جنوبی کوریا: کلیدی انتخابات میں ’ترقی پسند‘ حکمران پارٹی کی شکست؛ انقلابی متبادل کی ضرورت!

|تحریر: سنگ یانگ پارک، ترجمہ: یار یوسفزئی|

7 اپریل 2021ء کو، جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول، اور بوسان جہاں اہم بندرگاہ بھی موجود ہے، میں ووٹروں نے حکومتی ڈیموکریٹک پارٹی (ڈی پی) کو زبردست انداز میں مسترد کیا۔ اگرچہ اس کے نتیجے میں قدامت پرست پیپل پاور پارٹی (پی پی پی) نے ان دو اہم شہروں کا اقتدار سنبھال کیا ہے مگر درحقیقت یہ جنوبی کوریا کے عوام کی جانب سے صدر ’مُون جے اِن‘ اور پورے سیاسی اسٹبلشمنٹ دونوں کے خلاف نفرت کا اظہار تھا۔ دنیا بھر کے کئی دیگر ممالک کی طرح، یہاں بھی محنت کش طبقے کے گرد منظم سیاسی متبادل کی اشد ضرورت ہے۔

انگریزی میں پڑھنے کیلئے یہاں کلک کریں

سیول اور بوسان کے شہروں میں اپریل کے دوسرے ہفتے کے اختتام پر ہونے والے یہ انتخابات میئر کے عہدے کے لیے ضمنی انتخابات تھے۔ ماضی کے اندر اس قسم کے ضمنی انتخابات میں ووٹروں کی تعداد کم رہی ہے۔ البتہ اس سال یہ تعداد پہلی مرتبہ 50 فیصد سے اوپر چلی گئی۔ ظاہر ہے کہ ووٹرز نے لبرل حکومتی پارٹی ڈی پی کو سزا دینے کے لیے ووٹنگ میں حصّہ لیا۔ سیول میں، ڈی پی کے امیدوار نے 39.2 فیصد ووٹ حاصل کیے، جبکہ ان کے اولین مخالف پی پی پی کو 57.5 فیصد ووٹ ملے۔ بوسان میں یہ مارجن اس سے بھی زیادہ تھا، جہاں پی پی پی کے امیدوار نے 62.7 فیصد جبکہ ڈی پی کے امیدوار نے 34.4 فیصد ووٹ حاصل کیے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی شرمناک شکست کسی کے لیے بھی حیران کن نہیں تھی۔ بہت بڑے پیمانے پر یہ توقع کی جا رہی تھی کہ حکومتی پارٹی کو ان انتخابات میں شکست ہوگی، کیونکہ حالیہ عرصے میں صدر مون جے اِن کی مقبولیت میں تیزی سے کمی آئی ہے، جس میں بڑے پیمانے کے کرپشن سکینڈلز نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ حالیہ انتخابات کے بعد، ڈی پی کی بہت سی اہم شخصیات شکست کھانے کے بعد استعفیٰ دینے پر مجبور ہوئے۔

یہ پچھلے سال کی نسبت صورتحال میں ایک ڈرامائی تبدیلی ہے، جب ڈی پی قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی، اور 1987ء میں جنوبی کوریا کے اندر جمہوریت بحال ہونے کے بعد اسمبلی میں سب سے بڑی اکثریت حاصل کی تھی۔ جب مون نے پہلی دفعہ اقتدار سنبھالا تب یہ لبرلز کے بیچ کافی مقبول ہوا تھا، اب اسے عوام کا حقیقی دشمن سمجھا جاتا ہے۔ اس گہری تبدیلی کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟

مون جے اِن کا عروج و زوال اور لبرلزم کا بے نقاب ہونا

مون جے اِن 2017ء میں تب صدر منتخب ہوا تھا جب جنوبی کوریا کے عوام نے دائیں بازو کے سابقہ آمر ’پارک چنگ ہی‘ کی بیٹی ’پارک گیؤن ہائے‘، کی پچھلی کرپٹ اور قدامت پرست حکومت کو گرا دیا تھا۔ مون کی قیادت میں ڈی پی خود کو تبدیلی لانے کی قوت کے طور پر متعارف کروانے میں محض اسی لیے کامیاب ہوئی کیونکہ محنت کش طبقے اور عوام کی اپنی کوئی پارٹی موجود نہیں تھی۔ مون بذاتِ خود ماضی کے اندر فوجی آمریت کے خلاف سرگرم کارکن رہا تھا، جس کی وجہ سے اسے کافی فائدہ ہوا۔

Moon Jae in Image public domain

مون جے اِن کی حکومت نے بہت جلد ہی لبرلزم کی محدویت عوام کے سامنے عیاں کر ڈالی۔

ڈی پی کا کبھی بھی یہ ارادہ نہیں تھا کہ محنت کش طبقے کے مفاد میں جنوبی کوریا کو تبدیل کر دے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈی پی اور اس کے تاریخی پیشرو، جنوبی کوریا کی بورژوازی میں سے لبرل دھڑے کی نمائندگی کرتے ہیں۔ بڑی بڑی طاقتور کارپوریشنوں کی اکثریت (جیسا کہ چائیبول) قدامت پرست پارٹیوں کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس کے باوجود، ڈی پی جنوبی کوریا کے سرمایہ دارانہ سیاسی اسٹبلشمنٹ کے ساتھ وفادار رہی ہے، جو محنت کشوں کے خلاف سرمایہ داروں کے مفادات کے حق میں سرگرم ہے۔ ہم نے 2016ء میں ہی خبر دار کیا تھا کہ جنوبی کوریا کی لبرل اپوزیشن دھوکہ دے گی۔ پانچ سال گزرنے کے بعد، جس کے دوران وباء بھی آئی، جنوبی کوریا کے محنت کش تلخ تجربات سے گزر کر اب ڈی پی کی حقیقی فطرت کے بارے میں انہی نتائج پر پہنچ رہے ہیں۔

جنوبی کوریا کی انتہائی ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ معیشت محنت کش طبقے کے ایسے استحصال پر تعمیر ہوئی تھی، جیسا کہ چارلس ڈکنز کے ناولوں میں دیکھنے کو ملتا ہے۔ یہ سب کچھ ریاستی جبر کے ذریعے یقینی بنایا گیا، جس کا ساتھ امریکی سامراج دیتا رہا۔ مزید برآں، جنوبی کوریا سرمایہ داری کے عالمی بحران، جس کی رفتار کورونا وباء نے مزید تیز کی ہے، سے محفوظ نہیں رہ پایا ہے۔ جنوبی کوریا کے محنت کش بحران سے جنم لینے والے سماجی تضادات کا بوجھ برداشت کرتے رہے ہیں۔

اس سال، 1997ء کے ایشین مالیاتی بحران کے بعد سے جنوبی کوریا میں بے روزگاری بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ برطرفیوں کے مسلسل گیارہ سالوں کے بعد، 2020ء میں بھی 9 لاکھ 80 ہزار مزید افراد نے اپنی نوکریاں کھوئی ہیں۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 9.5 فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ جنوبی کوریا کے محنت کش ہفتہ وار اوسطاً 46.8 گھنٹے کام کرتے ہیں، جبکہ خواتین محنت کشوں کے 21 فیصد کو 50 گھنٹے سے زائد کام کرنا پڑتا ہے۔ اپنی بقاء کے لیے اس بھرپور مشقت کے باوجود، او ای سی ڈی ممالک (ترقی یافتہ)  میں سے جنوبی کوریا کے عوام کے گھریلو قرض میں دوسرے نمبر پر تیز ترین اضافہ ہو رہا ہے، حتیٰ کہ کورونا وباء کے آنے سے پہلے بھی یہی صورتحال تھی۔ گھریلو قرض، ڈسپوزیبل انکم (مجموعی اجرت منفی ٹیکس) سے 190.59 فیصد زیادہ ہے۔

graph Image public domain

مون کی حمایت میں تیزی سے گراوٹ آئی ہے۔

اب جبکہ وباء کے عرصے میں بے روزگاری کی شرح آسمان کو چھو رہی ہے، مون جے اِن کی انتظامیہ کو، دنیا بھر کی تمام حکومتوں کی طرح، بہت بڑے بجٹ خسارے کا سامنا ہے۔ پچھلے سال حکومت کی جانب سے جاری کیے جانے والے سٹیمولس پیکج کے بعد ملکی بجٹ خسارہ تاریخ کی بلند ترین سطح، یعنی 846.9 کھرب وان (750.5 ارب امریکی ڈالر) پر پہنچ گیا۔ ان پیکچز کی وجہ سے، جن کی اکثریت بڑے کاروباروں کو ملے، محنت کش عوام کے اوپر پڑنے والے بحران کے بوجھ میں کمی نہیں آئی ہے۔ البتہ حکومت ابھی سے اس جانب اشارے کر رہی ہے کہ وہ 2022ء کے بجٹ میں ”قرض کی بڑھوتری کو روکنے“ کا ارادہ رکھتی ہے۔ یہ در اصل سخت معاشی اقدامات لینے کا منصوبہ ہوگا، جو بحران سے اخراجات کے ذریعے نکلنے کا ناگزیر نتیجہ ہے۔

اگرچہ پچھلے سال وباء سے نمٹنے کی وجہ سے مون کی مقبولیت میں انتہائی مختصر عرصے کے لیے اضافہ ہوا تھا، مگر اب جنوبی کوریا کے عوام اس حقیقت سے واقف ہونا شروع ہو گئے ہیں کہ ڈی پی انتظامیہ کے تحت بنیادی طور پر کچھ بھی نہیں بدلا ہے، جو محض وہی پرانی پالیسیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ عوام کی نفرت میں ایک حالیہ سکینڈل نے مزید اضافہ کیا، جب حکومتی کارپوریشن ’کوریا لینڈ اینڈ ہاؤسنگ کارپوریشن‘ نے ایک خبری کی معلومات کا فائدہ اٹھا کر زمین خریدی، جس سے جنوبی کوریا کے ان عام لوگوں کو شدید تکلیف پہنچی جو رہائش کے حوالے سے مسائل کا شکار ہیں۔ دی ڈپلومیٹ نے اس صورتحال کی یوں منظر کشی کی:

”اس سکینڈل پر شدید ردّ عمل آنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس سے جنوبی کوریا کے عوام کی اکثریت کے جذبات مجروح ہوئے ہیں، جنہیں کئی سالوں سے ریئل سٹیٹ کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا ہے۔ حتیٰ کہ رہائش کے مسائل اتنے وسیع پیمانے پر موجود ہیں کہ اس بارے میں ٹی وی کے اوپر حقیقت پر مبنی پروگرام بھی شروع ہوچکے ہیں، جیسا کہ ’ہم سیول میں گھر کی سہولت سے محروم ہیں‘ کے نام سے کیے جانے والے پروگرام میں گھر کی تلاش میں نکلنے والوں کو دکھایا جاتا ہے جو بالآخر دارالحکومت سے باہر نکل کر اپنے لیے خود گھر بنانے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔“

کیا ’لی جے میونگ‘ متبادل ہے؟

اگرچہ ڈی پی کے زوال سے پی پی پی فائدہ اٹھا رہی ہے، اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ عوام کے بیچ قدامت پرست مقبول ہو رہے ہیں۔ در حقیقت، پی پی پی کے امیدواروں کی مقبولیت مون سے بمشکل تھوڑی سی زیادہ ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے۔ پی پی پی کا جنم تاریخی طور پر تحلیل شدہ لبرٹی کوریا پارٹی میں سے ہوا ہے، جو برطرف کی گئی سابقہ صدر پارک گیؤن ہائے اور کرپشن کے مجرم سابقہ صدر لی میونگ باک کی پارٹی تھی۔ اگرچہ اس پارٹی نے کئی دفعہ نام بدلے ہیں، اس نے ہمیشہ جنوبی کوریا کی سرمایہ داری کے جابرانہ، کرپٹ، اور جعل ساز نظام کو اس حکمران طبقے کی جانب سے برقرار رکھا ہے، جو ماضی کی آمریت میں بھی حکومت میں رہے تھے۔

حالیہ ضمنی انتخابات سے ظاہر ہوتا ہے کہ کوریا کے عوام سیاسی اسٹبلشمنٹ سے اکتا چکے ہیں مگر وہ ایک قابلِ عمل متبادل سے محروم ہیں۔ جنوبی کوریا کے جہنم نما حالات (جیسا کہ بہت سے نوجوان ’جہنم جیسا کوریا‘ کا نام استعمال کرتے ہیں) سے جان چھڑانے کی اشد ضرورت محنت کشوں اور نوجوانوں کو سیاسی متبادل کی تلاش پر مجبور کر رہی ہے، وہ کسی ایسی شخصیت کی تلاش میں ہیں جو ان کے مسائل حل کر سکے۔ اس صورتحال کا ایک اظہار ڈی پی کے اندر سے بھی لی جے میونگ کی شخصیت کے ابھار کے ذریعے ہو رہا ہے۔

لی زندگی بھر ڈی پی کا ممبر رہا ہے جو گیؤنگی صوبے، جس نے سیول شہر کا احاطہ کیا ہوا ہے، کا موجودہ گورنر ہے۔ وہ اپنی جوشیلی اور پاپولسٹ بیان بازی کے حوالے سے مشہور ہے، جو امیروں کے خلاف کھڑے ہونے، عدم مساوات کا خاتمہ کرنے، عوام کو رہائش کی سہولیات دینے، امیر ریئل اسٹیٹ مالکان پر ٹیکس لگا کر بنیادی ضروری اجرت (یونیورسل بیسِک انکم) کا پروگرام لاگو کرنے کی باتوں اور چائیبول (ہیونڈائی، ایل جی، سام سنگ، دوسان اور دیگر کمپنیوں کی مدر کمپنی) کو توڑنے کی دھمکیاں دینے کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ اس قسم کے مؤقف اپنانے کی وجہ سے میڈیا میں سے بعض لوگوں نے اسے ”جنوبی کوریا کا برنی سینڈرز“ کا خطاب دیا ہے۔

Lee Image Lee Jae Myung

اس سال فروری میں، اگلے صدر کے لیے کی جانے والی ایک رائے شماری میں لی نے باقی تمام بڑی سیاسی شخصیات سے بڑے مارجن کے ساتھ برتری حاصل کی۔ حتیٰ کہ حالیہ ضمنی انتخابات میں ڈی پی کی بڑی شکست کے باوجود، لی کی شہرت میں کمی نہیں آئی ہے اور وہ اگلے سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے سب سے مقبول امیدوار ہے۔ اس امر سے مزید وضاحت ہو جاتی ہے کہ پی پی پی کی حالیہ فتح کا یہ مطلب نہیں کہ جنوبی کوریا کے عوام کا رجحان دائیں بازو کی جانب بڑھ رہا ہے۔

یہ بات قابلِ فہم ہے کہ کوریا کے بہت سے مخلص محنت کش اور نوجوان لی جیسی شخصیت سے متاثر ہوں گے، جو حکمران طبقے کے خلاف کھڑا ہوتا نظر آ رہا ہے (باتوں کی حد تک ہی سہی)۔ مگر یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ اس کی پالیسیاں بنیادی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کو للکارنے کی بجائے اس کو بچانے کے لبرل اقدامات پر مشتمل ہیں۔ بلومبرگ کے ساتھ انٹرویو میں اس نے واضح طور پر بیان کیا کہ وہ ان پالیسیوں کو کیوں سامنے لا رہا ہے: ”اگر کھپت اور طلب کا دھیان نہ رکھا جائے تو سرمایہ دارانہ نظام ٹکڑے ٹکڑے ہو سکتا ہے۔“

اس نظام کا تختہ الٹنے کی بجائے، لی کا خیال ہے کہ سرمایہ دارانہ ریاست کو بڑے کاروباروں کے ’حد سے زیادہ‘ اثر و رسوخ سے صاف کیا جا سکتا ہے، جو اس کے بعد محنت کشوں اور سرمایہ داروں کے بیچ عدم مساوات کم کرنے میں کردار ادا کرے گا۔ مزید برآں، لی اسی ڈی پی کا حصّہ ہے جو اسی سرمایہ دار طبقے کے مفادات کی خدمت پر مامور ہے جس کی وہ بظاہر مخالفت کر رہا ہے۔ بہرحال چائیبولز کو للکارنے کا واحد درست طریقہ یہ ہوگا کہ ڈی پی سے، جس سے لی کے بہت سے حامی پہلے ہی سے نفرت کرتے ہیں، علیحدگی اختیار کر کے محنت کش طبقے پر مبنی ایک پارٹی تعمیر کی جائے۔ اگر لی نے یہ علیحدگی اختیار نہ کی تو پھر وہ امریکی ریاست کے سینڈرز کی طرح، پارٹی کی سیاسی اسٹبلشمنٹ کے سامنے جھکنے اور دائیں جانب رُخ کرنے پر مجبور ہو جائے گا، جس کے نتیجے میں اس کے حامی اس سے مایوس ہو جائیں گے۔

بد قسمتی سے، اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ لی ان بنیادوں پر ڈی پی سے علیحدہ ہوگا۔ اس نے کبھی بھی محنت کش طبقے کی سیاسی آزادی کی وکالت نہیں کی ہے۔ اس کے علاوہ، وہ نہیں سمجھتا کہ جنوبی کوریا میں انقلابی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ جو بھی پروگرام نافذ کرنے کی کوشش کرے گا وہ لازمی طور پر سرمایہ دارانہ نظام کی تنگ ہوتی حدود کے اندر ہی مقید ہوگا۔ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ لی بھی برنی سینڈرز کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے محنت کشوں سے غداری کرے گا اور بورژوازی کے سامنے گھٹنے ٹیک دے گا۔ حتیٰ کہ اگر وہ بورژوا سیاسی پارٹی میں رہا تو الیکشن جیتنے کے بعد بھی یہ صورتحال کچھ مختلف نہیں ہوگی۔

ٹریڈ یونینز پر مبنی عوامی پارٹی قائم کرو!

سماج میں بہتری لانے کے حوالے سے جنوبی کوریا کا محنت کش طبقہ اپنے علاوہ کسی پر بھی بھروسہ نہیں کر سکتا۔ انہیں اپنی علیحدہ پارٹی منظم کرنے سے آغاز کرنا ہوگا، ایسی پارٹی جو چائیبولز پر قبضہ کرتے ہوئے جرأت مندانہ انداز میں محنت کش طبقے کے اقتدار میں آنے کی لڑائی لڑے گی، اور امریکی سامراج کو بے دخل کر کے حقیقی مزدور جمہوریت قائم کرے گی۔ کورین کنفیڈریشن آف ٹریڈ یونینز (کے سی ٹی یو)، جو ملک کی سب سے بڑی یونین فیڈریشن ہے، اس عمل کا آغاز کرنے کی اہل ہے۔

ایشیاء میں جنوبی کوریا کی مزدور تحریک کا لڑاکا پن مثالی حیثیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر، کئی دیگر اصلاحات کے ساتھ ساتھ حکومت کی جانب سے ’کے سی ٹی یو‘ کو قانونی حیثیت دینا، 1997ء میں ایک کامیاب عام ہڑتال کے ذریعے ہی ممکن ہو سکا تھا۔ ٹریڈ یونینز نے ان ہڑتالوں کو شروع کرنے میں بھی سرگرم کردار ادا کیا تھا جس کی وجہ سے 2016ء کی پارک حکومت گر گئی تھی۔ درست پروگرام اور قیادت کے ہوتے ہوئے، محنت کش یقیناً اس قابل ہوں گے کہ فتح حاصل کرنے کے لیے درکار سیاسی پارٹی تعمیر کر سکیں۔

Workers Image KCTU

کوریا کے محنت کشوں کی جدوجہد مثالی ہے۔ انہیں بس اپنے زور بازو پر ہی یقین کرنا ہوگا۔

مگر ہمیں اس چیز سے بھی لازمی طور پر خبردار رہنا پڑے گا کہ محض اقتدار میں آنے کی خاطر کے سی ٹی یو اور مزدور تحریک کی جانب سے سیاسی پارٹی بنانا کافی نہیں ہے۔ ایسی پارٹی جو سوشلسٹ پروگرام سے لیس اور واضح طبقاتی بنیادوں پر استوار ہو اور محنت کش طبقے کو موجودہ نظام کو بچانے کی بجائے اس کا تختہ الٹنے کے لیے متحرک کرے۔ کے سی ٹی یو نے بھی ماضی میں اس سبق کو 2000ء میں بنائی گئی ڈیموکریٹک لیبر پارٹی کے تلخ تجربات کے ذریعے سیکھا ہے۔

ڈی ایل پی کو انتخابات کے لیے بنایا گیا تھا جس میں سوشل ڈیموکریٹک ٹریڈ یونینسٹ اور کوریا کے نیشنلسٹ شامل تھے، جنہوں نے طبقاتی نقطۂ نظر کو نہیں اپنایا تھا۔ پارٹی قیادت کی یہ کوشش تھی کہ پارلیمانی سیٹیں جیتنے کے لیے پارٹی میں شامل نا قابلِ مفاہمت قوتوں کے بیچ اتحاد برقرار رکھے، جس کا نتیجہ مزید تقسیموں اور دائیں جانب جھکاؤ کی صورت میں نکلا۔

اس عمل سے کچھ بھی مثبت نتائج اخذ نہیں کیے جا سکے۔ موجودہ جسٹس پارٹی، ایک اقلیتی پارٹی، جو خود کو لیبر پارٹی کہلوانے کی بجائے ”ترقی پسند“ کہلواتی ہے، ماضی کی ان کوششوں کا ہی نتیجہ ہے۔ یہ کئی سالوں سے ڈی پی میں موجود بہت سے بورژوا عناصر کو اپنے اندر شامل کرتی رہی ہے اور اس عمل میں اپنی اس صلاحیت کو برباد کر دیا ہے جس کے ذریعے وہ جنوبی کوریا کے محنت کشوں کی آواز بن سکتی تھی۔ سب سے بڑھ کر جب 2016ء کے اندر پارک گیؤن ہائے حکومت کے خلاف جدوجہد میں ریل کے محنت کش ہڑتالوں کے ذریعے شامل ہوئے، جسٹس پارٹی اور ڈیموکریٹک پارٹی نے دائیں بازو کی پیپل پارٹی کے ساتھ مل کر ہڑتال ختم کرانے کا مطالبہ میں۔ جسٹس پارٹی آج پارلیمان میں یہ انتہائی کم تر حیثیت رکھتی ہے، جس کا قائد حالیہ عرصے میں جنسی ہراسانی کے سکینڈل کی وجہ سے مستعفی ہو گیا، اس صورتحال میں اس کی محنت کش طبقے کو درکار متبادل کے طور پر ابھرنے کی کوئی امید نہیں ہے۔

آج جنوبی کوریا کا ملک شدید تضادات سے بھرا پڑا ہے۔ چائیبولز نے بے تحاشا دولت جمع کی ہے۔ مگر یہ دولت محنت کش طبقے کے ظالمانہ استحصال اور شدید محنت کے بلبوتے پر حاصل کی گئی ہے۔ اگرچہ اس دولت کو جنوبی کوریا کے محنت کش طبقے نے پیدا کیا ہے مگر وہ خود انتہائی برے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اور کوئی بھی واضح سیاسی نمائندگی نہ ہونے کے باوجود کوریا کے صنعتی مزدوروں نے جس جرات مندانہ مزاحمت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی پورے خطے میں مثال نہیں ملتی۔ سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے، وہ ایک ایسی پارٹی ہے جو اس صنعتی جرات مندانہ مزاحمت اور طبقاتی غم و غصے کو اظہار کرنے کا درست موقع فراہم کرے۔ مزید ایک اور ’ترقی پسند‘ پارٹی کی کوئی ضرورت نہیں، بلکہ ایک ایسی پارٹی درکار ہے جو انقلابی پروگرام کے گرد منظم ٹریڈ یونینز پر مبنی ہو اور جو سرمایہ دارانہ نظام کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے کی جانب بڑھے۔

اگر مزدور تحریک درست تناظر اور حکمتِ عملی کو اپنا لے، تو پھر اقلیتی پارلیمانی دھڑے کی بجائے محنت کش طبقے کی ایک عوامی پارٹی کو تعمیر کیا جا سکتا ہے۔ اس عمل میں، موجودہ صورتحال کے پیشِ نظر قیادت کا عنصر کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ مزدوروں کی حقیقی عوامی پارٹی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ، محنت کشوں اور نوجوانوں کی سب سے ترقی یافتہ پرتوں کو مارکسی نظریے کا گہرا مطالعہ کرنے کی بھی ضرورت ہے، جو سرمایہ داری کے خلاف جنگ اور سوشلسٹ سماج کے قیام میں ان کی مدد کرے گا۔ ہم عالمی مارکسی رجحان کی جانب سے تمام مخلص محنت کشوں اور لڑاکا نوجوانوں کو اس عالمی جدوجہد میں ہمارا حصہ بننے کی دعوت دیتے ہیں۔

Comments are closed.