مشعل خان کا ریاستی پشت پناہی میں بہیمانہ قتل؛ مذہب کی سیاست

|تحریر: آدم پال|

مشعل خان

جمعرات 13اپریل کو مردان یونیورسٹی میں درندگی اور بربریت پر مبنی ایک دلخراش واقعہ دیکھا گیا۔ جرنلزم کے طالبعلم مشعل خان کو سفاک درندوں نے بہیمانہ تشدد کے ذریعے قتل کر دیا اور قتل کرنے کے بعد اس کی نعش کی تذلیل اور بے حرمتی کی گئی۔ کسی بھی انسان کے لیے اس واقعہ کی ویڈیوز دیکھنا اور اس کی تفصیلات سننا ایک کرب اور اذیت سے کم نہیں۔ ویڈیو دیکھ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔

مشعل خان کو پہلے کمرے سے گھسیٹ کر باہر نکالاگیا اور پولیس اور دیگر سکیورٹی اداروں کی موجودگی میں اس کو گولی ماری گئی اور بد ترین تشدد کیا گیا۔ یہ تمام تر کاروائی کرنے والے کسی بھی طورپر انسان کہلانے کے حقدار نہیں اور اس انسانیت سوز جرم کرنے والوں کی حمایت کرنے والے بھی انسانیت کے دشمن ہیں جن کیخلاف ایک ناقابل مصالحت جنگ کی ضرورت ہے۔

مردان یونیورسٹی سمیت پاکستان کی تمام یونیورسٹیوں کو گزشتہ عرصے میں سکیورٹی کے نام پر جیلوں میں تبدیل کر دیا گیاہے۔ یونیورسٹیوں کے مین گیٹ پر فوج یا پیرا ملٹری دستے مستقل تعینات ہیں۔ اس کے بعد پولیس کا نمبر آتا ہے جسے تقریباً ہر ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ہر یونیورسٹی نے اپنے سکیورٹی گارڈ بڑے پیمانے پر بھرتی کیے ہیں جو انتظامیہ کے احکامات کے مطابق طلبہ کی سکیورٹی کے نام پر تذلیل جاری رکھتے ہیں۔ تعلیمی اداروں کے اندر ناکے لگائے گئے ہیں جہاں شناختی کارڈ، سٹوڈنٹ کارڈ یا تلاشی وغیرہ کے نام پر طلبہ کو مسلسل ہراساں کیا جاتا ہے۔ خفیہ ادارے بھی تعلیمی اداروں میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی انتظامیہ بھی طلبہ کے لیے مشکلات اور مسائل میں اضافے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی جبکہ اس دوران بد عنوانی اور لوٹ مار کی نئی تاریخ رقم کی جاتی ہے۔ سکیورٹی اخراجات میں اضافہ طلبہ کی فیسوں میں اضافے سے پورا کیا جاتا ہے۔ اور انتظامیہ بغیر کسی روک ٹوک کے اپنی مرضی سے فیسوں میں اضافہ کرنے کی مجاز ہے۔ یونیورسٹیوں کی چار دیواریوں پر خارد ار تاریں لگائی گئی ہیں اور ہاسٹل فوجی بیرکوں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ایسے میں پچاس سے سو افراد کس طرح ایک طالبعلم پر جھوٹے الزامات لگا کر اس پر تشدد کر کے قتل کر سکتے ہیں جب تک اس میں انتظامیہ، سکیورٹی اداروں اور ریاست کی پشت پناہی شامل نہ ہو۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق جس وقت مشعل خان کو قتل کیا گیا اس وقت پولیس کو اطلاع کی جا چکی تھی اور وہ موقع پر موجود تھی۔ لیکن ابھی تک اس سوال کو کسی بھی اخبار یا ٹی وی کی جانب سے نہیں اٹھایا گیا۔ نہ ہی یہ سوال اٹھایا جا رہا ہے کہ یونیورسٹی میں اتنے بڑے پیمانے پر موجودسکیورٹی اہلکاراس سارے واقعے کے دوران کیا کر رہے تھے۔ فوج، پولیس اور سکیورٹی گارڈ سمیت وہاں تعینات تمام افراد کی بظاہرذمہ داری ہے اور انہیں اس بات کی تنخواہ دی جاتی ہے کہ کسی بھی غیر قانونی سرگرمی یا دہشت گردی کے کسی واقعے کی صورت میں فوری طور پر رد عمل کریں اور اس واقعے کو رونما ہونے سے روکیں۔ لیکن یہاں نظر آتا ہے کہ نہ صرف یہ کہ اس واقعے کو روکنے میں تمام ادارے ہمیشہ کی طرح مکمل طور پر ناکام رہے بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کی گئی اور تعلیمی اداروں میں دہشت اور بربریت پھیلانے اور طلبہ کو ہراساں کرنے کی ریاستی پالیسی پر عملدرآمد کیا گیا۔

اس تمام تر واقعے میں مردان یونیورسٹی کی انتظامیہ کا گھناؤنا کردار سامنے آ چکا ہے۔ مشعل خان کے قتل کے بعد ایک نوٹس جاری کیا گیا جس میں اس سمیت دو دیگر طلبہ، جن پر بھی بد ترین تشدد کیا گیا، پر توہین مذہب کا الزام لگا کر یونیورسٹی سے نکال دیا گیا اور الزام کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی نامز د کر دی گئی۔ جب ایک صحافی نے یہ نوٹس جاری کرنے والے اسسٹنٹ رجسٹرار سے پوچھا کہ جو طالبعلم قتل ہو گیا ہے اسے آپ نے کیوں یونیورسٹی سے نکال دیا تو جواب ملا کہ معذرت! لگتا ہے کہ کسی کلرک سے کوئی غلطی ہوئی ہے۔ اس نوٹس میں تشدد کے واقعے اور اس میں ملوث افراد کے حوالے سے نہ تو کوئی ذکر کیا گیا اور نہ ان پر کسی قسم کا الزام عائد کیا گیا۔ یعنی وہ افراد جن کے بہیمانہ تشدد کی ویڈیوز لاکھوں موبائل فون میں گردش کر رہی ہیں ان پر الزام عائد کرنے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ اس سے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ یونیورسٹی انتظامیہ اس تمام تر کاروائی میں پوری طرح ملوث ہے اور اسے تمام ریاستی اداروں کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔

اس ہولناک واقعے سے صرف دون قبل مشعل خان نے خیبر ٹی وی کو انٹرویو میں یونیورسٹی انتظامیہ کیخلاف اپنی جدوجہد سے آگاہ کیا تھا۔ اپنے اس انٹرویومیں اس نے کہاکہ اس یونیورسٹی میں پچیس ہزار روپے تک فیس لی جا رہی ہے جبکہ دیگر یونیورسٹیوں میں فیس دس سے بارہ ہزار روپے ہے۔ اسی طرح یونیورسٹی میں طلبہ کو در پیش دیگر مسائل پر بھی وہ اظہار خیال کر رہا ہے جس میں چند پروفیسروں کو بھی نام لیے بغیرتنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اپنے ان مطالبات کے لیے اس نے احتجاجی کیمپ بھی لگایا تھا۔ اس سے واضح طور پر نظر آتا ہے کہ مشعل خان کن بنیادوں پر یونیورسٹی کی انتظامیہ کے لیے نا پسندیدہ ہوچکا تھا۔

اطلاعات کے مطابق اس درندگی میں یونیورسٹی میں موجود پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن، اسلامی جمعیت طلبہ اور تحریک انصاف کے کارکنان نے بھرپور حصہ لیا اور بے گناہ مشعل کے خون سے ہولی کھیلی۔ اس وقت پاکستان میں طلبہ تنظیموں پر پابندی عائد ہے لیکن ریاستی پشت پناہی کے باعث کچھ تنظیموں کو اس پابندی کے باوجود تعلیمی اداروں میں کام کرنے کی کھلی آزادی ہے جن میں اسلامی جمعیت طلبہ سر فہرست ہے۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سمیت ملک کے مختلف تعلیمی اداروں میں بھی اس غنڈہ گرد تنظیم کو ریاستی پشت پناہی سے طلبہ میں دہشت پھیلانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ماضی میں سماج کے پسماندہ حصوں کے طلبہ میں کسی حد تک اس جماعت کی حمایت موجود تھی لیکن گزشتہ چند سالوں میں یہ حمایت تیزی سے کم ہو کر ختم ہو چکی ہے اور ریاست کے پاس طلبہ تحریک کو کنٹرول کرنے کے لیے کوئی آلہ کار نہیں بچا۔ اس استعمال شدہ آلے کو ہی دوبارہ مسلط کرنے کی متعدد کوششیں کی گئیں ہیں جس میں تمام ریاستی اداروں اور یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔ اس مذہبی غنڈہ گرد تنظیم سمیت ریاست کی پالتوں بہت سی مذہبی تنظیمیں اور سیاسی پارٹیاں موجود ہیں جو ریاست کے عوام پر جبر میں اس کی معاونت کرتی ہیں۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے کالے کرتوتوں کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ مشرقی پاکستان میں قتل و غارت سے لے کر ضیاالباطل کی آمریت میں عوام دشمن کاروائیوں میں یہ تنظیم سر فہرست رہی ہے۔ امریکی ڈالروں سے شروع کیے جانے والے افغان جہاد اور طالبان سمیت دیگر تمام دہشت گرد قوتوں کے لیے یہ جماعت سر پرست کا درجہ رکھتی ہے۔ اس وقت بھی خیبر پختونخواہ میں جمعیت کی ماں جماعت اسلامی کی مخلوط حکومت ہے۔ اس سے پہلے مشرف دور میں بھی یہ بر سر اقتدار رہی ہے۔ ضیا الباطل سے لے کر اب تک مختلف مذہبی پارٹیاں کسی نہ کسی شکل میں اقتدار کے مزے لوٹتی رہی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود ملک سے غربت، بیروزگاری اور لاعلاجی کا خاتمہ نہیں ہو سکا بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ ہوا ہے۔ خیبر پختونخواہ کے مختلف حصوں سمیت افغانستان میں طالبان بھی بر سر اقتدار رہے ہیں۔ ان کا اقتدار بھی جبر اور ظلم کی نئی داستانیں رقم کرتا رہا ہے۔ یہ مذہبی پارٹیاں بھی دیگر سیاسی پارٹیوں کی طرح سرمایہ دارانہ نظام کی ہی گماشتگی کرتی ہیں اور اس نظام کا جبر عوام پر مسلط کرنے میں اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سے سودی قرضے لینے ہوں یا امریکی و چینی سامراجی طاقتوں کی کاسہ لیسی کرنی ہو یہ مذہبی جماعتیں دیگر سیاسی پارٹیوں سے بڑھ چڑھ کر ہمیشہ اپنی خدمات پیش کرتی رہی ہیں۔ اسی طرح دیگر سیاسی پارٹیوں سمیت یہ پارٹیاں اپوزیشن ہونے کا ناٹک بھی خوب کرنا جانتی ہیں اور ریاستی اداروں کے اشاروں پر ناچتے ہوئے احتجاجوں کی دھوکہ دہی میں بھی ملوث ہوتی ہیں۔ ملک میں موجود سیاسی پارٹیوں کو ریاست مختلف انداز میں تحریکوں کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ کچھ پارٹیاں عوام دوستی یا قومی بھائی چارے کے نام پر ا ن کی قیادت حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں اور کچھ ان تحریکوں پر کفر کے فتوے لگا کر ان کی عوامی حمایت ختم کرنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اس تمام تر کھیل میں ملائیت ریاست کے لیے ایک اہم ہتھیار بن کر ابھری ہے۔

حکمران طبقے کے جبر کے خلاف جب بھی کوئی آواز بلند ہوتی ہے ‘ کوئی تحریک ابھرتی ہے اور طلبہ، مزدوروں یا کسانوں کا کوئی بھی حصہ احتجاج کے لیے باہر نکلتا ہے تو وحشی ملاؤں کو ان تحریکوں کو کچلنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ پولیس، فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے جبر کے ساتھ ساتھ ملاؤں کی وحشت کو بھی ریاست اپنے خلاف ابھرنے والی ہر آواز کو دبانے کے لیے استعمال کرتی رہی ہے۔ مشعل خان کا قتل کوئی پہلا واقعہ نہیں اس پہلے درجنوں ایسے واقعات ہو چکے ہیں جس میں جھوٹے الزامات لگا کر اور افوہیں پھیلا کر ہجوم اکٹھا کیا جاتا ہے اور وہ شخص جس سے کسی جاگیر دار، سرمایہ داریا ملا کی ذاتی دشمنی ہوتی ہے یا وہ ریاستی اداروں کے لیے خطرہ بن رہا ہوتا ہے اس کا بہیمانہ قتل کر دیا جاتا ہے۔ میڈیا میں بیٹھے ریاست کے گماشتے ایسے واقعات کے حقائق کو منظر عام پر آنے سے روکتے ہیں اور دنیا کے سامنے ایک غلط تصویر پیش کی جاتی ہے۔ عدالتوں کے خصی پن پر آج بات کرنا ویسے ہی وقت کا ضیاع ہے۔

ایسا ہی اس واقعے میں بھی کیا جا رہا ہے۔ اول تو میڈیا میں اس خبر کو دبانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ خاص طور پر اردو اخباروں اور ٹی وی چینلوں نے انتہائی گھناؤنا کردار ادا کیا اوراس خبر کو عوام بالخصوص طلبہ کے بڑے حصے سے دور رکھنے کی بھرپور کوشش کی۔ لیکن اس واقعے کی شدت اور سوشل میڈیا کی موجودگی کے باعث اس کو روکا نہیں جا سکا۔ پھر اس واقعے کو چند طلبہ کا وقتی ابال اور پاگل پن بنا کر پیش کیا جا رہا ہے جبکہ شواہد بتا رہے ہیں کہ اس کے پیچھے ایک مکمل منصوبہ بندی شامل تھی جس میں یونیورسٹی انتظامیہ کے افراد شامل تھے۔ مشعل خان تین ماہ قبل ہی کہہ چکا تھا کہ اس کیخلاف سازش تیار کی جار ہی ہے اور اس کا جعلی فیس بک اکاؤنٹ بنایا گیا ہے۔

اس واقعے میں پشتون سٹوڈنٹس فیڈریشن کا زوال پذیرچہرہ بھی بے نقاب ہواہے۔ ایک تنظیم جو عدم تشدد کے نظریات پر اپنی بنیاد رکھتی تھی اور اس کا بائیں بازو کی جانب واضح جھکاؤ تھا آج کالے دھن کی معیشت میں اتنی دھنس چکی ہے کہ اس نے اپنے دشمن نظریات کی حامل جماعت، اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ مل کر بے گناہ طالب علم پر جھوٹے الزامات لگا کر قتل کر دیا۔ اس سے آج پشتون قوم پرستوں کی قوم پرستی کی قلعی بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ جس پارٹی کی قیادت امریکہ کا گماشتہ بننے پر فخر کرتی ہو، دہشت گردوں کے ساتھ معاہدے کرتی ہواور جرنیلوں کی گود میں بیٹھ کر اقتدارحاصل کرنے کی خواہشمند ہو اس کے طلبہ ونگ سے اور کیا توقع کی جا سکتی ہے۔ اطلاعات کے مطابق مردان یونیورسٹی کی انتظامیہ میں بھی عوامی نیشنل پارٹی سے وابستہ افراد بڑی تعداد میں موجود ہیں جواس منصوبہ بندی میں شامل تھے۔ کراچی میں بھتہ خوری اور قبضہ گروپو ں میں ملوث ہونے سے لے کر مردان تک اس واقعے میں اس پارٹی کے ارکان کی واضح شمولیت اس امر کا اعلان ہے کہ یہ پارٹی خود ایک تعفن زدہ نعش بن چکی ہے جسے جتنی جلدی دفن کر دیا جائے سماج کے لیے اتنا ہی بہتر ہو گا۔ تحریک انصاف سمیت ن لیگ اور پیپلز پارٹی پہلے ہی سیاست کے جنازے بن چکے ہیں جنہیں جلد از جلد قبر میں اتارنے کی ضرورت ہے۔

اس واقعے سمیت اس طرح کے دیگر واقعات میں این جی اوز اور موم بتی مافیا المعروف سول سوسائٹی کا گھناؤنا کردار بھی قابل مذمت ہے۔ ان کے لیے یہ واقعات ایک کاروبار بن چکے ہیں جنہیں بیچ کر یہ اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ امریکہ اور اس کے اتحادی مغربی سرمایہ دارانہ ممالک کا مذہبی دہشت گردی کے اس عفریت کو پھیلانے میں اہم کردار رہا ہے اور طالبان کے جنم سے لے کر اب تک یہ مختلف طریقوں سے اس کی پرورش کرتے رہے ہیں۔ آج بھی امریکہ اور یورپ میں محنت کشوں اور طلبہ کی انقلابی تحریکوں کو کچلنے کے لیے دہشت گردی کی کاروائیوں کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔ اسی طرح ان این جی اوز اور نام نہاد لبرل تنظیموں کی فنڈنگ کے ذریعے یہاں پر اپنے مذموم مقاصد کو حاصل کیا جاتا ہے۔ ان تنظیموں سے وابستہ افراد بنیاد پرستی کے خاتمے کے لیے سامراجی طاقتوں اور لبرل سرمایہ داری کی حمایت پر زور دیتے ہیں۔ جبکہ درحقیقت یہ بنیاد پرستی انہیں سرمایہ دارانہ اور سامراجی پالیسیوں کی ہی پیداوار ہے اور جب تک سرمایہ دارانہ نظام موجود ہے اس بنیاد پرستی کا خاتمہ نہیں ہو سکتا۔ آج بھی مشرقِ وسطیٰ میں امریکی سامراج القاعدہ ‘ داعش اور دیگر بنیاد پرست تنظیموں کی کھلی حمایت جاری رکھے ہوئے ہے۔ امریکی اسلحہ ساز اداروں کے منافعوں کو جاری رکھنے کے لیے دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کو ایک لمبے عرصے سے جاری رکھا گیا ہے جس میں ڈرون سمیت دیگر تباہ کن ہتھیار بڑے پیمانے پر فروخت ہوئے اور ان اسلحہ ساز اداروں کے منافعوں میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح سعودی عرب کی عوام دشمن اور رجعتی ریاست کے امریکہ کے ساتھ دیرینہ تعلقات ہیں جو آج بھی یمن کی جنگ میں اکٹھے ہیں۔ جبکہ دوسری جانب ایران اور روس بھی اپنے سامراجی مقاصد کے حصول کے لیے بنیاد پرست قوتوں کو استعمال کر رہے ہیں۔ آج افغانستان میں امریکی سامراج کے خلاف روس اور ایران طالبان کی حمایت سے کاروائیاں کر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ این جی اوز اور لبرل حضرات اپنی کاروائیوں سے در حقیقت بنیاد پرستی کو تقویت دیتے ہیں اور عوام پر ان رجعتی قوتوں کے جبر کو مسلط کروانے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ این جی اوز کے مالکان کا تعلق بھی حکمران طبقات سے ہے یا پھر یہ ان کے گماشتے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ کسی بھی جدوجہد کو اسی سرمایہ دارانہ نظام میں مقید کر دیا جاتا ہے اور ریاست کے انہی دیمک زدہ اداروں پارلیمنٹ، عدلیہ وغیرہ کے ذریعے انصاف کے حصول کا درس دیا جاتا ہے۔ کئی کرائے کے دانشور تو سامراجی طاقتوں کی لونڈی اقوام متحدہ یا اس کے ملحقہ گماشتہ اداروں سے انصاف طلب کرنے کی بات کرتے ہیں۔ یعنی جس کے سبب بیمار ہوئے اسی عطار کے لونڈے سے دوا طلب کی جائے۔

مشعل خان کے بہیمانہ قتل
کیخلاف قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ سراپا احتجاج

لیکن مشعل خان کے قتل کے بعد ملک بھر کے تعلیمی اداروں میں اس سارے عمل کے خلاف ایک شدید نفرت اور غم و غصہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اور بہت سے تعلیمی اداروں میں خود رو طریقے سے احتجاج ہوئے ہیں۔ اس موقع پر طلبہ نے ایک ایسے پلیٹ فارم کی کمی کو شدت سے محسوس کیا ہے جس میں وہ اپنے جذبات واحساسات کا کھل کر اظہار کر سکیں اور ان رجعتی قوتوں کے خلاف آواز بلند کر سکیں۔ ریاست اوراس کے تمام ادارے، سیاسی پارٹیاں اور میڈیا مسلسل طلبہ کو خوفزدہ کرنے اور انہیں سیاست سے دور رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ کبھی کسی ٹی وی ٹاک شو میں طلبہ سیاست پر گفتگو نہیں کی گئی اور نہ ہی تعلیمی اداروں میں طلبہ کے مسائل پر کبھی روشنی ڈالی گئی ہے۔ کسی سیاسی پارٹی کے پاس طلبہ کے مسائل کے حل کے لئے کوئی منشور نہیں۔ تمام سیاسی پارٹیاں کسی نہ کسی شکل میں بر سر اقتدار ہیں اور ہر جگہ تعلیمی اداروں کی تیزی سے نجکاری کی جا رہی ہے اور فیسوں میں ہوشربا اضافہ کیا جا رہا ہے جس کے باعث محنت کشوں کے بچوں کے لیے تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہو چکا ہے۔ درمیانے طبقے سے جو طلبہ ان تعلیمی اداروں کی بھاری فیسیں ادا کرکے اگر ڈگری لینے میں کامیاب بھی ہو جائیں تو روزگار کے مواقع موجود نہیں۔ اس وقت ملک میں بیروزگار گریجوایٹ کی تعداد تاریخ میں سب سے زیادہ ہے جو سرکاری اعداد وشمار کے مطابق پچیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر طلبہ اس تمام تر جبر اور استحصال کیخلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کریں تو ہر ممکن طریقے سے اس آواز کو دبایا جاتا ہے خواہ اس کے لیے توہین مذہب جیسا جھوٹا الزام لگا کر گھناؤنے انداز میں قتل ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔

ایسے میں اس ملک کے طلبہ کے پاس زندگی گزارنے کا صرف ایک ہی راستہ بچا ہے اور وہ اس سرمایہ دارانہ نظام اور اس کی محافظ ریاست کیخلاف ناقابل مصالحت جدوجہد کا ہے۔ یہ نظام ان سے ہر روز زندگی چھینتا چلا جا رہا ہے۔ مشعل خان کے قتل سے حساس دل رکھنے والے ہر طالب علم کا دل چھلنی اور احساس زخمی ہوا ہے۔ ایسے لگتا ہے کسی نے دل نچوڑ دیا ہو اور آنکھوں سے آنسو کی بجائے خون ٹپک رہا ہو۔ لیکن خون کے آنسو رونے سے بھی کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس سر زمین پر اتنا ظلم ہوا ہے کہ اب تو وہ بھی خشک ہو گئے ہیں۔

کہاں تک بھلا روؤ گے میرؔ صاحب
اب آنکھوں کے گرد ایک ورم دیکھتے ہیں

لیکن جہاں بربریت اوردہشت کے لیے مسلسل رجعتی قوتوں کی پرورش کی جا رہی ہے وہاں دوسری جانب لاکھوں طلبہ میں اس کیخلاف نفرت کا لاوا بھی پک رہا ہے۔ یہ آتش فشاں ایک تحریک کی صورت میں کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اس ملک میں طلبہ نے ماضی میں بہت بڑی انقلابی تحریکوں میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ 1968ء میں ایوب خان کی آمریت کیخلاف ابھرنے والی انقلابی تحریک کا آغاز بھی ایک طالبعلم کے قتل سے ہوا تھا۔ ضیا الباطل کی خونی آمریت کیخلاف بھی طلبہ نے جدوجہد اور قربانی کی لازوال داستانیں رقم کی تھیں۔ آج پھر سماج کی کوکھ میں بہت بڑے طوفانی واقعات اور انقلابی تحریکیں پنپ رہی ہیں اور جنم لینے کے لیے تڑپ رہی ہیں۔ ایسا لگتا ہے پورا سماج درد زہ کی تکلیف سے گزر رہا ہے۔ ظلم اور جبر سہنا اور ریاستی گماشتوں کے ہاتھوں تذلیل سہنا اور بے آبرو ہو کر قتل ہوتے رہنا آج کے طلبہ کا مقدر نہیں۔ انہیں اس سب کیخلاف بغاوت کرنی ہے۔ انہیں یہاں پر انقلاب برپا کرنا ہے۔ ایک ایسا انقلاب جس میں سرمایہ داروں، جاگیرداروں اور سامراجی گماشتوں کی تمام تر دولت ضبط کر لی جائے اور سماج میں ہر طرح کے ظلم، نا انصافی اور جبر کا مکمل خاتمہ کر دیا جائے۔ جہاں امیر اور غریب کی طبقاتی تقسیم کا خاتمہ ہو۔ ایک ایسا سماج قائم کیا جائے جہاں کوئی بھی شخص مذہب کو اپنے مذموم مقاصد کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ جہاں ریاست فرقہ واریت اور مذہبی عقائد کو اپنے جبر میں اضافے اور دہشت گردی کے لیے استعمال نہ کر سکے۔ انسان کا انسان سے رشتہ روپے پیسے کی بنیاد پر نہیں بلکہ انسانیت کی بنیاد پر ہو۔ ایساصرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اسی انقلاب کے ذریعے ایسے سماج کو تخلیق کیا جا سکتا ہے جس میں انسان کی شکل میں درندے پیدا نہ ہو سکیں اور سب لوگ ایک دوسرے کا احترام کریں۔ اس انقلاب کے لیے آج کے طلبہ کو اپنا انقلابی کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ صرف اسی ایک طریقے سے مشعل خان کے ہم سب پر موجود خون کے قرض کو چکایا جا سکتا ہے۔

Comments are closed.