سرمایہ داری کے خاتمے میں ہی ریپ اور جنسی جبرکا خاتمہ ہے!

|تحریر: ولید خان|

پوری دنیا میں اس وقت سرمایہ داری تباہی و بربادی مچا رہی ہے۔ ریاستی ادارے، سیاست اور سماجی اقدار ملیا میٹ ہو رہے ہیں۔ ہر جگہ حکمران طبقہ عوام سے بے نیاز اپنے اقتدار کو دوام دینے کی کوششیں کر رہا ہے تاکہ منافعوں کے حصول اور جبری استحصال کو یقینی بنایا جا سکے جبکہ دہائیوں سے اشرافیہ کے حملوں کے شکار محنت کش عوام اب مزاحمت میں اتر رہے ہیں۔ ایسے میں چاروں اطراف طبقاتی جنگ میں شدت اور شدید سماجی پولرائزیشن پھیلتی نظر آ رہی ہے۔ امریکہ میں حالیہ صدارتی انتخابات ہوں، یورپی منڈی سے برطانیہ کا اخراج ہو، انڈیا میں کسانوں کا دھرنا ہو، یورپ کے شہر برسلز میں پولیس تھانے کا جلاؤ گھراؤ ہو، مشرقِ وسطیٰ کا تیزی سے بدلتا سیاسی منظر نامہ ہو یا دنیا کا کوئی بھی خطہ ہو، ہر جگہ سماجی تناؤ اپنی انتہاؤں کو پہنچ رہا ہے۔ شدید بے روزگاری، غربت، لاچاری اور خوفناک بیگانگی ایسے ہولناک جرائم اور واقعات کو جنم دے رہے ہیں جن کا سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب تشدد، قتل، ڈاکوں، خودکشیوں اور دیگرانسانیت سے گرے جرائم ذرائع ابلاغ میں گردش نہ کر رہے ہوں۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ مخدوش حالت سماج کے کمزور ترین افراد یعنی بچوں اور عورتوں کی ہے جو ایک طرف سرمایہ داری کے عتاب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اپنی سماجی حیثیت کی وجہ سے پدر شاہانہ سماج کے غلیظ ترین جبر کا شکار ہیں۔ ان مسائل میں سب سے سلگتا اور سنگین مسئلہ ریپ ہے جس کو یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے یا پھر تاسف کا اظہار کر کے خبروں کے پہاڑ تلے دبا دیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے غریب ملک میں یہ مسئلہ اور بھی مکروہ شکل اختیار کر چکا ہے جہاں اسے نہ صرف قانونی تحفظ حاصل ہے بلکہ سماجی طور پر بھی اس گھناؤنے فعل کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ یہ عمل اظہارِ غصہ، نفرت، انتقام اور جبر بن چکا ہے جس کے حل کے لئے سنجیدگی کہیں نظر نہیں آتی۔ اگر انسانی سماج کے منہ سے اس کالک کو صاف کرنا ہے تو وہ صرف سرمایہ داری کے خاتمے میں ہی ممکن ہے۔

اعدادوشمار

اکثر اوقات یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ ریپ کا مسئلہ پاکستان کا منفرد مسئلہ ہے جس کا تعلق گری ہوئی اخلاقیات اور کمزور ایمان سے ہے۔ لیکن سرمایہ داری پوری دنیا میں رائج معاشی نظام ہے اور اس کے تحت جنم لینے والے سماجی رشتے بھی عالمی طور پر یکساں ہیں۔ ہاں علاقائی کمی بیشی موجود ہوتی ہے جس کی بنیادیں دین، ایمان اور اخلاقیات کی بجائے تاریخی ہیں۔ اس حوالے سے سب سے اہم سماجی رشتہ مرد اور عورت کا ہے جس میں عورت کی سماجی حیثیت ثانوی ہے، چاہے وہ ترقی یافتہ ملک سے تعلق رکھتی ہو یا غریب ملک سے۔ اور اسی بنیاد پر ہر جگہ وہ دہرے استحصال اور جبر کا بھی شکار ہے جن میں سے ایک ریپ ہے۔

کورونا وبا نے پوری دنیا کو یکسر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور 2008ء میں جنم لینے والے عالمی معاشی بحران کو زیادہ خوفناک کرتے ہوئے سرمایہ داری کے مکروہ چہرے سے آخری شرافت و اخلاقیات کا نقاب بھی نوچ پھینکا ہے۔ اقوام متحدہ کی اپنی تحقیقات کے مطابق کورونا لاک ڈاؤن کے دوران پوری دنیا میں گھریلو تشدد میں 25 سے 60 فیصد تک اضافہ دیکھنے میں آیا جس میں یورپ سے افریقہ اور ایشیا تک کے تمام ممالک شامل ہیں۔ اسی طرح ترقی یافتہ ممالک میں گھریلو تشدد سے بچاؤ کے لئے بنائی جانے والی ہیلپ لائنز میں 50 فیصد اضافہ دیکھنے کو ملا۔ ایک امریکی ادارے ورلڈ پاپولیشن ری ویو نے 2020ء کے حوالے سے ریپ کے اعدادوشمار جاری کئے ہیں۔ ان اعدادوشمار کے مطابق پوری دنیا میں 35 فیصد خواتین اپنی زندگیوں میں کم از کم ایک مرتبہ جنسی ہراسانی کا سامنا کرتی ہیں۔ جن ممالک میں ریپ کے اعدادوشمار موجود ہیں ان کے مطابق جنسی تشدد کا نشانہ بننے والی خواتین میں 40 فیصد سے کم مدد حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور 10 فیصد سے کم قانونی اداروں سے رجوع کرتی ہیں۔ 16 سے 19 سال کی خواتین میں ریپ یا جنسی ہراسانی کی شرح 4 گنا زیادہ ہے جبکہ 18 سے 24 سال کی کالج طالبات میں یہ شرح 3 گنا زیادہ ہے۔ امریکہ میں 70 فیصد ریپ کا شکار ہونے والی خواتین کا کوئی جاننے والا یہ جرم کرتا ہے جبکہ پوری دنیا میں سب سے زیادہ ریپ جنوبی افریقہ میں ہوتے ہیں۔ ان حیران کن انکشافات کے ساتھ ایک فہرست بھی جاری کی گئی ہے جس میں دنیا کے وہ دس ممالک شامل ہیں جہاں سب سے زیادہ ریپ کے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں۔ ان میں یورپ کا ترقی یافتہ ملک سویڈن چھٹے نمبر پر ہے جسے کچھ دیگر رپورٹس میں یورپ کا ”ریپ کیپیٹل“ بھی کہا گیا ہے۔ ساتھ ہی اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریپ کے اکثر متاثرین جرم کی رپورٹ ہی نہیں کرواتے اس لئے درست اعدادوشمار کے حوالے سے بات کرنا بہت مشکل ہے۔ یہ اعدادوشمار اس بھونڈی تھیوری کی قلعی کھول دیتے ہیں کہ ریپ کا ترقی، اخلاقیات یا انسانی اقدار سے کوئی تعلق ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اس کا یورپ یا امریکہ کی نام نہاد بے راہروی سے تعلق ہے تو یہ بھی مکمل طور پر جھوٹ ہے جس پر مضمون میں آگے بات ہو گی۔

پاکستان؛ عورت کیلئے جہنم ارضی

پاکستان تاریخ کا بے مثال عقوبت خانہ ہے جس میں روایات، اخلاقیات، سماجی اقدار، اقلیتیں سب کچھ مدفون ہے۔ آئے روز خودکشیوں، بچوں کے ساتھ زیادتی، تیزاب گردی اور ریپ کے دل دہلا دینے والے واقعات عوام پر بجلی بن کر گرتے ہیں۔ ونی، کاروکاری اور وٹہ سٹہ جیسی درندہ نما روایات کو مسلط کیا جاتا ہے اور باقاعدہ ثقافت کی آڑ میں تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ یہاں ایک طرف ملا گردی ہے جس نے عورت کو چادر اور چار دیواری کی بیڑیوں میں جکڑ رکھا ہے اور دوسری طرف لبرل مافیا ہے جو عورت کو منڈی کی جنس بنا کر صنفی آزادی کا سہرا سر پر سجانا چاہتا ہے۔ لیکن دونوں کا مقصد عورت کی غلامی کو قائم رکھتے ہوئے سرمایہ دارانہ پدر شاہی کو دوام دینا ہے۔

پاکستان تاریخ کا بے مثال عقوبت خانہ ہے جس میں روایات، اخلاقیات، سماجی اقدار، اقلیتیں سب کچھ مدفون ہے۔ آئے روز خودکشیوں، بچوں کے ساتھ زیادتی، تیزاب گردی اور ریپ کے دل دہلا دینے والے واقعات عوام پر بجلی بن کر گرتے ہیں۔

نومبر 2020ء میں جیو نیوز نے ایک تحقیقاتی رپورٹ شائع کی جس کے اعدادوشمار پولیس، قانونی اداروں، جسٹس کمیشن پاکستان، ہیومن رائٹس کمیشن پاکستان اور دیگر سماجی و صوبائی اداروں سے حاصل کئے گئے تھے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں روزانہ 11 ریپ کیس ہو رہے ہیں اور پچھلے چھ سالوں میں ریپ کے 22 ہزار واقعات رونما ہوئے ہیں۔ لیکن، صرف 77 افراد یعنی کل واقعات کے 0.3 فیصد کو اب تک سزائیں ہوئی ہیں! سماجی دباؤ اور قوانین میں کمزوریوں کی وجہ سے صرف 41 فیصد کیس رپورٹ ہوتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق یہ اعدادوشمار بھی کم ہیں اور ان کی تعداد 60 ہزار تک ہو سکتی ہے۔ ہمارے خیال میں 60 ہزار کا ہندسہ بھی اصل حقائق کی پوری عکاسی کرنے میں ناکام ہے۔

پاکستان میں نام نہاد سول سوسائٹی اور دیگر کی جانب سے بڑا شوروغوغا کیا جاتا ہے کہ اگر قوانین سخت ہوں اور قرار واقعی سزا دی جائے تو ان واقعات کا سدِ باب کیا جا سکتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں یہ ایک یوٹوپیا ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کی وجوہات آگے بیان ہوں گی۔ دوسری طرف ملا اشرافیہ کے مطابق آئین میں پہلے ہی حدود آرڈیننس کی شکل میں ریپ کی سزائیں درج ہیں۔ حدود آرڈیننس کا کالا قانون جنرل ضیاء الحق کی آمریت میں منظور کرایا گیا تھا جو پورے سماج کی مذہبی انتہا پسندی کے تحت سماجی ہیئت کو تبدیل کرنے کی کاوش کا سلسلہ تھا تاکہ امریکی ڈالر جہاد کے ذریعے ریاست اپنی جیبیں بھرے۔ اس قانون میں ریپ کی تصدیق اور گواہی کے حوالے سے جو شرائط رکھی گئی ہیں ان میں واضح ہے کہ ان شرائط کو پورا کرنا کم از کم اس دنیا میں کسی انسان کے بس میں نہیں ہے۔ چار عاقل، بالغ اور صالح گواہان کی موجودگی میں ریپ نہیں ہوتا۔ پھر ان قوانین کے مطابق اگر کوئی عورت الزام ثابت نہیں کر سکتی تو الزام تراشی اور ہتکِ عزت کا مرتکب ہو کر متاثرہ خود واجب ِسزا ہو جاتی ہے جو اکثریت کو اذیت ناک خاموشی اختیار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ریپ کے ٹیسٹ اور تفتیش کا بھی پورے ملک میں کوئی نظام موجود نہیں۔ نہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لئے لیباٹریاں موجود ہیں اور نہ ہی ہسپتالوں میں کوئی ٹریننگ یا انتظامات۔ ”ورجنٹی ٹیسٹنگ“ جیسی غلاظت کا حال ہی میں خاتمہ کیا گیا ہے گو کہ اس پرپوری طرح عملدرآمد ہونے میں کئی برس بیت جائیں گے۔ لیکن اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اسٹیسٹ میں متاثرہ کس قسم کی تکلیف اور عزتِ نفس پر کاری ضرب سہتیہے۔ پھر تھانے اور کورٹ کا نظام بھی خوفناک حد تک غلیظ ہے۔ ایک ایسا ملک جس میں سادہ ایف آئی آر کٹوانے کے لئے خوف ناک اذیت اورتذلیل کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ رشوت دینی پڑتی ہو اور عدالت میں انصاف کے لیے ہر قدم پرلمبی چوڑی فیسیں اور رشوتیں کھلانی پڑتی ہوں جبکہ تذلیل اور خوف و ہراس کا سامنا الگ سے ہو، وہاں عام انسان کو انصاف ملنا ناممکن ہے۔ پھر جس قسم کے تضحیک آمیز سوالات، گھٹیا نظروں، سماجی ذلت اور عمومی نفرت کا سامنا ہوتا ہے، اس سے بچنے کے لئے ویسے ہی ایک عورت خاموشی اختیار کرنے میں عافیت سمجھتی ہے۔ بدنامی کا خوف اور عزت کا جنازہ نکل جانے کا ڈر ویسے ہی ایسے شدید خاندانی دباؤ کو جنم دیتا ہے جس کے آگے کھڑے ہو کر انصاف کے لئے لڑنا ایک عورت کے لئے موجودہ سماج میں ناممکن ہے۔ سب سے بڑھ کر عورت کو وہ شخصی معاشی آزادی اور سماجی تحفظ میسر ہی نہیں کہ وہ اپنے حق کے لئے آواز بلند کر سکے۔ اس کے علاوہ جب کبھی حکمران یا اعلیٰ ریاستی اہلکار ہمدردی اور شفقت کا ڈھونگ رچاتے ہیں تو اس کی اذیت الگ ہوتی ہے کیونکہ ان افراد کا مقصد اخبارات میں تصاویر چھپوا کر اپنی تشہیر کرنا ہوتا ہے لیکن اس سارے عمل میں اپنے سیاسی مفاد کے لیے متاثرہ خاندان کو سماجی ذلت کی گہرائیوں میں دھکیل دیا جاتا ہے اور انصاف پھر بھی نہیں مل پاتا۔

اس کے علاوہ مذہبی تاجران ان واقعات کو استعمال کرتے ہوئے عوام کے ذہنوں کو اور زیادہ پراگندہ کرتے ہیں اور نام نہاد اخلاقیات کا پہاڑ عوام کے کندھوں پر رکھ کر جہالت پھیلانے اور عوام کو مذہبی اقدار کے ذریعے مطیع رکھنے کا گھناؤنا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ بھی ریاستی لوٹ مار میں حصے دار ہیں جو منبر اور وعظ کے ذریعے حکمران طبقے کی اطاعت اور سرمایہ داری میں سر نیچا کر کے زندگی گزارنے کا پرچار کرتے ہیں۔ رہی سہی کسر ٹی وی اور آن لائن مولویوں نے پوری کر دی ہے جو حکمران اشرافیہ اور متوسط طبقے سے چار پیسے خیرات کرا کر جنت کی نوید سنا دیتے ہیں اور محنت کش طبقے کو ان کی تقلید کرنے کی تلقین کرتے رہتے ہیں۔ غرض یہ کہ احساسِ گناہ، بد نصیبی، گھٹن اور لاچارگی کا ایسا ماحول بنایا جاتا ہے جس میں انسان اس دنیا میں انصاف اور بہتر زندگی کی جستجو سے مایوس ہو کر اپنے آپ کو حکمران طبقے کے بنائے گئے سماجی رسم و رواج کے حوالے کر دیتا ہے۔ اگر اخلاقیات اور اقدار کو کسی ذی شعور شخص نے ماپنا ہے تو ملاؤں کی جانب سے کمسن بچوں کے ساتھ روز رونما ہونے والے غیر انسانی زیادتیوں کے واقعات دیکھ لے۔ دوسری طرف غلاظت میں ڈوبی این جی اوز کا مجرمانہ کردار ہے جو متاثرہ کی مجبوریوں کو سرِ عام نیلام کر کے پیسے کمانے، ریاست سے انصاف کی بھیک مانگنے اور موجودہ نظام سے امیدیں وابستہ کرنے کا گھناؤنا دھندہ کرتی ہیں۔ این جی اوز کا کام ہی مجبور عوام کے زخم بیچ کر اپنی جیبیں بھرنا اور ریاست کی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا ہے۔ اس عمل کے ذریعے ایک فرد اور بحیثیت مجموعی محنت کش طبقے کو سیاسی لڑائی کا راستہ اختیار کرنے کی بجائے بھیک مانگنے اور سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی کھوکھلی عدالتوں اور قوانین سے امیدیں لگانے کی ترغیب دی جاتی ہے

ملا اشرافیہ اور این جی اوز دونوں نہ صرف ریاست کے آلہ کار ہیں بلکہ سرمایہ دارانہ نظام کی بقاء کے لئے محنت کش طبقے کے خلاف سازش کاحصہ ہیں کیونکہ ان کے مفادات، ذریعہ معاش اور عیاشیاں اسی نظام سے جڑی ہوئی ہیں۔ جہاں تک تمام سیاسی پارٹیوں کا تعلق ہے تو وہ ویسے ہی سرمایہ داروں کی دلالی میں غرق ہیں جن سے کوئی امید لگانا بے وقوفی ہے۔

یہ کتابچہ لال سلام پبلیکیشنز کی جانب سے شائع کیا گیا تھا۔

جبر کی جڑ۔۔سرمایہ داری

اگر ریپ اور جنسی ہراسانی جیسے گھناؤنے جرائم کا خاتمہ کرنا حقیقی مقصد ہے تو اس کے لئے ان کی بنیادوں کو کھوجنا ہو گا۔ طبقاتی سماج کے پروان چڑھنے سے پہلے عورت اور مرد میں حقیقی مساوات موجود تھی کیونکہ وسائل کی عدم موجودگی میں فطرت سے بقاء کے مقابلے میں دونوں کے مساوی کردار لازم و ملزوم تھے۔ آثارِ قدیمہ اور بشریات کی دہائیوں سے جاری تحقیق ثابت کر چکی ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال، شکار اور دیگر محدود سماجی فرائض سانجھے تھے۔ اور کیونکہ ذاتی ملکیت موجود نہیں تھی اس لئے بچوں کو وارث اور عورت کو نجی ملکیت تصور نہیں کیا جاتا تھا۔ لیکن تاریخ نے کروٹ لی اور زرعی تکنیک میں بہتری اور مستقل سکونت نے اشیاء کی زائد پیداوار کو جنم دیا جس نے انسانی شعور کو بھی تبدیل کیا۔ اب سماج کو زائد پیداوار کا وارث چاہیے تھا جس کے لئے عورت کی نجی ملکیت میں تبدیلی نا گزیر تھی۔ یوں عورت کی وہ تاریخی شکست ہوئی جو آج تک جاری ہے۔

گو کہ طبقاتی نظام کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے لیکن دو سو سال پرانی سرمایہ داری نے اس عمل کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ اس معاشی نظام کی بنیاد اشیاء کی پیداوار برائے منافع اور نجی ملکیت ہے۔ سرمائے اور نجی ملکیت کی وراثت کے لئے عورت درکار ہے جسے قانونی وارث کو پیدا کرنیکے لئے بذاتِ خود نجی ملکیت بنا دیا گیا ہے۔ اس کام کے لئے مذہب، تعلیم، من گھڑت تاریخ، روایات اور دیگر تمام حربوں کو باقاعدہ منظم انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ محنت کی منڈی میں کھپے ہوئے مزدور کی افزائشِ نسل اور گھریلو دیکھ بھال نے۔۔تاکہ منڈی کے لئے نئے مزدور دستیاب ہوں۔۔عورت کو گھر داری کی غلامی میں جکڑا ہوا ہے۔ گو کہ محنت کی منڈی نے زیادہ سے زیادہ استحصال اور حصولِ منافع کے لئے عورت کو بھی بہت حد تک جذب کر لیا ہے لیکن اس طرح عورت اب دہرے استحصال کا شکار ہو چکی ہے، یعنی سرمایہ کار کے لئے پہلے محنت کی منڈی میں اجرتی غلامی اور پھر گھر جا کر گھریلو غلامی۔ یہ عورت کی نجی ملکیت کا ہی تصور ہے جو فیکٹری میں فیکٹری مالک، کھیتوں میں چودھری، آفس میں منیجر، یونیورسٹی میں درندہ صفت استاد اور گھر میں خاوند کو دست درازی کا موقع دیتا ہے۔ ایسے بیہودہ سما ج میں جنسی ہراسانی مرد کا”حق“بن جاتا ہے اور ریپ درندگی کی تسکین کا ذریعہ۔ ا س کے علاوہ کسی سے ذاتی انتقام لینے کے لیے بھی عورت کی عزت کو نشانہ بنایا جاتا ہے یا اپنا جبر مسلط کرنے کے لیے، خاندانی دشمنیوں کے دوران جائیداد کے جھگڑے ہوں، کسی کی غربت اور بدحالی کی تضحیک کرنی ہو یا کسی خاندان کو سبق سکھانا ہو اس کے لیے بھی ریپ کو ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ اس سماج میں غلاظت کی انتہا کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ عورت سے جڑی گالیاں روز مرہ کے معمول کا حصہ بن چکی ہیں اور انہیں ایک آفاقی حقیقت کے طور ر قبول کر لیا گیا ہے۔ درحقیقت اس طریقے سے خواتین کے سماج میں نچلے درجے اور کم تر حیثیت کا تعین کیا گیا ہے جس کے خلاف لڑنے کے لیے اس پورے سماجی ڈھانچے اور سماجی ومعاشی نظام کے خلاف بغاوت کرنی پڑے گی اور اسے جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ اس تمام تر عمل میں ریاستی جبر، حکمران طبقے کے مسلسل انسان دشمن حملوں اور قوانین نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے اور معاشی گراوٹ کے ساتھ ساتھ سماج کے ہر شعبے اور حصے کی بد ترین گراوٹ بھی اس کی وجہ ہے۔ اس کے علاوہ سماجی گھٹن اور مخلوط ماحول نہ ہونے کا بھی ایک کردار موجود ہے لیکن یہ تمام تر مسائل پھر نجی ملکیت کی اس ضرورت سے جڑے ہوئے ہیں جس میں قانونی وراثت کا بنیادی کردار ہے۔ عورت استعمال کی ایک شے بن کر رہ گئی ہے جس کی سوچ سمجھ اور مرضی پر باپ، بھائی اور خاوند کا پہرہ ہے۔ اور کیونکہ ریاست سرمایہ داروں اور قومی منڈی کی محافظ ہے اس لئے اس کا ہر قانون، ہر ادارہ اور ہر اہلکار عورت کی غلامی کو قائم و دائم رکھنے کی جستجو کرتا ہے تا کہ اس سماج پر اس کی حاکمیت قائم و دائم رہ سکے۔ سول سوسائٹی اور لبرل حضرات کی تمام تر خواہشات و جذبات کے باوجود اس نظام میں ایسے کوئی قوانین اور ادارے بنائے ہی نہیں جا سکتے جو عورت کو حقیقی تحفظ و آزادی فراہم کر سکیں۔ یہی عوامل ترقی یافتہ ممالک میں کارفرما ہیں جن کی وجہ سے ہمیں سویڈن جیسا ملک ”دنیا کا ریپ کیپیٹل“ جیسے لقب کے ساتھ نمایاں ہوتا نظر آتا ہے۔

حل کیا ہے؟

آج ہمیں پوری دنیا میں خواتین دیگر سماجی و معاشی مسائل کے ساتھ ساتھ ریپ کے خلاف جدوجہد کرتی نظر آتی ہیں۔ امریکہ سے لے کر یورپ اور خصوصاً پاکستان جیسے ملک میں عورت کی حقیقی آزادی سرمایہ داری کے خاتمے سے جڑی ہوئی ہے۔ جب تک موجودہ معاشی نظام میں حصولِ منافع اور نجی ملکیت کو ختم نہیں کیا جاتا اس وقت تک نجی ملکیت پر مبنی سماجی رشتوں کو بھی ختم نہیں کیا جا سکتا جو حقیقی طور پر عورت کی غلامی کی بنیاد ہیں۔ اگر عورت معاشی و سماجی طور پر آزاد ہو، اس کے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ دار ریاست ہو، گھریلو کام نجی کی بجائے سماجی ہوں جن میں عوامی لانڈریاں اور کچن ہوں، تو ہی سماجی زندگی میں ایک عورت حقیقی طور پر مرد کے مساوی کردار ادا کر سکتی ہے۔ ایسا ایک منصوبہ بند سوشلسٹ معیشت میں ہی ممکن ہے جس میں مٹھی بھر خونخوار اقلیت کے دیوہیکل منافعوں کی بجائے انسانی ضرورت کے تحت محنت کش طبقے کے جمہوری کنٹرول میں سماج منظم کیا جائے۔ لیکن یہ بنیادی تاریخی تبدیلی خود عورت کی شعوری جدوجہد کے بغیر ممکن نہیں۔ عورت انسانی سماج کا نصف ہے لیکن مردوں کے شانہ بشانہ ہی وہ سماجی تبدیلی کو مکمل کرنے کی ضامن ہے۔ محنت کش طبقہ رنگ، نسل، صنف اور مذہب کی تفریق سے بالاتر ہو کر ہی انسانی تاریخ کا سب سے اہم انقلاب برپا کر سکتا ہے تاکہ حقیقی انسانی زندگی اور رشتوں کا آغاز کیا جا سکے۔ اس انقلاب میں سماج کی سب سے مظلوم اور استحصال زدہ پرتیں سب سے بڑی بغاوت کو جنم دیں گی اور یقینا یہاں خواتین کی شرکت کے بغیر کوئی انقلابی تحریک کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اس انقلاب کی منزل کا حصول محنت کش طبقے کے مرد اور خواتین مل کر کریں گے اور سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ایک ایسے نئے سماج کی بنیادرکھیں گے جس میں نجی ملکیت کا خاتمہ ہوگا اور عورت کی حقیقی آزادی کے سفر کا آغاز ہو گا۔

صدیوں کے اقرار اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ اب انکار کا کوئی فرماں اترے

Comments are closed.