باغ (کشمیر): محنت کش خواتین کے عالمی دن کے سلسلے میں سیمینار کا انعقاد!

|رپورٹ: پروگریسو یوتھ الائنس، کشمیر|

11مارچ2021 کو پروگریسو یوتھ الائنس اور ریڈ ورکرز فرنٹ کے زیر اہتمام باغ میں خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے سیمینار کا انعقاد کیا گیا جس میں وومن یونیورسٹی اور بوائز ڈگری کالج سے طلبہ نے شرکت کی۔

سٹیج سیکٹری کے فرائض عنبرین نے ادا کیے۔ پہلی مقرر آمنہ تھیں، انہوں نے بات کرتے ہوے کہا کہ محنت کش خواتین کی حقیقی تاریخ کا ذکر ہمیں کہیں نہں ملتا۔ لبرلز این جی اوز اور فیمینسٹ بھی محنت کش خواتین کے دن اور تاریخ کو توڑ مروڑ کے پیش کرتے ہیں۔ وہ حکمران خواتین اور محنت کش خواتین کو ایک ہی سمجھتے ہیں اور امیر اور غریب میں فرق کرنا بھول جاتے ہیں۔ حکمران طبقے کی خواتین کے مفادات غریب محنت کش خواتین کے مفادات اور جدوجہد سے یکسر مختلف ہیں۔ ہمیں ان کے واضح فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

اس کے بعد آمنہ نے محنت کش خواتین کی حقیقی تاریخ اور جدوجہد پر روشنی ڈالی اور کہا کہ 8 مارچ کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم بس تاریخ پر ہی بحث کرتے رہیں اور محنت کش خواتین کی موجودہ حالت زار کو نظر انداز کر دیں۔ آج محنت کش خواتین شدید استحصال کا شکار ہیں اور ماضی میں جو حاصلات انہوں نے لڑ کر حاصل کیں تھیں آج ان سے واپس چھینی جا رہی ہیں۔ آج پوری دنیا میں کرونا وبا سے متاثر ہونے والی سب سے زیادہ محنت کش خواتین ہیں۔

ہراسمنٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے آمنہ نے کہا کہ پوری دنیا میں اور خاص کر پاکستان میں ہر روز نا صرف محنت کش خواتین بلکہ طالبات بھی جنسی ہراسانی کا شکار ہوتی ہیں اور ریاست اس بارے میں کسی بھی قسم کے اقدام نہیں کر رہی؎ اور مکمل ناکام ہو چکی ہے۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ تمام کالجز،یونیورسٹیز اور کارخانوں فیکٹریوں میں اینٹی ہراسمنٹ کمیٹیاں تشکیل دی جائیں۔جو ہراساں کرنے والے افراد کے خلاف موثر کاروائی کر سکیں اور ظالمانہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جو تمام تر غلاضتوں کی جڑ ہے اپنی جدوجہد کو منظم کرتے ہوئے اس کو اکھاڑ پھینکیں اور سوشلسٹ سماج کا قیام عمل میں لائیں۔ 8 مارچ کا یہی پیغام ہے۔

اس کے بعد کومل بات کو آگے بڑھاتے ہوئے محنت کش خواتین کے کردار اور جدوجہد پر بات کی۔ اس کے بعد عاقب، کومل رشید، عمار نے بھی خواتین کے حقوق پر بات کی۔اس کے بعد غفار نے کہا کہ آج کل کچھ لبرلز اور این جی اوز مظلوم محنت کش خواتین کے مسائل کو جواز بنا کر کاروبار کرتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرتے ہیں اور مسائل جوں کے توں ہیں بلکہ دن بدن بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔ ہر سال عورت مارچ کے نام سے عجیب و غریب قسم کے نعرے اور ایک طوفان بدتمیزی کا بازار گرم کیا جاتا ہے جس کا محنت کش خواتین کی زندگی ان کے مفادات یا ان کی جدوجہد سے دور دور کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔فیمینسٹ اپنی تمام تر جدوجہد کا محور اس بات کو بناتے ہیں کہ عورت پر جتنا بھی جبر ہو رہا ہے اس کی وجہ مرد ہیں لحاظہ ہمیں مردوں کے خلاف خواتین کو منظم کرنا ہو گا۔ جبکہ ہم سمجھتے ہیں کے اس ظلم و جبر اور استحصال کی وجہ یہ سرمایہ دارانہ نظام ہے اور اس نظام میں محنت کش خواتیں کا جتنا استحصال ہوتا ہے اتنا ہی مرد محنت کشوں کا بھی ہوتا ہے اور اس استحصال کے خلاف مرد محنت کشوں اور محنت کش خواتین کو شانہ بشانہ چلتے ہوئے منظم ہو کر لڑنا ہو گا اور اس نظام کا خاتمہ کرنا ہو گا۔

اس کے بعد عبید ذولفقار نے بحث کو سمیٹتے ہوئے کہا کہ عورت کی سماج میں حیثیت ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی بلکہ تاریخ میں ایسے سماج بھی گزرے جہاں نسل عورت کے نام سے چلتی تھی اور تمام اہم فیصلہ جات عورت ہی کے اختیار میں ہوتے تھے۔مگر سماج میں نجی ملکیت کے جنم لینے سے نہ صرف عورت کی اس حثیت کا خاتمہ ہوا اور پدر سری نظام کا جنم ہوا۔آج کا جو خاندان ہے پہلے ایسا نہیں تھا۔ قدیم اشتراکی عہد میں مرد اور عورت برابر تھے۔ اس کے بعد غلام داری کا آغاز ہوا اور سماج طبقات میں بٹ گیا اور یہ طبقات جاگیرداری سے ہوتے ہوئے آج سرمایہ داری میں بھی موجود ہیں۔ موجودہ خاندانی نظام بھی ایک ارتقائی عمل کا نتیجہ ہے اور یہ عورت کے استحصال کی بنیادہے۔ سرمایہ داری کے اندر رہتے ہوئے اس کے تمام تر اداروں میں کسی قسم کی اصلاحات کی کوئی گنجائش موجود نہیں اور یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے تمام تر ادارے بوسیدہ ہو چکے ہیں اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ اس نظام کو ختم کرنا ہوگااور اس کی جگہ شوشلسٹ سماج قائم کرناہوگا اور وہ ایک ہی صورت میں ہو گا جب نا صرف محنت کش خواتین بلکہ پوری دنیا کے محنت کش مل کر اور منظم ہو کر جدوجہد کا حصہ نہیں بنتے۔ ہر قسم کے استحصال غربت، جہالت، پسماندگی اور بیرزگاری کا خاتمہ سرمایہ دارانہ نظام کے خاتمے کے ساتھ ہی ممکن ہے۔ 

Comments are closed.