بے روزگاری کی وبا اور ریاست کی انسان دشمنی

|تحریر: صبغت وائیں |

بے روزگاری بجائے خود ظلمِ عظیم نہیں کیا، جس پر مزید ستم کے پہاڑ توڑنے کے لیے، اور ان بے مایہ فاقہ کش نیم مردہ بے روزگاروں کی بوٹیاں نوچنے کی خاطر جگہ جگہ پر مردار خور دانت نکوسے زبانوں سے رال ٹپکائے بیٹھے ہیں؟
ریاستی ادارے جب ایک شہری کا امتحان لے کر نہ صرف اس کو پاس یا فیل کر دیتے ہیں بلکہ اس کے گریڈ اور درجے بھی متعین کر دیتے ہیں، تو این ٹی ایس اور پی پی ایس سی اور پی ایم ایس اور سی ایس ایس کی فراڈ بازی کیوں ہے بھلا؟ آپ قابل امیدواروں کو جاب دیں، یا پھر ریاستی استحصال بند کریں، اور جس کو بندہ چاہیئے وہ اپنا امتحان لے، کافی نہیں کیا؟
ان امتحانوں کی تیاریوں میں، آنے جانے میں، اگر اپنے شہر میں سہولت دستیاب نہیں تو دوسرے شہروں میں آنے جانے میں، ہاسٹلوں میں کتنے وسائل لگتے ہیں، کتنا پٹرول جلتا ہے، کتنا انسان خجل ہوتا ہے، کسی کو اندازہ ہے؟
اگر ریاست عوام دوست ہو، انسانوں کے لیے، یا عوام کے لیے ہو، تو کیا ایسا ہونے دے کبھی؟
بے روزگاری، جس کی بنا پر انسان کو ذرائع ضروریہ سے محروم ہونا پڑتا ہے (اب اس کے پاس کھانے کو، پہننے کو اور رہنے کو کچھ نہیں ہو گا، اس انسانوں اور وسائل سے بھری دنیا کے بیچوں بیچ۔۔۔۔اس بات کو شعور سے یا عقل سے سوچ پانا ناممکن ہے کہ ایک انسان بھوکوں مر رہا ہے، اور اسی کے ساتھ گوداموں میں پڑی گندم کو کائی لگ رہی ہو) کوکنٹرول کرنا، اس کے خاتمے کے اقدامات کرنا ہر حال میں ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ریاست کا اپنے رہنے والوں سے معاہدہ اسی بات پر ہے، کہ وہ ان کی جان و مال کا اور عزت کا تحفظ کرے گی۔ جس کے بدلے میں ریاست میں بسنے والے شہری ریاست کو ٹیکس لینے کا اختیار دیتے ہیں اور ریاستی اہلکاروں کو تنخواہیں دیتے ہیں، ان کو قوانین بنانے کا، عدالتیں لگانے کا، خود کو سزائیں دینے کا، اسلحہ رکھنے کا اور یہاں تک کہ عام انسانوں کو جان سے مار دینے کا اختیار بھی دے دیتے ہیں۔
لیکن یہ جان، مال اور عزت ہے کیا؟
اگر روزگار نہیں تو یہ تینوں نہیں۔ بے روزگاری اپنے ساتھ فاقہ کشی لے کر آتی ہے، جو دنیا کے تمام جرائم کی اور تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اگر برائیوں سے اور جرائم سے نجات کسی ریاست کا مقصد ہو تو وہ انسانوں کو روزگار دے گی۔ اگر کچھ لوگ بچ جائیں جن کو روزگار نہیں دیا جا سکا تو ان کو بے روزگاری الاؤنس دینا ریاست کے عوام سے معاہدے کا حصہ ہے۔ اگر کوئی ریاست عوام کو روزگار نہیں دے سکتی، بے روزگاری الاؤنس نہیں دے سکتی، تو اس کو ریاست کہلوانے کا حق کیسے حاصل ہے؟ کیا جان، مال، عزت کی حفاظت یہ ہے، کہ جس کے لیے یہ سب کیا جا رہا ہے، اس کو آپ کسی کمرے میں بند کر کے بھوکوں مار دیں؟

اپنی ریاست کی ہم کیا بات کریں، اس کو تو ان بوڑھے لوگوں کی پینشن بھی چبھ رہی ہے، جنہوں نے اپنی ساری زندگی اسی ریاست کی اس خدمت میں گزار دی کہ ریاست کا وہ بھرم بنا رہے جس کی بنا پر ریاستی اہلکاروں کا ریاست کی عوام سے ٹیکس بٹورنے کا حق جائز سمجھا جاتا ہے۔ یقین کریں کہ ہر ریاست کے سبھی ادارے محض اسی لیے کام کرتے ہیں، کہ محنت کرنے والے عوام کو کس طرح سے نچوڑا جائے۔ اب اس نچوڑی ہوئی دولت میں سے کیا عوام کو واپس کرنا ہے، بس اس میں ریاستوں کے اور نظاموں کے طریق ہائے کار الگ ہوتے ہیں۔ ہماری ریاست ان بوڑھے لوگوں کی پنشن بند کرنا چاہتی ہے جن کے پاس سوائے اس کے اور کوئی آسرا نہیں ہے، ساٹھ سے اوپر کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، عام سویلین لوگ تیس سے اوپر چلے جائیں تو پاکستان کے نجی سیکٹر میں کوئی ملازمت نہیں دیتا، کہ ”یہ تو سیانا ہو گیا ہے، یا سیانی ہو گئی ہے، اس کا استحصال مشکل ہو گا“۔

ہماری غربت کی ایک بڑی وجہ آبادی کا زیادہ ہونا بتائی جاتی ہے۔ وہاں بھی یہی مسئلہ ہے، جب ریاست نے روزگار نہیں دینا اور بے روزگاروں کو الاؤنس نہیں دینا تو ان بوڑھے لوگوں کا کیا ہو گا جن کی اولاد نہیں، یا کم ہے؟ لوگ اپنی سوشل سیکیوریٹی اپنی اولاد کی صورت میں دیکھتے ہیں کہ ”یہ ہمارے بڑھاپے کا سہارا ہیں“۔ آپ سوشل سیکیوریٹی دیں، بے روزگاری الاؤنس دیں، کون عورت زیادہ بچے پیدا کرنے کی تکلیف اٹھانا چاہتی ہے؟ کون مرد نہیں جانتا کہ بچوں کی کم سے کم پرورش بھی آخری تجزیے میں ”کام“ ہی ہے؟

بے روزگاری پر یہ باتیں ہم سب کو معلوم ہیں، لیکن بے روزگاروں پر جو ظلم و ستم کے پہاڑ ان کو روزگار دلوانے والے توڑ رہے ہیں، وہ ان سب سے آگے کی چیز ہیں۔

کہیں سے بھی شروع کر لیں۔ مثلاً نجی اداروں نے نیا کام شروع کیا ہے۔ ان کو ضرورت ہو، یا نہ ہو یہ ”ضرورت ہے“ کے اشتہار دے دیتے ہیں۔ اس سے ان کو دو تین فائدے تو یک مشت ہو جاتے ہیں، پہلا یہ کہ ان کا نام لوگوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ دوسرا یہ کہ انہوں نے اشتہارات میں، بینرز پر اور دیگر جگہوں پر اعلیٰ ترین تعلیم یافتہ لوگ مانگے ہوتے ہیں، لوگ یہ جاننے پر مجبور ہو جاتے ہیں، کہ فلاں کالج، فلاں سکول تو بڑے ہی پڑھے لکھے لوگ نوکری پر رکھتا ہے۔ تیسرا یہ لوگ ایسا کرتے ہیں کہ اگر ان کو اپنے ادارے میں لوگوں کی ضرورت نہیں ہوتی تو یہ سب کو فیل کر دیتے ہیں۔ انٹرویو میں فیل کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے، ”کیا آپ پانچویں جماعت کے بچے سے سمارٹ ہیں؟“ نام کا ایک پروگرام امریکہ میں چلا کرتا تھا، بعد میں ہم جیسے ہمارے پڑوسی بھارت نے بھی اس کی نقل ماری اور پھر شاید ہم نے بھی۔۔۔خیر اس پروگرام میں پانچویں جماعت کے نصاب سے سوالات کیے جاتے تھے، جن میں پڑھے لکھے ناکام ہو جایا کرتے تھے۔ ہود بھائی کی ٹیم نے بھی ایک دفعہ سینکڑوں سائنس کے اساتذہ کے ٹیسٹ لیے تھے جن میں چند فیصد ہی پاس کر پائے تھے (ریاست اور تعلیم، پاکستان کے پچاس سال، از ہود بھائی)۔ یہ تو ہم نے اصلی مثالیں دیکھیں ہیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر انٹرویو لینے والوں کو سوال کرنے کی بجائے اپنے اسی متعلقہ مضمون میں جواب دینے کے لیے بٹھا دیا جائے، تو دو منٹ میں قلعی کھُل جائے کہ انٹرویو لینے والے کی جہالت، انٹرویو دینے والے سے ہرگز کم نہیں ہے۔ مجھے ایک واقعہ یاد آیا کہ یہاں کے ڈویژنل سکول میں پانچویں جماعت کی ٹیچر کے لیے اسی طرح کا ایک انٹرویو ہو رہا تھا۔ امیدوار خاتون سے بورڈ کے چیف نے جو یہاں کا کمشنر بھی تھا، بڑی رعونت سے پوچھا تھا کہ آپ نے اکنامکس بھی پڑھی ہے (اس کی ایجوکیشن کی ڈگری اور ایلیمنٹری ایجوکیشن پر تھیسس وغیرہ کی متعلقہ صلاحیت سے جان بوجھ کر صرفِ نظر کرتے ہوئے) تو یہ بتائیں کہ انفلیشن کیوں ہوتی ہے۔ تو اس کا جواب دینے سے پہلے والے کئی سوالوں کو دیکھتے ہوئے چوں کہ اس کو علم ہو چکا تھا کہ ان کو بھی ضرورت نہیں ہے، اس نے آگے سے ایک سوال پوچھ کر کمشنر کو بغلیں جھانکنے پر مجبور کر دیا تھا کہ ”آپ نے پانچویں جماعت کو اکنامکس پڑھوانی ہے کیا؟“ تو انٹرویو میں تمام کو بڑے پیار سے فیل کر دیا جاتا ہے، کہ آپ کو اطلاع دے دی جائے گی، یا یہ کہ آپ اس قابل نہیں ہیں کہ ہمارے ادارے میں آپ کام کر سکیں۔ امیدواروں بے چاروں میں بی اے یا ایم اے کی جاب کے لیے ایم فل اور پی ایچ ڈی لوگ بھی گئے ہوتے ہیں۔ ان میں ٹاپر بھی ہوتے ہیں، اور گولڈ میڈلسٹ بھی۔ لیکن یہ سبھی وہاں کام کرنے والوں پر اور ادارے کے در و دیوار پر حسرت بھری نظریں ڈالتے واپس آ جاتے ہیں۔ واپس آ کر دوسروں کو بتائیں نہ بتائیں خود اس بات پر یقین کر لیتے ہیں کہ ان کی حیثیت نہیں کہ وہ اس ادارے میں کام کریں، یا دوسرے انداز سے دیکھا جائے تو وہ مان لیتے ہیں کہ یہ ادارہ بہت شاندار ہے، اس ادارے کے اساتذہ، پرنسپل، پروفیسر انتہا درجے کے لائق فائق اور اعلیٰ مخلوق ہیں۔ پھر جب بھی کوئی کسی اچھے ادارے کا پوچھتا ہے تو یہ ٹاپر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لیکن احساسِ کمتری کے مارے بے چارے لوگ اپنی بے عزتی اور توہین کے آبلوں پر اپنی ”درست معلومات“ کا مرہم لگانے کی خاطر اس ادارے کا نام لے دیتے ہیں جہاں ان کی عزت کی دھجیاں انٹرویو میں فیل کرنے کے لیے سوال رٹ کر بیٹھے افسروں اور منتظمین نے اڑائی تھیں۔ یہ چلن اب عام ہے۔ چوتھی بات یہ کہ ان میں سے بہت سے اداروں نے ایک نیا کام پکڑ لیا ہے۔ وہ یہ کہ جن لوگوں نے ملازمت کے حصول کے لیے درخواست دینی ہے، وہ ساتھ ایک ہزار، دو ہزار اور بعض اداروں میں پانچ ہزار روپیہ ناقابلِ واپسی جمع کروائیں۔ اس کے بعد ان کی درخواست پر غور ہو گا۔

بے روزگار بیچارے ہر جگہ درخواست دیتے ہیں، میں نے کئی بار دیکھا ہے، کہ غیرمتعلقہ جگہوں پر بھی درخواست دے رہے ہوتے ہیں، جن کو کلرک دیکھتے ہی کاٹا لگا کر ردی میں پھینک دیتا ہے۔ لیکن یہ ادارے ان سے لی گئی رقم کبھی واپس نہیں کرتے کہ آپ نے غلط جگہ درخواست دے دی تھی۔

ہم دیکھتے ہیں کہ ہر اشتہار کے نیچے خاص طور پر لکھا ہوتا ہے کہ ”امیدواروں کو کوئی ٹی اے ڈی اے نہیں دیا جائے گا“ یعنی آنے جانے کا اور دیہاڑی، جو کہ ان کے ادارے کی ”ضرورت“ کی بنا پر ضائع کی گئی ہے، اس کی قیمت ادارہ نہیں دے گا، اس ایک سطر کو دیکھتے ہوئے ایک دھندلا سا احساس پیدا ہوتا ہے، کہ شاید کوئی زمانہ ایسا ہو گا، جو کہ ضرور رہا ہو گا، جب یہ بدمعاشی نہیں ہوتی ہو گی؟ کوئی تو ایسا دور تھا، جب ضرورت مند، یعنی ادارہ اپنے ہاں آنے والوں کو دیہاڑی ضائع کرنے کا معاوضہ، اور آنے جانے کا کرایہ دیا کرتا تھا! لیکن اب یہ ضرورت مند بدمعاش بن چکا ہے۔ اب اس نے بھوکے ننگے روزگار کے متلاشی لوگوں سے جگا ٹیکس وصول کرنا شروع کر دیا ہے۔ وہ لوگ جن کو کھانے کے لالے پڑے ہیں، کچھ کمانے کی آس میں فوٹو کاپیاں کروا رہے ہیں۔ ادھر ادھر پیدل بھاگ رہے ہیں کہ رکشوں کے دس بیس روپے کسی طرح سے بچ جائیں، یہ اربوں پتی بدمعاشیہ ان سے ہزار سے پانچ ہزار کے بھتے وصول کر رہی ہے، کہ تم کو چانس دیا ہے آؤ اور ہمارا بورڈ آف انٹرویو تمہاری عزتِ نفس کو روند کر رکھ دے۔

ویسے تو جتنے بے روزگار کام کی تلاش میں جوتے گھسنے جاتے ہیں، اتنی ہی کہانیاں ہیں، لیکن چند ایک باتیں ایسی ہیں، جو کہ بالکل سامنے کی ہیں۔ ان پر ایک سرسری نظر ڈال لیتے ہیں۔

ہم یہ بات کر آئے ہیں کہ بے روزگاری سب سے بڑی بیماری ہے، لعنت ہے، جو ایک جانب تو تمام برائیوں کی جڑ ہے، اس میں بیماریاں، وبائیں، جہالت، غربت، غیرمعاشرتی رویے، بدتہذیبی یا افراتفری اور عدم برداشت وغیرہ پھیلتی ہیں، یا پھر دوسری جانب اس کی وجہ سے پھر بھک منگے، چور ڈاکو، نوسر باز، اٹھائی گیرے یا جیب کترے گرہ کٹ پنپتے ہیں۔ بے روزگار جہاں جاتا ہے اس سے ”کچھ دینے“ کو کہا جاتا ہے۔

وہ بے روزگاری کے دفتر جائے تو اس سے پہلی تنخواہ لینے کے ساتھ رجسٹریشن کے نام پر بھی رقم ہتھیا لی جاتی ہے۔ کالجوں میں حکومت اب پروفیسر بھرتی کرنے کی بجائے سی ٹی آئی بھرتی کرتی ہے، جن کو سارے سال کی بجائے چار پانچ ماہ قلیل تنخواہ دے کر ان سے سارے سال کا کام کروایا جاتا ہے۔ ہر ادارے میں ان کی تنخواہ کے آنے پر بظاہرکلرک ایک حصہ ہتھیاتا ہے۔ پرنسپل سے شکایت کریں، تو وہ کہتا ہے، کہ کچھ دے دلا کر ہی کام چلتا ہے، لیکن ایک دو جگہ تو ایسا دیکھا گیا ہے، کہ خاتون ٹیچرز کی پہلے ماہ کی پوری تنخواہ ہی کلرک صاحب نبیڑ گئے ہیں۔ بڑی بدمعاشی کے ساتھ کہ یہ کیا کر لے گی میرا۔ اور اگر کوئی شکایت کرے تو کلرک صاحب کو بِل ہی نہیں ملنا۔ اس کی فائل ہی گُم ہو جانی ہے، اب صدرِ پاکستان بھی کچھ نہیں کر سکتا۔ اور یہ بات بار بار سامنے آئی ہے، کہ یہ رشوت دینے میں پس و پیش کرنے والوں کو اگلی بار اس کالج میں یا اس پرنسپل کے جاننے والوں کے کالج میں جاب نہیں ملتی۔

یہ بے روزگار موٹیویشنل سپیکرز کے پاس جاتے ہیں تو وہ ان کو کہتے ہیں کہ نوکری کا خیال چھوڑو پکوڑے بیچو فلاں کرو۔۔۔اور میرا یہ کورس خریدو، پانچ کتابوں کا سیٹ ہے، صرف دس ہزار روپے کا، اب تم کو ارب پتی بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اب ارب پتی بننے کا خواب دس ہزار میں مل رہا ہے تو کیا مہنگا ہے؟ اس طرح بے روزگار جو پیسے خرچ کے ٹکٹ لے کر کچھ ”حاصل کرنے“ آیا تھا، حقیقت میں بہت کچھ گنوا کر چلا جاتا ہے۔

اگر یہ کسی مندر خانقاہ یا درگاہ میں جاتے ہیں، کسی پیر فقیر کے پاس جاتے ہیں یا پھر کسی عامل جوتشی نجومی یا فال نکالنے والے کی پاس جاتے ہیں تو وہاں بھی ان سے کچھ لے کر آنے، نذرانہ، بھینٹ، ہدیہ یا چڑھاوا چڑھانے کا، تقاضا کیا جاتا ہے۔

اگر یہ لوگ کسی ممبر اسمبلی کے پاس جاتے ہیں، تو وہاں بھی ان سے لسٹ کے مطابق رقم کا مطالبہ کیا ہوتا ہے، جس کو ”فیس“ کہا جاتا ہے۔ ہر جاب کے ریٹ مقرر ہیں، جو کہ بیروزگاری کے ساتھ راست متناسب اور جابز کے ساتھ بالعکس متناسب ہیں۔

غرض امتحان پاس کرو، تیاریاں کرو، ٹیوشنیں پڑھو، رشوتیں دو، فوٹو کاپیاں کرواؤ، کرائے لگاؤ، بانڈ بھرو، چالان فارم پر پیسے جمع کرواؤ، تنخواہ لینے پر رشوتیں دو، پینشن لینے کے لیے رشوتیں دو (یہاں تک کہ ایک خاتون کی شاید بیس پچیس سال کی ایک پنشن پھنسی ہوئی ہے، اس سے آدھی سے زیادہ پنشن بطور رشوت مانگی جا رہی ہے، پھر اس کو پنشن ملے گی۔ دس سال سے وہ متواتر کوشش کر رہی ہے، لیکن اس کی پنشن نہیں مل رہی) لیکن فطرت جس نے پیدا کیا ہے، اس پر کام کر کے اپنا رزق کما پانے کے حق، جس سے جانور بھی محروم نہیں ہیں، سے زمین پر قابض غاصبوں نے ”اشرفِ مخلوقات“ سے چھین لیا ہوا ہے۔ وہ ریاست جو ماں کے جیسی کہی جایا کرتی تھی، اپنے وجود کا جواز کھو چکی ہے۔ ہر جانب لوٹ مار کا بازار گرم ہے، یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی آخری دور میں جی رہے ہیں۔ اب اس کے بعد یا تو کوئی مہاماری ہے یا مہاکال ہمارا منتظر ہے اگر کوئی سوشلسٹ انقلاب نہیں آتا تو، جس میں تمام نجی اداروں کو ان کے منافع خور غریب محنت کشوں کی کمائی ہوئی دولت پر قابض سرمایہ داروں سے چھین کر محنت کش طبقے کی اجتماعی ملکیت اور جمہوری کنٹرول میں لیا جائے گا۔ موجودہ سرمایہ دارانہ ریاست کا خاتمہ کر کے مزدور ریاست تعمیر کی جائے گی جو بسنے والے ہر فرد کو روزگار دے گی تاکہ وہ عزت سے اپنی روزی روٹی کما کر شان کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر سکے، ایک ایسا غیر طبقاتی سماج جہاں کوئی اونچ نیچ نہ ہو گی اور معاشرہ لالچ اور چھینا جھپٹی اور تمام دھوکے بازیوں اور بھیک کی لعنت سے پاک ہوگا۔

Comments are closed.