سوشلسٹ انقلاب ہی نجات کا واحد رستہ ہے!

|تحریر: آدم پال|

سرمایہ دارانہ نظام کی ناکامی آج پوری دنیا پر واضح ہو چکی ہے اور دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک بھی بد ترین بحران کا شکار ہیں۔ عالمی منڈیاں بد ترین گراوٹ کا شکار ہیں اور دیوہیکل معیشتیں گھٹنوں کے بل چل رہی ہیں۔ اس بحرا ن کی وجہ کرونا وبا نہیں ہے بلکہ یہ وباپہلے سے موجود بحران کو ایک معیاری جست لگانے کا بہانہ بنی ہے۔ یہ سب کچھ ایک طویل عرصے سے پنپ رہا تھا اور مارکسسٹ اس حوالے سے بار بار اشارہ بھی کر رہے تھے۔ لیکن حکمران طبقات کے مفادات کا تحفظ کرنے والے دانشور، تجزیہ کار اور معیشت دان یہ سب کچھ تسلیم کرنے سے انکار کر رہے تھے اور مسلسل یہ باور کرانے کی کوششیں کر رہے تھے کہ جلد یا بدیر ان بحرانوں پر قابو پا لیا جائے گا اور صورتحال دوبارہ پہلے کی طرح معمول پر آ جائے گی۔ لیکن بحران سے نکلنے کی جتنی کوششیں کی جاتی تھیں ان سے بحران مزید گہرا ہوتا چلا جاتا تھا۔ ان معاشی تبدیلیوں کے وسیع سیاسی اور سماجی اثرات بھی مرتب ہو رہے تھے جس سے نظر آرہا تھا کہ کمزور ریاستیں ٹوٹ رہی تھیں جبکہ پرانے معمول کے دوران بننے والی سیاسی پارٹیاں دم توڑ رہی تھیں اور ان کی جگہ نئی تحریکیں اور عوامی پارٹیاں ابھر رہی تھیں۔ یہ رجحان دنیا بھر میں موجود تھا اور واضح طور پر آنے والے دور کی جانب راہنمائی کر رہا تھا۔ لیکن اپنی عقل پر اپنے ذاتی مفادات کی پٹی باندھنے والے لوگ اور کرائے کے دانشور یہ سب کچھ دیکھنے سے قاصر تھے اور مارکسسٹوں کو ہد ف تنقید بناتے ہوئے انہیں دیوانگی کے طعنے دیتے تھے۔ لیکن آج دنیا بھر پر ایک نظر دوڑائیں تو جاننا مشکل نہیں کہ کون غلط تھا اور کون درست۔

آج دنیا جتنے بڑے بحران میں داخل ہو چکی ہے اس کا موازنہ ماضی کی کسی بھی صورتحال سے نہیں کیا جا سکتا۔ عالمی سطح پر ناقابل تسخیر سمجھی جانے والی قوتیں اور دیو ہیکل طاقتیں شکست و ریخت کا شکار ہیں اور زمین بوس ہونے کی جانب بڑھ رہی ہیں۔ امریکی سامراج بلا شبہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی عسکری اور معاشی طاقت تھی لیکن آج یہ اپنے ملک میں لاکھوں افراد کو مرنے سے بچا نہیں پا رہی دوسری جانب مالیاتی بحران اس کی جڑوں کو کھوکھلا کرتا جا رہا ہے اور حکمران طبقہ اس سے باہر نکلنے کے لیے کچھ بھی نہیں کر سکتا۔ یہ اپنے ملک میں تیل کی قیمتوں کو بھی کنٹرول نہیں کر سکے جو صفر تک پہنچنے کے بعد تیزی سے منفی قیمتوں میں جا پہنچی جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ دیگر تمام شعبوں کی صورتحال بھی مختلف نہیں اور وہ بھی انتہائی تیزی سے ترقیٔ معکوس کی جانب رواں دواں ہیں۔ صرف چند ہفتوں میں چار کروڑ سے زائد افراد بیروزگار ہو چکے ہیں اور سرکاری سطح پر راشن تقسیم کرنے والے مراکز کے باہر نہ ختم ہونے والی لائنیں لگی ہوئی ہیں۔ یہ اس سامراجی طاقت کے عوام کی حالت ہے جو پوری دنیا کا نظام چلانے کے لیے اور اپنی طاقت مسلط کرنے کے لیے اربوں ڈالر کے اخراجات کیا کرتا تھا۔ انہی مالیاتی بنیادوں کے کمزور ہونے کے باعث عالمی سطح پر موجود تمام تر تعلقات، سامراجی ادارے اور حکمران طبقے کی سیاست خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے۔ تین دہائی قبل ”تاریخ کے خاتمے“ کا اعلان کرنے والے دانشور اور ان پر ایمان لانے والے ان کے حواری اب منہ میں انگلیاں دبائے حیرت اور پھٹی آنکھوں سے ان حالات کا نظارہ کر رہے ہیں لیکن راڈار کی طرح حرکت کرتی ان کی کھوپڑیوں میں کوئی بھی قابل فہم سگنل موصول نہیں ہو رہا۔

اس صورتحال نے مارکسی نظریات اور جدلیاتی مادیت کے طریقہ کار کی فوقیت واضح کر دی ہے اور روز روشن کی طرح یہ نظر آ رہاہے کہ ڈیڑھ سو سال سے بھی زیادہ عرصہ پہلے لکھے گئے کمیونسٹ مینی فیسٹو کے الفاظ آج کہیں زیادہ سچے اور درست ہیں۔ مارکسی نظریات کو پرانے اور غیر متعلقہ کہنے والوں کی بھی آوازیں حلق میں پھنسی ہوئی ہیں اور وہ اب انتہائی نحیف آواز میں خود کو مارکس کا پیروکار ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ لیکن صرف ایسا کہنا ضروری نہیں بلکہ حالات کا درست تجزیہ کرنے اور مستقبل کی پیش بندی کرنے کے لیے اس طریقہ کار کو اپنانے کی ضرورت ہے۔ ان دانشوروں کے خیال میں صورتحال ابھی بھی مکمل طور پر کنٹرول سے باہر نہیں ہوئی اور جیسے ہی لاک ڈاؤن ختم ہو گا بہت بڑے پیمانے پر کاوشوں کے ذریعے حکمران طبقہ اس صورتحال کو کنٹرول کر لے گا۔ ان کے خیال میں اس دوران عوامی جانوں کا نقصان تو ہو گا لیکن نظام کو بچا لیا جائے گا۔ ان خیالات کی بنیاد پر بھی امریکی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام کی حتمی فتح کے نظریات موجو د ہیں اور وہ یہ سوچنے کی صلاحیت سے ہی عاری ہیں کہ اگر امریکی سامراج اور اس کے تحت بنائے گئے ادارے ختم ہو جائیں تو دنیا کیسے چلے گی۔ ان کے لیے ایسا ہونا قیامت کا سماں ہو گا اور سب کچھ ختم ہو جائے گا۔ درحقیقت، وہ نظام کے خاتمے کے عمل کو دنیا کے خاتمے کا عمل بنا کر پیش کرتے ہیں اور ایسا پہلی دفعہ نہیں ہو رہا۔

web-Global coronavirus rescue

جب غلام دارانہ طرز پیداوار کا خاتمہ ہو رہا تھا اور سلطنتِ روم زوال اور انہدام کے عمل سے گزر رہی تھی اس وقت بھی ایسا ہی کہا اور سمجھا جاتا تھا۔ اس وقت انسانی تہذیب کی معراج سلطنتِ روم کو ہی سمجھا اور جانا جاتا تھا اور اس کی مضبوط گرفت سماج کے ہر شعبے پر موجود تھی۔ کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سب کچھ ختم بھی ہو سکتا ہے اور قیصرِ روم کے احکامات کے بغیر بھی دنیا کا نظام چلایا جا سکتا ہے۔ لیکن جب غلام دارانہ نظام اور اس کے گرد بننے والا سماجی و معاشی نظام سماج کو مزید ترقی دینے کے قابل نہیں رہا تو اس کا زوال اور انہدام نا گزیر تھا۔ جاگیر دارانہ نظام کے خاتمے اور سرمایہ دارانہ نظام کے آغاز پر دنیا کی صورتحال کسی قیامت سے کم نہیں تھی اور اس وقت کی بے شمار ایسی تحریریں موجود ہیں جن میں اس کو دنیا کے خاتمے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس وقت بھی وباؤں کے نتیجے میں آبادیوں کی بہت بڑی اکثریت مر رہی تھی جبکہ بھوک اور بیماری کے ہاتھوں یورپ سمیت دنیا کے مختلف حصوں میں کسانوں کی بغاوتیں، انقلابی سرکشیاں اور تحریکیں موجود تھیں جو ایک نئے سماجی معاشی نظام کی بنیاد رکھ رہی تھیں۔
اگر گزشتہ کچھ سالوں میں دنیا بھر میں دیکھا جائے تو انقلابی تحریکوں اور بغاوتوں کی تعداد میں تیز ترین اضافہ ہوا ہے اور یہ سلسلہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس نظام کے حکمرانوں کے پاس ان بحرانوں سے نکلنے کا کوئی رستہ موجود نہیں۔ ماضی کی نسبت آج ایک اہم فرق یہ ہے کہ محنت کش طبقے کی تعداد میں دیو ہیکل اضافہ ہو چکا ہے اور وہ اربوں کی تعداد میں نہ صرف موجود ہے بلکہ مواصلات کے جدید ذرائع کے باعث ایک دوسرے سے پہلے کی نسبت زیادہ قریب ہے۔ اس کے علاوہ سرمایہ دارانہ نظام کے اپنے طرزِ پیداوار نے دنیا بھر کے محنت کشوں کی تقدیر کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا ہے۔ ایسے میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ امریکی سامراج اور اس نظام کی طاقت مسلسل زوال پذیر ہے اور اس کے موجود تمام تر ادارے کمزور ہو کر ٹوٹ رہے ہیں۔

ان میں اس نظام کے تحت بننے والا ریاست کا ادارہ بھی شامل ہے جوآج انسانی سماج کی ترقی میں ایک بہت بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ جدید قومی ریاست کا تصور سرمایہ دارانہ نظام کے ساتھ ہی ابھرا تھا جب نجی ملکیت کے تعلقات میں بنیادی تبدیلی آئی تھی۔ اس سے قبل بھی تاریخ میں ریاست کا ادارہ نجی ملکیت کے ابھرنے کے بعد ہی وجود میں آیا تھا۔ آج ملٹی نیشنل کمپنیوں سے لے کر عالمی مالیاتی ادارے اس ادارے کی حدود سے مسلسل تجاوز کرتے رہتے ہیں لیکن محنت کش طبقے پر اپنے جبر کو جاری رکھنے کے لیے انہیں اس کی ضرورت بھی پیش آتی ہے۔ لیکن ذرائع پیداوار کی ترقی اس ادارے کے تاریخی استرداد کو بھی واضح کرتی رہتی ہے۔ کرونا وبا کے بعد آن لائن سرگرمیوں میں برق رفتار تیزی نے اس ادارے کی محدودیت کو مزید واضح کر دیا ہے۔ تیل کی قیمتوں میں تاریخی گراوٹ بھی بہت سی ریاستوں کی بنیادوں کو فنا کرنے کا باعث بنے گی۔

اسی طرح، عالمی سطح پر بننے والے سامراجی مالیاتی ادارے اور دیگر اقوام متحدہ و یورپی یونین جیسی تنظیمیں ہیں۔ کرونا وبا نے ان کے خصی پن کو دنیا بھر میں عیاں کر دیا ہے۔ وبا کے دوران یورپی یونین عملی طور پر غیر فعال نظر آیا جب ہر ملک کے حکمران نے خود کو بچانے کے لیے دوسروں کو نقصان پہنچانے کی پوری کوشش کی۔ اسی طرح، عالمی ادارہئ صحت کی ادویات اور طبی آلات بنانے والی منافع خورملٹی نیشنل کمپنیوں اور انسانی جانوں سے کھیلنے والے سرمایہ داروں کے سامنے بے بسی دنیا بھر میں نظر آئی۔ یہی صورتحال دیگر تمام اداروں کی ہے۔ لیکن اس کے باوجود بہت سے دانشور اور سیاسی کارکنا ن یہ تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں کہ یہ تمام ورلڈ آرڈرختم بھی ہو سکتا ہے اور آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے بغیر بھی دنیا موجود رہ سکتی ہے۔

اس لیے ضروری ہے کہ متبادل سماجی معاشی نظام پر تفصیلی گفتگو کی جائے اور اس کے ابتدائی خدو خال کا ایک خاکہ بحث کے لیے پیش کیا جائے۔ یقینا انسانی سماج زندہ طاقتوں کی کشمکش کے نتیجے میں ترتیب پاتا ہے اور پہلے سے ہر عمل کے نتیجے کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ اس کے علاوہ عالمی سطح پر موجود ذرائع پیداوار اور انسانی محنت کا حجم اتنا بڑا ہے کہ اس کے پوٹینشل کا درست انداز ہ لگانے کے لیے بھی عالمی سطح کی بہت بڑی تبدیلی درکار ہے۔ اس لیے کوئی بھی آخری اور حتمی ڈھانچہ پیش کرنا اور اسی کو فیصلہ کن نتیجہ سمجھ لینا درست طریقہ کار نہیں۔ بلکہ ایک خاکہ پیش کرنے کا مقصد یہی ہے کہ اس میں مسلسل بہتری لائی جاتی رہے اور حالات کی تبدیلی کے پیش نظر اس میں اضافے کیے جائیں۔ لیکن جیسا کہ مارکسی اساتذہ کی تحریروں میں سرمایہ دارانہ نظام کی بنیادی حرکیات کا درست احاطہ کیا گیا تھا اور وہ آج بھی درست ہیں، ا س حوالے سے سوشلسٹ سماج کے حوالے سے بنیادی سماجی تعلقات کی نوعیت وہی رہے گی جس پر پہلے ہی نہ صرف تحریریں موجود ہیں بلکہ لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں برپا ہونے والے 1917ء کے سوشلسٹ انقلاب کے بعد اس کو عملی جامہ بھی پہنایا گیا تھا۔

آج اگر عالمی سطح پر سرمایہ دارانہ نظام کو اکھاڑ کر ایک سوشلسٹ سماج تعمیر کیا جاتا ہے تو دنیا بھر کے تمام تر ذرائع پیداوار اجتماعی ملکیت میں لیتے ہوئے انہیں منافعوں کے حصول یا چند افراد کی ذاتی دولت میں صرف نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیا بھر سے غربت، بھوک، بیماری اور ہر قسم کی محرومی کے خاتمے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ عالمی سطح پر موجود امیر اور غریب کی تقسیم کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے گا اور حکمران طبقے کی تمام تر دولت اور جائیدادیں اجتماعی ملکیت میں لے لی جائیں گی۔ دنیا میں موجود تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں، صنعتیں اور ذرائع پیداوار پر نجی ملکیت کا مکمل خاتمہ ہوگا اور تمام تر تکنیک اور ذرائع پیداوار محنت کشوں کے اجتماعی کنٹرول میں آ جائیں گے۔ عالمی سطح پر موجود سود خور سامراجی ادارے، بینک اور تمام مالیاتی اداروں کا خاتمہ ہوگا اور تمام تر معیشت مزدوروں کے جمہوری کنٹرول میں اجتماعی طورپر موجود ہو گی۔ منڈی کی معیشت کا خاتمہ ہوگا اور سٹاک مارکیٹوں کے جوئے سے عوام کو نجات ملے گی جس کی جگہ ایک منصوبہ بند معیشت لے گی۔ اس منصوبہ بندی کے تحت پوری دنیا میں خوراک سے لے کر لباس اور رہائش کی تمام تر بنیادی ضروریات فراہم کی جائیں گی اور پوری دنیا سے بھوک اور بے گھر ی کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ علاج اور تعلیم کی مفت فراہمی یقینی بنائی جائے گی اور میڈیکل سائنس کی تحقیق میں تمام تر وسائل استعمال کرتے ہوئے وباؤں اور مختلف بیماریوں کا مکمل خاتمہ کرنے کی جانب بڑھا جائے گا۔ اس کے علاوہ ہسپتالوں کے لیے درکار آلات اور تربیت یافتہ عملہ ایک عالمی منصوبہ بندی کے تحت فراہم کیا جائے گا۔

عالمی سطح پر نجی ملکیت کے خاتمے اور ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لینے کے بعد ریاستی جبر کی ضرورت موجود نہیں رہے گی اور نہ ہی جنگوں اور اسلحے کے انباروں کی ضرورت ہو گی۔ اس لیے تمام تر وسائل انسانی ضروریات کی تکمیل اور پھر سائنسی تحقیق میں لگائے جائیں گے تا سمندروں کی کوکھ سے لے کر خلاؤں تک کا انسانی سفر زیادہ بہتر انداز میں طے ہو سکے اور انسانی افق مزید وسعت اختیار کر سکے۔
یہ سب کرنے کے لیے عالمی سطح پر حکمران طبقے کے خلاف ایک انقلابی جنگ لڑنی پڑے گی کیونکہ دنیا بھر میں محنت کشوں پر جبر کر کے پر تعیش زندگیاں گزارنے والے حکمران کبھی بھی رضاکارانہ طور پر اقتدار سے دستبردار نہیں ہوں گے اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر حد پار کریں گے خواہ اس کے لیے کتنی ہی تباہی اور بربادی کیوں نہ پھیلانی پڑے۔

اس انقلابی تحریک کا آغاز کسی بھی ایک ملک سے ہو سکتا ہے جس میں محنت کش طبقہ اقتدار پر قبضہ کر کے ان اقدامات کا آغاز کرے اور پھر اس عمل کو بتدریج دنیا بھر کے محنت کشوں سے جوڑتے ہوئے عالمی سطح پر سوشلسٹ نظام کے قیام کی جانب بڑھے۔ 1917ء میں انقلابِ روس کے وقت بھی لینن اور ٹراٹسکی کا یہی نظریہ تھا جس کے لیے انہوں نے ملک کے نام میں سے روس کا لفظ ہی نکال دیا اور اسے سوویت یونین قرار دیا۔ ان کا خیال تھا کہ ایک دن پوری دنیا اس سوویت یونین کا حصہ بن جائے گی اور عالمی سطح پر منڈی کی انسان دشمن معیشت کا خاتمہ کرتے ہوئے منصوبہ بند معیشت قائم کی جائے گی۔ اسی مقصد کو عملی جامہ پہنانے کے لیے انہوں نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی بنیاد بھی رکھی تھی جس کے تحت محنت کشوں کی ایک عالمی جڑت بنانے کے عمل کو تیز کیا گیا۔ لینن کے بعد سٹالنسٹ زوال پذیری کے نتیجے میں ان نظریات کو خیربا د کہہ دیا گیا اور بتدریج اس انٹرنیشنل کو بھی ختم کر کے اقوام متحدہ جیسے اداروں کی بنیاد میں حصہ ڈالا گیا۔ لیکن آج ماضی کے ان تلخ تجربات سے سیکھتے ہوئے آگے بڑھا جا سکتا ہے اور اس تاریخ کو بلند پیمانے پر دہراتے ہوئے ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کے عمل کا آغاز کیا جا سکتا ہے جو اس وقت ضرورت سے زیادہ انسانیت کی بقا کا سوال بن چکا ہے۔

اگر پاکستان میں اس عمل کا آغاز ہوتا ہے تو یہاں موجود نہ صرف تمام ذرائع پیداوار کو اجتماعی ملکیت میں لیا جائے گا بلکہ تمام بینکوں، مالیاتی اداروں، صنعتوں اور معیشت کے تمام کلیدی شعبے محنت کشوں کے اجتماعی کنٹرول میں آ جائیں گے۔ امیر اور غریب کی طبقاتی تفریق کا خاتمہ ہوگا اور سماج میں پیدا ہونے والی تمام دولت اجتماعی ملکیت ہو گی اور اسے منصوبہ بندی کے تحت مزدور ریاست کے ذریعے خرچ کیا جائے گا۔ سوشلسٹ انقلاب کے بعد برطانوی سامراج کی بنائی گئی اس سرمایہ دارانہ ریاست اور اس کے تمام تر اداروں کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ برطانوی سامراج کی اپنے سامراجی جبر کو قائم رکھنے کے لیے اور اس ملک کے حکمران طبقے کی جانب سے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیے جانے والے قانون اور عدلیہ کے نظام کو ختم کیا جائے گا۔ یہ قانون نجی ملکیت کے تحفظ کے لیے بنائے گئے ہیں جبکہ سوشلسٹ سماج میں انسانی زندگی کو ہر شے پر فوقیت دی جائے گی۔ برطانوی سامراج اور سرمایہ دارانہ نظام کے اصولوں کے تحت بنائے گئے پارلیمانی نظام اور بورژوا جمہوریت کو ختم کر کے مزدور جمہوریت کا آغاز کیا جائے گا۔ مزدور جمہوریت میں باورچی وزیر اعظم بن سکے گا اور وزیر اعظم باورچی۔ اس کے علاوہ پانچ سال کی مدت کے انتخاب کے ظالمانہ طریقہ کار کا خاتمہ کر کے منتخب نمائندوں کو عوام کی جانب سے کسی بھی وقت واپس بلائے جانے کا اختیار حاصل ہو گا۔ کسی سرکاری اہلکار کی تنخواہ محنت کش سے زیادہ نہیں ہو گی۔

اس کے علاوہ دفاعی اخراجات کے نام پر لوٹ مار کا خاتمہ ہوگا اور محنت کش طبقے کی عالمی جڑت سے اس مزدور ریاست کا تحفظ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ، انقلاب کے دفاع کے لیے تمام محنت کشوں کو منظم کرتے ہوئے ایک ایسے انداز میں سرگرم کیا جائے گاجس میں حالت جنگ میں بھی تمام تر سیاسی و عسکری قیادت منتخب نمائندوں پر ہی مشتمل ہو گی۔ اسی طرح سامراجی قرضوں اور سودی نظام کا مکمل خاتمہ ہو گا اور سماج میں پیدا ہونے والی تمام تر دولت عوامی فلاح و بہبود پر خرچ ہو گی۔ جدید ترین علاج اور تعلیم ہر شخص کو مفت فراہم کرنا مزدور ریاست کی ذمہ داری ہو گی۔ اس کے علاہ ہر شخص کو روٹی، کپڑا اور مکان مزدور ریاست کی جانب سے فراہم کیا جائے گا۔

کسی بھی ایک ملک میں سوشلسٹ منصوبہ بند معیشت کا آغاز محض پہلا قدم ہو گا اور اسے ایک عالمی سوشلسٹ انقلاب کی منزل تک پہنچانا ہی اس مزدور ریاست کا حتمی مقصد ہوگا۔ عالمی سطح پر سوشلسٹ سماج کے قیام سے نہ صرف دنیا بھر میں امیر اور غریب کا نظام ختم ہو جائے گا بلکہ مزدور ریاست کی ضرورت بھی نہیں رہے گی اور پوری دنیا کا انتظام بغیر ریاست کے ادارے کے چلے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ انتظام نہیں ہوگا یا یہ کہ دنیا منظم نہیں ہوگی بلکہ آج سے کہیں زیادہ منظم انداز میں دنیا بھر کے وسائل کو استعمال کیا جائے گا اور انسان وباؤں، جنگوں اور خانہ جنگیوں کی تباہ کاریوں کا خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ بھوک، ننگ اور محرومی کا بھی خاتمہ کرے گا۔ وہ درحقیقت انسان کا ”ضرورت کے عہد سے آزادی کے عہد“ میں قدم ہوگا اور کائنات کی تسخیر کے ایک نہ رکنے والے عظیم عمل کا محض آغاز ہوگا۔

آج دنیا جس دوراہے پر موجود ہے اس سے آگے بڑھنے کا یہی ایک واحد درست راستہ ہے۔ دوسرا رستہ تباہی، بربادی، بھوک اور بیماریوں کا ہے جس میں اس ملک سمیت دنیا بھر کے حکمران پورے انسانی سماج کو دھکیل رہے ہیں اور درحقیقت نسل انسانی کے بقا کو ہی ختم کرنے کے در پے ہیں۔ اس لیے سوشلسٹ انقلاب کے لیے جدوجہد کرنا آج ہرانقلابی کی زندگی کا اولین مقصد ہونا چاہیے اور اس کے لیے ایک عالمی سطح کی انقلابی پارٹی کی تعمیر کا عمل تیزی سے آگے بڑھانا چاہیے۔ انسانی سماج کی تاریخ میں تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے یہاں تک پہنچنے کا عمل واضح کرتا ہے کہ اس نظام کے جبر اور تمام تر رکاوٹوں کے باوجود ہم اس کو شکست دیں گے اور ایک نئی دنیا کی تعمیر کا آغاز کریں گے۔

Comments are closed.