پشتونوں پر قومی جبرکیخلاف تحریک؛ سوشلسٹ انقلاب ہی راہِ نجات ہے!

تحریر: صدیق جان (ملاکنڈ)

نقیب قتل اور ریاستی جبر کیخلاف اسلام آباد میں دھرنے کا منظر

جوں جوں ریاست کا بحران بڑھتا جا رہاہے اور ریاستی اداروں کے تضادات گہرے ہوتے جا رہے ہیں، ریاست کا عوام پر جبر بڑھتا جا رہا ہے۔ چند ہفتے قبل کراچی میں فاٹا سے تعلق رکھنے والے نوجوان نقیب اللہ محسود کا پولیس افسرراؤانوار نے ماورائے عدالت قتل کیا۔ پہلے نقیب پر یہ الزام لگایا گیا کہ اس کا طالبان کے ساتھ تعلق ہے جبکہ بعد میں پتا چلا کے نقیب فاٹا میں خراب حالات کی وجہ سے رزق کی تلاش میں کراچی گیا تھا۔ تفصیلات آنے پر معلوم ہوا کہ راؤ انور نے بھتہ کے حصول کے لئے نقیب کو قتل کیا۔اس واقعے کے خلاف فاٹا اور پختونخوا کے عوام میں غصے کی ایک لہر دوڑ گئی اور فاٹا سے بڑی تعداد میں افرادمنظور پشتین اور ان کے ساتھیوں کے سربراہی میں اسلام اباد میں دھرنا دینے روانہ ہوئے۔اسلام آباد پہنچتے پہنچتے یہ قافلہ ہزاروں کی تعداد کو پہنچ گیا۔ اس دھرنے میں نہ صرف فاٹا کے عوام نے شرکت کی بلکہ پختونخوا کے دوسرے علاقوں جیسے سوات ، دیر،بونیر، صوابی، پشاور مردان اور دوسرے اضلاع سے بڑی تعداد میں عوام کے قافلے اس دھرنے میں شرکت کرنے پہنچ گئے۔ اس دھرنے کے مطالبات میں راؤ انوارکی گرفتاری اور سزا کے ساتھ ساتھ فاٹا میں فوجی آپریشن ، وطن کارڈ، بارودی سرنگیں اور آرمی چیک پوسٹوں کا خاتمہ اور لاپتہ افراد کی بازیابی شامل تھے۔ دھرنے کا پہلا دن ہی پاک آرمی کے جبر، ریاستی دہشت گردی اور دہشت گردی کی ریاستی پشت پناہی کے خلاف نعرہ بازی سے شروع ہوا۔ فاٹا کے دھرنے کے بعد احتجاجوں کاایک سلسلہ شروع ہوا جس میں سوات ، باجوڑ ایجنسی اور ملاکنڈ میں آرمی کی چیک پوسٹوں کے خلاف مظاہرے ہوئے اور اب کرم ایجنسی کے عوام کا پشاور میں دھرنا جاری ہے۔

سوات میں آرمی چیک پوسٹ پر تلاشی کے دوران ایک بیمار بچی کی موت ہوئی جسے ہسپتال لے جایا جا رہا تھا۔ چیک پوسٹ پر لمبی قطار کی وجہ سے بچی کو وقت پر ہسپتال نہیں پہنچایا جا سکا اور وہیں دم توڑ گئی۔

سوات میں آرمی چیک پوسٹوں کے خلاف عوام کا احتجاج

اس واقعے کے خلاف سوات مینگورہ اور خوازہ خیلہ میں آرمی چیک پوسٹوں کے خلاف سینکڑوں لوگوں نے احتجاج کیا۔ پہلے تو ریاست نے جبر کا راستہ اختیار کیا۔ احتجاج کے منتظمین کو ڈرایا دھمکایا، ان کے خلاف مقامی میڈیا اور سوشل میڈیا پر غلیظ پروپیگنڈہ کیا۔ ان کو شر پسنداور بیرونی قوتوں کا ایجنٹ قرار دیااور احتجاج کے بعد ان کے خلاف FIR درج کردی گئی۔ لیکن جب سوات کے عوام نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے دوبارہ 25 فروری کو احتجاج کی کال دی تو ریاست پیچھے ہٹنا شروع ہوگئی۔اور مذاکرات کے ذریعے معاملے کو حل کرنے کی کوشش شروع کی جس میں عوام کے ساتھ یہ وعدہ کیا گیا کے آرمی چیک پوسٹیں پولیس کے حوالے کی جائیں گے اور دوسرے معاملات میں بھی آرمی دخل اندازی نہیں کرے گی۔ جس کے بعد 25 فروری کا احتجاج منسوخ کردیا گیا۔ اسطرح 24 فروری کو تھانہ( ملاکنڈ) میں بڑی تعداد میں لوگوں نے آرمی چیک پوسٹوں کے خلاف احتجاج کیا۔

طالبعلم احمد شاہ کے قتل کیخلاف باجوڑ میں سینکڑوں لوگوں کا احتجاج

باجوڑ ایجنسی کے ایک طالب علم، احمد شاہ کے کراچی میں قتل کے خلاف ہزاروں لوگوں نے احتجاج کیا۔ اس احتجاج سے کچھ ہی دن پہلے باجوڑ کے پولیٹیکل ایجنٹ نے ایک جرگے سے طاقت کے نشے میں سرمست ہو کر بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر باجوڑ ایجنسی میں کسی نے آرمی، ایف سی، پولیٹیکل ایجنٹ یا ریاست کے خلاف بات کی تو ان سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ لیکن کچھ دن بعد باجوڑ کے لوگوں نے پولیٹیکل ایجنٹ کی دھمکیوں کو پیروں تلے روند ڈالا اور انتہائی جرات کے ساتھ احتجاج کیا۔

یہ تمام واقعات اور لوگوں کا یہ ابھار محض نقیب کے قتل کے واقع کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ پچھلے 40 سال سے فاٹا میں جاری پراکسی قتل و غارت اور ریاست کے جبر کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی ریاست نے فاٹا میں انگریز سامراج کی، فاٹا کوBuffer Zone بنانے والی پالیسی کو جاری رکھا۔ اس پالیسی کے تحت فاٹا میں ایف سی آر جیسا کالا قانون نافذ رہا اور ابھی تک نافذ ہے جس کے نتیجے میں فاٹا کے عوام کو سیاست اور دوسرے جمہوری حقوق سے محروم رکھا گیا۔ جب اپریل 1978ء میں افغانستان میں مزدوروں اور پسے ہوئے طبقات نے ثور انقلاب برپا کیا تو اس کو کچلنے کے لیے امریکہ اور سعودی عرب نے پاکستان آرمی اور ISI کی مدد سے آپریشن سائیکلون شروع کیا جس کے تحت فاٹا میں جہادی گروہوں کو پروان چڑھایا گیا۔ ان کے لیے فاٹا میں تربیت گاہیں قائم کیں اور ان کو محفوظ ٹھکانے فراہم کئے۔

جب روس افغانستان سے پسپا ہوا اور افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہو گئی تو گیس اور دوسرے ٹھیکوں کے اوپر طالبان اور امریکہ کے درمیان تضادات ابھرنا شروع ہوگئے۔ امریکہ نے 2001 ء میں افغانستان پر حملہ کیا اور ابھی تک امریکہ اور اتحادی افواج افغانستان میں موجود ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف اس نام نہاد جنگ میں پاکستانی ریاست نے امریکہ کا اتحادی بن کر اربوں ڈالر کمائے جبکہ دوسری طرف ہیروئن اور اسلحے کی سمگلنگ اور اغوا برائے تاوان کے ذریعے آرمی کے اعلیٰ افسران نے اربوں روپے کمائے۔ جبکہ تمام تر بربادی فاٹا افغانستان اور پختونخوا کے عوام کے حصے میں آئے۔ لاکھوں لوگوں کومارا گیا، سینکڑوں کو لاپتہ کیا گیا، بنیادی انفراسٹرکچر کو تباہ کیا گیا اور لاکھوں لوگ گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا۔ 1200 سے زیادہ سکولوں کو بموں سے اڑایا گیا، ہسپتالوں کو تباہ کیا گیا۔

فاٹا میں عوام کی اکثریت کو پینے کا پانی دستیاب نہیں اور خواتین اور بچیوں کو دور دراز سے پینے کا پانی لانا پڑتا ہے

اس وقت فاٹا میں شرح خواندگی 33فیصد ہے جبکہ خواتین کی شرح خواندگی صرف 7 فیصد ہے۔ 44 فیصد بچے سکول میں داخلہ نہیں لے پاتے۔ 59 فیصد لوگوں کے لئے پینے کا صاف پانی موجود نہیں ہے۔ 7800 لوگوں کے لئے ایک ڈاکٹر موجود ہے۔ پولیو کی شرح اس وقت فاٹا میں سب سے زیادہ ہے۔ 1000 میں سے 87 بچے پیدائش کے دوران مر جاتے ہیں۔ فاٹا میں بیروزگاری کی شرح 73 فیصد ہے جو کہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ ہے۔

دوسری طرف آرمی کی چیک پوسٹیں اور براہ راست جبر ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ قدم قدم پر آرمی کی چیک پوسٹوں پر تلاشی کے لیے گاڑوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوتی ہے اور ایک چیک پوسٹ سے گزرنے میں اکثر اوقات گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ اس کی وجہ سے لوگوں کی ذاتی اور معاشی زندگی بری طرح متاثر ہو ئی ہے۔ جو لوگ نوکری کے لیے جاتے ہیں اور جو لوگ کاروبار کرنے جاتے ہے، وہ وقت پر پہنچ نہیں پاتے، بیمار لوگوں کو چیک پوسٹوں پر روک لیا جاتا ہے جو کہ اکثر ہسپتال پہنچ نہیں پاتے اور راستے میں دم توڑ دیتے ہیں۔

جدلیاتی اصولوں کی رو سے یہ تمام وہ بنیادی مقداری تبدیلیاں تھی جو پچھلے 40 سال سے سماج کے اندر ہو رہی تھیں اور جس نے ایک نہج پر پہنچ کر نقیب کے قتل کے خلاف ابھار کی صورت میں ایک معیاری جست لگایااور لوگوں نے مذمت کی بجائے مزاحمت کا راستہ اپنایا۔ ان تمام تر واقعات سے ان علاقوں کی عوام نے اہم نتائج اخذکیے ہیں، جس میں سب سے اہم یہ ہے کہ عوام میں ریاست اور آرمی کی طاقت کا جو ڈر تھا وہ ختم ہو گیا اور لوگوں نے کھلم کھلا ریاست کو چیلنج کیا۔ اس سے بھی بڑھ کر عوام کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوااور یہ احساس اجاگر ہوا کہ احتجاج کے ذریعے آواز بلند کی جا سکتی ہے اور اپنے حقوق کے لیے لڑ کر انہیں منوایا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں تمام سیاسی پارٹیاں اور خصوصاً قوم پرست قیادتیں عوام کے سامنے بری طرح ننگی ہوئی ہیں۔ جنہوں نے نہ تو ان احتجاجی دھرنوں کی قیادت کی اور نہ ہی مستقبل کے لیے کوئی لائحہ عمل وضع کیا۔ بلکہ قوم پرست قیادتوں نے تو سب سے آخر میں ان دھرنوں میں شرکت کی اور روایتی تقریریں کر کے چلے گئے۔ ان قوم پرست قیادتوں میں اتنی جرات اور حوصلہ نہیں ہے کہ وہ ان دھرنوں کے مطالبات کی حمایت کر سکیں اور ان میں شریک افراد کے مؤقف کی حمایت کر سکیں۔ بلکہ یہ قیادتیں خود اپنے مفادات کے لئے اس ریاست اور اس کے اداروں کی گماشتہ بن چکی ہیں۔ جب تک ان کے اس ریاست سے ذاتی مفادات وابستہ ہیں، وہ اس ریاست کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں بول سکتے۔

جس طرح سرمایہ دارانہ نظام ایک نامیاتی بحران کا شکار ہے اسی طرح اس کے اوپر بننے والی ریاستیں بھی بحران کا شکار ہے۔ سرمایہ درانہ نظام میں اب اتنی گنجائش نہیں کہ عام لوگوں کی زندگیوں میں کوئی بنیادی تبدیلی لا سکے اور عوام کی بنیادی ضروریات پوری کر سکے۔ اس کی واضح مثال یورپ کی فلاحی ریاستیں ہیں جہاں پر لوگوں سے مراعات واپس چھینی جا رہی ہیں۔ یورو زون کے اکثر ممالک دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں۔ ایسے میں سرمایہ داری کے تحت آج ایک ترقی یافتہ قومی ریاست کا قیام ناممکن ہے۔

اسی سرمایہ دارانہ ریاست نے ایک وقت تک مذہب کو استعمال کرتے ہوے محنت کش اور غریب طبقے کو تقسیم رکھا تاکہ وہ ریاست اور اس نظام کے خلاف متحد نہ ہو لیکن جب مذہبی انتہا پسندی کو لوگوں نے مسترد کر دیا تو اب ریاست کی یہ پالیسی ہے کہ قومی اور لسانی بنیادوں پر محنت کش طبقے کو تقسیم کرے۔ پاکستانی ریاست نے ایک سامراجی ریاست کا کردار ادا کرتے ہوئے یہاں پر پہلے ہی مظلوم قومیتوں کا بد ترین استحصال کیا ہے اور ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے ہیں۔ اسی قومی جبر کیخلاف ان مظلوم قومیتوں میں شدید نفرت اور غم و غصہ موجود ہے جس کا اظہار ان تحریکوں میں بھی واضح طور پر نظر آتا ہے۔ لیکن قومی محرومی اور پاکستانی ریاست کے جبر کے خاتمے کے لیے ان تحریکوں کو محنت کش طبقے کی تحریک کے ساتھ جوڑنا ہو گا جو اس وقت پورے ملک میں چھوٹی چھوٹی شکلوں میں موجود ہیں۔ جب تک ہم قومی سوال کو طبقاتی سوال سے جوڑ کر حل نہیں کریں گے تب تک قومی سوال کا حل نا ممکن ہے۔

اگر فاٹا اور پختونخواہ کے عوام نے ریاستی دہشت گردی، ریاستی جبر، دہشت گردی کی ریاستی پشت پناہی، غربت اور بیروزگاری سے آزادی حاصل کرنی ہے تو انہیں اپنے آپ کو پاکستان، افغانستان، ہندوستان اور اس خطے کے دوسرے ممالک کے محنت کش طبقے کے ساتھ طبقاتی جڑت بنانا ہوگی اور ایک طبقاتی لڑائی لڑتے ہوئے طبقاتی اور قومی استحصال سے آزادی حاصل کرنی ہوگی۔ سرمایہ دارانہ نظام کے اندر رہتے ہوئے قومی جبر سے آزادی حاصل نہیں کی جا سکتی، اس کے لیے ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے اس نظام کا خاتمہ کرنا پڑے گا۔ ایک سوشلسٹ مزدور ریاست ہی یہاں پر قومی جبر اور غربت، بیروزگاری، ناخواندگی، بیماری اور طبقاتی تفریق کا مکمل خاتمہ کرے گی۔ اس انقلاب کے لیے آج ایک انقلابی پارٹی کی تعمیر کی ضرورت ہے جو انقلابی نظریات سے لیس ہو اور جو جرات اور حوصلے کے ساتھ محنت کش طبقے کی قیادت کرتے ہوئے اس ظلم کے نظام کا خاتمہ کر سکے۔ 

سوشلزم زندہ باد!

قومی جنگ، نہ مذہبی جنگ! 
طبقاتی جنگ طبقاتی جنگ!