ہزارہ نسل کشی کی نہ ختم ہونے والی داستان

|تحریر: زلمی پاسون|

11 اپریل کی صبح کوئٹہ شہر کے کاروباری مرکز ہزار گنجی میں ایک دھماکے کے نتیجے میں کم ازکم 20 افراد ہلاک اور 50 سے زائد زخمی ہوئے۔ اس دھماکے کا نشانہ مظلوم ہزارہ محنت کش عوام تھے جوکہ اپنے گھر کا چولہا جلانے کے لیے ہزار گنجی فروٹ مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں۔ اس دھماکے میں 9 ہزارہ مظلوموں کے ساتھ بلوچ اور پشتون محنت کش بھی مارے گئے، جوکہ اب تک اپنی نوعیت کا ایسا پہلا واقعہ ہے جس میں ہزارہ محنت کشوں کیساتھ دیگر مظلوم بھی بڑی تعداد میں مارے گئے ہوں۔ ڈی آئی جی کوئٹہ پولیس کے مطابق بم نصب شُدہ تھا، جبکہ دوسری طرف داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ اس دھماکے کے نتیجے میں ہزارہ قوم کی نسل کشی کے خلاف احتجاجی دھرنا آج تیسرے روز بھی کوئٹہ کو دیگر شاہراہوں سے منسلک کرنے والے مغربی بائی پاس پر جاری ہے۔ سخت سردی اور بارش کے باوجود دھرنے میں سینکڑوں کی تعداد میں مرد، خواتین، جوان، بچے اور بوڑھے برابر طور پر شریک ہیں۔ 

بلوچستان میں کشت و خون کا سلسلہ پچھلے ستر سالوں سے جاری ہے جس میں ایسے انسانیت سوز واقعات رونما ہو چکے ہیں جن کا تصور کرنا بھی محال ہے اور ان تمام واقعات کے نتیجے میں ہزاروں کی تعداد میں معصوم لوگ مارے جاچکے ہیں، جبکہ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں لوگ گھر بار چھوڑ کر دربدری کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔ اس پورے سلسلے میں پچھلے دو دہائیوں سے پاکستانی ریاست، علاقائی اور عالمی سامراجیوں کی جانب سے اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل کے لیے ہزارہ قوم کے خون سے ہولی کھیلی جا رہی ہے اور ہزارہ عوام کی زندگیوں کو ایک جہنم بنا دیاگیا ہے۔ ڈان کی ایک رپورٹ کے مطابق اب تک ہزارہ قوم پر 1600 سے زائد حملے ہو چکے ہیں جن میں اب تک 3 سے 4 ہزار کے درمیان لوگ مارے جاچکے ہیں جبکہ اس سے کئی زیادہ لوگ زخمی ہوکر اپاہج بن چکے ہیں۔ ہزارہ قوم کی اکثریت کوئٹہ شہر میں آباد ہے، اور عرصہ دراز سے اُنہیں اپنے مخصوص علاقوں میں سیکیورٹی حصار میں نیم قیدیوں کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور کیا گیا ہے اور ان کا کوئٹہ شہر میں آزادانہ گھومنا پھرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ حکمران طبقات کی طرف سے اتنی ’سیکیورٹی‘ مہیا کرنے کے باوجود بھی ہزارہ نسل کشی رُکنے کا نام نہیں لے رہی ہے، جبکہ مظلوم ہزارہ عوام کے قاتل آج بھی عدالتوں سے بری ہوکر آزادانہ طور پر دندناتے پھر رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاستی پشت پناہی میں ہزارہ قوم کی شیعہ شناخت کے خلاف فرقہ وارانہ بنیادوں پر نفرت اور تعصب کو فروغ دیا جارہا ہے، حالانکہ تاریخی طور پر اگر ہم دیکھ لیں تو بلوچستان میں فرقہ واریت کی کہیں پر بھی کوئی مبہم سی بھی صورت دیکھنے کو نہیں ملے گی۔ مگر ان تمام واقعات کے پیچھے جو عوامل کارفرما ہیں اُن میں دو بنیادی چیزیں قابلِ ذکر ہیں۔ ایک طرف بلوچستان کے اندر قومی آزادی کی تحریک کو متنازعہ بنانے اور اسے پسِ منظر میں دھکیلنے کے لیے یہ ایک سوچا سمجھا منصوبہ تھا۔ جبکہ دوسری طرف علاقائی سامراج سعودی عرب اور ایران کے آپسی تضادات کا مرکز بھی بلوچستان کو بنادیا گیا جس میں سعودی سامراج نے یہاں پر اپنے سامراجی عزائم کی تکمیل اور سٹریٹجک پالیسیوں کو دوام دینے کے لیے مدرسوں کے قیام اور ان کو چلانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور یہاں کے مقامی دلال حکمران اپنی لوٹ مار اور امداد کی لالچ میں ایک وفادار گماشتے کا کردار ادا کر رہے ہیں اور انہی پالیسیوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ سامراجی اور ان کے گماشتہ ملکی حکمران مصنوعی طور پر فرقہ وارانہ تعصبات کو ہوا دینے کی کوشش کر رہے ہیں مگر اُن کے ان غلیظ عزائم کو عوام بارہا مسترد کرچکی ہے جسکا اظہار ہمیں ہر اس احتجاجی دھرنے میں دیکھنے کو ملتا ہے جہاں پر ہزارہ قوم کے کیساتھ صوبے بھر کے مظلوم و محکوم عوام شانہ بشانہ کھڑی رہتی ہے۔ 

احتجاجی دھرنے میں موجودہ صوبائی حکومت کے ذمہ داروں کے علاوہ حکمران طبقات کے دیگر نمائندے بھی مسلسل شریک ہوتے رہے ہیں جن کے پاس روایتی جملوں سے ہٹ کر اور کچھ نہیں ہوتا ہے۔ جبکہ حکمرانوں کی یہ روایتی لفاظیاں، جھوٹی تسلیاں اور مکاریاں ان مظلوم عوام کے کرب میں کمی کے بجائے ان کے زخموں پر نمک پاشی کا کام کرتی ہیں۔ حکمران طبقات کے نمائندوں کے پاس لواحقین کے کسی سوال کا کوئی بھی جواب نہیں ہوتا، اور نہ ہی وہ جواب دینے کے قابل ہوتے ہیں کیونکہ وہ خود ان مظالم میں برابر کے شریک ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کا جواز بنا کر پاکستانی ریاست نے مختلف علاقوں میں اپنے ہی تخلیق کردہ سٹریٹیجک اثاثہ جات کیخلاف کئی ’آپریشن‘ کیے مگر ان نام نہاد آپریشنوں کا خمیازہ بھی مظلوم عوام کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ فاٹا کے اندر دہشت گردی کیخلاف مختلف ناموں سے آپریشنز کیے گئے جن میں فاٹا کے عوام نے ناقبل تصور مشکلات، تکالیف اور مصیبتوں کا سامنا کیا۔ صرف 15 سالوں میں ہزاروں قیمتی جانیں ضائع ہوئیں، لوگوں کو گھروں سے دربدر ہونا پڑا ،زندگی کا بنیادی انفرا سٹرکچر تباہ ہو گیا اور آج تک لوگ غیر انسانی کیمپوں میں زندگی گزاررہے ہیں۔ مگر اتنے بڑے فوجی آپریشنز کے باوجود دہشت گردی کے واقعات جاری ہیں۔ بالکل اسی طرح بلوچستان کے اندر نام نہاد فرقہ واریت کے حوالے سے اپنے سٹر یٹیجک اثاثوں کیخلاف تذبذب کا شکار حکمران طبقہ اور ریاستی اشرافیہ کوئی واضح اقدامات نہیں کرسکتے۔ ان تمام تر ایشوز سے ہٹ کر پاکستان کے سماج میں ریاستی پشت پناہی میں مذہبی انتہا پسندی، فرقہ واریت اور بنیاد پرستی کو مسلط کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں جس کی حالیہ مثالیں آج سے دو سال قبل ریاستی پشت پناہی میں مشال خان کا بہیمانہ قتل اور رواں سال کے اوائل میں ایس ای کالج بہاولپور میں پروفیسر خالد حمید کا مذہبی بنیاد پرست قوتوں کے ہاتھوں کالج کے احاطے میں دن دیہاڑے قتل ہے۔ مگر ان سب کوششوں میں حکمران طبقے کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ برطانوی سامراج مذہب کی بنیاد پر ہندوستان کی خونی تقسیم کے زخم آج بھی رس رہے ہیں بلکہ ناسور بن چکے ہیں۔ مذہب کا نام پر تشکیل دی گئی اس مصنوعی ریاست اور اس کے خصی حکمران طبقے نے پچھلے ستر سال اس خطے میں امریکی سامراج کے وفادار گماشتہ کا کردار ادا کیا اور خوب مال بٹورا مگر عالمی سرمایہ داری کے نامیاتی بحران کے نتیجے میں بننے والی ایک بالکل نئی عالمی اور علاقائی صورتحال میں پاکستانی ریاست کے لیے اپنی ان پالیسیوں کا جاری رکھنا خاصا مشکل ہوچکا ہے۔ خاص طور امریکی سامراج کی ناراضگی نے اس ریاست کو بالکل بے آسرا کردیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دہشت گردی کا سارا دھندا سامراجی گماشتگی اور کالے دھن کے بل بوتے پر چل رہا ہے اور ریاستی پالیسی کا حصہ بن چکا ہے۔ ا س سے اہم بات یہ ہے کہ اس ریاست کی سرکاری معیشت کو قائم رکھنے میں کالی معیشت کا ایک انتہائی اہم کردار ہے اور اس کے خلاف کوئی فیصلہ کن اقدام خود حکمران طبقے کے مختلف دھڑوں میں ایک کھلی خانہ جنگی کے مترادف ہے۔اور جب تک سرمایے کا یہ راج رہے گا تب تک اس دھندے کو روکنا یا ختم کرنا محض ایک خواب ہوگا۔ اطلاعات کے مطابق آئی ایم ایف سے معاشی بیل آؤٹ پیکیج کو بھی FATF سے کلیئرنس کے ساتھ منسلک کردیا گیا ہے جس نے اس دیوالیہ ہوتی ریاست کو دو راہے پر لاکھڑا کیا ہے مگر ان سٹریٹجک اثاثوں کے خلاف کوئی فیصلہ کن کاروائی اس ریاست کے بس سے باہر ہے۔آئی ایم ایف سے ملنے والے بیل آؤٹ پیکیج کے لیے پہلی بار ریاست اتنی ذلیل ہورہی ہے جسکی تاریخ میں مثال نہیں۔

عالمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام ایک ایسے تعفن زدہ لاش کی حیثیت اختیار کرچکا ہے کہ جسکی بدبو دار لاش کو دفنانا ناگزیر ہوچکا ہے۔ پوری دنیا میں معیشت کی زوال پذیری کی وجہ سے محنت کش اور مظلوم عوام پر اگر ایک طرف سے ریاستی جبر میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ دوسری طرف معاشی استحصال میں آئے روز شدت سے اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔ اور اس قسم کے حالات میں پاکستان جیسی پسماندہ ریاست میں ہر حوالے سے مظلوم اور محنت کش عوام کو دوہرے تہرے استحصال اور جبر کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ معاشی بحران میں شدت کی وجہ سے روزانہ کی بنیاد پر اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ،ہسپتالوں کی نجکاری اور مفت سہولیات کاخاتمہ، بیروزگاری میں اضافہ، قومی اداروں کی نجکاری، تعلیمی بجٹ میں کٹوتیاں اور اس کے علاوہ بہت سارے ایسے عوام دشمن اقدامات شامل ہیں جسکی وجہ سے غریب عوام کی زندگی کی ان بنیادی ضروریات تک رسائی ناممکن بنتی جارہی ہے۔ مگر دوسری طرف حکمران طبقات کی عیاشیوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، اور وہ اپنے مفادات پر کسی بھی قسم کی قدغن برداشت نہیں کرسکتے۔ جونہی عوام اپنے حقوق چھیننے کے لیے میدانِ عمل میں اُ ترتے ہیں تو یہ ظالم حکمران اور ریاستی ادارے ’’ملکی سا لمیت خطرے میں ہے‘‘ کا ڈھونگ رچا کر عوام کو ورغلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں مگر حکمران طبقے کے ان حملوں کے خلاف ابھرنے والی مستقبل کی تحریکیں ان حکمرانوں کے ایوانوں کو لرزا دیں گی۔ اس کی واضح مثال پچھلے چند دنوں میں الجزائر اور سوڈان میں ہونے والے انقلابی واقعات ہیں جس میں یکے بعد دیگرے عوامی تحریک نے دہائیوں سے مسلط آمروں کا تختہ الٹا کر رکھ دیا ہے۔ مستقبل ایسے انقلابات لبریز ہے۔ 

ہزارہ قومیت سے تعلق رکھنے والے مظلوم عوام کو ریاستی پشت پناہی اور سعودی سامراج کی آشیر باد رکھنے والے عناصر بلوچستان کے اندر فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل کر رہے ہیں،اور اس مذہبی جبر کو مذہبی بنیاد پرست اپنے مفادات کے لیے استعمال کررہے ہیں جبکہ قوم پرست اس ظلم کو قومی بنیادوں پر کیش کرنے میں مگن ہیں۔ جس طرح ملک بھر کے مظلوم قومیتیں اور محکوم طبقات سیاسی متبادل کی تلاش میں ہیں بالکل اسی طرح ہزارہ عوام کے اندربھی یہ سوال ہر شخص کی زبان پر ہے کہ کون ان کی آواز بنے گا؟ اس سے بڑھ کریہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس ظالم نظام کے اندررہتے ہوئے اس ظلم،جبر اور بربریت سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے؟ اس کے علاوہ بلوچستان سمیت پورے پاکستان میں مظلوم قومیتوں کے ساتھ ریاست جو سلوک کررہی ہے، کیا ان مظلوم قومیتوں کا اس جبر سے چھٹکارا پانا اس سرمایہ دارنہ نظام کی حدود میں رہتے ہوئے ممکن ہے؟ہم نہیں سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن ہے۔اور یہ نظام جو کچھ دے چکا ہے ،اب واپس چھین رہا ہے۔ اس لیے ان تمام مظالم سے چھٹکارا پانے کے لیے اس ظالم و جابر نظام سے چھٹکارا پانا ناگزیر ہے۔ ایک سوشلسٹ انقلاب کے نتیجے میں بننے والی ایک مزدور ریاست معاشی، قومی، مذہبی، صنفی اور ثقافتی جبر سمیت طبقاتی سماج میں موجود دیگر مسائل سے نجات دلا سکتی ہے۔ اس خواب کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے ایک انقلابی پارٹی کی تیز ترین تعمیر اس عہد کا تقاضا ہے۔

Comments are closed.