پشاور: جامعہ پشاور میں مالی بحران۔۔ملازمین کی جانب سے احتجاجی تحریک کا آغاز

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، پشاور|

خیبر پختونخوا میں تعلیم کی نجکاری اور اس کے نتیجے میں یونیورسٹی کے طلبہ اور ملازمین کا معاشی قتلِ عام عملی طور پر شروع کیا جا چکا ہے۔ یونیورسٹی میں شدید ہیجانی صورتحال بنی ہوئی ہے۔ ہر طرف غم و غصہ موجود ہے۔ طلبہ، کلاس فور اور کلاس تھری کے ملازمین اور اساتذہ سخت بے چینی کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یونیورسٹی کو مالی طور پر مزید چلانا ناممکن ہوچکا ہے۔ 10 مارچ سے کلاس فور، کلاس تھری بشمول اساتذہ نے باقاعدہ طور پر تنخواہوں میں کٹوتیوں کے خلاف ہڑتال اور احتجاجی دھرنے کا آغاز کر دیا تھا۔ اس احتجاج سے انتظامیہ بے تحاشا خوف میں مبتلا ہوچکی تھی جسے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ معاملات کو کیسے کنٹرول کیا جائے۔ شاید کرونا وبا کی تیسری لہر ان کے لئے امید کی ایک کرن ثابت ہوئی جس کا بہانہ بنا کر 15 مارچ کو باقی تعلیمی اداروں سمیت پشاور یونیورسٹی کو بھی بند کر کے ملازمین کے اس احتجاجی سلسلے کو متاثر کرنے کی کوشش کی گئی مگر ملازمین نے اگلے روز یعنی 16 مارچ کو دوبارہ پشاور پریس کلب پر احتجاج ریکارڈ کرکے یہ چتاؤنی دی کہ جب یونیورسٹی کھلے گی تو وہ کئی گنا زیادہ جوش کے ساتھ اپنے حقوق کے دفاع میں نکلیں گے۔

پشاور یونیورسٹی پر نجکاری کا یہ حملہ صوبائی گورنمنٹ نے نئے سال کے آغاز میں کیا تھا۔ 7 جنوری کو صوبے کی تمام یونیورسٹیوں کو نجکاری سے جڑے اقدامات کے احکامات جاری کئے تھے جس میں پشاور یونیورسٹی سے جڑے پبلک کالجز کو پرائیویٹائز کرنا، اساتذہ، کلاس تھری کلاس فور، سینیٹیشن سٹاف سمیت تمام ایمپلائز کی تنخواہوں میں کٹوتی اور کنٹریٹ ملازمین کو جبری طور پر فارغ کرنے جیسے ملازمین دشمن اور طلبہ دشمن احکامات شامل تھے۔

یہ بات بھی واضح کی گئی تھی کہ صوبائی حکومت تعلیم کو فنڈ نہیں دے گی اس کی بجائے ادارے خود اپنے اخراجات پورے کریں گے۔ جس کا واضح مطلب ہے کہ طلبہ کی فیسوں میں اضافہ کیا جائے۔ یونیورسٹی انتظامیہ من و عن صوبائی تعلیم دشمن حکومت کے ان احکامات کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز اس سال فروری کے مہینے سے کر چکی ہے۔ جبکہ ملازمین شروع دن سے وقتاٌ فوقتاٌ اس جبر کے خلاف احتجاج بلند کرتے رہے ہیں جو کہ 10 مارچ کو ہزاروں ملازمین کے شاندار احتجاجی دھرنے کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ انتظامیہ اس احتجاج سے کافی خوفزدہ ہے لیکن یہ ابھی تک صرف ملازمین کا ردعمل ہے۔ اگلے مرحلے میں جب طلبہ بھی اپنی فیسوں میں اضافے اور دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ انتظامیہ کے جبر اور دباؤ کے خلاف نکلیں گے تو یونیورسٹی اور حکومت کو چھپنے کی جگہ ڈھونڈنے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ابھی تک انتظامیہ اور ملازمین کے بیچ مذاکرات پر ڈیڈ لاک قائم ہے۔ انتظامیہ وہی بجٹ خسارے کا راگ الاپ رہی ہے جبکہ ملازمین نے ان تمام بہانوں کو رد کیا ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ کے کارکنان یونیورسٹی کے محنت کشوں کی اس احتجاجی تحریک میں شروع دن سے سرگرم ہیں اور ہر محاذ پر اس جدوجہد کا دفاع کرتے رہے ہیں۔ پشاور یونیورسٹی ایمپلائز ایسوسی ایشن اور مختلف ایمپلائز یونینوں کے رہنماؤں کا یہ دعویٰ تھا کہ اگر یونیورسٹی کو واقعی بجٹ خسارے کا سامنا ہے تو بے شک سالانہ اربوں روپیہ کمائی کے ساتھ ساتھ پچھلے وقتوں میں سرکاری فنڈز کی بھی تفتیش کی جائے کہ آخر یہ اربوں روپیہ کس نے اور کیسے ہڑپ لیا ہے۔ مگر اب اس کا خسارہ غریب ملازمین اور طلبہ سے پورا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

ریڈ ورکرز فرنٹ نے ملازمین کے تمام مطالبات کی مکمل حمایت کی اور اس بات کی تائید کی ہے کہ اگر یہ سارا پیسہ پچھلے کئی سالوں سے حکومتی اہلکاروں اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کی جیبوں میں گیا ہے تو پھر غریب محنت کشوں کے بچوں کو تعلیم، علاج اور دو وقت کی روٹی سے محروم کرکے یہ پیسہ نکالنا انتہائی گھناؤنا اور مجرمانہ عمل ہے۔ یہ بالکل غریب محنت کشوں اور طلبہ کے والدین کی جیبوں پر حکومتی ڈاکہ ہے جس کی ریڈ ورکرز فرنٹ نے سخت مذمت کی اور مزدوروں کی اس جدوجہد میں ان کے ساتھ آخر تک کھڑے رہنے کا عزم کیا۔

Comments are closed.