سندھ میں’’گرما گرمی‘‘


تحریر: پارس جان
کئی دنوں سے اخبارات اور ٹی وی چینل سندھ میں ہونے والی ممکنہ سیاسی تبدیلی کا بہت ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں۔ زرداری اور اس کے حواریوں پر جعلی اکاؤنٹس کے مقدمے میں بننے والی جوائنٹ انویسٹی گیشن (JIT ) کی رپورٹ کے منظرعام پر آنے کے بعد جیسے ایک دم تہلکہ سا مچ گیا ہے۔ 27 دسمبر کو بے نظیر بھٹو کی برسی کے جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے گڑھی خدا بخش میں آصف علی زرداری اور بلاول دونوں نے حکومت وقت اور ان کے پس پشت ریاستی طاقتوں کو خوب لتاڑا۔ انہوں نے انتخابات میں دھاندلی سے لے کر نیب کے ذریعے انتقامی کاروائیوں کا خاص طور پر ذکر کیا۔ بالخصوص بلاول نے اپنے خطاب میں درجن کے لگ بھگ دفعہ’’اس ملک کے ٹھیکیداروں‘‘ کو مخاطب کرتے ہوئے خبردار کیا کہ وفاق خطرے میں ہے، ملک تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے وغیرہ وغیرہ۔ سب سے اہم یہ ہے کہ بلاول نے اپنے خطاب میں پی ٹی ایم کی تحریک کا حوالہ بھی دیا اورایجنسیوں کو لتاڑتے ہوئے کہا کہ ’’دارالحکومت سے ایک سینئر پولیس افسر اغوا کر کے بیرون ملک لے جا کر قتل کر دیا جاتا ہے اور آپ بے خبر رہتے ہو مگر میرے ناشتے کے بل آپ ڈھونڈ نکالتے ہو۔‘‘ ظاہر ہے کہ اس طرح کے جملے سطح کے نیچے مسلسل پکنے والے تضادات کے نکتہ ابال کی طرف پہنچ جانے کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ہیں۔ یہ کوئی بہت زیادہ پرانی بات نہیں کہ جب پیپلزپارٹی کی اسی’’جمہوریت پسند‘‘ قیادت نے انہی ’’ملک کے ٹھیکیداروں‘‘ کے ساتھ مل کر بلکہ ان کی ایما پر نہ صرف بلوچستان میں نواز شریف کی اتحادی حکومت کا تختہ الٹا تھا بلکہ سینٹ میں بھی تاریخ کی بدترین’’خرید و فروخت‘‘ کا بازار گرم کیا تھا۔ بلاول کے ترجمان نے ابھی حال ہی میں ان اقدامات کو پیپلزپارٹی حکومت کی سنگین غلطی قرار دیا ہے۔ لیکن یہ اعتراف قطعی طور پر پارٹی کے مستقبل کی سمت کا تعین کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔

پیپلز پارٹی گزشتہ کئی دہائیوں سے مسلسل بدعنوانی، نوکریوں کی خرید و فروخت، لینڈ گریبنگ، منی لانڈرنگ اور حتیٰ کہ بھتہ خوری جیسے سنگین ترین جرائم میں سر سے پاؤں تک لتھڑ چکی ہے۔ ایسے میں واپس مزاحمتی کردار کی طرف چھلانگ کسی دیوانے کا خواب ہی قرار دی جا سکتی ہے۔ درحقیقت یہ موشگافیاں بروقت بلیک میلنگ کی کاروائی کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں۔ زرداری جانتا ہے کہ وہ اکیلا بدعنوانی کا بے تاج بادشاہ نہیں بنا ہے بلکہ’’مقدس گائے‘‘ سمیت اس بہتی گنگا میں سبھی نے ہاتھ دھوئے ہیں اور اب ان بظاہر یکجا اور مربوط دکھائی دینے والے اداروں میں بھی لوٹ مار کے اس مال کے اتنے بڑے حجم نے شدید دراڑیں ڈال دی ہیں جس کے باعث ریاست کے لئے یہ نام نہاد آپریشن کلین اپ جاری رکھنا بھی اتنا آسان نہیں ہو گا۔ پالیسی سازوں کو بند گلی میں پھنسا دیکھ کر آصف علی زرداری خود اپنے لیے پتلی گلی تلاش کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ مگر یہ سارا عمل ریاستی بحرانوں کو مزید مہمیز دے رہا ہے اور یہ کسی کے بھی کنٹرول سے نکل کر پورے ریاستی ڈھانچے کے دھڑن تختے کے امکانات روشن کر سکتا ہے۔
آصف علی زرداری اور اس کے حواریوں کی کرپشن کوئی الجبرا کا مشکل سوال نہیں ہے جس پر لمبی چوڑی سر کھپائی یا تحقیقات درکار ہوں۔ سندھ کا ہر ذی شعور شخص جانتا ہے گزشتہ دو ادوارحکومت میں سندھ میں دھڑلے سے ہونے والی کرپشن محاوروں اور ضرب الامثال کی شکل اختیار کر گئی ہے لیکن اس سے پہلے بھی موصوف کچھ مقدمات سے بری ہو چکے ہیں۔ مسئلہ یہ فرسودہ اور طبقاتی عدالتی نظام ہے جس میں طاقتور نے چاہے جتنے بھی جرائم کیے ہوں ، اس کے لیے بچنے کا کوئی نہ کوئی راستہ نکل ہی آتا ہے اور کسی کمزور یا غریب شخص نے غیر دانستہ یا بھول چوک سے بھی اگر کوئی تھوڑی سے غلطی کر دی ہو تو اس کے لیے تعزیز ناگزیر ہو جاتی ہے۔ آئین، قانون، عدالتی نظام، افسر شاہی اور ریاستی مشینری سب ایک مجرد اصول انصاف کا راگ ضرور الاپ سکتے ہیں مگر ان کے ہاں انصاف کی تعریف اور تشریح ہمیشہ نظریہ ضرورت اور طاقت کے توازن کی بنیاد پر ہی کی جاتی ہے۔ اس کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں لینا چاہیے کہ آصف علی زرداری یا اس کے خاندان کو سزائیں ہونے کے امکانات نہیں ہیں یا پھر یہ کہ نواز شریف کو اس لئے پابندِسلاسل کیا گیا ہے کہ وہ ایک کمزور آدمی ہے بلکہ ان تمام لڑائیوں، چپقلشوں اور نورا کشتیوں کو ایک ہوا میں معلق ریاستی مشینری کے مختلف دھڑوں کے مابین رسہ کشی اور طاقت کے فی الوقت توازن میں ہی سمجھا جانا چاہیے اور ظاہر ہے کہ یہ توازن جامد، مستقل اور پائیدار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

تحریک انصاف کی حکومت کی سندھ فتح کرنے کی حالیہ کوشش ان کی دیگر ٹامک ٹوئیوں اور ہوا میں ہاتھ پاؤں چلانے کی پالیسیوں کا ہی تسلسل ہے۔ وہ اپنے انتخابی منشور کے کسی ایک بھی نعرے پر پورا نہیں اتر پائے اور ان کی بے بسی کا اظہار ان کی صورتحال کو سمجھ سکنے کی نا اہلیت میں بار بار ہوتا رہا ہے۔ معاشی پالیسی کی ہی مثال لے لیجئے جس میں صرف 100 دن میں ہی حکومت منہ کے بل آ گری ہے۔ کہاں ایک کروڑ نوکریاں اور کہاں مرغیوں کے انڈے، کہاں پچاس لاکھ نئے گھر اور کہاں کٹّوں کی فارمنگ وغیرہ۔ اسی طرح دیگر تمام شعبوں میں بھی حکومت کی نا اہلیت اور نا تجربہ کاری کھل کر اپنا اظہار کر رہی ہے جس کے باعث خود حکومتی پارٹی کے اندر مصنوعی طور پر قائم مرکزیت غیر مستحکم ہونا شروع ہو گئی ہے اس لئے دوسری پارٹیوں یعنی اپوزیشن کے ساتھ محاذ آرائی کے علاوہ فی الوقت قیادت کو پارٹی اور حکومت دونوں کو بچانے کی کوئی اور راہ سجھائی ہی نہیں دے رہی۔ اس سے قبل ناجائز تجاوزات کے خلاف بے ہنگم آپریشن کا آغاز کیا گیا جو ابھی تک جاری ہے مگر اس طرح کے اقدامات سے خود پارٹی کے اندر بھی تناؤبننا شروع ہو گیا تھا۔ اس لئے حکومت اور اپوزیشن کے مابین خوشگوار تعلقات کا تصور بھی محال ہو چکا ہے بلکہ یہ بھی بعید از قیاس نہیں کہ خود حکومت اور ان کے حقیقی آقاؤں یعنی بلاول کے الفاظ میں اس ’’ملک کے حقیقی ٹھیکیداروں‘‘ کے درمیان بھی تضادات کسی کی بھی توقع کے برعکس منظرعام پر آ جائیں۔ ہم مارکس وادی پہلے ہی اس کا تناظر پیش کر چکے ہیں۔ اتنے شدید انتظار، ریاضت، کاسہ لیسی، اوچھے پن اور خوشامد کے بعد حاصل کی گئی حکومت کی لرزتی بنیادیں دیکھ کر کپتان اپنی توپوں کا رخ بالکل مخالف سمت میں بھی موڑ سکتا ہے۔ اور اگر ایسا ہوا تو ایسا پہلی دفعہ تو نہیں ہو گا کیونکہ نواز لیگ، پیپلزپارٹی، قوم پرست پارٹیاں حتیٰ کہ مذہبی پارٹیاں ان میں سے کیا کوئی ایک بھی ایسا ہے جس نے حسب موقع اور حسب ضرورت ریاستی اداروں کے دستِشفقت سے استفادہ حاصل نہ کیا ہو اور بعد ازاں انہی کے ساتھ ان کے تضادات نہ ابھرے ہوں اور ان کے آقاؤں نے انہیں ’’نمک حرام‘‘ نہ قرار دیا ہو۔ مولانا فضل الرحمان کو ہی دیکھ لیں۔ ابھی عالمی معیشت اور اس ریاست کے منطقی انجام کی طرف سفر کی رفتار تیز ہو جانے کے باعث یہ عمل بھی تیز رفتار ہوتا جا رہا ہے۔ وفادار کے غدار اور آقا کے ظالم بننے میں اب زیادہ وقت نہیں لگتا۔ اگر یہ حکومت ناکام ہوتی ہے تو اس کے بعد بننے والی کوئی بھی حکومت اس سے بھی زیادہ غیر مستحکم ہی ہو گی۔

ملک کے ٹھیکیداروں کے لیے بھی مذکورہ بالا صورتحال سے محفوظ رہنے یا اسے تاخیر زدہ کرنے کا ابھی موجودہ حالات میں ایک ہی نسخہ کیمیا ہے ۔ وہ یہ کہ حکومت ان کے لیے ساری دنیا سے بھیک بھی مانگتی رہے، عوام پر عالمی مالیاتی اداروں کے دباؤ میں شدید ترین حملے بھی کرتی رہے، مزاحمتی تحریکوں پر جبر کی غیر مشروط حمایت بھی کرتی رہے اور عوام اور میڈیا کے سامنے اپنے آپ کو بری الذمہ یا سرخرو قرار دینے کے لئے اپوزیشن کے خلاف کرپشن وغیرہ کے معاملے پر مستقل محاذ آرائی بھی جاری رکھے۔ جیسے بہت سے حکومتی وزیر جو کہ دراصل ان ٹھیکیداروں کے ہی ذیلی چمچے یا بھڑوے قرار دیئے جا سکتے ہیں ہر سوال کا ایک ہی جواب دیتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمیں تو مینڈیٹ ہی بدعنوان لوگوں کو کیفرِکردار تک پہنچانے کا ملا ہے۔ غربت ، مہنگائی غیرہ کے مسائل بعد میں دیکھے جائیں گے۔ حکومت اور ان کے آقاؤں دونوں کے لئے حالیہ پالیسیوں کے تسلسل کی اپنی اپنی وجوہات ہیں۔ مگر یہ ساری صورتحال کب تک ان کے قابو میں رہتی ہے اس کا تعین کرنا اتنا آسان نہیں ہے۔

گھوٹکی کے جاگیرداروں کی پرتعیش جلوت گاہوں کی یاترا کے باوجود تحریک انصاف کے لیے سندھ میں حکومت بنانا مشکل دکھائی دے رہا ہے۔ 30 کے لگ بھگ صوبائی اسمبلی کے ممبران کی ضرورت ہے۔ مراد علی شاہ کے استعفے کے مطالبے پر خود حکومتی وزرا کو بھی خجالت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کیونکہ جن بنیادوں پر تحریک انصاف وزیراعلیٰ سندھ کا استعفیٰ طلب کر رہی ہے انہی بنیادوں پر وزیراعظم اور وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا کو بھی استعفیٰ دینا پڑے گا۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت بہت مضبوط ہے۔ اس کے برعکس مختلف جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ پر مبنی یہ حکومت جمہوری بنیادوں پر انتہائی ناپائیدار ہے کیونکہ یہ جاگیر دار ہمیشہ ملک کے ٹھیکیداروں کے دم چھلوں کا ہی کردار ادا کرتے رہے ہیں مگر اب ان کو بھی زیادہ قابل بھروسہ ضمانتیں درکار ہیں۔ دوسرے الفاظ میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آصف علی زرداری اپنی حکومت کی مضبوطی کے برخلاف مرکزی حکومت اور ان کے آقاؤں کی کمزوری پر زیادہ اکتفا کر رہا ہے۔ اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ مرکزی حکومت سندھ حکومت سے بھی کئی گنا زیادہ کمزور ہے جہاں صرف 6 ممبران اسمبلی کے ادھر ادھر ہونے سے صورتحال ڈرامائی انداز میں تبدیل ہو سکتی ہے۔ اس لڑائی کے ضرورت سے زیادہ طوالت اختیار کر جانے کے باعث ریاستی ادارے پھر نئے سیاسی توازن کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف خود سندھ حکومت پر فیصلہ کن حملہ کرنے سے پہلے خود پسپائی کا راستہ بھی اختیار کر سکتی ہے۔ فواد چوہدری کا دورہ کراچی منسوخ ہونا اسی ہچکچاہٹ کا اظہار ہے۔ اس وقت یہ تمام فریقین جس اہم عنصر کو مکمل طور پر نظرانداز کر رہے ہیں وہ عوام اور ان کی حالتِزار ہے۔ عوام کے صبر اور برداشت کا پیمانہ پہلے ہی لبریز ہو چکا ہے۔ نئے سال پر عوام پر مزید اربوں روپے کے ٹیکس لگائے جا رہے ہیں ساتھ ہی صحت اور تعلیم جیسی بنیادی ضروریات کی نجکاری صورتحال کو اور بھی دھماکہ خیز شکل دے گی۔ عوام نے تبدیلی سرکار کے انتہائی ناخوشگوار تجربے سے انتہائی اہم اسباق سیکھے ہیں اور اب کی بار جب وہ تاریخی عمل میں وارد ہوں گے تو اسے منطقی انجام تک پہنچا کر ہی دم لیں گے۔

Tags: × × ×

Comments are closed.