|تحریر: آفتاب اشرف|

سوال: کیا سرمایہ دارانہ ریاستوں کے مابین جنگ کا عوامی مفاد کیساتھ کوئی تعلق ہوتا ہے؟
جواب: اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ ہرگز نہیں۔ سرمایہ دارانہ ریاست کے نام نہاد قومی مفادات درحقیقت اس کے سرمایہ دار حکمران طبقے اور ریاستی اشرافیہ کے سیاسی،سماجی اور معاشی مفادات ہوتے ہیں۔ مختلف سرمایہ دارانہ ریاستیں اور ان کے حکمران طبقات باہمی جنگ و جدل بھی اپنے طبقاتی مفادات کو بڑھاوا دینے کی خاطر کرتے ہیں اور اس قتل و غارت گری کا عوامی مفاد کیساتھ کچھ لینا دینا نہیں ہوتا۔
اکثر کسی سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے حکمران طبقے کی مسلح خارجی محاذ آرائی کا بنیادی مقصد سماج میں پنپتی طبقاتی مخاصمت کو دبانا یا اس پر پردہ ڈالنا ہوتا ہے۔ اسی طرح سرمایہ دار ریاستوں کی آپسی جنگیں ہوتی تو ان کے حکمران طبقات کے مفادات کے لیے ہیں لیکن ان میں دونوں طرف جانی نقصان محنت کش عوام کا ہوتا ہے چاہے وہ عام سویلین ہوں یا عام فوجی۔
مزید برآں جنگی ماحول کا فائدہ اٹھا کر کسی بھی سرمایہ دار ریاست کے حکمران طبقات سب سے پہلے اپنے ملک کے محنت کش طبقے پر حملہ آور ہوتے ہیں اور ”ملکی دفاع“ کے نام پر ان پر نت نئے ٹیکسوں اور کٹوتیوں کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔ ایسے ہی جنگی صورتحال کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے محنت کش طبقے کی جمہوری آزادیوں کو ختم کر دیا جاتا ہے، یونین سازی اور ہڑتال پر جابرانہ پابندی لگا دی جاتی ہے اور ہر قسم کے آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے۔ یہ ساری صورتحال اس سرمایہ دار ریاست کے محنت کشوں کے لیے مزید خوفناک ہو جاتی ہے جس کے حکمران طبقے کو جنگ میں کامیابی مل جائے۔
دنیا بھر کے محنت کشوں کا عظیم انقلابی استاد لینن کہتا تھا کہ”جنگیں ہولناک ہوتیں ہیں مگر یہ ہولناک حد تک منافع بخش بھی ہوتی ہیں“۔ لینن کے یہ شاندار الفاظ سرمایہ دارانہ ریاستوں اور ان کے حکمرانوں کی جنگی پالیسیوں کی بڑی زبردست وضاحت کرتے ہیں۔
اپنی منافع خوری اور دیگر سیاسی، مالی اور اسٹریٹیجک مفادات کے لئے لڑی جانے والے جنگوں میں حکمران طبقات ہمیشہ محنت کش عوام سے قربانی کے طلبگار ہوتے ہیں، لیکن محنت کش یہ قربانی کیوں دیں، ان کا تو کوئی مفاد سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی پروردہ ریاست کیساتھ وابستہ نہیں۔ نہ ان کے پاس اس ملک میں کوئی نجی ملکیت ہے اور نہ ہی وہ حکمرانی میں حصے دار ہیں تو پھر وہ قربانی کا بکرا کیوں بنیں۔
اسی لیے محنت کش طبقہ سرمایہ دار حکمرانوں کی قبضہ گیری، مالی و سیاسی مفادات اور سامراجی پالیسیوں پر مبنی کسی بھی جنگ کا ایندھن بننے سے صاف انکار کرتا ہے۔ کسی بھی دو سرمایہ دارانہ ریاستوں کے محنت کش عوام کی کوئی آپسی دشمنی نہیں ہوتی۔ یہ تمام نام نہاد مصنوعی دشمنیاں عوام پر حکمران طبقات مسلط کرتے ہیں تا کہ وہ انہیں اپنے مفادات کی جنگ میں جھونک سکیں۔ ہر ملک کے محنت کش طبقے کا اصل دشمن اس کے اپنے ملک کا سرمایہ دار حکمران طبقہ ہوتا ہے اور اس کی اصل لڑائی اس حکمران طبقے کیخلاف ہی بنتی ہے۔
اس تمام سرمایہ دارانہ جنگ و جدل سے حتمی نجات کے لیے ضروری ہے کہ محنت کش طبقہ ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے سرمایہ دارانہ نظام،اس کے حکمران طبقات اور اس کی پروردہ ریاست کا تختہ الٹتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کر لے اور ایک مزدور ریاست و اجتماعی ملکیت پر مبنی منصوبہ بند معیشت تعمیر کرے۔ یہی محنت کش طبقے کی حقیقی جنگ ہے۔