کوئٹہ: قتلِ عام کے خلاف ہزارہ قوم کا دھرنا تیسرے روز بھی جاری

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، بلوچستان|

کوئٹہ میں ہزار گنجی فروٹ مارکیٹ دھماکے میں قتل ہونے والے افراد کے لئے انصاف کے مطالبے پر مغربی بائی پاس پر ہزارہ قوم کا احتجاجی دھرنا شدید بارش کے باوجود آج تیسرے دن بھی جاری رہا۔ اس دھماکے میں 20 محنت کش ہلاک اور 48 زخمی ہوئے جن میں سے 9افراد کا تعلق ہزارہ کمیونٹی سے ہے۔ اس دھرنے میں عورتوں، بچوں ، بوڑھوں اور نوجوانوں سمیت سینکڑوں افراد شامل ہیں۔ شرکاء کا کہنا ہے کہ حکومتِ وقت اور مقتدر طبقات لوگوں کے جان و مال کا تحفظ کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکے ہیں۔ اس حوالے سے حکومتِ وقت اور ذمہ دار ریاستی اداروں کی شرمناک ناکامی کے حوالے سے نعرے بازی بھی جاری تھی۔ دھرنے کے پہلے دن حکومتِ بلوچستان کے بانجھ نمائندوں نے مستقبل کے جھوٹے وعدوں پر احتجاج ختم کروانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔

حکومتی نمائندوں سے بات کرتے ہوئے دھرنے کے مرکزی آرگنائزر طاہر خان ہزار کا کہنا تھاکہ ’’آپ لوگ کچھ بھی نہیں کرسکتے۔یہاں پر وفاقی وزیروں سے لے کر آرمی چیف بھی آئے، وہ بھی کچھ نہیں کرسکے۔ صوبائی حکومت کی تو کوئی حیثیت ہی نہیں ہے۔ یہاں بیس سال سے نامعلوم کی حکومت چل رہی ہے۔ ہمیں جنگی سیاست میں قربانی کا بکرا بنایا جارہاہے۔ دنیا کی آٹھویں بڑی فوج اور کوئٹہ میں ہر کلومیٹر پر جنگی لباس پہنے مسلح قوتوں کی موجودگی میں نامعلوم حملہ کر دیتے ہیں۔ یہاں پر نہ اسلام اور نہ ہی کسی فرقے کا کوئی جھگڑا ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔ ہم سب سے پہلے پاکستان کی عوام سے پوچھتے ہیں کہ وہ ہمیں بتائیں ، ہم کونسا اور کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں جس سے ہماری زندگیوں کا تحفظ ہو سکے‘‘۔ 

دھرنے میں ہزارہ قوم کے علاوہ پروگریسو یوتھ الائنس،پی ٹی ایم، اپوزیشن کی پارٹیاں اور بلوچ و پشتون نوجوان بھی اظہار یکجہتی کیلئے آرہے ہیں۔ پچھلے بیس سالوں سے بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں ہزارہ قوم کا منظم قتل عام ہورہا ہے۔اس قتلِ عام کی ذمہ داری قبول کرنے والے سرعام دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس حوالے سے ریاستی اداروں کی سنجیدگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔ ہزارہ عوام کے قتلِ عام کے پیچھے بنیادی مقصد یہ ہے کہ بلوچستان میں عوام کی بنیادی حقوق اور ریاستی جبر سے آزادی کی جدوجہد کو فرقہ واریت کے رجعتی اور زہریلے وار سے گھائل کر دیا جائے۔ حالانکہ بلوچستان کی پوری تاریخ گواہ ہے کہ پہاں پر کبھی بھی فرقہ واریت نہیں رہی ہے۔بلوچستان کا معاشرہ تاریخی طور پر سیکولر معاشرہ رہا ہے۔اس فرقہ واریت کو سعودی سامراج، ریاست اور مقتدر قوتوں کی سرپرستی میں بلوچستان کے معاشرے پر اوپر سے نافذ کیا گیا ہے اور ان کوششوں کو عوام نے بارہا رد کیا ہے۔ ہزارہ عوام کے اس احتجاجی دھرنے سے یہ حقیقت واضح ہوئی ہے کہ عوام کے شعور میں معیاری تبدیلی رونما ہو چکی ہے۔عوام کا حکمران طبقے اور اس کے اداروں سے اعتماد اٹھ چکا ہے اور یہی وہ حقیقت ہے جو مستقبل میں جبر اور ظلم کے خلاف بھرپور مزاحمت کے امکانات سے لبریز ہے۔

Comments are closed.