محنت کشوں کی داستان غم!

|تحریر: مدیحہ|

جس نظام میں ہم لوگ زندگی گزار رہے ہیں ایک بوسیدہ و درد ناک نظام ہے۔ اس نظام میں نچلے طبقے کے لوگوں کو اور ان کے بچوں کوایک بات ضرور پڑھائی، سکھائی، بتائی جاتی ہے کہ تم لوگ اس لیے غریب ہوکیونکہ تمہاری تقدیر میں یہ ہی لکھا گیا ہے۔ تمہارے حصے کی روٹی، آسائش و آرام تقدیر میں لکھے ہی نہیں گئے اور ان حالات میں کہ جب تمہیں دو وقت کا کھانا نہیں مل رہا، بچوں کی پرورش نہیں کر پا رہے اور بیماری کی وجہ سے بچے مر رہے ہیں تو یہ سب تمہاری آزمائش ہے۔

اس بد نصیب تقدیرکے تحت حالات جس قدر تنگ ہو جائیں ان غریب لوگوں کو کہا جاتا ہے کہ وہ سرمایہ داروں کے خلاف آواز تک نہ اٹھائیں۔ مزدوروں کو اپنے حقوق کامکمل ادراک بھی نہیں ہوتا۔جن پیسوں سے غریبوں کے بچوں کا علاج ہو سکتا ہے سرمایہ دار وہ پیسے اپنی اولاد کی عیش کے لیے خرچ کر دیتے ہیں۔ جبکہ نچلا طبقہ جس کے بچوں نے آنے والے مستقبل میں زندگی ہی ایسی دیکھی ہے جس میں بیماری اور بھوک سے مر جانا، روٹی کھانے کے لیے مزدوری کرتے رہنا، جس میں جھوٹی عزت کی خاطر پنجروں میں زندگی گزارنا ہو۔ انہوں نے ایسا ہی نظام دیکھا ہے کہ جس میں لوگ روٹی کی خاطر مجبور ہو کر اپنے بچوں کو سرمایہ داروں کے گھروں میں کام کرنے کے لیے چھوڑ دیں۔ ایسا نظام دیکھا جس میں مزدوروں کی مزدوری جو خون پسینے سے کمائی جاتی ہے۔ سرمایہ دار اس محنتکو لوٹلیتے ہیں اور معاوضہ اتنا دیتے ہیں کہ وہ پیٹ بھر کر بھی روٹی نہ کھا سکیں، بس زندہ رہیں۔

کیونکہ جب محنت کش پسینہ پونچھیں گے اور سکھ کا سانس لیں گے تو آنکھیں کھول کر دیکھ سکیں گے کہ ہمارے ساتھ اور ہمارے بچوں کے ساتھ کیسی بیت رہی ہے۔ جب اس نسل نے ایسی دکھ بھری زندگی دیکھی ہو وہ کیا جانے گی کہ زندگی ایسی بھی ہو سکتی ہیجس میں غم نہ ہوں اور ہر سکھ اور ضرورت آسانی سے میسر ہو۔ سرمایہ دار ان لوگوں کو اسی لیے ایسی جدوجہد کے رستے سے دور رکھتے ہیں جو ان (یعنی سرمایہ داروں ) کے خلاف ہے۔ مزدوروں کو، ان کی اولاد کو، پورے مزدور طبقے کو ایک جال میں قید کیا ہے جس میں اس کی مصروفیات بڑھا دی گئی ہیں۔ ان کو تھوڑا جو وقت ملتا ہے وہ بھی بس اتنا کہ وہ خود کو پھر سے سرمایہ دار کے لیے کام کرنے کے قابل بنا سکیں یعنی کھانا کھائیں اور سوئیں اور سرمایہ دار کے لیے نئے مزدور پیدا کریں۔ 

ان حالات میں ایک مزدور کے لیے زندگی گزارنا انتہائی دشوار ہے۔ بس یوں سمجھ لیجیے کہ نچلا طبقہ جو زندگی گزار رہا ہے وہ سرمایہ دار کی مرضی سے سرمایہ دار کی باندھی ہوئی زنجیروں میں قید رہ کر گزار رہا ہے۔ یہ استحصال صرف صنعتی مزدور وں تک محدود نہیں بلکہ سکولوں میں خواتین اساتذہ کے ساتھ بھی یہ رویہ رکھا جاتا ہے جو کہ انسان کی برداشت کرنے کی حد سے باہر ہے۔ سمجھا جاتا ہے کہ مزدور ان پڑھ ہے اسے کیا پتہ کہ اس کے ساتھ کیسا سلوک ہونا چاہیے۔ وہ پیسوں کے لیے دن بھی اور رات بھی مزدوری کرے گا مگر اگر دیکھا جائے تو پڑھے لکھے افراد کا بھی کم استحصال نہیں کیا جا رہا۔ ہسپتالوں میں، سکولوں میں اور دیگر شعبوں میں بھی مردوں اور عورتوں کا بھرپور استحصال کیا جاتا ہے۔ مگر اسی دوران یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ لوگ اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے خلاف احتجاج بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ 

سرمایہ داروں کے ہاں کام کر کے جو اجرت کماتے ہیں اس سے روٹی کا خرچہ ہی بمشکل پورا ہوتا ہے۔ سرمایہ دار غریبوں کے علاقوں میں جو فیکٹریاں لگاتے ہیں ان کے دھوئیں، زہریلے پانی اور آب و ہواسے بچے، بوڑھے بیمار ہو جاتے ہیں۔ غریب لوگ علاج پر پیسہ خرچ کرنا شروع کر دیتے ہیں ۔ سرکاری ہسپتال پہلے ہی کم ہیں جہاں غریب جا سکتے ہیں ۔ان ہسپتالوں کی حالت بھی انتہائی بد تر ہے، جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگ علاج کے لیے آتے ہیں اور اپنی باری کا انتظار کرتے کرتے بہت سے لوگ جان کی بازی بھی ہار جاتے ہیں۔دوسری جانب پرائیویٹ ہسپتا ل بھی عوام کو لوٹ رہے ہیں ہے اور سرمایہ داروں کی جھولیاں پھر بھرنے کو آتی ہیں۔ انتہائی مہنگے علاج کے باعث بہت سے لوگ اپنی تھوڑی بہت جمع پونجی یا آبائی زمین بیچ کر اپنے عزیزوں کا علاج کروا رہے ہوتے ہیں۔ا س کے باوجود علاج کے لیے قرضے لینے پڑتے ہیں اور ان قرضوں کی وجہ سے عمر بھر انہیں سرمایہ داروں کی غلامی کرنی پڑتی ہے۔ 

اس طرح سرمایہ دار کے نیچے کام کرنے والا اپنی ضرورتیں پوری نہیں کر سکتا وہ اپنی خواہش کیا پوری کرے گا۔ ہر قسم کے ٹیکس کا بوجھ بھی سب سے زیادہ مزدور طبقے پر ہی ہوتا ہے۔ وہ بجلی کا بل ادا کرے یا گیس کا بل ادا کرے اور پھر بعض کو تو پانی کا بل بھی ادا کرنا پڑتا ہے۔ یہ سارا بل ادا کرنے والا کام بھی ساتھ ہی چلتا ہے اور ساتھ ہی بچوں کی فیس، پیپر فنڈ اس طرح کے بہت سے خرچے بڑھتے جاتے ہیں ۔ ایک مزدور جو صبح آٹھ بجے سے شام پانچ بجے تک کام کرتا ہے اس کے باوجود اسے اپنا ایک گھر ، کھانے کے لیے تین وقت کا کھانا اور پہننے کے لیے کپڑے میسر نہیں ہوتے۔ ایسی زندگی ہوتی ہے ایک مزدور کی۔ اس نظام میں سرمایہ دار کے ہاں کام کرنے والا مزدور اپنی بنیادی ضروریات بھی کبھی حاصل نہیں کر سکتا۔ ہمیں حکومت نہیں اس نظام کو بدلنا ہے جہاں سب انسان برابر ہوں نہ کوئی غلامی ہو اور نہ ہی کوئی طبقہ ہو۔

Comments are closed.