کوئٹہ: انقلابِ روس کی 102 ویں سالگرہ کے موقع پر کتاب ”لبرل ازم پر مارکسی تنقید“ کی تقریبِ رونمائی

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|

انقلاب روس کی 102 ویں سالگرہ کے موقع پر پروگریسو یوتھ الائنس بلوچستان کی طرف سے 3 نومبر کو بلوچی اکیڈمی میں کتاب ”لبرل ازم پر مارکسی تنقید“ کی تقریب رونمائی کی گئی۔ اس شاندار تقریب کو باقاعدہ طور پر اس عظیم انقلاب کے نام کیا گیا جو کہ انسانی تاریخ کا سب سے عظیم واقعہ تھا، جہاں مزدوروں نے بالشویک پارٹی کی انقلابی قیادت میں اپنا اقتدار قائم کیا۔

تقریب کو پی وائے اے کے صوبائی صدر خالد مندوخیل نے چیئر کیا اور صدارت کتاب کے مصنف پارس جان کو سونپی گئی۔ تقریب میں مختلف تعلیمی اداروں سے طلباء وطالبات، سیاسی کارکنوں، ادیبوں اور دیگر کئی لوگوں نے شرکت کی۔

تقریب کے آغاز میں اس تقریب اور کتاب کا باقاعدہ تعارف کرانے کیلئے رزاق غورنگ نے تقریر کی جس میں اس نے اس کتاب کے لکھنے کے عملی مقصد پر بات رکھتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب کسی دانشورانہ سرگرمی یا کسی اکیڈمیک مقصد کی بجائے انقلابی جدوجہد کے عملی مقصد اور انقلابی نظریے کی اصل بنیادوں کے دفاع کے نقطہ نظر سے لکھی گئی ہے۔

ریڈ ورکر فرنٹ کے نمائندے کریم پرھر نے بلوچستان اور عمومی طور پر مزدور تحریک کے اندر ان گمراہ کن نظریات کی یلغار پر بات رکھی اور کہا کہ اس وقت موجودہ حکومت کی نیو لبرل پالیسیوں کی پوری قیمت محنت کش طبقے کو ادا کرنی پڑ رہی ہے۔ آئی ایم ایف کے ایما پر بنائی گئی نیو لبرل پالیسیوں میں مزدوروں پر اضافی ٹیکس لگانا جبکہ سرمایہ داروں کو ٹیکس چھوٹ دینا، تمام سرکاری اداروں کو منافع خور سرمایہ داروں پر اونے پونے داموں بیچنا، علاج، تعلیم، بجلی جیسی بنیادی ضروریات کی نجکاری کرنا اور بڑے پیمانے پر لوگوں کو بے روزگار کرنا شامل ہیں۔ لیکن مزدور تحریک کی قیادت اس وقت خاموش بیٹھی ہے اور ان اقدامات کے سامنے سر تسلیم خم ہیں جبکہ دوسری طرف محنت کشوں کو گمراہ کرنے اور سیاسی جدوجہد سے کاٹنے کیلئے مختلف غیر سیاسی تنظیمیں عالمی سامراجی اداروں کے اشاروں پر بنائی اور چلائی جا رہی ہیں جن میں ایک بڑی تعداد این جی اوز کی ہے جو مزدوروں کو خیرات اور بھیک مانگنے کا درس دیتی رہتی ہیں۔

بالشویک گروپ آف ستڈیز سے نصرت افغانی نے مارکسزم کے نظریات کے دفاع کی ایک زبردست کاوش پر آئی ایم ٹی (عالمی مارکسی رجحان) کو مبارکباد دی

اس کے بعد امیر ایاز جو پروگریسو یوتھ الائنس کے صوبائی جنرل سیکرٹری کے طور پر طلباء اور نوجوانوں کے حقوق کی جدوجہد کیلئے سرگرم عمل ہیں، نے تعلیمی اداروں میں طلبہ اور بے روزگار نوجوانوں کے اوپر لبرلزم اور نیولبرلزم کے گمراکن نظریات کی یلغار کے اوپر سخت تنقید کی اور یہ واضح کیا کہ آج جب طلبہ اور نوجوان نسل نئے انقلابی نظریات کی تلاش میں نکلتے ہیں تو مارکسزم اور سوشلزم کے نام پر اصلاح پسند لیفٹ، این جی اوز، فیمینسٹ اور قوم پرست مل کر انہیں بے وقوف بنا رہے ہیں اور اس تمام تر غلاظت کو طلبہ کے سامنے واضح کرنا اور ایک درست انقلابی راستہ دکھانا وقت کی سب سے بنیادی ضرورت بن چکی ہے۔

تقریب میں بالشویک گروپ آف سٹوڈنٹس کے دوست نصرت افغانی صاحب نے بھی کتاب کے حوالے سے تفصیلی بات رکھی اور اس کتاب کی شکل میں مارکسزم کے نظریات کے دفاع کی ایک زبردست کاوش پر آئی ایم ٹی (عالمی مارکسی رجحان) کو مبارکباد دی اور آج کے عہد میں مارکسزم کی سچائی اور نظریات کی طاقت کو تاریخی حوالے دیکر ثابت کیا۔ ملک میں موجودہ صورتحال پر بات کرتے ہوئے نصرت نے واضح کیا کہ موجودہ نام نہاد ”آزادی مارچ“ مزدوروں اور عوام کی نمائندگی نہیں کرتے اور بنیادی طور پر لبرلز اور ملا ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور حکمران طبقے کی انہی نیو لبرل پالیسیوں کو آگے بڑھاتے ہیں۔

 

انجمن ترقی پسند مصنفین کی طرف سے ہمارے دوست اور شاعر شفقت عاصمی صاحب نے تقریب کے حوالے سے نقطہ نظر پیش کیا۔ انہوں نے آئی ایم ٹی اور پی وائے اے کے نوجوان انقلابیوں کی ہمت اور جدوجہد کو بے حد سراہا اور یہ کہا کہ انہوں نے بہت لمبے عرصے بعد ایسے نوجوان انقلابیوں کو دیکھ کرانہیں حوصلہ ملا ہے اور اپنی شاعری سے نوجوانوں کے حوصلے بلند کئے۔

پارس جان، مضنف کتاب ’لبرلزم پر مارکسی تنقید‘

آخر میں کتاب کے مصنف، انٹرنیشنل اور پاکستان میں مارکسزم کے نظریات کے گرد انقلابی قوتوں کی تعمیر میں اور مزدور تحریک کی جدوجہد میں ایک پروفیشنل انقلابی کی حیثیت سے سرگرم عمل اور اس تقریب کے مہمان خاص پارس جان نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ یہ کتاب ایک ایسے نئے اور تبدیل شدہ عہد میں لکھی گئی ہے جہاں پوری دنیا میں عمومی طور پر لبرلزم اور نیو لبرلزم کا معاشی اور نظریاتی ڈھانچہ اپنی نزع کی حالت میں ہے اور اپنی بقا کی آخری کوشش میں بہت زیادہ خونی اور وحشی شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ خصوصی طورپرجب 2008 کے عالمی معاشی بحران کے بعد نیو لبرلزم کی بنیاد پر کھڑا پورا ورلڈ آرڈر مکمل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔

اس صورتحال میں پوری دنیا میں نئی نسل پرانی قیادتوں کو پھلانگ کر آگے بڑھ رہی ہے اور ہر ملک اور ہر خطے کے اندر کروڑوں عوام سڑکوں پر کھڑے اس نظام کو چیلنج کر رہے ہیں جو انکی بنیادی ضروریات پوری کرنے سے قاصر ہے اور جو جنگوں اور خانہ جنگیوں کی شکل میں لاکھوں لوگوں کو موت کے منہ میں دھکیل رہا ہے۔

یہ سرمایہ دارانہ نظام کا وہ عہد ہے جس کی مارکس نے آج سے 150 سال پہلے پیش بینی کی تھی۔ آج سرمایہ داروں کے اپنے ماہرین معیشت بھی بے چینی کے عالم میں مارکس کی تعلیمات کو دوبارہ دیکھنے پر غور کررہے ہیں کہ کسی طرح سے اس نظام کو اس گہرے بحران سے نکال سکیں، لیکن مارکسزم بحران سے نکلنے کا جو راستہ بتاتا ہے وہ ایک مزدور انقلاب ہے جو کہ انکی حکمرانی کیلئے خطرہ ہے۔ ایسے میں مارکس، اینگلز، لینن اور ٹراٹسکی کے انقلابی نظریات کو توڑ مروڑ کر عوام، مزدوروں اور طلبہ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے۔ لیکن عوام بھی جوں جوں انقلابات کا رخ کرتے ہیں توں توں وہ آگے بڑھنے کیلئے انقلابی نظریات کی ضرورت کو بھی محسوس کرتے ہیں۔ لیکن جونہی عوام انقلاب کا رخ کرتے ہیں تو انکے سامنے مختلف بہروپئے اور بھیڑیے خود کو مارکسزم کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں تاکہ انکو انقلاب سے بد زن کرکے کسی اور راستے پر لگا کر حکمران طبقے کی خدمت پوری کریں۔
ایسے میں اس کتاب کے اندر حکمران طبقے کے منظور نظر تمام گمراہ کن نظریات کو ایک سائنسی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے جو کہ فیمینزم، قوم پرستی، علاقائیت،موقع پرستی، ترمیم پسندی، پوسٹ ماڈرنزم، فرقہ پرستی اور دیگر گمراہ کن نظریات کو مارکسزم کے لبادے میں لپیٹ کر پیش کرتے ہیں۔

اسی طرح اس تقریب سے چند دن پہلے پاکستان اور خاص کر بلوچستان کے اندر موجود سنجیدہ لبرل یا لیفٹ لبرل دانشوروں کو بھی دعوت دی گئی تھی کہ اس تقریب میں آکر اس کتاب کے حوالے سے اپنا نقطہ نظر پیش کریں یا اگر وہ تنقید کرنا چاہتے ہو تو بھی ایک پرمغز بحث کا آغاز ہو سکتا ہے۔ لیکن مختلف مصروفیات اور ترجیحات کی بنا پر اکثر حاضر نہیں ہوسکے۔

اس کتاب کا اصل مقصد جہاں ایک طرف مارکسزم کے انقلابی نظریات کو واضح طور پر نوجوانوں تک پہنچانا تھا تو دوسری طرف انکے سامنے ان تمام سامراجی ہڈیوں پر پلنے والی ای جی اوز کے کردار کو واضح کرنا تھا جنکی ڈوریں اقوام متحدہ جیسے سامراجی ادارے سے ہلائی جا رہی ہیں۔

پارس نے بحث کو آگے بڑھاتے ہوئے آج کے عہد کے اوپر اس کتاب کے اندر موجود نقطہ نظر کی وضاحت کی اور کہا کہ پچھلے پچیس سالوں سے عمومی طور پر اور خاص طور پر سویت یونین کے انہدام کے بعد ایک پوری نسل کیلئے انقلاب، سیاست یا نظریات کو گالی بنا کہ پیش کیا جاتا تھا اور اس طرح سے بے شمار نوجوان جو سیاسی جدوجہد کرنا اور نظریات سیکھنا چاہتے تھے انکو یا کیریرازم کے چکر میں لگا کر موقع پرستی کی جانب دھکیلا گیا یا پھر این جی اوز کے ذریعے غیر سیاسی جدوجہد جیسی فضول اور بے معنی سرگرمیوں میں لگایا گیا۔ اس لیے اس کتاب کا اصل مقصد جہاں ایک طرف مارکسزم کے انقلابی نظریات کو واضح طور پر نوجوانوں تک پہنچانا تھا تو دوسری طرف انکے سامنے ان تمام سامراجی ہڈیوں پر پلنے والی ای جی اوز کے کردار کو واضح کرنا تھا جنکی ڈوریں اقوام متحدہ جیسے سامراجی ادارے سے ہلائی جا رہی ہیں۔

پارس نے واضح کیا کہ آج نوجوان نسل کو تعلیمی اداروں کے اندر سماج کے مسائل سے دور رکھا جاتا ہے اور جو طالب علم تعلیمی نظام کے اس پر فریب نصاب سے تنگ آکر حقیقی علم اور نظریات کی تلاش کرتے ہیں وہاں ان کو ”جدید“ کے نام پر مختلف انسان دشمن نظریات کے گھن چکر میں پھنسایا جاتا ہے۔ اسی طرح پارس نے اپنی کتاب سے مختلف حوالے دیتے ہوئے جمہوریت، عدالت اور دیگر ریاستی اداروں کے بارے میں لبرل ازم کی خوشنما لفاظیوں اور تشریحات پر تنقید کی اور انکے پس پردہ طبقاتی کردار کو واضح کیا۔

آخر میں تقریب میں آئے ہوئے شرکاء کا بالخصوص بلوچی اکیڈمی کا ایک بار پھر شکریہ ادا کیا گیا جو نوجوانوں تک مارکسزم کے انقلابی نظریات پہچانے میں ہر وقت ہماری مدر کرتے رہے ہیں۔

تقریب کے چیرمین نے آخر میں یہ بات واضح کرتے ہوئے تقریب کا باقاعدہ اختتام کیا کہ لبرلزم کے اوپر مارکسی تنقید ایک لمبی بحث ہے اور آج اس بحث کو ختم نہیں کیا گیا بلکہ اس بحث کا صرف آغاز کیا گیا ہے۔ ہم تمام نوجوانوں سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ ہماری تنظیم کیساتھ رابطے میں رہتے ہوئے انقلابی مارکسزم کے نظریات کے اوپر بحث میں آئیں۔ آج کے دور میں نوع انسانی کو اس سماجی، سیاسی اور معاشی بحران سے نکالنے کا اسکے علاوہ کوئی راستہ نہیں۔

Comments are closed.