کیونکہ ان کا حتمی مقصد آرمی کی کمان ہر قیمت پر سنبھالنا ہے، اس لیے وہ نومبر سے قبل یعنی قمر جاوید باجوہ کی ملازمت کی مدت کی مزید توسیع سے پیشتر انتخابات کروا کر نئی حکومت تشکیل دینے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ انہیں کامل یقین ہو چکا ہے کہ اگر الیکشن ہوئے تو اس وقت اینٹی امریکہ بیانیے کے باعث عمران خان کی مقبولیت عروج پر ہے۔ یہ رسہ کشی پہلے ہی سے دگر گوں ملکی معیشت کے لیے زہرقاتل ہے۔ ریاست کا یہ بحران آخری تجزئیے میں معیشت کا بحران ہی ہے جو اس تمام تر سیاسی رد و بدل کے باوجود نہ صرف اپنی جگہ پر موجود ہے بلکہ دن بدن مزید بگڑتا چلا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ معیشت ہر سماجی مظہر کا من و عن تعین نہیں کرتی بلکہ سیاسی، سفارتی اور ثقافتی عوامل بھی اپنی اپنی جگہ اہم کردار ادا کرتے ہیں مگر بہرحال ان تمام عوامل کے پیچیدہ آپسی تعلقات کی نوعیت کا حتمی دارومدار معاشی حرکیات پر ہی ہوا کرتا ہے۔ اگر ملک کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو جہاں ایک طرف یہ ریاستی انتشار معیشت کے نامیاتی بحران کا منطقی نتیجہ ہے وہیں یہ خود بے لگام ہو کر معیشت میں بہتری کے ہر امکان کے رستے کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر ریاست کا سفارتی ہیجان اور بین الاقوامی تعلقات کا غیر یقینی پن بھی معاشی استحکام کو ناممکن بنا رہا ہے۔ ان حالات میں نئی حکومت کے لیے کوئی ہنی مون کی سہولت میسر نہیں ہو گی اور شہباز شریف کے لیے وزیراعظم کی اچکن کی اس کے سیاسی کفن میں تبدیلی کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔

حکومت کو انتہائی دگرگوں معیشت کو راہ ِراست پر لانے کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اپنے پہلے خطاب میں وزیراعظم شہباز شریف نے بہت بلند و بانگ دعوے اور کچھ اہم اعلانات بھی کیے ہیں، اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ حکومت کا مورال بلند ہے اور وہ ہمت اور حوصلے کے بلبوتے پر ملک کو بحرانی کیفیت سے نکال باہر کریں گے۔ مگر مسئلہ یہ ہے کہ مورال کا جنگ میں تو بہرحال ایک اہم کردار ہو سکتا ہے مگر سرمایہ دارانہ معیشت اس سے ہمیشہ بے نیاز ہی رہتی ہے۔ اگر ہمت، عزم، دعووں اور تقاریر سے ملک چلائے جا سکتے تو شاید عمران خان واقعی ملک کو ایشین ٹائیگر بنا چکا ہوتا۔ معیشت کے اپنے قوانین اور محرکات ہوتے ہیں اور اس وقت کوئی ایک اعشاریہ بھی مثبت امکانات کی نشاندہی کرتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ عمران خان کے شدید دائیں بازو کے مبینہ اینٹی امریکہ بیانیے کا مقابلہ کرنے کے لیے شہباز شریف کو فوری ریلیف کا تاثر دینے کے لیے جو اعلانات کرنے پڑے ہیں، اول تو وہ ناقابلِ عمل ہیں، دوم اگر وہ عملی شکل اختیار کرتے بھی ہیں تو ان کے متوازی ایسے کاونٹر اقدامات بھی ناگزیر ہو جائیں گے جو ان مثبت اقدامات کے عوامی اثرات کو زائل کرتے ہوئے اپنے الٹ میں تبدیل کر دیں گے۔

اس سے پہلے کہ پاکستانی معیشت کے مستقبل کے امکانات پر روشنی ڈالی جائے، یہ ضروری ہے کہ معیشت کی موجودہ نحیف کیفیت کی وجوہات کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ جو لوگ نئی حکومت سے معاشی بہتری کی توقعات لگائے بیٹھے ہیں، انہوں نے معاشی تباہی کی تمام تر ذمہ داری عمران خان کی حکومت پر ڈال دی ہے، جو کہ انتہائی سطحی اور میکانکی طرزِ فکر ہے۔ یہ درست ہے کہ ابتدائی دنوں میں عمران خان کی معاشی ٹیم انتہائی ناتجربہ کار تھی۔ اور پے در پے ذمہ داریوں کی منتقلی نے معاشی گراوٹ کے سفر کو مہمیز بھی دی۔ عمران خان نے اپنے قلیل عرصہ حکومت میں چار وزرائے خزانہ تبدیل کیے اور اسٹیٹ بینک کے بھی کئی گورنرز آزمائے گئے۔ لیکن یاد رہے کہ پالیسی سازوں کا یہ لا ابالی پن معاشی بحران کی وجہ نہیں تھا بلکہ اس کا نتیجہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بالآخر شوکت ترین اور رضا باقر جیسے تجربہ کار لوگوں کی تعیناتی بھی معیشت کے گراوٹ کے رجحان کو کم نہ کر سکی۔ ہم پھر اس بات پر زور دیں گے کہ یہاں یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ اپنی تمام تر نا اہلی، نا تجربہ کاری اور ایڈہاک ازم کے باوجود عمران خان کی حکومت معیشت کی موجودہ صورتحال کی کلی طور پر ذمہ دار قرار نہیں دی جا سکتی۔ بلکہ یہ گزشتہ تین دہائیوں سے جمہوریتوں اور آمریتوں کی پالیسیوں کا تسلسل ہی ہے جس نے آج معیشت کو اس تباہی کے دہانے پر آن کھڑا کیا ہے۔ عمران خان کی معاشی ناکامی کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ اس نے کسی بھی قسم کی انقلابی جراحی سے اجتناب کیا، کیونکہ وہ بھی اپنے پیشرو حکمرانوں کی طرح سرمائے کی آمریت پر غیر متزلزل یقین رکھتا ہے۔ اب سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ اس کے وہی پیشرو اس کے جانشین بن کر واپس آ گئے ہیں اور وہ ان کے لیے اس سے بھی بڑا معاشی بحران چھوڑ کر جا رہا ہے جو اس کو انہوں نے ورثے میں دیا تھا۔ اب اس بحران کے تمام ذمہ داران یا ذمہ داران کی اکثریت تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ہی حکومت میں موجود ہیں اور ان کے پاس معیشت کو بحران سے نکالنے کا کوئی نیا منصوبہ نہیں ہے بلکہ وہ آج بھی اپنی انہیں پالیسیوں کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں جن کے باعث آج معیشت اس مقام پر پہنچی ہے۔ اس کا اندازہ بطور وزیراعظم قومی اسمبلی میں میاں شہباز شریف کی پہلی تقریر سے لگایا جا سکتا ہے۔

اس وقت ملکی زرمبادلہ کے سرکاری ذخائر 11 سے 12 ارب ڈالر کی خطرناک سطح تک گر چکے ہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق بیرونی قرضوں کی موجودہ صورتحال اور ملکی خساروں کو مدنظر رکھتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر اس سے کم از کم تین گنا زیادہ ہوں تو پھر اطمینان کا سانس لیا جا سکتا ہے۔ نسبتاً پر امید تجزیہ نگار یہ کہیں گے کہ ماضی میں بھی ڈبل ڈیجٹ افراط زر اور بڑے خساروں کے باوجود معیشت کو واپس ٹریک پر لایا جا چکا ہے تو موجودہ حکومت اگر حکمت سے کام لے تو یہ معجزہ ایک دفعہ پھر کیا جا سکتا ہے۔ مگر گزشتہ ایک دہائی میں معاشی سفر میں جو غیر معمولی بھونچال آئے ہیں ان کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

شہباز شریف اور اس کے خوش فہم معاشی ماہرین اور حواری درحقیقت معیشت کی موجودہ گراوٹ کو کافی حد تک انڈر ایسٹیمیٹ کر رہے ہیں۔ وہ شاید یہ سمجھ رہے ہیں کہ ماضی کی طرز پر اعداد وشمار کے ہیر پھیر کے ذریعے اور مختلف میگا پراجیکٹس کے بلبوتے پر اور عالمی سامراجی اداروں اور طاقتوں سے مزید رعایتیں مستعار لے کر وہ معاشی سست روی کا کوئی وقتی حل نکال لیں گے اور پھر راوی چین ہی چین لکھے گا۔ وہ گزشتہ برسوں میں عالمی طاقتوں کے مابین بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ، عالمی معاشی اور سیاسی بحران، بالخصوص ترقی یافتہ دنیا کے سر پر لٹکتی Stagflation کی تلوار اور خود اس ریاست کے بحران کی شدت کو فی الوقت اقتدار کے خمار میں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اگر میکرو اکانومی کے اعدادوشمار پر نظر دوڑائی جائے تو صورتحال کی سنگینی تو عیاں ہو جاتی ہے مگر محض اعدادوشمار سے مکمل پراسیس کی وضاحت نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر گزشتہ مالی سال 2021ء میں پاکستان کا گروتھ ریٹ سرکاری طور پر 5.37 فیصد بتایا جا رہا تھا جو کہ کسی بھی معیشت کے لیے ایک تسلی بخش شرح قرار دی جا سکتی ہے مگر ان اعداد وشمار کا کھوکھلا پن جلد ہی عیاں ہو گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ قرضوں اور ڈائریکٹ فارن انویسٹمنٹ کے علاوہ پہلے بھی ان حکمرانوں کے پاس کوئی معاشی نسخہ نہیں تھا اور آج بھی نہیں ہے۔ لیکن عالمی معیشت کی موجودہ کیفیت میں بڑے پیمانے کی بیرونی سرمایہ کاری خارج از امکان ہے۔

دس بارہ سال قبل جب ان حکمرانوں نے معیشت کو مصنوعی سانسیں فراہم کی تھیں اس وقت سی پیک کا محض آغاز ہی ہوا تھا۔ اس کے بعد بڑے پیمانے کی سرمایہ کاری (جو کہ دراصل مہنگے قرضے ہی تھے) کے ذریعے معیشت کو بحالی کے مصنوعی ٹیکے لگائے گئے۔ گزشتہ حکومت پر ان صاحبان کی سب سے بڑی تنقید ہی یہ ہے کہ عمران خان نے سی پیک میں شامل بہت سے منصوبوں کو سست روی کا شکار کر دیا۔ قومی اسمبلی میں بطورِ وزیراعظم اپنے پہلے خطاب میں شہباز شریف نے پرزور طریقے سے سی پیک کے تعطل کا شکار منصوبوں کو ایک دفعہ پھر تیز کرنے کی بات کی۔ یہاں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سی پیک کے نام پر کی گئی چینی سرمایہ کاری نے ملکی صنعت کو فروغ اور افزودگی دینے کی بجائے بند گلی میں دھکیل دیا ہے۔ ملکی صنعت کی مسابقت کی نا اہلیت کے باعث وہ سستی چینی مصنوعات کی ڈمپنگ کے باعث محبوس ہو کر رہ گئی۔ سڑکوں اور شاہراہوں کا جال تو بچھایا گیا مگر ان شاہراہوں سے مستفید ہونے کے لیے جو معاشی سرگرمی درکار تھی وہ دن بدن سکڑتی چلی گئی۔ ملکی صنعت بالخصوص بڑے پیمانے کی مینوفیکچرنگ اور ٹیکسٹائل سمیت سارا پیداواری شعبہ حکومت کے تمام تر دعووں کے برعکس عملاً سکڑتا گیا جس کے باعث ملکی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات پر انحصار مسلسل بڑھتا رہا۔ جو اس وقت 70 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر چکی ہیں۔ جبکہ برآمدات میں بھی کوئی قابل ذکر بڑھوتری نہیں ہوئی ہے جس کے باعث تجارتی خسارہ رواں مالی سال کے پہلے آٹھ ماہ میں ہی 35 ارب ڈالر کے لگ بھگ ہے اور تخمینہ لگایا جا رہا ہے کہ یہ اس سال 45 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر جائے گا۔ اور دوسری طرف سی پیک کے نام پر دیئے گئے ان مہنگے چینی قرضوں پر مسلسل بڑھتے ہوئے سود نے پہلے سے ہی آئی ایم ایف کے بھیانک چنگل میں پھنسی معیشت کے لیے بیرونی ادائیگیوں کو مشکل سے ناممکن بنانے کی رفتار میں کئی گنا اضافہ کر دیا۔ اسی لیے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ رواں برس میں 13 ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے اور کہا جا رہا ہے کہ یہ اس مالی سال کے اختتام تک 20 ارب ڈالر کی ریکارڈ سطح تک پہنچ جائے گا جبکہ قومی خزانہ تقریباً خالی ہو چکا ہے اور حکومت کے کشکول توڑنے اور بھیک نہ مانگنے کے تمام تر دعووں کے باوجود آج بیرونی قرضوں اور امداد پر انحصار پہلے سے کہیں زیادہ بڑھ چکا ہے۔ گزشتہ چار سالوں میں ملکی قرضوں میں 18 ہزار ارب روپے کا اضافہ کیا گیا جو کل ملکی قرضوں کے نصف سے بھی زیادہ ہے۔ عمران خان کی حکومت کے آغاز میں رزاق داؤد (جو کہ گزشتہ حکومت میں تجارت اور سرمایہ کاری کے مشیر بھی تھے) سمیت بہت سے سرمایہ داروں نے سی پیک کے معاہدوں کی شرائط پر نظر ثانی اور تجدید کرنے کی ضرورت پر زور دینا شروع کر دیا تھا جس کے باعث چینی آقاؤں کی ناراضگی بھی مول لینی پڑی۔ دراصل سی پیک ایک سامراجی منصوبہ ہے جس نے ملکی معیشت کے بحران کو بے لگام کرنے میں ایک کلیدی کردار ادا کیا ہے اور ہمارے نو آموز وزیراعظم اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے کی بات کر رہے ہیں جس کے باعث مریض حالتِ نزع میں ہے۔

یہاں یہ بات بھی یکسر فراموش کر دی جاتی ہے کہ سی پیک کے منصوبوں کی سست روی کی وجہ صرف پاکستانی حکومت کی پالیسیاں نہیں ہیں بلکہ خود چینی معیشت کے اپنے قرضے گزشتہ دہائی میں بہت تیزی سے تشویشناک حد تک بڑھے ہیں۔ چینی معیشت کی شرحِ نمو 5 فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے جس کے مزید نیچے آنے کے امکانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے، یہاں چینی معیشت کے کردار پر تفصیلی بات نہیں کی جا سکتی مگر یہ سمجھنا ضروری ہے کہ چین کا پاکستانی معیشت کو مکمل طور پر بیل آؤٹ کرنے کا نہ تو پوٹینشل ہے اور نہ ہی ایسا کوئی ارادہ ہے۔ حال ہی میں گزشتہ حکومت نے چین سے 21 ارب ڈالر کا تقاضا کیا تھا تاکہ زرِمبادلہ کے مسلسل گرتے ہوئے ذخائر کو سہارا دیا جا سکے اور بیرونی ادائیگیوں کے بحران سے بچا جائے۔ لیکن چین نے 4.2 ارب ڈالر کے قرضے ری شیڈول کرنے کے علاوہ دیگر کسی بھی قسم کی مالی امداد سے معذرت کر لی تھی۔ یاد رہے کہ یہ تمام قرضہ جات چینی حکومت کے نہیں ہیں بلکہ یہ چینی کمپنیوں کی طرف سے چینی حکومت کی ضمانت پر دیئے گئے ہیں۔ حال ہی میں یکم اپریل کو ایک چینی کمپنی چائنہ ریلوے نارتھ انڈسٹریز کارپوریشن (CR-NORINCo) نے پنجاب ماس ٹرانزٹ اتھارٹی (PMTA) سے اورنج لائن پراجیکٹ کے 55.6 ملین ڈالر قرض کی ادائیگی کا پرزور مطالبہ کیا ہے۔ اس میں سے 45.3 ملین ڈالر مارچ تک ادا کرنا تھا اور باقی ماندہ 10.3 ملین ڈالر رواں برس نومبر تک واجب الادا ہے۔ مختصر یہ کہ ایسے وقت میں جب چین پہلے سے دیئے گئے قرضوں کی ادائیگی کے بارے میں تشویش کا شکار ہے، مزید قرضے یا سرمایہ کاری میں فوری تیزی کے رجحان کی توقع کرنا دور اندیشی ہرگز نہیں ہو گی۔

اس وقت مسلسل بڑھتی ہوئی درآمدات سب سے اہم مسئلہ ہیں۔ یوکرائن پر روس کے حملے کے باعث عالمی منڈی میں تیل کی قیمتیں بھی غیر مستحکم ہو چکی ہیں جس کی وجہ سے پاکستان جیسی تیل کی تمام تر ضروریات کے معاملے میں درآمدات پر انحصار کرنے والی معیشتوں کی مشکلات میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ وزیراعظم نے اپنی تقریر میں سعودی عرب کی ”شفقت“ کا بہت واویلا کیا اور خاص طور پر ذکر کیا کہ جب ایٹمی دھماکوں کے بعد ملک پابندیوں کا شکار تھا تو سعودی عرب نے تیل کی تمام ملکی ضروریات کا ذمہ لے لیا تھا وغیرہ وغیرہ۔ اس اہم تقریر میں اس بات پر زور دینے کا مطلب یہ ہوا کہ وزیراعظم اپنی ”تابعدارانہ“ خارجہ پالیسی کے باعث سعودی عرب سے پھر اسی قسم کی ”شفقت“ کی توقع رکھ رہے ہیں۔ اسے رجائیت نہیں سیاسی مضحکہ ہی کہا جا سکتا ہے۔ گزشتہ دو دہائیوں میں نہ صرف سعودی عرب کے ریاستی ڈھانچے، معیشت اور پالیسی بلکہ پورے خطے میں انتہائی اہم تبدیلیاں واقع ہو چکی ہیں۔ سعودی عرب کے اپنے زرِمبادلہ کے ذخائر جو 2014ء میں ساڑھے سات سو ارب ڈالر سے بھی زیادہ تھے اب سوا چار سو ارب ڈالر تک آن پہنچے ہیں۔ ساتھ ہی خطے میں سعودی عرب کی ترجیحات میں تبدیلی آئی ہے اور انڈیا کے ساتھ ان کے معاشی تعلقات بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا جب سعودی عرب نے پاکستان سے تین ارب ڈالر کی رقم فی الفور واپس کرنے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ ایسے حالات میں اگر سعودی عرب دوبارہ ”شفقت“ کا مظاہرہ کرتا بھی ہے تو اس شفقت کا حجم اور تاثیر وہ نہیں ہوں گے جس کی توقع کی جا رہی ہے۔

پیٹرولیم مصنوعات کے بعد سٹیل، آئرن، فارماسیوٹیکل مصنوعات وغیرہ بڑے پیمانے پر درآمد کی جانے والی اشیا ہیں۔ ظاہر ہے کہ حکومت کے پاس ایسی کوئی جادو کی چھڑی نہیں کہ پاکستان ان تمام مصنوعات میں فوری طور پر خود کفیل ہو جائے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ لگژری سامان کی درآمدات پر پابندی لگا دینی چاہئیے۔ اگر اس طرح کے فیصلے کیے بھی جاتے ہیں تو ان سے کوئی بڑا فرق پڑنے والا نہیں اور درمیانے طبقے میں حکومتی مقبولیت کا گراف بھی مزید گرنے کی طرف جائے گا۔ درآمدات کی فہرست میں گزشتہ دہائی میں بہت سی ایسی اشیا کا اضافہ ہوا ہے جو ماضی میں پاکستان کی برآمدات کے حجم میں اہم حصہ ڈالتی تھیں۔ ظاہر ہے کہ ان میں ہماری لائیو سٹاک اور زرعی مصنوعات اور سبزیاں، پھل قابل ِذکر ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں سابق وزیراعظم نے امریکی پابندی کے باوجود روس سے 20 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ المیہ یہ ہے کہ پاکستان کپاس، گندم، چاول جیسی زرعی اجناس پیدا کرنے والا ایک کلیدی ملک ہوا کرتا تھا مگر گزشتہ حکومتوں کی سرمایہ نواز پالیسیوں نے ملکی زراعت کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔ اب زراعت کے شعبے میں اصلاحات کی گنجائش بھی نہیں رہی، اس شعبے میں بڑے پیمانے پر انقلابی تبدیلیاں درکار ہیں جن کے لیے بجٹ میں ایک بھاری رقم مختص کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ لیکن مالیاتی خسارہ پہلے ہی خطرناک حد تک پہنچ چکا ہے۔ رواں مالی سال کے اختتام تک مالیاتی خسارہ ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح یعنی 6400 ارب روپے تک پہنچ جائے گا جو کہ جی ڈی پی کے دس فیصد کے برابر ہے۔

میاں شہباز شریف نے کم از کم اجرت 17500 سے بڑھا کر 25000 روپے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسی طرح پنشنوں میں 10 فیصد کا اضافہ کیا ہے اور ساتھ بے نظیر انکم سپورٹ اور لیپ ٹاپ اسکیم جیسے دیگر پراجیکٹس کو بھی از سرنو شروع کرنے کے اعلانات کیے گئے ہیں۔ اس طرح کے اقدامات کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حکومت کو خود بھی اندازہ ہے کہ وہ عوام کی سپورٹ کے بلبوتے پر اقتدار میں نہیں آئے ہیں بلکہ برطرف کی گئی تحریک انصاف کی حکومت کی طرز پر عسکریت کے ایما پر ہی انہیں اقتدار ملا ہے، جس کے باعث اقتدار کی منتقلی کے اس مرحلے میں ان کی مقبولیت کا گراف مزید نیچے آیا ہے جبکہ عمران خان کو وقتی فائدہ ہوا ہے۔ ایسے میں اس نوعیت کے پاپولسٹ اعلانات کرنے پڑ رہے ہیں۔ پھر سری لنکا میں جاری عوامی بغاوت بھی ایک اہم عنصر ہے جس کی وجہ سے یہاں پر بھی پالیسی سازوں کو عوامی بغاوت کے خطرات منڈلاتے ہوئے دکھائی دینا شروع ہو گئے ہیں۔ آئیے ان اعلانات کی عملی افادیت پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ اول تو یہ کہ افراطِ زر میں مسلسل اضافے کا رجحان ہے۔ اس وقت بھی سرکاری طور پر اعلان کردہ افراط زر 12.7 فیصد ہے جبکہ اصل میں اس سے کہیں زیادہ ہے اور بالخصوص اشیائے خورد و نوش میں شاید اس سے تین گنا ہو گا۔ ایسے میں تنخواہوں اور پینشنز میں یہ معمولی سے اضافے محنت کشوں کے معیار زندگی میں کوئی قابل ذکر بہتری نہیں لا سکتے۔ اور نجی شعبے میں سرمایہ دار اس طرح کے اعلانات کو کبھی سنجیدہ بھی نہیں لیتے۔ حال ہی میں ہم سندھ میں کم از کم اجرت 25000 کے حکومتی اعلان کے بعد سرمایہ داروں کی ڈھٹائی اور ہٹ دھرمی کا بہترین نمونہ دیکھ چکے ہیں۔ شہباز شریف نے اپنی تقریر میں انہی سرمایہ داروں سے اس ضمن میں مثبت رویے کی اپیل بھی کی۔ لیکن یہ عوام دشمن سرمایہ دار اس طرح کی اپیلوں کو خاطر میں نہیں لاتے۔ عملاً ہو گا یہ کہ وہ اس فیصلے کی آڑ میں حکومت سے ٹیکسوں کی مد میں مزید چھوٹ اور مزید سبسڈیز بھی لیں گے اور کم از کم اجرت میں چوری بھی کریں گے۔ دوسری طرف جملہ مسائل کی بنا پر افراطِ زر میں خاطر خواہ کمی کا بھی فوری طور پر کوئی امکان نظر نہیں آ رہا۔ شرح ِسود میں پہلے ہی بہت اضافہ کیا جا چکا ہے، گزشتہ ہفتے 250 بیسک پوائنٹس کا اضافہ کیا گیا ہے اور اب شرح سود 12.25 فیصد کی بلند سطح تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے باوجود افراط زر میں اضافے کا رجحان برقرار ہے۔ عین ممکن ہے کہ حکومت کو مقداری آسانی کے لیے پہلے سے کہیں زیادہ نوٹ چھاپنے پڑیں یا بینکوں سے قرضے لینے پڑیں۔ اس صورت میں تنخواہوں میں اضافے جیسے تمام تر اقدامات یکسر غیر مؤثر ہو جائیں گے۔

حکومت کے ناقدین نے پہلے ہی سوال اٹھانا شروع کر دیئے ہیں کہ ان منصوبوں کے لیے رقم کہاں سے آئے گی۔ اپنی تقریر میں بھی وزیراعظم نے خود یہ سوال اٹھایا اور جواب میں ماضی کی مثالیں دے کر بات گول کر دی۔ جیسے اوپر بیان کیا گیا کہ سرکاری خزانے میں اس وقت صرف 11 ارب ڈالر موجود ہیں۔ جبکہ اگلے سال بیرونی قرضوں پر 15 ارب ڈالر سے زیادہ کی ادائیگی کرنی ہو گی۔ کیا حکومت دفاعی اخراجات میں کمی کر سکتی ہے؟ جن حالات میں اس حکومت کو اقتدار منتقل کیا گیا ہے، اس پس منظر میں ایسا ہونا ممکن نہیں ہے۔ ماضی میں بھی ان پارٹیوں کی حکومتوں میں دفاعی اخراجات میں کمی کی بجائے اضافہ ہی ہوا تھا۔ کیا حکومت سرمایہ داروں پر ٹیکس میں اضافے کا ارادہ رکھتی ہے؟ ایسی صورت میں سرمایہ کاری میں مزید کمی واقع ہو گی اور شر ح نمو کی بڑی گراوٹ دیکھنے میں آئے گی لہٰذا اس حکومت سے اس طرح کے کسی اقدام کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ کیا حکومت سٹیٹ بینک کی نام نہاد خود مختاری کے پچھلی حکومت کے فیصلے کو بدلنے کے لیے ٹھوس اقدامات کرے گی؟ ہرگز نہیں کیونکہ حکومت کو فوری طور پر آئی ایم ایف پروگرام کی اگلی قسط درکار ہے اور وہ کسی قیمت پر بھی آئی ایم ایف کو ناراض کرنے کا رسک نہیں لے سکتے۔ ایسے میں یہ حکومت گزشتہ حکومت سے بھی بڑھ کر آئی ایم ایف کے عوام دشمن ایجنڈے پر ہر ممکن عملدرآمد کو یقینی بنائے گی۔ 11 اپریل بروز سوموار سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر رضا باقر نے بلومبرگ کو ایک انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ گزشتہ حکومت نے سیاسی بحران کے باعث رواں برس کے آغاز میں پیٹرولیم اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کر دی تھی جس سے آئی ایم ایف نے قرض کی ادائیگی روک دی تھی، مگر اب سیاسی بحران ختم ہو چکا ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ اب آئی ایم ایف کے مطلوبہ اقدامات تعطل کا شکار نہیں ہوں گے۔ آئی ایم ایف اور سامراجیوں کے اس نمائندے کے یہ الفاظ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے مستقبل کو سمجھنے کے لیے کافی ہیں۔

موجودہ حکومت کی تشکیل کو معاشی طور پر خوش آئند قرار دینے والے روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں ایک دن میں ہونے والی 6 روپے کی گراوٹ اور سٹاک ایکسچینج میں 1700 پوائنٹس کے اضافے کو مثال کے طور پر پیش کریں گے۔ ہمارا جوابی اصرار یہ ہو گا کہ یہ کوئی عمومی رجحان نہیں بلکہ روپے کی قدر میں گزشتہ ایک ہفتے کے شدید ہنگامی حالات کے باعث جو تیز ترین گراوٹ آئی تھی، اس اقتدار کی منتقلی کے بظاہر آئینی عمل کے باعث اس کی واپسی سرمائے کا عین منطقی اور فطری ردعمل ہے اور اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مارکس وادیوں نے اس کی پہلے ہی پیش بینی کر دی تھی اور اس عمل کی حدود بھی واضح کر دی تھیں۔ آئی ایم ایف سے قسط کے اجراء کے بعد مزید وقتی بہتری بھی خارج از امکان نہیں ہو گی۔ یہ کوئی نیا معاشی مظہر نہیں بلکہ ہر بار آئی ایم ایف سے قسط ملنے کے بعد بالعموم نسبتی استحکام دیکھنے میں آتا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد عمومی پراسیس سطح پر ظاہر ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ مذکورہ بالا محرکات کے پیش نظر عین ممکن ہے کہ تھوڑا بہت مزید نیچے آنے کے بعد ڈالر پھر اوپر کی طرف اڑان شروع کر دے۔ غرضیکہ موجودہ نظام میں رہتے ہوئے اور آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی اداروں کے چنگل میں سکھ کا سانس کبھی میسر نہیں آ سکتا۔ ایسا نہیں ہے کہ حکومت کے اعلان کردہ تنخواہوں اور پینشنز میں اضافے جیسے مثبت اقدامات ناممکن ہیں۔ ہر گز نہیں بلکہ یہ تو معمولی سے اقدامات ہیں۔ مزدوروں کی تنخواہیں اور پینشنز ایک تولہ سونے کے برابر بھی کی جا سکتی ہیں۔ محنت کشوں اور کسانوں کے لیے علاج، ٹرانسپورٹ، رہائش اور ان کے بچوں کے لیے تعلیم تنخواہوں سے الگ بالکل مفت فراہم کی جا سکتی ہے۔ بیروزگاری، لوڈ شیڈنگ، ذخیرہ اندوزی اور بدامنی کا ہمیشہ ہمیشہ کے لیے خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔ آپ سوال کریں گے کہ ان سب اقدامات کے لیے وسائل کہاں سے آئیں گے؟ وسائل اسی دھرتی اور اسی ملک کے اندر موجود ہیں مگر ان پر چند مٹھی بھر اشرافیہ کی ملکیت ہے۔ ان کو یہ حقِ ملکیت اسی ریاست اور اس کے اسی آئین نے دیا ہے جس کی فتح کے آج کل شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ یہ وسائل ان کی نجی ملکیت سے چھین کر عوامی ملکیت میں بدلنے ہوں گے۔ سامراجی ادارے اور کمپنیوں کی لوٹ مار بند کرنی ہو گی، سامراجی قرضوں کی ادائیگی سے انکار کرنا ہو گا، بینکوں، جاگیروں اور صنعتوں کو اجتماعی ملکیت میں لے کر مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دینا ہو گا۔ جی ہاں، مزدوروں کا جمہوری کنٹرول۔ تو ظاہر ہے یہ اقدامات یہ سرمایہ داروں، جاگیرداروں، رجعتی ملاؤں اور قبائلی سرداروں کی پارٹیوں کی اتحادی حکومت تو کرنے سے رہی۔ اس کے لیے مزدوروں کی اپنی حکومت، ریاست اور منصوبہ بند معیشت تشکیل دینی ہو گی۔ اور ایسا صرف اور صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

Comments are closed.