لاہور: پنجاب ٹیچرز یونین کا حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیوں کیخلاف احتجاج 

|رپورٹ : ریڈ ورکرز فرنٹ|

پنجاب ٹیچرز یونین (PTU)نے اللہ بخش قیصر کی قیادت میں 8اکتوبر کو لاہور میں اساتذہ کے مطالبات کے لیے صوبائی سیکرٹریٹ میں واقع وزارت تعلیم کے باہر احتجاج کیااور حکومت کی تعلیم دشمن پالیسیوں پر کھل کر تنقید کی۔

معاشی بحران کے نتیجے میں جہاں ملک کے ہر شعبے میں کام کرنے والے ورکرز پر حکمران طبقے کا شدید جبرموجود ہے وہیں ملکی مستقبل کے معمار سرکاری سکولوں کے اساتذہ کے مسائل میں بھی اضافہ ہوا ہے اور اس کے خلاف غم و غصے کا اظہار بھی نظر آیا ہے۔یہاں بجٹ میں 2 فیصد سے بھی کم تعلیم پر خرچ کیا جاتا ہے۔انہی پالیسیوں کے باعث تعلیم محنت کشوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے اور اساتذہ کی حالت بھی خستہ ہوتی جا رہی ہے۔اس جبر کے خلاف ملک کے مختلف علاقوں میں اساتذہ کی طرف سے مسلسل احتجاجوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پنجاب میں کم وبیش 63 ہزار سرکاری سکول ہیں جن میں ساڑھے تین لاکھ کے لگ بھگ اساتذہ موجودہیں بشمول مرد اور خواتین۔پنجاب میں سکولوں کے اساتذہ کی یونین پنجاب ٹیچرز یونین(PTU) کے نام سے بھی موجودہے جس کا قیام 1937ء میں عمل میں لایا گیااور وہ آج بھی اساتذہ کے حقوق کے لیے سرگرم ہے۔

موجودہ وفاقی حکومت نے بجٹ بڑھانے کی بجائے شعبہ تعلیم کا بجٹ ایک ارب روپے کم کر دیا ہے ۔تفصیلات کے مطابق وزیر اعظم عمران خان نے انتخابی مہم کے دوران تعلیم و صحت کے شعبوں کی حالت بہتر بنانے اور تعلیمی میدان میں ترقی کرنے کا عہد کیا تھا۔انہوں نے انتخابی مہم کے دوران سابقہ حکومتوں کی کارکردگی کو انتہائی مایوس کن قرار دیتے ہوئے واضح کیا تھا کہ ان کے دور اقتدار میں شرح تعلیم 100 فیصد ہو گی اور کوئی بھی بچہ سکول سے باہر نہیں ہوگا۔ لیکن اقتدار میں آتے ہیں عمران خان کی حکومت نے تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کر دی ہے۔ اپنے انتخابی وعدوں کے مطابق تعلیمی بجٹ کو بڑھانے کی بجائے محکمہ تعلیم میں سکولوں کے لئے ایک ارب اور ہائر ایجوکیشن کے لئے بجٹ میں تقریباچار ارب روپے کی کٹوتی کر دی گئی ہے۔تعلیمی بجٹ میں یہ کٹوتی قابلِ تشویش ہے اور حکمرانوں کی تعلیم دشمنی کی غمازی کرتی ہے۔شعبہ تعلیم سے وابستہ لوگوں نے اس کو نظامِ تعلیم کے ساتھ زیادتی قرار دیا ہے۔ اگر حکومت عوام سے مخلص ہے تو اسے تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کرنے کی بجائے اس میں بڑے پیمانے پراضافہ کرنا چاہیے۔

پنجاب کے وزیرِ تعلیم نے چند دن قبل لاہور میں نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’2 اساتذہ کو بچوں پر تشدد کی وجہ سے جیل بھیج دیا گیا ہے۔بچوں پہ کسی قسم کا تشدد برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘جس کے جواب میں ایک استاد کا کہناتھا کہ ’’تشدد کسی صورت بھی معاشرے کے کسی فرد کو بھی قابلِ قبول نہیں چاہے وہ ذہنی ہو،جسمانی ہو یا نفسیاتی۔لیکن کیا تشدد کی وجہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی؟ اب تک کے واقعات میں کیا تشدد کرنے والے استاد پاگل، مریض یا جاہل ہیں؟ اساتذہ پر یہ الزام غلط ہیں یا آپ کا تعلیمی نظام فرسودہ ہے جس میں بچوں کے برے نتائج، غیر حاضری، صفائی اور دیگر معاملات کا ذمہ دار استاد کو ٹھہرایا جاتا ہے؟‘‘ دنیا کے کس ملک میں صرف استاد کو مارا، دھمکایا یا قتل کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں داخلوں، غیر حاضریوں، صفائی، نتائج، پولیو مہم، مردم شماری، الیکشن اور دوسری بہت سی غیر تعلیمی ذمہ داریاں استاد کو ہی دی جاتی ہیں۔ حکومتی ملازمین کو حکومت ہی تباہ کر رہی ہے۔استادوں سے بغیر اجرت دیے اضافی کام لیا جاتا ہے۔

اسی صورتحال میں ساتذہ کی قیادت نے احتجاج کیا جس میں اساتذہ نے اپنے مسائل بھی بیان کیے اور حکومتوں کی طرف سے ان معاملات پربے حسی پر شدید تنقید بھی کی۔ ریڈ ورکرز فرنٹ(RWF) اور پروگریسو یوتھ الائنس (PYA) کی جانب سے مقصد ہمدانی، عدیل حسن زیدی اور رائے اسد نے بھی اس احتجاج میں شرکت کر کے اساتذہ کے ساتھ یکجہتی کی اور تمام مطالبات کی مکمل حمایت کا یقین دلایا۔ اس احتجاج میں PYA اور RWF کے نمائندوں نے مؤقف رکھا کہ تمام تمام محنت کشوں اور طلبہ کے ساتھ حکومت نے یکساں ناروا سلوک روا رکھا ہوا ہے جس کے باعثعوام کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کی پالیسیوں کے باعث تعلیم عوام کی اکثریت کی پہنچ سے دور ہو چکی ہے اور تعلیمی نظام بھی گراوٹ کا شکار ہے۔ بجائے نئے سکولوں کی تعمیر اور اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافے اورنئے اساتذہ کی بڑے پیمانے پر بھرتیوں کے یہ تعلیم کے بجٹ میں کٹوتی کر رہے ہیں اور ہلے سے موجود سکولوں کو بند کر رہے ہیں۔ یہ ان حکمرانوں کی عوام دشمنی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس ظلم کے خلاف سب کو مل کر جدوجہد کرنے کی ضرورت ہے اور ملک کے تمام سرکاری اور نجی شعبے کے ملازمین کی ایک عام ہڑتال کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے جس کے ذر ان عوامی مسائل کا حل ممکن ہو سکتا ہے۔

PTU نے اپنے احتجاج میں مطالبات کی ایک فہرست سیکرٹری تعلیم،وزیرِ تعلیم اور وزیرِ اعظم کو پیش کی ۔مطالبات درج ذیل ہیں:

1۔ پنجاب کے 2000 سے زائد سیکنڈ شفٹ میں مڈل اور ہائی کیے گئے سکولوں کے اساتذہ کی19 ماہ سے سیکنڈ شفٹ کی تنخواہ ادا نہیں کی گئی، جو فوری ادا کی جائے۔
2۔ سیکر ٹری ایجوکیشن نے ہر ماہ کی 4 تاریخ کو سینیارٹی کے مطابق اساتذہ کی محکمانہ ترقی(DPC) کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے جس پر کوئی CEOاور DEO عمل نہیں کر رہا۔
3۔بچوں کی سکول سے غیر حاضری اور ڈراپ آؤٹ کی سزا اساتذہ اور ہیڈماسٹر کی بجائے اس تعلیمی نظام کے اصل ذمہ داروں کو دی جائے۔
4۔ایس ایس ٹی کی بطور ایس ایس پروموشن عرصہ دراز سے نہیں کی جا رہی۔یہ فوری طور پر کی جائے۔
5۔ ہر پرائمری سکول میں 6 کلاسیں ہوتی ہیں ۔ہر پرائمری سکول میں 6 اساتذہ مہیا کیے جائیں۔
7۔اساتذہ کرام کو مشرف دور سے پہلے بطور پرمانینٹ بھرتی کیا جاتا تھا،اب بھی اساتذہ کو پرمانینٹ بھرتی کیا جائے اور کنٹریکٹ کی ذلالت سے بچایا جائے۔
8۔ہر پرائمری سکول کو خاکروب اور چوکیدار دیا جائے۔
9۔ہر کلاس میں زیادہ سے زیادہ 30 طالب علم ہوں ۔اوور کراؤڈڈ کلاس رومز میں جہاں بیشتر اوقات 100 طلبہ کلاس میں بیٹھے ہوتے ہیں وہاں ہر طالب علمپر توجہ دینا نا ممکن ہے۔
10۔ ہر ہائی سکول میں درجہ چہارم کے ملازمین اور اساتذہ کے لئے فلیٹ تعمیر کیے جائیں تاکہ دور دراز سے آنے والے یا جن کا ذاتی گھر نہیں ہے،وہاں قیام کر سکیں۔
؂11۔ ٹیچرز ویلفیئر بورڈ بنایا جائے جو اساتذہ کی فلاح و بہبود کا کام کرے۔
12۔ اساتذہ کی حاضری،سروس بک،پہلی تنخواہ اور پنشن کا نظام کمپیوٹرائز کیا جائے تاکہ کلرکوں کے بدتمیز رویے،سست روی اور رشوت خوری سے نجات حاصل کی جا سکے۔
13۔ ہر سال عوامی پروگرامز منعقد کروائے جائیں اور بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والے سرکاری سکولوں کے اساتذہ کو اپری سی ایشن لیٹر اور نقد انعامات دیے جائیں۔
14۔ PEC کے پانچویں اور آٹھویں کے امتحاناتی نظام کے معروضی سسٹم نے کوالٹی ایجوکیشن کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔طلبا ٹک لگا کر پاس ہو کر نویں جماعت میں آ جاتے ہیں لیکن ان کو کچھ بھی لکھنا نہیں آتا۔کچھ کو تو اپنا اور اپنے والدین کا نام بھی لکھنا نہیں آتا ۔طلبا کی رائٹنگ پاور بالکل ختم ہو گئی ہے۔
15۔دیہاتی علاقوں میں جو لوگ اساتذہ سے بدتمیزی اور اساتذہ پر تشدد کریں ،ان کے خلاف سخت ترین کاروائی کا قانون بنا کر اساتذہ کو معاشرے میں تحفظ اور عزت دی جائے۔
16۔ اساتذہ کے مسائل کے حل کے لئے ایک ہیلپ لائن بنائی جائے تاکہ جو کلرک، ڈی ای او،سی ای او یا محکمہ تعلیم کے افسران اساتذہ کے جائز کام نہیں کرتے ان کے بارے میں شکایات درج کروائی جا سکیں اور اساتذہ کے مسائل فوری طور پر حل ہوں تاکہ وہ یکسوئی سے پڑھا سکیں۔
17۔ پورے ملک میں یکساں نظامِ تعلیم ہو اور قومی زبان اردو ہو۔
18۔ تمام سرکاری سکولوں کو سولر پلیٹیں دے کر لوڈ شیڈنگ فری کیا جائے۔کسی سرکاری سکول میں لوڈ شیڈنگ نہ ہو کیونکہ کلاس 80 بچوں کی موجودگی میں جب بجلی جاتی ہے تو شدید حبس ہوتا ہے اور تعلیمی عمل بری 
طرح متاثر ہوتا ہے۔
19۔محکمہ تعلیم کے کسی بھی افسر کو یہ اجازت نہ ہو کہ وہ طلبا کے سامنے اساتذہ کی بے عزتی کرے۔جس افسر کو جو بھی کہنا ہو وہ اس استاد کو دفتر میں بلا کر کہیں۔
20۔ہر ایم اے/ایم ایس سی استاد کی پہلی تنخواہ 50 ہزار روپے سے شروع ہو تاکہ وہ آسانی سے اپنی ضروریات کو پورا کرے اور توجہ سے پڑھائے۔

 

Comments are closed.