لبنان میں انقلاب کی آگ بھڑک اٹھی‘ کرپٹ حکومت کو ختم کرو!

|تحریر: آدم زین الدین، حمید علی زادے؛ ترجمہ: ولید خان|

لبنان میں انتہائی طاقتور انقلابی تحریک نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیتے ہوئے سیاسی صورتحال کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔

ایک طرف معیشت کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور دیو ہیکل قرضے کے بوجھ سے دم توڑ رہی ہے تو دوسری طرف کرپٹ حریری حکومت پاگل پن میں پیسہ اکٹھے کرنے کے نئے طریقے تلاش کر رہی ہے تاکہ کسی طرح آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کے پیسے لوٹا کر ان کی خوشنودی برقرار رکھی جا سکے۔ ہر وہ شخص جو کرپٹ لبنانی حکومت کا حصہ نہیں بدقسمت ہے کیونکہ اس خوشنودی کا مطلب اس کے لئے سماجی فلاح میں کٹوتیاں اور ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ واٹس ایپ کالوں پر حکومتی ٹیکس کا اعلان تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ جمعرات کو عوام سڑکوں پر نکل آئی اور ہزاروں نوجوان ساری رات احتجاج کرتے رہے۔ اگلے دن احتجاج اور بھی وسیع ہو گئے اور ان میں خاندان، مزدور اور عام عوام بھی شامل ہو گئی۔ ہفتہ کے دن تحریک دیو ہیکل حجم کو جا پہنچی اور اندازوں کے مطابق 12 لاکھ افراد اور اتوار کے دن 20 لاکھ افراد نے پورے ملک میں پرجوش احتجاج کیا۔ لبنان کے ہر صوبے میں عوام اس وقت سراپا احتجاج ہے جن کا تعلق ہر مذہب سے ہے اور وہ تمام فرقہ پرستی سے بالاتر اس وقت سڑکوں پر موجود ہیں۔ کسی تنظیم یا قیادت کے بغیر انقلابی عوام شدید جبر سہتے ہوئے ڈاکو حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں۔

عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ اپنے مشترکہ دشمنوں حریری حکومت، لبنانی ارب پریوں اور سامراجی بینکاروں کیخلاف متحد ہوچکے ہیں۔

تحریک کا پھیلاؤ بھی حیران کن حد تک وسیع ہے۔ شمالی جبل اور چوف صوبوں سے لے کر دور پار جنوبی جنوب تک، سینکڑوں احتجاج ہو رہے ہیں۔ ان احتجاجوں نے مذہبی تقسیم کو رد کردیا ہے جسے دہائیوں سے سیاست دان اقتدار پر قبضہ قائم رکھنے کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔ عوام شدید تنگ آ چکی ہے اور اپنے مشترکہ دشمن کے خلاف متحد ہو چکی ہے جن میں حریری حکومت، لبنانی ارب پتی اور سامراجی بینکار سب شامل ہیں۔

معاشی بدحالی: بحران کا بوجھ کون اٹھائے گا؟

74.5 ارب ڈالر کا لبنانی قرضہ دنیا کے سب سے بڑے قرضوں میں سے ایک ہے جس کا حجم کل ملکی پیداوار کا 140 فیصد بنتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملکی آبادی کے حساب سے ارب پتیوں کا تناسب دنیا میں سب سے زیادہ میں سے ہے جس کی وجہ سے خوفناک عدم مساوات آخری حدوں کو پہنچ چکی ہے۔ صرف 7 ارب پتی پوری معیشت پر قابض ہیں اور اس حوالے سے تناسب ہر 5 لاکھ افراد پر ایک ارب پتی کا بنتا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ارب پتی حریری یا میقاتی خاندانوں سے ہیں جو دہائیوں سے حکومت میں ہیں اور اپنے سیاسی اور ذاتی مفادات کے لئے گھپلے کرتے آ رہے ہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے بیروزگاری کی شرح 25 فیصد پر جا پہنچی ہے جبکہ نوجوانوں میں شرحِ بیروزگاری 37 فیصد پر کھڑی ہے۔ اور یہ سرکاری اعدادوشمار ہیں جو حقیقی منظر کشی نہیں کرتے۔

2018ء میں سعد حریری حکومت سمیت امریکہ اور یورپ کے سرمایہ کاروں سے پیرس میں ملا۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نے 11 ارب ڈالر سے زائد قرضوں کی فراہمی کی یقین دہانی کرائی لیکن شرط یہ تھی کہ ”سٹرکچرل اصلاحات“ کی جائیں۔ خاص طور پر آئی ایم ایف کا اصرار تھا کہ پیسے حاصل کرنے کے لئے معاشی خسارے کو کم کیا جائے۔ خوشنما لفاظی میں لپیٹ کر بجٹ خسارے کو کم کرنے کے لئے مزدوروں اور نوجوانوں پر خوفناک کٹوتیوں کا پروگرام مسلط کیا گیا۔

عوامی انقلابی تحریک پورے انقلاب میں پھیل چکی ہے اور تمام مذہبی تقسیموں کو رد کرتے ہوئے آگے بڑھ رہی ہے۔

اس کا حقیقی مطلب یہ ہے کہ حکمران طبقہ معاشی بحران کا تمام تر بوجھ غریب ترین عوام کے کندھوں پر ڈال رہا ہے۔ کٹوتیوں کا پروگرام اس سال جون میں شروع کیا گیا۔ پنشنوں میں کٹوتی ہوئی، پبلک سیکٹر میں نیا روزگار بند کر دیا گیا اور پبلک سیکٹر مزدوروں کے ممکنہ بونس بھی روک دیے گئے۔ ظاہر ہے کہ لبنان میں روزانہ زندگی سے جنگ لڑنے والی عوام غصے سے بپھر گئی۔ ملک کے بیشتر علاقوں میں بجلی اور پانی کی سہولیات برائے نام ہیں۔ سڑکوں سے کوڑا کچرا اٹھانے کی بنیادی ترین سہولت 2015ء میں کچھ عرصے کے لئے بند ہو گئی اور ابھی بھی زیادہ تر معطل رہتی ہے۔ ایک طرف سماج کی غریب ترین پرتیں دن گن گن گزار رہے ہیں، ایک تنخواہ سے دوسری تنخواہ تک بمشکل گزارا کر پا رہے ہیں اور دوسری طرف سیاست دانوں کا سارا وقت اپنے اور اپنے حواریوں کے لئے زیادہ سے زیادہ دولت اور طاقت ارتکاز کرنے کے لئے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، سازشوں اور چالبازیوں میں گزر جاتا ہے۔ لبنانی جمہوریت کی ملمع کاری کے پیچھے روزانہ کرپشن کی بھیانک داستانیں رقم ہو رہی ہیں اور ہر ایک فرد کو یہ گھناؤنا کھیل واضح نظر آ رہا ہے۔

آج سڑکوں پر پھوٹی تحریک کی یہ حقیقی بنیادیں ہیں۔پورے ملک میں تقریباً ایک تہائی عوام کے احتجاجوں نے لبنان کی طبقاتی کشمکش میں ایک معیاری باب رقم کیا ہے۔ حکمران طبقے کے خلاف غیض و غضب نے عوام کو منقسم کرنے کی ہر کوشش ناکام بنا دی ہے اور ایک متحد انقلابی تحریک حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے سرگرم ہو چکی ہے۔

عوام پوری حکومت گرانا چاہتے ہیں!

ماضی میں مذہبی منافرت کو استعمال کر کے بڑی آسانی سے کئی تحریکوں کو زائل کیا گیا۔ لبنان کا سیاسی نظام اپنے آغاز سے ہی ایسی ساخت رکھتا ہے کہ جس میں حکومتوں کی بنیاد ہی مذہبی گروہ بندی ہے۔ مختلف سیاسی پوسٹوں کو صرف شیعہ اور سنی مسلمان ہی پر کرتے ہیں جبکہ دیگر عیسائیوں کے پاس چلی جاتی ہیں۔ یہ فرانسیسی سامراج کی خصوصی کاوش تھی تاکہ عوام کو مسلسل منقسم رکھا جائے اور یقینی بنائے جائے کہ کوئی عوامی تحریک سرمایہ داروں کے لئے خطرہ نہ بن سکے۔

ان تمام کوششوں کے باوجود اس تحریک سے واضح ہے کہ مذہبی سیاست عوامی سیلاب کو روک نہیں سکے گی۔ صرف بیروت میں 10 لاکھ افراد کے مارچ میں ہر مذہبی اور سماجی پرت سے عوام شریک ہوئی۔ شیعہ، سنی، عیسائی اور دروز سب متحد ہو کر ایک ایسی حکومت کے خلاف نکلے جس کی غذا عوام کا خون ہے۔ اس کی وضاحت دو سب سے زیادہ مقبول نعروں سے ہوتی ہے، ”انقلاب! انقلاب!“ اور ”عوام حکومتی اقتدار ختم کرنے کا مطالبہ کرتی ہے!“ یہاں تک کہ حزب اللہ کے قائد حسن نصراللہ کو بھی نہیں بخشا گیا اور ”تمام کا مطلب تمام ہے، نصراللہ ان میں سے ایک ہے!“ جیسے نعرے لگائے جا رہے ہیں۔ عوام کو کھوکھلے وعدوں سے بہلانے کی سیاسی کوششوں کے نتیجے میں عوام اور زیادہ نڈر اور بیباک ہو چکی ہے۔

ایک صدی سے حکمران طبقہ مذہبی فرقہ واریت کو استعمال کرتے ہوئے اپنے اقتدار، مزدوروں اور غریبوں کے استحصال کو دوام دے رہا تھا۔لیکن یہ سطحی چال اب ننگی ہو چکی ہے۔ ڈاکوؤں کے ٹولے کی طرح مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے تمام حکمران اس وقت اپنے طبقاتی مفادات کے لئے متحد ہو کر حکومت کا دفاع کر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ نصراللہ نے بھی حکومت کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ استعفیٰ دینا ”وقت کا ضیاع“ ہو گا۔ حزب اللہ شیعہ بورژوازی اور پیٹی بورژوازی کے ایک حصے کی نمائندہ ہے لیکن اس نے ہمیشہ غریبوں کی نمائندگی کا ڈھونگ رچایا ہے۔ لیکن اثرورسوخ بڑھنے کے ساتھ ساتھ یہ ریاست اور معیشت میں ایک بڑی شراکت داری بن چکی ہے۔ وہ غیر سرکاری طور پر موجودہ ”قومی اتحاد“ حکومت کا حصہ بھی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکومت لبنانی سرمایہ داری کے استحکام کی حکومت ہے۔ اپنے بیان سے نصراللہ نے ثابت کر دیا ہے کہ اس کے حقیقی مفادات کیا ہیں۔

عوام کو ادراک ہو چکا ہے کہ کسی بھی موجودہ سیاسی پارٹی پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔ مظاہرین نے ہر رنگ و نسل کے وزیر کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ شیعہ مظاہرین نے جنوبی لبنان میں اپنے نمائندگان کے دفتروں پر حملہ کر دیا اور ان پر شیعہ ملیشیا نے تشدد کیا۔ یہ ایک حیران کن صورتحال ہے کیونکہ جنوبی لبنان دہائیوں سے حزب اللہ کا قلعہ رہا ہے۔ یہ ایک واقعہ پوری اسٹیبلشمنٹ کے بحران کو واضح کرنے کے لئے کافی ہے۔ سرمایہ داری عوام کا اعتماد کھو چکی ہے اور اب عوام اپنے فیصلے خود کرنا چاہتے ہیں۔

ثورہ حتی النصر! انقلاب حتمی فتح تک!

اس دیو ہیکل تحریک کی وجہ سے حریری حکومت نے اپنے کئی کٹوتیوں کے اقدامات واپس لے لئے ہیں۔ تحریک کی چنگاری واٹس ایپ ٹیکس کو فوری طور پر ختم کر دیا گیا اور اب تک چار حکومتی وزراء استعفیٰ دے چکے ہیں۔ حریری اس وقت ایک نیا بجٹ تشکیل دے رہا ہے جس میں کوئی نئے ٹیکس یا کٹوتیاں نہیں ہیں اور اس میں کچھ ساختی اصلاحات بھی ہیں لیکن یہ کافی نہیں۔ یہ واضح ہے کہ حکومت کے پاس کمر توڑ قرضے، بیروزگاری اور عمومی سماجی انحطاط کا کوئی علاج موجود نہیں۔ مذکورہ ”علاج“ ایک مرہم ہے جو محض عمومی صورتحال کو دوام دینے کی کوشش ہے۔ اصل مسئلہ یہ یا وہ ٹیکس نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ سرمایہ داری ہے جس نے لبنان، عوام اور مزدوروں کو غم و رنجش کے علاوہ اور کچھ نہیں دیا۔

بحران کی قیمت مالکان اور سامرجیوں کو چکا نی ہوگی نہ کہ عام عوام کو۔

اور اسی لئے عوام مسلسل آگے بڑھ رہی ہے۔ حکومت کی طرف سے دی جانے والی رعایتوں کے دیکھتے ہوئے، جن کو چند دن روز قبل ناممکن قرار دیا جا رہاتھا، عوام کے اعتماد میں اضافہ ہورہا ہے،اور انہیں اپنی اجتماعی قوت کا احساس ہو رہا ہے۔ انہیں شاید اس امر کا پورا ادراک نہ ہو کہ وہ کیا چاہتے ہیں لیکن انہیں یہ ضرور پتہ ہے کہ موجودہ حالات میں ایک دن اور بھی گزارنا محال ہے۔

نظم و ضبط کی عدم موجودگی کے باوجود عوام کئی مطالبات کر رہے ہیں۔ حکومت کا استعفیٰ سب سے واضح مطالبہ ہے۔ لیکن اس کے ساتھ اور بھی دیگر مطالبات ہیں جن میں سیکورٹی فورسز کی تادیبی کاروائیوں پر پابندی، تمام قید سرگرم افراد کی رہائی، عوام پر لاگو کسی بھی اضافی ٹیکس کا خاتمہ شامل ہیں۔ بیروزگاری، افراطِ زر اور کرپشن کے خلاف بھی مطالبات پیش کئے جا رہے ہیں۔

ان تمام مطالبات اور تحریک کو منظم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ سب سے پہلے تو محنت کش طبقے کو تحریک میں شامل کرنے کی ضرورت ہے جو سماج کو جام کرنے کی طاقت رکھنے والی واحد قوت ہیں۔ ابھی سے سرگرم افراد سوشل میڈیا پر پیر کے دن عام ہڑتال کا مطالبہ پھیلا رہے ہیں اور اس تجویز کو عوام کی مکمل حمایت مل رہی ہے۔ جدوجہد کو منظم کرنے کے لئے تمام فیکٹریوں، یونیورسٹیوں، محلوں اور ہر گاؤں میں کمیٹیاں منظم کرنے کی ضرورت ہے جو ہڑتال کی معاونت کریں اور ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کریں۔ لبنانی فوج کے سپاہیوں سے اپیل کرنی چاہیے کہ وہ تحریک میں شمولیت اختیار کریں۔

کمیٹیوں کو مقامی اور قومی سطح پر ایک دوسرے کے ساتھ جوڑا جائے تاکہ جدوجہد کے مطالبات پر بحث و مباحثہ کیا جائے جیسے حکومت کا خاتمہ، جبر کا خاتمہ، سیاسی قیدیوں کی رہائی، کٹوتیوں کا خاتمہ، محلوں میں بجلی اور پانی کی فراہمی، پبلک سیکٹر مزدوروں کی پنشن بحالی اور روزگار پر لاگو معطلی کی منسوخی۔ ساتھ ہی قومیانے کا سوال بھی فوری پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ دہائیوں سے حریری، میقاتی اور دیگر مٹھی بھر لبنانی اشرافیہ عوام کا خون چوس رہی ہے۔ ان کے حواریوں سمیت بشمول ریاست کو لوٹنے والوں کے تمام اثاثوں اور ملکیت کو فوری ضبط کرنا چاہیے۔ ان کی کمپنیوں اور لوٹی ہوئی دولت کو معیارِ زندگی بلند کرنے اور عمومی لبنانی سماج کی بہتری کے لئے استعمال کرنا چاہیے۔

ایک منظم تحریک کے ذریعے حکومت کو آسانی سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ یہ محنت کش طبقہ ہے جو سماج کو چلاتا ہے اور اس کی بیپناہ دولت پیدا کرتا ہے۔ مزدوروں کی اجازت کے بغیر لبنانی سماج ایک دن نہیں چل سکتا اور عام ہڑتال ان کی قوت کو پوری طرح واضح کر دے گی۔

یہ محنت کش طبقہ نہیں ہے جسے اس بحران کی قیمت ادا کرنی چاہیے بلکہ یہ لبنانی مالکان، بینکار اور سامراجی ہیں جو یہ قیمت ادا کریں۔ وہ دہائیوں سے عوام کا خون پسینہ نچوڑ کر عیاشیاں کر رہے ہیں۔ ان پر نہ تو اعتبار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہ ملکی حالات میں کوئی بہتری لا سکتے ہیں۔ یہ عوام ہے جسے سڑکوں پر اقتدار اپنے قبضے میں کرنا ہو گا۔ آپ مشرقِ وسطی میں جہاں بھی دیکھیں، انقلاب سطح سے نیچے ابل رہا ہے۔ مراکش سے الجیریا، تیونس، سوڈان، مصر، اردن اور عراق میں عوام ایک مرتبہ پھر اپنے غلیظ و مکروہ حکمرانوں کیخلاف جدوجہد میں اتر رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ایران اور ترکی جیسے ممالک میں بھی تحریک علاقائی سامراجی تصادم کی وجہ سے وقتی طور پر پسپا ہوئی ہے۔ لبنان میں ایک کامیاب انقلاب پورے خطے میں ایک ایسی چنگاری ثابت ہو سکتا ہے جو 2011ء کی تحریک سے بہت زیادہ بلند پیمانے پر تحریک کو دوبارہ ابھار سکتا ہے۔

ڈاکوؤں کی حکومت مردہ باد!
کرپٹ اشرافیہ مردہ باد!
لبنانی انقلاب کو آگے بڑھاؤ!
مشرقِ وسطی میں سوشلسٹ انقلاب کی چنگاری، لبنان کا سوشلسٹ انقلاب!

 

Comments are closed.