پنجاب: طبی عملے کوحفاظتی کٹس کی عدم فراہمی اور گرینڈ ہیلتھ الائنس کی بھوک ہڑتال

|منجانب: ریڈ ورکرز فرنٹ، لاہور|

وفاقی اور دیگر صوبائی حکومتوں کی طرح پنجاب حکومت بھی کرونا وبا کی اس ہنگامی صورتحال کے دوران بے حسی اور مجرمانہ نااہلی کے نئے ریکارڈ قائم کر رہی ہے۔ صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد نے مارچ کے اواخر میں ایک ٹی وی پروگرام میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ حکومت نے صوبے کے ہسپتالوں کو ساٹھ ہزار حفاظتی کٹس مہیا کر دی ہیں اور طبی عملے کا کٹس کی عدم دستیابی کے متعلق شکوہ بالکل غلط اور بے بنیاد ہے۔ لیکن حقیقت چند روز بعد ہی سامنے آ گئی جب ہیلتھ سیکرٹریٹ سے جاری کردہ ایک لیٹر سوشل میڈیا کے ذریعے منظر عام پر آیاجس میں یہ درج تھا کہ ابھی تک محض چند ہزار کٹس کی مہیا کی گئی ہیں اور یہ ناکافی کٹس بھی صرف کرونا وارڈز اور قرنطینہ مراکز میں کام کرنے والے طبی عملے کو فراہم کی جائیں گی۔ مگر یاسمین راشد کے کان پر جوں تک نہ رینگی اور جب اس سے سوالات کئے گئے تو سرمایہ دار طبقے کی نمائندہ اس عوام دشمن عورت نے غصے سے جواب دیا کہ ”کیا اب ہر ڈاکٹر کٹ پہن کر گھومے گا۔۔۔“۔

یہاں پر یہ وضاحت کرنا ضروری ہے کہ کرونا سے متا ثرہ تقریباً ایک تہائی مریضوں میں یہ انفیکشن کسی قسم کی کوئی علامات نہیں دیتا اور مریض خود بھی اپنی بیماری سے لاعلم ہوتا ہے لیکن وہ وائرس آگے پھیلانے کا سبب بن رہا ہوتا ہے۔ اسی طرح جن مریضوں میں علامات آتی ہیں وہ بھی انفیکشن ہونے کے بعد کئی دنوں تک بالکل ٹھیک رہتے ہیں اور بے خبری میں اس وائرس کو پھیلاتے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہسپتال کے تمام طبی عملے کا چاہے وہ ایمر جنسی، آؤٹ ڈور، آپریشن تھیٹر یا کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں کام کر رہا ہو، مکمل حفاظتی کٹ پہننا ضروری ہے۔

طبی عملے کو کرونا وائرس سے بچانا اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ محنت کش اس وبا سے مقابلے کے لیے ہماری واحد امید ہیں اور اس لیے بھی کہ وائرس سے متاثرہ ایک طبی کارکن بے خبری میں ہسپتال میں آ نے والے بے شمار دیگر مریضوں کو انفیکٹ کر سکتا ہے۔ لیکن اس ملک کے سرمایہ دار حکمران طبقے، ریاستی اشرافیہ اور ان کے یاسمین راشد جیسے دلالوں کو اس سب سے کوئی سروکار نہیں اور ان کی بلا سے عوام اور طبی محنت کش مریں یا جئیں، انہیں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

اس تمام صورتحال کے نتیجے میں اب تک ملک بھر میں 220 کے قریب طبی محنت کش اس وبا کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ 6 کی موت واقع ہو چکی ہے۔ کرونا سے متاثرہ طبی عملے میں تقریباً 130 کا تعلق پنجاب سے ہے۔ حال ہی میں پہلے نشتر ہسپتال ملتان اور پھر لاہور کے پنجاب کارڈیالوجی ہسپتال میں بڑی تعداد میں طبی عملے کے کرونا سے متاثر ہونے کا انکشاف ہوا ہے، حالانکہ یہ طبی عملہ کسی کرونا وراڈ یا قرنطینہ سینٹر میں کام نہیں کررہا تھا۔ اس سے یہ پتا چلتا ہے کہ طبی محنت کشوں کا حفاظتی کٹس کی عدم فراہمی کا شکوہ بالکل جائز اور درست ہے اور پوری صوبائی حکومت جھوٹ بول رہی ہے۔ مزید برآں کرونا وارڈز اور قرنطینہ مراکز میں طبی عملے کو فراہم کی جانے والی کٹس بھی غیر معیاری ہیں اور شارٹیج کی وجہ سے طبی محنت کش انہیں بار بار استعمال کرنے پر مجبور ہے۔ ڈی جی خان میں قائم قرنطینہ مرکز کے درجنوں طبی محنت کشوں کے کرونا سے متاثر ہونے کے پیچھے یہی وجوہات کارفرما تھیں۔

ایسے میں چند روز قبل گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب کی قیادت نے ہیلتھ سیکرٹریٹ لاہور میں ان مسائل کے حوالے سے ہونے والی ایک میٹنگ کی ناکامی کے بعد وہیں پر دھرنا دیتے ہوئے بھوک ہڑتال پر جانے کا اعلان کیا اور کہا کہ حفاظتی کٹس کی فراہمی، تمام طبی عملے کی ٹیسٹنگ، کرونا کا شکار طبی محنت کشوں کے لئے بہتر قرنطینہ سہولیات کی فراہمی اور ڈیلی ویجز پیرامیڈیکس کی مستقلی جیسے مطالبات کے پورے ہونے تک وہ بھوک ہڑتال پر رہیں گے۔ یہ سارے مطالبات بالکل جائز اور درست ہیں اور ریڈ ورکرز فرنٹ ان کی بھر پور حمایت کرتا ہے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے پاس بھی ان مطالبات کے جواب میں ”سب اچھا ہے“ جیسے سفید جھوٹ بولنے سے لے کر”ہم یہ سب کر رہے ہیں، تھوڑا صبر کریں“، ”ترقی یافتہ ممالک میں بھی تو کٹس کی کمی ہے“، ”ہم تو غریب ملک ہیں، ہمارے پاس وسائل کی بہت کمی ہے“، ”عالمی وبا ہونے کی وجہ سے کٹس دنیا میں کہیں سے بھی نہیں مل رہی ہیں“ جیسے بے شمار بہانے اور ڈھکوسلے موجود ہیں۔ اس لئے ضروری ہے کہ جی ایچ اے کی قیادت اپنے فوری مطالبات کے ساتھ ایسے اقدامات بھی تجویز کرے جن کے ذریعے حکومت نہ صرف طبی عملے کی تمام مانگیں پوری کر سکتی ہے بلکہ کرونا وبا کا موثر مقابلہ کرتے ہوئے لاکھوں انسانی جانیں بھی بچا سکتی ہے۔ اور اس کے باوجود بھی اگر حکومت کچھ نہیں کرتی تو سب پر واضح ہو جائے گا کہ اسے عوام اور طبی عملے کی جانوں سے کوئی غرض نہیں ہے اور وہ محض جھوٹ بول کر اور فوٹو سیشن کرکے ٹائم پاس کر رہی ہے۔ مثلاً ”وسائل کی کمی“ کے حکومتی واویلے کے حوالے سے یہ مطالبہ رکھا جا سکتا ہے کہ حکومت تمام بڑی نجی صنعتوں، بینکوں، کاروباروں اورکمپنیوں وغیرہ پر عائد کارپوریٹ ٹیکس میں فوری طور پر اضافہ کرے بلکہ کرونا وبا کی مکمل روک تھام تک ان پر ایک خصوصی صحت ٹیکس بھی عائد کرے۔ اسی طرح طبقہ امرا پر ماضی میں ختم کر دیے جانے والے ویلتھ ٹیکس کا دوبارہ نفاذ کیا جائے اور اس کی شرح کو بھی بڑھایا جائے۔ اسی طرح حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ سامراجی مالیاتی اداروں کے سامنے گڑگڑانے کی بجائے فوری طور پر نہ صرف آئی ایم ایف، ورلڈ بینک سمیت ان تمام عالمی مالیاتی اداروں اور سامراجی ممالک بلکہ ملکی نجی بینکوں کے قرضوں اور ان کے سود کی ادائیگی بھی کم از کم ایک سال کے لئے موخر کر دے۔ غیر دفاعی فوجی اخراجات کی کٹوتی اور فوج کی کاروباری کمپنیوں پر صحت ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ بھی وقت کی ضرورت ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ شعبہ صحت کی استعداد کار کو بڑھانے اور نجی شعبے کی لوٹ مار اور بلیک میلنگ کو لگام دینے کے لیے تمام نجی ہسپتالوں اور لیبارٹریوں کو فی الفور ریاستی تحویل میں لینے کا مطالبہ بھی کرنا چاہیے۔ مزید برآں، نئے میک شفٹ ہسپتالوں کی فوری تعمیر اور ڈاکٹروں، نرسوں اور پیرا میڈیکس کی شدید قلت کو ختم کرنے کے لیے فوراً نئی بھرتیوں کا مطالبہ کیا جانا چاہیے۔ اسی طرح قرنظینہ مراکز کی استعداد کار کو بڑھانے کے لیے بڑے بڑے نجی ہوٹلوں اور شاپنگ پلازوں کو فی الفور ریاستی تحویل میں لے کر قرنطینہ مراکز میں بدلنے کا مطالبہ بھی اپنے پروگرام میں شامل کرنا ہوگا۔

اسی طرح کون نہیں جانتا کہ ہر بڑے شہر میں طبی سامان کے بڑے تاجروں کے گوداموں میں حفاظتی کٹس اور ماسکس کے ڈھیر لگے پڑے ہیں جنہیں وہ بلیک میں بیچ رہے ہیں۔ حکومت سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ ان گوداموں پر چھاپے مار کر سارا مال ضبط کرے اور ذخیرہ اندوزوں کو سزائے موت دے۔ اسی طرح بیرونی ممالک سے امداد کے طور پر ملنے والا ٹنوں طبی سامان اور حفاظتی کٹس کہاں گئیں ہیں؟ اس حوالے سے بھی ایک پبلک انکوائری ہونی چاہیے جس میں طبی عملے کے نمائندے بھی شامل ہوں۔ یہ وہ تمام اقدامات ہیں جنہیں اٹھاناآئین پاکستان کے تحت حکومت کے اختیار میں ہے اور اگر حکومت ایسا کرتی ہے تو اس کے پاس طبی عملے کی تمام مانگیں پوری کرنے اور کرونا وبا کیخلاف ایک موثر لڑائی لڑنے کے لئے وسائل کی کوئی کمی نہیں ہو گی۔ لیکن اگر حکومت ایسا نہیں کرتی تو واضح ہو جائے گا کہ وہ سرمایہ دار طبقے اور عالمی مالیاتی اداروں کی نمائندہ ہے اور انہی کے مفادات کی محافظ ہے۔ یوں سب کے سامنے اس کا اصل چہرہ بے نقاب ہو جائے گا اوروہ عوام کے ساتھ جھوٹ بولنے اور اپنی مجرمانہ غفلت چھپانے کے لئے طبی محنت کشوں کو قربانی کا بکرا بنانے کی پوزیشن میں نہیں رہے گی۔

اسی طرح ہم سمجھتے ہیں کہ جی ایچ اے پنجاب کی قیادت کا اپنے مطالبات منوانے کے لئے بھوک ہڑتال پر جانا ایک بالکل غلط طریقہ کار ہے۔ بھوک ہڑتال کرنا تو بس کسی ایسے شخص کے لئے درست ہے جس کے پاس جدوجہد کا دوسرا کوئی راستہ بچا ہی نہ ہو، جیسا کہ جیل میں بند کوئی قیدی۔ یہ بات درست ہے کہ موجودہ حالات میں فوراً سے ایک کام چھوڑ ہڑتال پر جانا مناسب نہیں ہو گا اور اس سے حکومت کو طبی محنت کشوں کیخلاف زہریلا پراپیگنڈہ کرنے کا موقع مل جائے گا لیکن اس کے علاوہ بھی جی ایچ اے کے پاس جدوجہد کے بے شمار آپشنز موجود ہیں۔ پنجاب کے ہر بڑے شہر میں سڑکوں پر احتجاج کیا جا سکتا ہے، ہسپتالوں میں آنے والے مریضوں اور ان کے لواحقین میں حکومت کے جھوٹوں اور چالبازیوں کو بے نقاب کرنے والے پمفلٹ تقسیم کیے جا سکتے ہیں۔ ہر ہسپتال میں حکومت کی نااہلی اور بے حسی کو آشکار کرنے والے بینرز لگائے جا سکتے ہیں، ہر ہسپتال کے باہر احتجاجی کیمپ لگائے جا سکتے ہیں۔ لیکن سب سے اہم یہ ہے کہ اس لڑائی میں محنت کش طبقے کی وسیع تر پرتوں کو اپنے ساتھ جوڑا جائے۔ اس کا آغاز پورے ملک میں طبی محنت کشوں کی جڑت سے کیا جا سکتا ہے اور درپیش مسائل اور مطالبات کے حوالے سے ایک ملک گیر احتجاج کی کال دی جاسکتی ہے۔ ابھی حال ہی میں بلوچستان کے طبی محنت کشوں اور ان کی قیادت نے پورے ملک کے محنت کشوں کے سامنے جرأت مندانہ جدوجہد کی ایک شاندار مثال قائم کی ہے۔ اگر اس وقت جی ایچ اے پنجاب کی قیادت موقع پرستی کا مظاہرہ نہ کرتی اور بلوچستان کے طبی محنت کشوں کے ساتھ اظہار یکجہتی اور مسائل کے حل کے لئے پورے صوبے میں سڑکوں پر احتجاج کی کال دیتی تو یہ تحریک پوری ملک پھیل جاتی اور خیبر پختونخوا، سندھ، گلگت بلتستان اور کشمیر کے طبی محنت کش بھی اس کا حصہ بن جاتے۔ لیکن نیچے پڑنے والے دباؤ کے باوجود قیادت نے یہ قد م اٹھانے سے گریز کیا اور اس کا نتیجہ آج بھوک ہڑتال کی بند گلی میں پھنس جانے کی صورت میں برآمد ہو ا ہے۔ اسی طرح جی ایچ اے پنجاب کی قیادت کو چاہیے تھا کہ وہ واپڈا، ریلوے، پی ٹی سی ایل، پوسٹ، پی آئی اے، میونسپلٹی اور دیگر ان اداروں کے محنت کشوں کے ساتھ بھی جڑت بناتی جو کہ وبا کے حالات میں حفاظتی کٹس کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ ایسے ہنگامی حالات میں ایک جیسے مشترکہ مسائل پر ان تمام اداروں کے محنت کش نہ صرف جی ایچ اے کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے بلکہ ان کی عملی جدوجہد میں بھی شریک ہوتے۔

ہم سمجھتے ہیں کہ جی ایچ اے پنجاب کی قیادت نے طبی عملے میں کرونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے نتیجے میں پیدا ہونے والے زبر دست دباؤ اور نیچے سے ایک تحریک پھٹنے کے بڑھتے امکانات سے گھبرا کر بھوک ہڑتال کا یہ بیکار اور بے مصرف طریقہ کار اختیار کیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس طرح کی بیکار اور ناکام حکمت عملیوں کی بجائے حالات کے درست سائنسی اور منطقی تجزئیے کی بنیاد پر نہ صرف اپنی فوری مانگوں کے ساتھ ان کے لئے وسائل مہیا کرنے کے لئے درکار اقدامات اٹھانے کا بھی مطالبہ کیا جائے بلکہ عملی جدوجہد کو آگے بڑھانے کے لئے بھی ٹھوس حکمت عملی بنائی جائے جس کی بنیاد تمام محنت کشوں کے مابین طبقاتی جڑت قائم کرنے پر استوار ہو۔ ریڈ ورکرز فرنٹ پورے ملک کے طبی محنت کشوں کی اس جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے رہنے کا اعلان کرتا ہے۔

متعلقہ:

اعلامیہ: کرونا وائرس اور سرمایہ داری کیخلاف کیسے لڑا جائے؟

پاکستان: عوام دشمن سرمایہ داری، کرونا وائرس اور لٹیرے حکمران

Comments are closed.