اسلام آباد: یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ملازمین کی حالت زار

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ،اسلام آباد|

یوٹیلٹی سٹورز کے نجکاری مخالف دھرنے کا ایک منظر۔ فائل فوٹو

چند روز قبل ریڈ ورکرز فرنٹ اسلام آباد کی یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن آل پاکستان ورکرز یونین کے نمائندہ ملک محمد فیصل انور اعوان سے بات چیت ہوئی جس میں فیصل نے ادارے کے ملازمین کو درپیش بے تحاشا مسائل کو بیان کیا۔ فیصل کا کہنا تھا کہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ملازمین کو بجٹ 19-2018ء میں بڑھائی جانے والی تنخواہ ابھی تک ملنا شروع نہیں ہوئی جو کہ سراسر زیادتی ہے۔ ہم لوگ محنت کش طبقے سے تعلق رکھتے ہیں ہماری بھی ضروریات ہیں مگر حکومت کی بے حسی برقرار ہے۔

جب کسی بھی حوالے سے کوئی فنڈ وصول کرنا ہوتا ہے تو فوراً ہمیں گورنمنٹ ایمپلائز بنا دیا جاتا ہے، اور ہم سے فنڈ بٹورے جاتے ہیں جس کی مثال ڈیم فنڈ سے لی جا سکتی ہے،لیکن جب تنخواہوں میں اضافے اور اس کی ادائیگی کا ذکر آتا ہے تو ہمیں دیوار سے لگا دیا جاتا ہے جو سرا سر نا انصافی ہے۔ 18-2017ء کا الاؤنس جو اس وقت سے ہی ملنا چاہیے تھا اب جا کر ملنا شروع ہوا ہے، لیکن اس میں بھی 2017ء سے اب تک کے بقایا جات ابھی تک نہیں دیے گئے۔

یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے محنت کشوں کی طرف سے اسلام آباد میں جو دھرنا دیا گیا تھا اور اس میں جو معاہدہ ہوا تھا اس پر بھی عمل درآمد نہیں ہو سکا اور نہ ہی کنٹریکٹ اور ڈیلی والے ملازمین کو مستقل کیا گیا ہے۔

ہم یوٹیلیٹی اسٹورز کے محنت کش اعلیٰ حکام کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ اس مہنگائی کے دور میں ہماری ضروریات اور اخراجات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے جائز مطالبات کو مانا جائے، بصورتِ دیگر ہمارے پاس احتجاج کے جمہوری حق کو استعمال کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہے گا۔

ریڈ ورکرز فرنٹ یوٹیلیٹی اسٹورز کے محنت کشوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کی بھر پور انداز میں مذمت کرتا ہے اور یہ مطالبہ کرتا ہے کہ فوری طور پر یوٹیلیٹی اسٹورز کے محنت کشوں کے واجبات ادا کیے جائیں اور جن محنت کشوں کو ابھی تک مستقل نہیں کیا گیا ہنگامی بنیادوں پر ان کو مستقل کیا جائے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ پہلے کی طرح اس بار بھی یوٹیلیٹی اسٹورز کے محنت کشوں کو یہ یقین دلاتا ہے کہ درپیش مسائل کے خلاف جدوجہد میں ہم ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے۔

متعلقہ: 

اسلام آباد: یومِ مئی کے موقع پر یوٹیلیٹی سٹورز کی نجکاری کے خلاف محنت کش ایک بار پھر میدان میں، دھرنا جاری

Comments are closed.