بلوچستان کے سلگتے زخم

|تحریر: بلاول بلوچ|

17دسمبر 2017ء کا دن اس ملک میں ایک ’نئے‘ یوم سیاہ کے طور پر یاد کیا جائے گا مگر مملکت خداداد کی تاریخ میں کوئی بھی دن یہاں کے عام عوام کے لیے خوشی کا دن نہیں رہا۔ تین سال پہلے 16دسمبر کو آرمی پبلک سکول پشاور کا واقعہ اور اس طرح کے آئے روز کے واقعات یہاں کے لوگوں ذہنوں میں نقش ہو رہے ہیں۔ یوں تو پاکستان کا کوئی بھی خطہ اس ظلم وبربریت سے پاک نہیں لیکن بلوچستان جیسے خطے میں جہاں پاکستان جیسی جابر ریاست کے آمرانہ تسلط نے یہاں قومی جبر کی انتہا کردی ہے۔ 17دسمبر کو چرچ پر ہونے والے اس حملہ نے، جس میں 10 دس سے زائد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں، ریاست اور اس کے اداروں کے کھوکھلے اور خصی پن کو مزید عیاں کیا ہے۔ جس روز یہ واقعہ رونما ہوا یہ دن مسیحی برادری کی عبادت کا مخصوص دن تھا اور چرچ میں لگ بھگ 300 سے 400 لوگ موجود تھے اور ایک منصوبہ بند طریقے سے بڑے ہجوم کو نشانہ بنانے کی کوشش تھی جو ’خوش قسمتی‘ سے کامیاب نہ ہو پائی اورجس کو ریاستی میڈیا اور سول اور فوجی اشرافیہ سیکیورٹی فورسز کی کامیابی اور بہادری بنا کے پیش کررہے ہیں لیکن بلوچستان کے لوگوں کے سامنے ان اداروں کی ’بہادری‘ کوئی ڈھکی چپی چیز بہر حال نہیں ہے۔ انہی چیک پوسٹس پر روزانہ دسیوں مرتبہ ذلیل کیا جانے والا عام عادمی بھلا کیسے بے خبر ہوسکتا ہے۔ حکمران اپنے داخلی تضادات اور نااہلی کو چھپانے کے لیے یہ صفائی بھی پیش کر رہے تھے کہ ہم ایک بڑے نقصان سے بچ گئے۔ ان حکمرانوں کے نزدیک جو قیمتی جانیں ضائع ہوئی ہیں ان کی کوئی اہمیت نہیں اور نہ ہی اس کا افسوس ہے۔ ان نااہل حکمرانوں کے پاس مذمت کرنے کے علاوہ اور کچھ ہے بھی کیا!

بلوچستان میں ریاستی جبر کی ایک طویل تاریخ ہے جس کو ہم بارہا زیربحث لا چکے ہیں لیکن آج اس جبر کی نوعیت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی ہے جس پر یہ نام نہاد آزاد میڈیا مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہے۔ دوسری طرف بلوچستان میں اقلیتوں کا قتل عام بھی جاری ہے اور لمبے عرصے سے ہزارہ قوم کو نشانہ بنایا گیا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں، عورتوں اور بچوں کو بھی شہید کیا گیا ہے۔ ایک طرف ریاست بلوچ قومی تحریک کو کمزور کرنے کے لیے بلوچستان کے عوام کو فرقہ وارانہ اور مذہبی بنیاد پر تقسیم کرنا چاہتی تھی تو دوسری طرف عالمی سامراج اور علاقائی طاقتوں نے اپنی پراکسی جنگوں کے لیے بلوچستان ہی کو منتخب کیا تھا جس میں سعودی عرب اور ایران نمایاں تھے۔ آج بھی بلوچستان اور اس کے بیش بہا قیمتی ذخائر اور معدنیات عالمی سامراج اور علاقائی طاقتوں کے لیے اہمیت کا حامل ہے جس کے لیے یہ جنگلی جانوروں کی طرح دست و گریباں ہے اور ان کے اس لڑائی میں خون صرف محنت کشوں کا ہی بہتا ہے۔ بلوچستان میں تاریخی طور پر قومی، مذہبی اور لسانی بنیادوں پر نفرتوں کی کوئی حقیقی اور مادی بنیادیں تو نہیں رہیں، ریاست اور سامراجی طاقتوں نے اپنے مفاد کی خاطر یہاں پر جان بوجھ کر اس طرح کی غلیظ منافرتوں کو پھیلانے کی ہر حتمی کوشش کی اور محنت کشوں کو آپس میں اور خطے سے کاٹنے کی کوشش کی۔ مسیحی اقلیت کی ایک بڑی آبادی بلوچستان میں خاص کر کوئٹہ میں محنت مزدوری (بالخصوص صفائی) کے شعبہ کے ساتھ منسلک ہے جس میں میٹرو پولیٹن کے محنت کشوں کی اکثریت مسیحیوں پر مشتمل ہے جن کا کام یہاں سے غلاظت اٹھانا اور اپنی محنت سے شہر کو صاف کرنا ہے۔

تعصب پر مبنی اس ریاست میں ان غریب مسیحیوں کے لیے روزگار کا کوئی اور موقع دیا ہی نہیں گیا۔ ایک حقارت کی نگاہ سے ان مسیحیوں کو دیکھا جاتا ہے اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ لوگ کچھ اور کام کر ہی نہیں سکتے سوائے ہماری غلاظت کو صاف کرنے کے۔ گذشتہ روز کے حادثہ میں لگ بھگ 10 سے زائد لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں لیکن دوسری طرف ایک خاموش اور سنگین قتل عام بھی شروع ہے جس میں ان غریب اور لاچار مسیحیوں کا معاشی قتل عام کیا جاتا ہے جو اس سے کئی گنا تکلیف دہ عمل ہے۔ اگر انتہائی کم اجرت پر کام مل بھی جائے تو اس میں بھی آدھا حصہ بیوروکریسی کے نمائندے ہڑپ کر جاتے ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے بلوچستان میٹرو پولیٹن کے کنٹریکٹ ملازمین کے ساتھ یہ واقعہ پیش آیا۔ اکثریتی مسیح محنت کشوں کو بغیر کسی بنیادی سہولتوں اور آلات کے گٹروں کی زہریلی گیس سے مرنے چھوڑ دیا جاتا ہے جن کو کسی ریاستی میڈیا ٹاک شو یا بورژوا اخبار میں کوئی جگہ نہیں دی جاتی۔ ملک میں بڑھتی ہوئی بیروزگاری کی شدت اقلیتوں سے تعلق کے نوجوانوں کے لیے مزید مشکلات کو بڑھائے گی اور ان کی محرومی میں مزید اضافہ ہوگا۔ ایسے میں ان محنت کشوں کو طبقاتی جڑت سے ان ریاستی حملوں کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔

بنیادی طور پر اس وقت ریاست کے کئی دھڑوں کی لڑائی کا مرکز بلوچستان ہے جس کی بنیادی وجہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور ہے اور اس سے جڑے پروجیکٹس سے زیادہ سے زیادہ مال بٹورنے کے حوس میں یہ لڑائی آگے جا کر مزید خوفناک اور وحشت ناک شکل اختیار کر سکتی ہے۔اور اس میں ہم کسی صورت اس بات کو نظر انداز نہیں کر سکتے کہ ایسے وقت میں جب پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں مزدور تحریکوں کا ایک باب کھل چکا ہے تو اس سے خوف زدہ یہ حکمران ان تحریکوں کو کاٹنے کے لیے قومی اور مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش بھی کرینگے۔

بلوچستان کی قوم پرست قیادت اس وقت بند گلی میں داخل ہو چکی ہے جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ ایک عہد میں ان قومی تحریکوں اور قیادت کا کردار اور رجحان سامراج مخالف اور سامراج دشمنی پر مبنی تھا تو آج وہی قیادت نظریاتی طور پر اتنی زوال پذیر ہو چکی ہے کہ پنجابی حکمران طبقے اور سامراجی نمائندوں کی باہوں میں باہیں ڈالے ’جمہوریت کا دفاع‘ کرنے کے لیے آگے بڑھے رہے ہیں۔ پنجابی حکمران طبقے کے مظلوم قومیتوں پر کیے گئے اس ظلم و جبر کا ازالہ پنجابی حکمرانوں کے ان نمائندوں نے نام نہاد جمہوریت کی دفاع میں ہی پورا کر لیا ہے۔ یہ بنیادی طور پر قوم پرستی میں چھپی مفاد پرستی اور موقع پرستی کا اظہار ہے۔

ریاستی دھڑوں میں یہ جمہوریت کس دھڑے کی لونڈی ہے یہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ اسی نام نہاد جمہوریت اور اس جمہوریت کے دفاع کرنے والوں کے دور حکومت میں بلوچستان میں قتل عام، خون ریزی، ریاستی دہشت گردی، محنت کشوں پر مظالم ان کے جائز اور جمہوری حقوق پر قدغن لگانا، سب انہی جمہوریت پسندوں کی ہی حکومت میں ہو رہا ہے۔ سب سے بڑا مذاق تو یہ ہے کہ جو لوگ آج جمہوریت کا دفاع کر رہے ہیں ان کے اپنی پارٹی اداورں میں جمہوریت کا کوئی نام و نشان ہی نہیں ہے۔ لینن نے کہا تھا:

’’مظلوم قوم کا حکمران طبقہ ظالم قوم کے حکمران طبقہ سے زیادہ رجعتی کردار رکھتا ہے کیونکہ وہ مظلوم قوموں کی مظلومیت کے سوال کو اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرتا ہے۔‘‘

لینن کے یہ الفاظ ہمیں آج بلوچستان کے منظر نامے پر حرف بہ حرف درست ثابت ہوتے نظر آتے ہیں۔ بلوچ قوم پرست قیادت کی صورتحال بھی اس سے مختلف نہیں ہے۔ نظریاتی زوال اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ یہ قوم پرست زرداری جیسے ایک مافیا کو بھی سندھی قوم پرستی کا مشورہ دے رہے ہیں جس کے ہاتھ سندھ کے محنت کشوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔ حالیہ عرصہ میں انہی نام نہاد قوم پرستوں کی حکومت میں بلوچستان میں تاریخ کا گرینڈ آپریشن چل رہا ہے جس کا مشورہ بھی انہی قوم پرستوں نے دیا تھا۔ ہم مارکس وادی قومی سوال اور قومی خود مختاری بشمول حق علیحدگی کی حمایت کرتے ہیں اور یہ کوئی اخلاقی یا جذباتی پوزیشن قطعی نہیں بلکہ اس کا مقصد تمام اقوام کے محنت کشوں کو طبقاتی بنیادوں پر جوڑنااور سوشلسٹ انقلاب کی جدوجہد کو تیز کرنا ہے جس کے ذریعے ہی قومی سوال کو حل کیا جاسکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں ایک طرف اقوام کا حق خود ارادی مارکسسٹوں کے عمومی پروگرام کا حصہ ہے وہیں دوسری طرف کسی بھی مخصوص قومی مسئلے پر مارکس وادیوں کا موقف محنت کش طبقے کے طبقاتی مفادات کے تابع ہوتا ہے۔ اگر ہم بلوچ قومی آزادی کی تحریک کا مارکسی بنیادوں پر تجزیہ کریں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اس وقت مسلح جدوجہد کی عوامی حمایت نہ ہونے کے برابر ہے۔ غلط نظریات، طریقہ کار اور حکمت عملی کی بنیاد پر عوام کی ایک بہت بڑی اکثریت تحریک سے کٹ گئی ہے۔ بیشتر مسلح گروہ پراکسیوں کا کرداد ادا کررہے ہیں۔ آج خطے کے عوام اور محنت کشوں پر یقین سے زیادہ یقین سامراج اور اس کے بنائے گئے نام نہاد اداروں پر ہے جن کا کام ہی عوامی تحریکوں کا گھلا گھوٹنا ہے۔

امن اور انسانی حقوق کے علمبردار ان نام نہاد اداروں سے کسی بھی قسم کی کوئی توقع رکھنا دیوانے کا خواب ہی ثابت ہو گا۔ کسی بھی مظلوم قوم کی آزادی حاکم قوم کے محنت کشوں کے خون پر قطعی طور پر حاصل نہیں کی جاسکتی ہے بلکہ یہ حاکم طبقات اور ریاست کو جبر میں مزید اضافہ جواز فراہم کرتا ہے۔ صرف خطے کے محنت کشوں کا طبقاتی بنیادوں پر اتحاد اور جڑت ہی مظلوم قوموں کی نجات کا راستہ بن سکتی ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب ہی قومی سوال کو حقیقی معنوں میں حل کرسکتا ہے۔ آج بلوچستان کی یہ خون آشام صورتحال جہاں پر صرف ظلم، بربریت اور خون ریزی ہے وہیں پر بلوچستان کے محنت کشوں اور نوجوانوں نے ایک نئی جنگ کا آغاز بھی کیا ہے۔ اگر اپنے ماضی سے سبق نہ سیکھا جائے تو آپ اسی ماضی کو دہرانے کے مرتکب ہونگے۔ اس بدلتے ہوئے عہد میں پھر اْنہی پرانے فارمولوں کو آزمانے کی طرف جائینگے تو ہار ہی مقدر بنے گی۔

Comments are closed.