پاکستان اسٹیل ملزپر نجکاری حملہ۔۔ مزدور دشمن حکومت کا 8 ہزار محنت کشوں کو فارغ کرنے کا فیصلہ

|رپورٹ: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|

ستمبر 2016 میں پاکستان اسٹیل ملز کے محنت کشوں کے احتجاج کا ایک منظر-فوٹو رائٹرز

اطلاعات کے مطابق وزیرِ اعظم کے مشیرِ خاص برائے فنانس و آمدن اور سامراجی مالیاتی اداروں کے وفادار ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی زیرِ صداررت معاشی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں 19 ارب روپے کے پیکج کے ذریعے پاکستان کی سب سے بڑی بند صنعت پاکستان اسٹیل ملز کے 8 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ صنعت و پیداوار کی وزارت کے پلان کے مطابق یہ رقم کل 9 ہزار میں سے 8 ہزار مزدوروں کو ریٹائرمنٹ اور برخاستگی کی مد میں ادا کی جائے گی۔ یاد رہے کہ پاکستان اسٹیل ملز جون 2015ء سے گیس کنکشن کی کٹوتی کے بعد سے بند ہے۔ 2013ء میں ریٹائر ہونے والے 4ہزار ملازمین کو ابھی تک ان کے واجبات ادا نہیں کئے گئے جبکہ ان میں سے 650 مزدور پنشن کا انتظار کرتے کرتے فوت ہو چکے ہیں۔ اب تک اسٹیل ملز کی 2 ہزار ایکڑ اراضی پر قبضہ گروپوں نے ہتھیا لئے ہیں جبکہ مجموعی خسارہ اور واجب الادا رقوم 500 ارب روپیہ سے تجاوز کر چکے ہیں۔ پاکستان کا حکمران طبقہ کرونا وبا کی آڑ میں سینکڑوں مزدوروں کو بیروزگار اور ان سے جڑے ہزاروں افراد کو بھوک اور بیماری سے مرنے کے لیے چھوڑ رہا ہے۔

پاکستان اسٹیل ملز ملک کی سب سے بڑی انڈسٹری ہے اور اسے ”صنعتوں کی ماں“ کا درجہ حاصل ہے۔ 1970ء کی دہائی میں سوویت یونین کی مدد سے بنائی جانے والی 18 ہزار 660 ایکڑ رقبے پر پھیلی اس دیو ہیکل صنعت کی اپنی رہائشی کالونی، ہسپتال، کلینکس، مارکیٹیں، ریستوران، سکول اور کالج، پارکس، سپورٹس کمپلیکس، رہائشی ہوٹل، پانی کا ذخیرہ، بجلی گھر، ریل ٹریک اور بندرگاہ ہے۔ پیداواری عمل میں موجود بیس سے زیادہ یونٹس بذاتِ خود فیکٹریوں کا درجہ رکھتے ہیں جبکہ اسٹیل ملز کی پیداواری صلاحیت 1.5 ملین ٹن اسٹیل سالانہ ہے جسے بڑھا کر 3 ملین ٹن سالانہ کیا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ایک فعال منصوبہ بند معیشت میں یہ اسٹیل مل سماجی اور معاشی ترقی میں کیا کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے۔
لیکن سرمایہ دارانہ معیشت اور ریاست نے اس سونے کی چڑیا کو تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔بے پناہ انتظامی کرپشن اور عیاشیاں، دانستہ طور پر پیداوار میں رخنے، چین سے درآمد شدہ سستا ترین اسٹیل، ملک میں 140 سے زائد نجی اسٹیل یونٹس کی تعمیر اور پراپرٹی مافیا کی بھوکی نظروں نے اس صنعت کو اپنے حقیقی جوہر دکھانے کا کبھی موقع ہی نہیں دیا۔ محتاط اندازوں کے مطابق آج ملز کو بند رکھنے کا مطلب قومی خزانے کو سالانہ 2.5 ارب ڈالر کا خسارہ ہے۔ اس وقت بھی اسٹیل ملز کو بیچنے کی سازش کا مقصد اسے چلانا نہیں بلکہ اس کی گراں قدر زمین پر رہائشی سوسائٹیاں، کمرشل پلازے، ہوٹل، ریستوران اور مڈل کلاس اور امراء کی عیاشیوں کے اڈے بنانا مقصد ہے۔ جس قدر خام مال اور انفرسٹرکچر کا لوہا موجود ہے اور رہائشی کالونی اور زمین کی جو مرکزی لوکیشن ہے اس حوالے سے اس صنعت کا تخمینہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔ 2006ء میں وزیرِ اعظم شوکت عزیز نے جب ملز بیچنے کی کوشش کی تو ایک نجی پارٹی نے صرف 900 ارب روپے سے کچھ اوپر بولی لگائی۔درحقیقت مزدوروں کے خون پسینے، عوام کے ٹیکس اور نسلوں کی محنت سے کھڑی کی جانے والی اس کلیدی صنعت کا کوئی مول نہیں۔

ریڈ ورکرز فرنٹ اس وبائی اور معاشی بحران کی گھڑی میں ہزاروں مزدوروں کو بیروزگار کرنے کے اس اقدام کی شدید مذمت کرتا ہے۔ وزیر اعظم ہر پریس کانفرنس میں مزدوروں کا نام لے کر مگر مچھ کے آنسو بہا رہاہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ اس منافقانہ ہمدردی کے پیچھے سرمایہ داروں کو نوازنے اور آئی ایم ایف کی نجکاری کی پالیسی کو آگے بڑھایا جا رہاہے۔ ایسے میں موجودہ سی بی اے یونین کے کندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ ان حکمرانوں یا ریاستی اداروں سے سے کسی بھلائی کی توقع کرنا سراسر بیوقوفی ہوگی۔ یونین قیادت کو چاہیے کہ اس مزدور دشمن اقدام کے خلاف فوراً احتجاجی تحریک شروع کرے۔ ساتھ ہی ساتھ نجکاری کی لسٹ میں شامل دیگر ادارے جیسے واپڈا، پی آئی اے وغیرہ اور دیگر سرکاری اور نجی اداروں کے محنت کشوں سے یکجہتی کی اپیل کرے اور ان کے ساتھ جڑت بناتے ہوئے نجکاری، ٹھیکیداری، ڈاؤن سائزنگ، کنٹریکٹ ملازمتوں اور اجرتوں میں کٹو تیوں کے خلاف ایک ملک گیر مشترکہ جدوجہد کا آغاز کیا جائے۔ ریڈ ورکرز فرنٹ اس جدوجہد میں ہر قدم پر محنت کشوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔

علاوہ ازیں، ریڈ ورکرز فرنٹ حکومت سے مطالبہ کرتا ہے کہ ہزاروں مزدوروں کو بیروزگار کرنے کے اس اقدام کو فی الفور واپس لیا جائے۔ سٹیل ملز کو چلانے کے لیے فوری طور پر تمام اسٹیل اور لوہے کی درآمدات پر پابندی لگائی جائے یا کم از کم محصولات اتنی بڑھا دی جائیں کہ مقامی منڈی میں اسٹیل ملز کی دوبارہ اجار ہ داری قائم ہو۔ مقامی نجی اسٹیل ملز کو بغیر معاوضہ فوری طور پر قومی تحویل میں لیتے ہوئے اسٹیل ملز کے انفرسٹرکچر میں شامل کیا جائے اور پوری صنعت مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں دی جائے۔ اسٹیل ملز کو فعال بنانے اور ملکی اسٹیل کی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے مستقل بنیادوں پر نئی بھرتیوں کا عمل شروع کیا جائے۔ نجکاری کی پالیسی کو فوری طور پر ترک کرتے ہوئے مزدوروں اور ریٹائرڈ ورکرز کی واجب الادا رقوم فوراً ادا کی جائیں اور قبضہ مافیا کی سرکوبی کرتے ہوئے قبضہ زمین چھڑائی جائے۔ قومی تعمیرات کا ایک مکمل پروگرام تشکیل دیا جائے اور پاکستان اسٹیل ملز کی پیداواری قوت کو بڑھاتے ہوئے اسے منصوبے میں مرکزی حیثیت دی جائے۔

Comments are closed.